ملک کی آزادی میں علماء اور مدارس کا رول
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
مدارس اسلامیہ نے ملک کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور ملک کو آزاد کرانے میں تو بے مثال و بیشمار قربانیاں پیش کی ہیں اور یہ صد فیصد حقیقت ہے کہ علماء کرام کی بدولت ہی ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے اور آج بھی مدارس میں ملک سے وفاداری کی تعلیم دی جاتی ہے امن و سلامتی کا پیغام دیا جاتا ہے
ملک سے محبت تو مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح شامل ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ملک کی حفاظت کی ہے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ہے اس لئے نہ تو مسلمانوں پر شک کی گنجائش ہے اور نہ ہی دینی مدارس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ہے آج جس طرح مرکزی و ریاستی حکومت نئے نئے قوانین بنا رہی ہے اور احتجاج و مظاہرے کو طاقت کے استعمال کے ساتھ روک رہی ہے یہ جمہوریت پر بدنما داغ لگانے کے مترادف ہے اس لیے کہ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے فیصلوں پر احتجاج و خیر مقدم دونوں کا اختیار ملک کے آئین نے دیا ہے اور آئین تب بنا ہے جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ ہوکر انگریز جیسی ظالم قوموں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کو ان کے چنگل سے آزاد کرایا اسی اختیارات کی بنیاد پر شہریت تر میمی قانون کی پورے ملک میں مخالفت ہو رہی تھی اور احتجاج و مظاہرہ ہو رہا تھا اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنا یہ جمہوریت کی شان ہے بی جے پی لیڈران جس طرح بدزبانی کر رہے ہیں اور دینی مدارس پر جو بیہودہ الزامات لگا رہے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ظلم و جبر اور ناانصافی سے بہت دنوں تک حکومت قائم نہیں رہ سکتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اسلام ہوگا وہاں سلامتی ہوگی جہاں ایمان والے ہوں گے وہاں امن و امان ہوگا کیونکہ اسلام کے معنیٰ ہی سلامتی کے ہیں اور سلامتی کی ہی مذہب اسلام تعلیم بھی دیتا ہے ماضی میں جو پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ ہورہا تھا اسے قطعی طور پر مذہبی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی اور مذہبی تھا بھی نہیں بلکہ جس طرح ملک آزاد کرانے میں ہر مذاہبِ کے لوگوں نے حصہ لیا تھا اسی طرح آئین و جمہوریت بچانے کے لئے ہر مذاہبِ کے لوگ احتجاج و مظاہرے میں حصہ لے رہے تھے اس لئے کہ ہر انصاف پسند و سیکولر ازم میں یقین رکھنے والے کو اس بات کا احساس ہورہا تھا اور احساس ہورہا ہے کہ شہریت تر میمی قانون سے ملک کا زبردست نقصان ہوگا اس سے مذہبی منافرت بڑھے گی اور فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوں گی اور ملک میں فرقہ پرستی نہ رہے اور پوری طرح امن و سکون قائم رہے یہ ملک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے لیکن آج بی جے پی کے کچھ لیڈران ہی ملک کا نظام درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں مسلمانوں کو بھی اپنے آباؤ و اجداد کی تاریخ کو یاد رکھنا ہو گا کیونکہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ قوم سیاسی طور پر گم ہوجاتی ہے کہیں اس کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہی حال آج ملک میں مسلمانوں کا ہے اس لیے جمہوریت میں سیاسی پہچان کا ہونا لازمی ہے اور سیاسی پہچان تبھی قائم ہوگی جب ہم اپنے اسلاف کی تاریخ سے روشناس ہوں گے آج حکومت کے نشے میں چور کچھ لیڈران مدارس دینیہ کو نشانے پر لینا چاہتے ہیں اور جھوٹے الزامات لگاکر ہٹ دھرمی کا اظہار کر رہے ہیں، تاریخ کو جھٹلا رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ آج علماء کرام پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں جبکہ اس ملک کو آزاد کرانے کیلئے علماء کرام نے سروں پر کفن باندھے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ہزاروں ہزار کی تعداد میں شہید ہوئے ہیں علامہ فضل حق خیرآبادی جنہوں نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا جنہیں کالا پانی کی سزا دی گئی فتویٰ واپس لینے کے لئے دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن علامہ فضل حق خیرآبادی نے کہا کہ فتویٰ طبیعت کی روشنی میں نہیں دیا جاتا ہے کہ جب چاہے بدل دیا جائے بلکہ فتویٰ شریعت کی روشنی میں دیا جاتا ہے اس لیے بدلا نہیں جاسکتا اور ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس مذہب میں وطن عزیز سے محبت اور حفاظت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنا نصف ایمان تک قرار دیا گیا ہے تو ہم اپنی آخری سانس تک اپنے ملک ہندوستان کے لئے قربان کردیں گے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک ملک کے لئے بہا دیں گے لیکن فتویٰ نہیں بدلیں گے مولانا ابوالکلام آزاد کی بیوی بیمار تھی اور مولانا آزاد جیل میں بند تھے انگریز نے پیغام بھیجا کہ اگر مولانا آزاد لکھ کر درخواست دیں تو ہم انکی بیوی کی بیماری کے مدنظر انہیں رہا کر دینگے جب یہ پیغام جواہر لال نہرو نے ان تک پہنچایا تو مولانا آزاد نے کہا کہ ایک طرف میری بیوی بیمار ہے اور دوسری طرف میری ماں کو انگریزوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ایسے میں مجھے اپنی بیوی کی فکر نہیں ہے بلکہ اپنی ماں کی فکر ہے میں اپنی ماں کو انگریزوں کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے اپنی بیوی کی بیماری کو بھول گیا ہوں مجھے اپنی بیوی کی بیماری کی کوئی فکر نہیں ہے یعنی بیوی کی بیماری کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کو ماں کا درجہ دیا ریشمی رومال کی تحریک علماء کرام نے چلائی، انقلاب زندہ باد کا نعرہ علماء کرام نے لگایا ، گاندھی جی کو مہاتما کا خطاب علماء کرام نے دیا، تقسیم ہند کی مخالفت علماء کرام نے کیا، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف تقریریں علماء کرام نے کیا، ملک کی آزادی کے بعد جب دستور ہند مرتب ہوا تو سب سے خیرمقدم علماء کرام نے کیا، قدم قدم پر ملک سے حب الوطنی کا ثبوت علماء کرام نے دیا اور ہزاروں علماء نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں ان کا تعلق اسی مدارس دینیہ و اسلامیہ سے تھا جن مدارس پر آج کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ گھناؤنے الزامات لگارہے ہیں اگر اپنی آنکھوں سے نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہندوستان کے مدارس اسلامیہ ملک کی آزادی کی لڑائی کا ایک حصہ نظر آئیں گے لیکن یہاں تو ہندو مسلم اتحاد کو توڑ کر اور دونوں کے جذبات کو ابھار کر سیاست کی روٹی سینکنے کا کچھ لوگوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے جنہیں نہ تو ملک کی پرواہ ہے اور نہ ملک کی عوام کی پرواہ ہے نہ ائین کی پرواہ ہے نہ عہدے کے وقار کی پرواہ ہے بس سروں پر غرور سوار ہے زبان درازی، بدکلامی، بدزبانی، گالی اور دھمکی و اشتعال انگیز بیانات و تقریریں کرنا ان کا مشغلہ ہے اور آج ہماری صفوں میں بھی ایسے ایسے تنگ نظر پیدا ہوگئے ہیں کہ ملک کی آزادی سے متعلق بھی مضمون لکھتے ہیں تو مکتب فکر کی بنیاد پر لکھتے ہیں، ان کے مضامین سے اختلافات، تعصبات، بغض حسد نفرت کی بو آتی ہے اور اس کے باوجود بھی صحافی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کی سوچ کا دائرہ بہت چھوٹا ہے اللہ کرے کہ ان کی سوچ کا دائرہ وسیع ہو ان کا ذہن صاف ہو ہندوستان زندہ باد،، ہندوستان زندہ باد –