آزادی کی جدوجہد میں اردو شعرأ کا کردار
ڈاکٹر صالحہ صدیقی
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔جس میں ہر زمانے کی سچی تصویر دیکھی جا سکتی ہے ہمارے ادباء و شعرأ کے کلام۔ و تحاریر میں بھی یہی ترجمانی دیکھنے جو ملتی ہے۔انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے ہر جنگ میں اپنی شمولیت کا اظہار کیا۔آزادی کی جد و جہد میں اردو شعراء کے کردار پر روشنی ڈالنے سے قبل جشن آزادی کی وجوہات اور اس کی تاریخ کے چند صفحات کو پلٹ کر دیکھ لیتے ہیں ۔
ہندوستان 15اگست 1947کو انگریزوں سے آزاد ہوا اور 26جنوری 1950کو ہندوستان ایک جمہوری ملک بنا۔ اس خوشی کو اپنی جد و جہد کو یاد کرنے کے لیے ملک کے تمام مدارس,یونیورسیٹیوں ،کالجز اوراسکولوں میں بلکہ ہندوستان کے تمام شہروں، قریہ قریہ میں جشن یوم آزادی منایا جاتا ہیں ۔اپنے ملک کی سرزمین سے کسے محبت نہیں ہوتی،اوریہ موقع سال میں دوبار آتا ہے ۔ایک 15 اگست یعنی یوم آزادی اوردوسرا 26 جنوری یعنی یوم جمہوریہ ۔آزادی اور جمہوریت دو ایسے لفظ ہیں جو کسی بھی ملک کے شہری کے لئے کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔کتنی خوشی سے ہم اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک کا حصہ ہیں ۔26جنوری کو شہیدان وطن کے کارناموں اوران کی خدمات کویادکیا جاتا ہے اورآنے والے نسلوں کوبھی اس سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کوپوراحق ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزاریں ،سب کواختیارہے کہ وہ دستور میں دیئے گئے حقوق سے اپنادامن بھریں۔تاریخ کے صفحات اورہندوستان کی سرزمین گواہ ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں بزرگان دین نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا تب کہیں جاکر ہندوستان اور اس میں بسنے والوں کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف اس جنگ میں ہندومسلم ساتھ ساتھ رہے۔
اگر تاریخ کی ورق گردانی کرے تو پاتے ہے کہ 17 ویں صدی میں یورپی تجار بر صغير میں آنا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنی چوکیاں قائم کر لیں۔ دھیرے دھیرے انہوں نے فوج جمع کرنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور فوج بنا لی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے علاقائی راجاؤں کو اپنے زیر اثر لے لیا اور بالآخر اٹھارہویں صدی میں کمپنی راج قائم کر لیا اور یوں وہ ہندوستان کی غالب طاقت بن گئی۔ جب ہندوستانی علما اور بڑے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کو روکا نہ گیا تو مستقبل میں یہ ہندوستان کی حکمران بن جائیگی، لہذا ملک گیر تحریک آزادی ہند کا آغاز ہوا اور جنگ آزادی ہند 1857ء کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد حکومت ہندوستان ایکٹ 1858ء بنا جس کی رو سے تاج برطانیہ نے براہ راست ہندوستان کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اس کے بعد ہندوستان بھر میں تدریجاْ منتعدد تنظیمیں ابھرنا شروع ہوئیں جن میں سب سے مشہور انڈین نیشنل کانگریس ہے جس کی بنیاد سنہ 1858ء میں رکھی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں بہت ساری اصلاحات کی گئیں جن میں مونٹیگو چیمسفرڈ اصلاحات قابل ذکر ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ رولٹ ایکٹ جیسا تکلیف دہ قانون بھی نافذ کیا گیا اور ہندوستانی سماجی کارکنوں نے خود کی حکمرانی کا مطالبہ کیا۔ ہندوستانی عوام کو برطانوی حکومت کا یہ رویہ ہرگز پسند نہیں آیا اور اس طرح موہن داس گاندھی کی قیادت میں ملک بھر میں عدم اعتماد اور سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا اور پورے ملک میں عدم تشدد تحریک کی لہر دوڑ گئی۔
1930ء کی دہائی میں برطانوی اصلاحات قانونی شکل اختیار کرنے لگی تھیں؛ کانگریس نے انتخابات میں متعدد فتوحات حاصل کیں۔ :195–197 اگلی دہائی مکمل طور سیاسی گھماسان کی دہائی ہے: جیسے پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی شراکت داری، تحریک عدم اعتماد کے لیے کانگریس کی آخری کاوشیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی زیر قیادت اتحاد اسلامیت کا ہنگامہ۔ مگر یہ تمام بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگیاں 1947ء میں آزادی ملنے کے بعد محدود ہو گئیں۔ برصغیر کا جغرافیہ خونی تقسیم ہند کے ذریعہ بھارت و پاکستان میں منقسم کر دیا گیا۔ ادب اور سماج کا آپس میں بہت بڑا رشتہ ہے بالخصوص بیسویں صدی کے نصف اول میں، یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا تھا، جب کہ انگریزوں کے ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھے۔ تقسیم بنگال پر پہلی بار یہاں کے عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کھل کر کیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی اور شبلی دو ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور حب وطن کا اظہار سب سے پہلے کیا۔ان کی شاعری گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان بنا۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو
اٹھو اہل وطن کے دوست بنو
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو
غیرملک ہیں اتفاق سے آزاد
شہر ہیں اتفاق سے آزاد
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
بہر حال یوم آزادی بھارت میں عام تعطیلات میں سے ایک ہے- یوم آزادی سرکاری طور پر بھارت کے تمام صوبوں اور متحدہ عملداریوں میں منایا جاتا ہے۔ یوم آزادی سے پہلی شام کو صدر بھارت قوم کے نام خطاب کرتا ہے۔ ۱۵ اگست کو وزیر اعظم تاریخی لال قلعہ پر پرچم بھارت لہراتا ہے۔ اس قابل فخر موقع پر ۲۱ توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم سرکار کی گزشتہ سال کی کامیابیوں کو عوام سے سامنے رکھتا ہے، اہم مسائل پرروشنی ڈالتا ہے اور مزید ترقی کا وعدہ کرتا ہے۔ وہ تحریک آزادی ہند کے مجاہدین کو سلامی پیش کرتا ہے۔ بھارت کا قومی گیت جن گن من گایا جاتا ہے۔ تقریر کے بعد بھارتی مسلح افواج اور پیرا ملٹری افواج کا مارچ ہوتا ہے۔ بھارت کی وسیع تہذیب و ثقافت اور آزادی کی جدوجہد سے متعلق تصاویر اور اشیاء کی نمائش کی جاتی ہے۔ اسی طرح کی تقریبات تمام صوبہ جات میں کی جاتی ہے جہاں متعلق صوبہ کا وزیر اعلیٰ پرچم کشائی کرتا ہے اس کے بعد افواج کی پریڈ ہوتی ہے اور پھر نمائش کی جاتی ہے۔ سنہ ۱۹۷۳ء تک صوبہ کا گورنر ہی پرچم کشائی کیا کرتا تھا مگر فروری ۱۹۷۴ء میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کروناندھی نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سامنے اس مسئلہ کو اٹھایا کہ یوم آزادی کے موقع پر جیسے وزیر اعظم لال قلعہ پر پرچم کشائی کرتا ہے ویسے صوبوں میں وزیر اعلیٰ کو پرچم کشائی کی اجازت ہونی چاہئے۔ ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں، اسکولوں اور کالجوں میں تقریب پرچم کشائی اور دیگر ثقافتی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ بڑی سرکاری عمارتوں میں قمقہ بازی اور روشنی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دہلی اور دوسرے شہروں میں اس موقع پر پتنگ بازی خوب جم کر ہوتی ہے۔ اور اس موقع پر کافی تعداد میں مختلف ناپ کے جھنڈے یوم آزادی کی رونق کو دوبالا کردیتے ہیں ۔ بھارتی شہری اچھے لباس پہنتے ہیں، کلائیوں میں ترنگا دھاگا باندھتے ہیں اور گھروں اور کاروں کو جھنڈہ کے رنگ سے سجاتے ہیں ۔
ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کرتا ہے تو سچائی اور حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہو وہاں ادب ان سے متاثر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ انسانیت کی ناقدری، نا انصافی، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ حب الوطنی، سماجی مسائل اور ترقی، جنگ اور امن، رنگ اور نسل، یہ ایسے موضوعات ہیں، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہوگا تو ادیب اپنی آواز ضرور بلند کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا دوسری عالمی جنگ سے نبردآزما تھی تب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
بم گھروں پر گریں کہ سر حد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کے پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
ادب اور سماج کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے بالخصوص بیسویں صدی کے نصف اول میں، یہ رشتہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا تھا، جب کہ انگریزوں کے ظلم و ستم اپنی انتہا پر تھے۔ تقسیم بنگال پر پہلی بار یہاں کے عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کھل کر کیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حالی اور شبلی دو ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور حب وطن کا اظہار سب سے پہلے کیا۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ علامہ شبلی ؔ نعمانی ، اکبرؔ الہ آبادی ٗ محمد حسین آزادؔ ، اسماعیل میرٹھی ٗؔ داغ دہلوی ؔ وغیرہ کا شمار بھی ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے کھلے ذہن سے اقوام ہند کو یک جہتی کے رنگ میں رنگنے کی کامیاب سعی کی۔ اکبر الہ آبادی جو اصلاحی اور تہذیبی اقدار کے شاعر تھے انھوں نے کھلے لفظوں میں قومی اتحاد کا سبق اس طرح پیش کیا:
کہتا ہوں ہندو مسلماں سے یہی اپنی اپنی روش پہ تم نیک رہو
لاٹھی ہو ہوائے دہر پانی بن جاؤ
موجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہو
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نظمیں ہندوستان کی سر زمین اور یہاں کی ہواؤں فضاؤں سے سرشار دکھائی دیتی ہیں۔جن میں قومیت اور حب الوطنی کا گہرا احساس پایا جاتاہے۔ ’ حبّ وطن‘ کے چند اشعار اسی ذیل میں پیش کیئے جاتے ہیں :
اے وطن اے میرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسماں و زمیں
کاٹے کھاتا ہے باغ بن تیرے
گل ہے نظروں میں خاربن ترے
تیری ایک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہر گز اگر بہشت ملے
ہندوستان کے ہر شاعر کی شاعری میں آزادی کی جد و جہد کی گونج کو صاف سنا جا سکتا ہے۔ انھیں میں ایک اہم نام چکبست کا بھی شامل ہیں۔ پنڈت برج نرائن چکبست کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں کافی اہم ہے۔ ان کی شاعری میں حب وطن اور قومی یکجہتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ جہد آزادی میں ان کی شاعری وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔
جکبست کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر سیاسی واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ جوانوں کے جینے کے ڈھنگ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
موجود ہے جن بازوؤں میں زور جوانی
طوفان سے انہیں کشتی قومی ہے بچانی
پر ہے مئے غفلت سے سروں میں یہ گرانی
آرام پسندی میں یہ رکھنے نہیں ثانی
پہلو میں کسی کے دل دیوانہ نہیں ہے
ہیں مرد مگر ہمت مردانہ نہیں ہے
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی نظمیں ہیں جن میں آزادی کے متوالوں کی ہمت کو بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اسی طرح اپنی نظموں میں چکبست ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے نوجوانوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں:
بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤں ہشیار
اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار
تو زیر موج فنا ہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم وار جن کا نام ڈوبے گا
اسی طرح مسلم نوجوانوں کے خون کو گرماتے ہوئے کہتے ہیں:
دکھا دو جوہر اسلام اے مسلمانوں!
وقار قوم گیا قوم کے نگہبانوں!
ستون ملک کے ہو قدر قومیت جانو!
جفا وطن پہ ہے، فرض وفا کو پہچانو!
نہی علق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم
یہ ایک طویل نظم ہے، جو پوری طرح سے جوش و خروش میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک میں ہوم رول کی مانگ بہت زوروں پر تھی۔ہر طرف افراد تفری کا عالم تھا، زندگی الجھ چکی تھی۔لوگوں کے دلوں میں اپنے ملک کی آزادی کا جزبہ جوش عروج پر تھا۔ ایسے میں چکبست نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:
یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز حب الوطنی سے سرشار نظموں سے کیا تھا۔قیام یوروپ کے دوران اقبال نے جو دوسری بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی وہ یہ تھی کہ اہل یوروپ اور خصوصاً برطانیہ بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ ناروا سلوک کررہا تھا تو وہ دوسری طرف دس قدامت پسند دانشوروں نے اسے پسماندگی کے اندھیروں میں ڈھکیل دیا تھا ۔ افغانستان کو یوروپ والوں نے تقلید و جہالت اور رسوم پرستی کی لعنت میں جکڑ رکھا تھا ۔ اس کے علاوہ مصر اور سوڈان پر بھی انگریز اقتدار نے باقاعدہ تسلط کی صورت اختیار کرلی تھی ۔ الجیریا اور تیونس فرانس کے زیر نگیں تھے مجموعہ الجزائر کے مسلم ممالک ولندیزی (ڈچ) کی نوآبادیات بن کر رہ گئے تھے اور یہی وہ صورت حال تھی جس نے اقبال کے دردمند دل کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جب تک ان ممالک کے مابین اتحاد قائم نہیں ہوگا ان کی یوروپ کی غلامی سے آزاد ہونے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی اور اتحاد کے لئے ضروری تھا ان منتشر اکائیوں کو ایک قدر مشترک کے تحت مجتمع کیا جائے۔ جس کے نتیجہ میں ان کی شاعری کے ایک دور کا آغاز ہوا اور انھوں نے قوم پرستی کے تنگ نظر اور محدود یوروپی تصور سے متنفر ہو کر اخوت انسانی کے اصول پر مبنی ایک بین الاقوامی معاشرے کے قیام کے تصور کو اپنی شاعری اور فکر کا اساسی موضوع قرار دیا ۔اردو شاعری میں ان کا نام اس وقت سب سے پہلے لیا جاتا ہے، جب ہم روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے مارکسٹ سے اقبال ہی متاثر ہوئے اور کہا:
اٹھومری دنیا کے غریبوں کو جگادو!
کاخ امراء کے درد دیوار ہلا دو!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقین سے
کنجشاک فرو مایہ کو شاہین سے لڑادو
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اقبال کے نزدیک انسانیت کے ایک اعلی نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے مجموعہ کلام ’’بانگ درا‘‘ میں شامل نظم وطنیت ان کے اس فکری رجحان کی غماز ہے ۔
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزورکا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
حب الوطنی سے سرشار علامہ نے اپنی شاعری کے دور اولین میں چند نظمیں تخلیق کی ہیں؛ جن میں "ہمالہ” کے نام سے لکھی گئی مخصوص نظم کو ان کے اردو کلام کے پہلے مجموعے "بانگ درا” 1934 کی اشاعت میں صفحہ اول پر جگہ ملی۔ اس نظم میں اقبال نے اپنے وطن عزیز کی قدیم تہذیب و ثقافت اور اس وادئ کہسار کے قدرتی مناظر کی خوب مدح کی اور ہمالہ کو صرف ایک پہاڑ ہی نہیں، بلکہ ہندوستان کے تحفظ اور سالمیت کا سنتری اور نگہبان ماناہے:
اے ہمالہ!
اے فیصل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو، دیوار ہندوستاں ہے تو
جب ہم مہاتما گاندھی کے فلسفۂ اہنسا، عدم تشدد، سرو دھرم سمبھاؤ اور "جیو اور جینے دو” کے نظریات کی روشنی میں ان کی آپ بیتی My experience with truth کا بدرجۂ غایت مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کے قابل ذکر فلسفیوں اور دانشوروں کے افکار و نظریات کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔مہاتما گاندھی ہندوستانی زبان کے زبردست مداح تھے.گاندھی جی نے اپنی عوام کو بیدار کرنے اورانگریزوں کے چنگل سے نکال کر تحریک آزادی سے جوڑنے کے لئے اردو رسم الخط میں بھی ایک اخبار "ہریجن سیوک” کے نام سے ہفتہ روزہ جاری کیا..جس کا پہلا شمارہ 5, مئی 1946ء بروز اتوار احمدآباد کے کالوپور میں نوجیون پریس سے جاری ہوا۔۔
تحریک آزادی کی جدوجہد میں بار بار یہ سوال بڑےزورشورسےاٹھاکہ ہماری قومی زبان کیا ہوگی؟ تو بابائے قوم مہاتما گاندھی نے اس لسانی تنازعےکے حل کے طور پر قوم کے سامنے ہندی یا اردو کے بجائے "ہندوستانی” زبان تجویز کی۔ اندور میں جب1918 میں آل انڈیا ہندی ساہتیہ سمیلن کی صدارت کے دوران اپنے ہندوستانی زبان کے عقیدے کو مزید تقویت بخشتے ہوئے گاندھی جی نے کہا کہ:
"ہندی سے میری مراد وہ زبان ہے 1.Dr B.R. Saxena-Gandhi ji’s solution to language problem in India 1970 P-7
2.مہاتما جی، ڈی تندولکر ج 7، ص 296جو کہ شمالی ہندوستان میں رائج ہے جسے ہندو اور مسلمان دونوں ہی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں اور جس کو ہندو اور مسلمان دونوں ہی بآسانی سمجھ لیتے ہیں اور جس کی لفظیات بھی مشترکہ ہے۔”(1)
اس ہندوستانی زبان کی مثال علامہ اقبال کے "ترانۂ ہندی” کی سادہ اور دلکش زبان کے حوالے سے گاندھی جی پیش کرتے ہیں اور اس ترانے کو "ہندوستان کی قومی زبان کا نمونہ” قرار دیتے ہوےگاندھی جی نے کہا تھاکہ:
"کون ایسا ہندوستانی دل ہے، جو اقبال کا "ہندوستان ہمارا” سن کر دھڑکنے نہیں لگتا، اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اسے اس کی بدنصیبی سمجھوں گا۔ اقبال کے اس ترانے کی زبان ہندی یا ہندوستانی ہے؟ یا اردو؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے۔” (2)
مہاتماگاندھی اور علامہ اقبال دونوں اپنی اپنی قوم کو بیدار کر کے محبت کا جام پلاتے رہے تاکہ وطن عزیز غلامی کی بیڑیوں کو توڑ کر دنیا کے عظیم ملکوں میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کو ملک کی ترقی اور فلاح و بہبودکے لیے نہایت ضروری قراردیا۔ اور ان کا یہی پیغام موجودہ حالات میں بھی لازم ہے کیوں کہ قومی اتحاد، باہمی محبت اور قوم پرستی کی بنیادوں پر ہی ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔
وہ ہندو اور مسلمان دونوں کو ہاتھ پھیلا کر دعوت دیتے ہیں:
آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شِوالہ اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے
انگریزوں کے خلاف جوش ملیح آبادی کے جذبات کا طوفان آتش فشاں کی طرح پھٹا پڑتا ہے۔ اس سےان کے سینے کے اندر کے طوفان، جلن اور تپش کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ان کے اس جذبے کی آنچ کو ان اشعار میں محسوس کیا جا سکتا ہے کہ
کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شائد کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈْےہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
سنبھلوکہ و زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں
انگریزوں کے خلاف جوش کے تیور ان کی نظم ’’نعرہ شباب‘‘ میں دیکھنے کے لائق ہے، جہاں ایک شیر کی طرح ان کی دہاڑ کو محسوس کیا جا سکتا ہے:
دیکھ کر میرے جنوں کو نازفرماتے ہوئے
موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے
تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں
ہڈیاں اس کفر و ایماں کو چبا ڈالوں گا میں!
پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا
گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا
ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا
موت کے سائے میں رہ کر ، موت پر چھایا ہوا
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
اسی طرح بھائی چارگی اور اتحاد کے ذریعہ جنگ لڑنے والوں میں اہم نام سرور ؔ جہاں آبادی کا بھی شامل ہیں۔ جن کی شاعری میں درسِ انسانیت پوشیدہ ہے۔وہ صلح کل کے حامی ہیں ٗ اپنے بیشتر اشعار میں نغمہ و حدت بلند کرتے ہوئے وہ اس طرح گویا ہوتے ہیں ۔
ایک ایک گل میں پھونکیں روح شمیم و حدت
ایک ایک کلی کو دل کے دامن سے دیں ہوائیں
ماضئ قریب کے شعرا ء میں ساحرؔ لدھیانوی ، جوش ؔ ملیح آبادی، کیفی ؔ اعظمی، فراق ؔ گورکھپوری اور سکندر علی وجد ؔ کا کلام اتحاد واتفا ق کی اثر انگیز، ترغیبات ٗ مشترکہ تہذیب و تمدن کے جلوہ ہائے صد رنگ اپنے دامن میں لیے نظر آتا ہے
جہد آزادی کی اب تک کی جتنی مثالیں یہاں پیش کی گئی ہیں۔ ان سبھی نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہد آزادی میں حصہ اور آزادی حاصل کرنے کیلئے اکسایا بلکہ وہ خود بھی اس میں بہ نفس نفیس شامل ہوئے۔بھائی چارگی اور اتحاد کا پیغام عام کیا۔اسی طرح مجاز نے عمر کے اعتبار سے بہت ہی کم عمری میں رومان سے انقلاب کی طرف رخ کیا۔ اپنی والہانہ شاعری کی بدولت پورے ملک میں نو عمری ہی میں ان کی ایک پہچان قائم ہوگئی تھی۔ جدوجہد آزادی جیسے جیسے تیز ہوتی گئی ویسے ویسے اردو شاعری کے تیور بھی نکھرتے گئے۔ اس مرحلے پر بھلا وہ پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ مجاز کی نظم ’’انقلاب‘‘ سے ان کے تیور کی مثال ملاحظہ ہو:
آرہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برستاے ہوئے
کوہ صحرا میں زمین سے خون ابلے گا ابھی
رنگ کے بدلے گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
سرکشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی
ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
خون کی ہولی کی جنگل سے ہوائیں آئیں گی
خوں ہی خوں ہوگا نگاہیں جس طرف بھی جائیں گی
یہ نئی لہر جو اٹھی تو آگے اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تقسیم بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی تحریک نہیں، جس میں شامل ہونے اور انگریز مخالف آواز کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے اردو شاعری نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں، مختصر یہ کہ آزادی کی جد و جہد میں اردو شعر أ نے اہم رول ادا کیا، اس مختصر مضمون میں اس وسیع موضوع کا سمیٹنا اور تمام شعرأ کا ذکر کرنا یقیناً ایک مشکل عمل ہے۔ تشنگی کا احساس رہ جانا فطری ہے، لیکن پھر بھی کوشش کی گئ ہے کہ اہم شعرأ کا ذکر کیا جائے۔
—-
حواشی
1.Dr B.R. Saxena-Gandhi ji’s solution to language problem in India 1970 P-7
2.مہاتما جی، ڈی تندولکر ج 7، ص 296