آہ ‘ جناب خان لطیف محمد خان :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

آہ ‘ جناب خان لطیف محمد خان

اردو صحافت کو نئی بلندیاں عطا کرنے والی منفرد شخصیت

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770

آہ ‘ جناب خان لطیف محمد خان صاحب، ایڈ یٹر انچیف روزنامہ منصف بھی ہمیں داغِ مفا رقت دے گئے۔جمعہ کی صبح (7/ا گسٹ 2020 ) جب میں نمازِ فجر ادا کر کے واٹس اپ میسجس دیکھنے لگا تو سب سے پہلا پوسٹ یہ تھا کہ وطن سے ہزاروں، لاکھوں میل دور امریکہ کے شہر شکاگومیں حیدرآباد دکن کی معزز اور با وقار شخصیت جناب خان لطیف محمد خان کا کل مختصر سی علالت کے بعد انتقالِ پُر ملال ہوگیا۔

انا للہ وان الیہ راجعون۔ خان صاحب کے سا نحہ ارتحال کی خبر میرے دل و دماغ پر ایک بجلی بن کر گری۔ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھو منے لگا۔ اس افسانوی شخصیت سے میری رفاقت گذشتہ 23برس سے رہی۔ مختلف مو قعوں پر ان سے کئی مو ضوعات پر بات چیت ہوتی رہی۔ منصف کے دفتر سے لے کر ان کے پینٹ ہاوس تک ملاقاتوں کا یہ سلسلہ رہا۔خان لطیف خان محمد خان صاحب کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت ہے۔ وہ زمین سے اٹھے ہوئے انسان تھے، لیکن اپنی حیات مستعار کے 78سالوں میں انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے کارہائے نمایاں کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔خان صا حب نے اپنے دیرینہ تجربے کی بنیاد پر جس میدان میں قدم رکھا کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ یہ چاہے منصف کی تزئین نو کے بعد منصف کے ذریعہ اردو صحافت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی بات ہو یا سلطان العلوم ایجوکیشنل سو سائٹی کی باگ ڈور ہاتھ میں لینے کے بعد ملت میں تعلیمی انقلاب لانے کا معا ملہ ہو یا پھر حیدرآباد کے پرانے شہر کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے شہر کے مختلف علاقوں میں ہائی اسکول اور جو نئیر کالج قائم کرنے کے لئے ان کو کوششیں رہی ہوں، یہ سب کام اتنے آسان نہیں تھے کہ اُ سے اس حُسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جا سکتا تھا۔یہ محض خان لطیف محمد خان صا حب کی دوربین نگاہوں اور ان کی مخلصانہ تگ و دو کا نتیجہ تھا۔ روزنامہ منصف ایک طویل عر صہ سے جناب محمود انصاری صاحب مر حوم کی زیر ادارت شائع ہورہا تھا۔ وسائل کی کمی اور محمود انصاری صاحب کی علالت نے اخبار پر اثر ڈالاتھا۔ اس کی تعداد اشاعت کم سے کم ہوتی جارہی تھی۔ اسی دوران محمود انصاری صاحب کا سعودی عرب میں انتقال کرجانا، پھر ان کے بھائی جناب مسعود انصاری صاحب کا اخبار کو اپنے ذ مہ لینا کوئی کارگر ثابت نہ ہوسکا۔ نوبت اخبار کے بند ہونے تک آ گئی۔جناب خان لطیف محمد خان نے بند ہوتے اخبار کو ایک چیلنج کے طور پر خرید لیا۔ 1997حیدرآباد کی صحافت کا وہ یادگار سال ثابت ہوا، جب خان لطیف محمد خان صا حب کی زیر ادارت روزنامہ منصف ایک بالکل نئے رنگ و آ ہنگ میں شائع ہونے لگا۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اردو کا اتنا معیاری اخبار اردو قارئین کو پڑھنے کے لئے مل سکتا ہے۔منصف کے اس نئے دور نے اردو صحافت میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب نے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے روزنامہ کے ذریعہ اردو صحافت کے ایک نئے انقلابی دور کا آ غاز کیا۔ انہوں نے اپنے اخبار سے اردو قارئین کو وہ سب کچھ دیا جس سے عام طور پر اردو کا قاری ناواقف تھا۔ ہر دن دس صفحات پر مشتمل اخبار کے ساتھ سپلیمنٹ کی اشاعت، منصف کا طرہّ امتیاز ہے۔ یہ اعزازہندوستان کے کسی دوسرے اخبار کو حا صل نہیں ہے۔ خان صا حب کے نزدیک اخبار کی اشاعت کا مقصد صرف مالی منفعت ہوتی تو وہ ایک مکمل اخبار جو معلومات سے بھرا ہو، قارئین کی خدمت میں پیش نہ کرتے۔ خان صاحب کا یہی جذبہ منصف کی کا میابی کا راز رہا ہے۔
خان لطیف محمد خان نے منصف کے ذریعہ بے زبانوں کو زبان دی۔ یہ بات نا قابل ِ تر دید ہے کہ منصف کی اشاعت سے پہلے نئے لکھنے والوں کی بہت کم پذیرائی کی جاتی تھی۔ اردو صحافیوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی۔ معمولی تنخواہیں انہیں دی جاتی تھیں۔ مذہبی اور دینی خبروں کی اشاعت جوئے شِیرلانے کے برابر تھی۔ خان لطیف خان صا حب نے نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی، صحا فیوں کا استحصال کرنے کے بجائے انہیں معقول مشاہرہ دیا۔ خان صاحب نے اردو صحافت میں ایک صحت مند مسابقت کے جذبہ کو پروان چڑھایا۔ یہ بات قارئین کے لئے باعثِ تعجب ہوگی کہ جب منصف کی اشاعت مرحوم کے زیر ادارت شروع ہونے والی تھی، حیدرآباد کے کسی اخبار میں اس سے متعلق کوئی خبر یا اشتہار شائع نہیں ہوا تھا۔ تین دن تک شہر کے مختلف مقامات پر اس کی مفت تقسیم عمل میں آتی رہی۔ چوتھے دن سے لوگ قیمت دے کر اخبار خرید نے لگے اور پھر ایک وقت آیا کہ روزنامہ منصف ہندوستان کا نمبر ایک اردو اخبار بن گیا۔ اور آج بھی وہ اسی مقام پر قائم ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا اخبار ہے جس نے اتنے مختصر دور میں کامیابی کی ان بلندیوں کو چھو لیا ہو۔جہاں تک اخبار میں شائع ہونے والے مضامین کا تعلق ہے یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ منصف کے قارئین اس کی فائل بناکر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس کا تجربہ راقم الحروف کو اس وقت ہوا جب منصف میں شائع ہوئے میرے مضامین کو ایک غیرمسلم اردو قاری نے اپنے پاس محفوظ رکھا۔ معیاری اور تحقیقی مضامین کی اشاعت نے منصف کو اردو کے دیگر اخباروں سے ممتاز رکھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بھی ایڈیٹر انچیف کی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ خان صاحب نے انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں اردو صحا فت میں ایک نیا باب رقم کیا۔ روزنامہ منصف کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرتے ہوئے اسے ظاہری طور پر خوبصورت بنانے میں بھی مرحوم خان صاحب کو غیر معمولی دلچسپی تھی۔ اسی لئے مختلف رنگوں سے مزین اس اخبار نے ہر طرح کے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس کے پڑھنے والوں میں نوجوان بھی ہیں، عمر رسیدہ لوگ بھی ہیں اور خواتین تو بڑے ذوق و شوق سے منصف کا مطالعہ کرتی ہیں۔ منصف کا ادارتی صفحہ اپنی ایک خاص انفرادیت رکھتا ہے۔
خان لطیف محمد خان صاحب کے تعلق سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ انہوں نے اردو صحافت کو مسلمان بنا دیا۔ مسلمانوں کے مسائل کو جس بے باکی کے ساتھ منصف پیش کرتا رہا اس کے پیچھے در اصل خان صا حب کا سوزِ دروں تھا۔ وہ مسلمانوں کی تعلیمی، سیاسی، معاشی اور سماجی پسما ندگی سے بہت بے چین اور مضطرب رہتے تھے۔ ایسا کئی مر تبہ ہوا کہ انہوں نے مجھ سے ان عنوانات پر مسلسل لکھنے کی خواہش کی۔ ان کا دل قوم و ملت کے لئے تڑپتا تھا۔۔ وہ ہر طبقہ اور ہر جماعت کی آواز کو اپنے اخبار سے عوام تک پہنچانے کا فرض ادا کرتے رہے۔ خان لطیف محمد خان صاحب کی رحلت سے اردو صحا فت کا ایک زرین باب ختم ہو گیا۔ لیکن اردو صحافت کے معیارکو باقی رکھنا خان صاحب کو صیحح خراجِ عقیدت ہوگا۔ اس وقت جب کہ ہندوستانی مسلمان ہر روز ایک نئی آز مائش سے گذررہے ہیں، ان نازک حالات میں ملت کی مخلص اور بے لوث شخصیتوں کا دنیا سے رخصت ہوجا نا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ لیکن قانونِ قدرت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ جناب خان لطیف محمد خان صاحب نے جن عزائم کے ساتھ منصف کی اشاعت کو جاری رکھا تھا، اسی جذبہ اور حوصلہ کے ساتھ منصف کی اشاعت جاری رہنی چاہیئے۔ اس کی ذ مہ داری ان کے افراد خاندان کے ساتھ منصف کے قارئین اور اس سے وابستہ عملے کی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور اس کا بہترین اجر انہیں عطا کرے۔ دعا ہے کہ آ سماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے : سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share