کالم : بزمِ درویش – بڑی قربانی :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش – بڑی قربانی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

پنجاب کی دھرتی کے ایک بڑے زمیندار اور کامیاب کاروبار کے مالک ملک صاحب بوسکی کے مائع لگے سوٹ‘کلائی پر گولڈن راڈو گھڑی‘ہاتھ میں بڑ ے بڑے نگوں والی سونے کی انگوٹھیاں‘ گلے میں بھاری سونے کا لاکٹ‘ پاؤں میں سنہرا ریشمی کھسہ پہنے اپنی بڑی بڑی مو نچھوں کو مروڑے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھے تھے‘ بات بات پر ملک صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کرنا شروع کر دیتی‘

ملک صاحب کی آواز گفتگو حرکات و سکنات سے بڑا پن محبت پیار چھلک رہا تھا پنجاب کی سوغات خالص کھوئے والی برفی وہ خود بھی کھا رہے تھے میرے حلق میں بھی لذت کی نہریں بہہ رہی تھیں اِسی دوران گرما گرم چائے آگئی تو ملک صاحب بولے لو جی اب برفی کا مزہ اور آئے گا اور بولے پروفیسر صاحب اُس دن جو آپ نے مشورہ دیا میں نے اُس پر عمل کیا تو یقین مانئے بہت مزہ آیا اب میں ساری زندگی ایسی قربانی کیا کروں گا آپ نے مجھے زندگی کے نئے رخ سے متعارف کر ایا ہے میں تو اپنی ذات خاندان برادری علاقے میں اونچا نام میں پھنسا ہوا تھا آپ نے مجھے اُس تکبر غرور کی دلدل سے نکالا تو مجھے ملک صاحب سے پہلی ملاقات یادآگئی۔ عید سے ایک ہفتہ پہلے جب لاک ڈاؤن پورے جوبن پر تھا تو یورپ سے آئے میرے دوست ناصر کا مجھے فون آیا سر جی آپ کدھر ہیں میں عید کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوں لاہور میں اپنے دوست کے ساتھ قربانی کے جانور لینے آیا ہوں اگر آپ آفس میں موجود ہیں توآپ کو سلا م اورملنے کو بہت دل کر رہا ہے تو میں نے بتایا آفس تو بند ہیں میں گھر پر ہوں تو ناصر ضد کر کے کہ میں نے ہر حال میں ملنا ہے میرے گھر آگئے ناصر سے میرے تعلقات پچھلے پانچ سال سے ہیں جب دیار غیر میں اپنے کاروبار اور ازدواجی زندگی کے بگاڑ کی وجہ سے بہت پریشان تھا کسی نے میرا نمبر دیا تو شروع میں فون پر باتیں جاری رہیں پاکستان آیا تو ملنے آگیا میں نے کامیاب شادی کے گُر بتائے ساتھ میں وظیفہ بھی بتایا کاروبا ر کے بارے میں بھی جو مجھے سمجھ آیا راہنمائی مشورے دئیے خدا کی مہربانی سے بیگم کے ساتھ جھگڑے ختم ہو گئے کیونکہ میں نے سمجھا دیا تھاکہ سارے سمجھ دار خاوند اپنی بیگمات کے ساتھ کس طرح سر جھکا کرڈپلو میسی سے رہتے ہیں تم بھی یہ طرز عمل اپناؤ تا کہ لڑائی جھگڑے میں وقت ضائع کر نے کی بجائے اپنے بزنس پر دھیان دے سکو‘ ناصر کو بات سمجھ آگئی اپنے مثبت رویے سے جلدی بیگم بھی راضی ہو گئی خدا کے اسماء الحسنی کے ورد سے کاروبار بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ اب جب بھی پاکستان آتا مل کر چلا جاتا اِسی طرح اُس کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی کے بعد وہ میری محبت میں گرفتار تھا میں بھی اُسے اچھے بھائیوں دوستوں کی طرح ٹریٹ کر تا ہوں عید سے پہلے جب یہ میرے گھر آیا تو اِس کے ساتھ یہ ملک صاحب بھی تھے جو ناصر کے ساتھ والے گاؤں میں رہتے ہیں اِن دونوں کی دوستی ہے ملک صاحب کو بااثر طاقتور امیر لوگوں سے تعلقات بنانے کا چسکہ ہے ناصر کے پاس دولت کی فراوانی ہوئی تو ناصر بھی حلقہ یاراں میں آگیا۔ ملک صاحب کے بارے میں ناصر نے بعد میں بتایا کہ اِن کو بااثر طاقتور مشہور لوگوں سے تعلقات دوستیاں بنانے کا شوق ہے اِس شوق کے لیے خوب خرچہ بھی کرتے ہیں بندے کی نفسیات کے مطابق اُس پر تحائف خالص چیزوں چاول دیسی گھی پھل سبزیوں کی اِس تواتر سے بارش کر تے ہیں کہ بندہ ہر حال میں اِن کے جال میں آجاتا ہے جب یہ میرے پاس آرہے تھے تو ناصر سے میرا جغرافیہ بھی معلوم کیا جب ناصر نے بتایا کہ پروفیسر آدمی ہے روحانیت میں کئی سالوں سے پڑا ہے خدمت خلق فی سبیل اللہ کر تا ہے تو ملک صاحب کو میرے اندر بلکل بھی دلچسپی محسوس نہ ہو ئی بلکہ میں اُن کے کام کا بندہ نہیں تھا میرے بارے میں سرد مہری نے ناصر کو پریشان کیا تو اُس نے صرف یہ کہا کہ معاشرے کے بااثر فلاں فلاں بندے اِن کے پاس آتے ہیں اور بھی بہت ساری باتیں بڑھا چڑھا کر بیان کردیں تو ملک صاحب کے تعلقات بنانے والی رگ خوب پھڑکنے لگی کہ یہ تو کام کا بندہ ہے اِس سے بھی تعلقات ہونے چاہیں اِس چاہ میں ملک صاحب ناصر کے ساتھ میرے غریب خانے پر آئے تو اِسی سج دھج لٹھے کے سوٹ میں چرر چرر کر تا کھُسہ راڈو گھڑی انگوٹھیاں لاکٹ وغیرہ ایسے لوگ جو تعلقات بنانے کے شوقین ہو تے ہیں یہ خود ستائشی کے مرض میں مبتلا ہو تے ہیں دوسروں کو اچھا لگنے کے لیے خوب اچھی ڈریسنگ کر تے ہیں تاکہ دوسرے اِ ن کو دیکھتے ہیں اِن سے متاثر ہو کر اِن کے رعب میں آکر اِن کو خاص توجہ دیں اِن کو اپنی دوستی تعلقات والی لسٹ میں شامل کر لیں جب یہ میرے پاس پہلی بار ملنے آئے تو مجھے متاثر کرنے کی بہت ساری باتیں کیں میری خوشامد اور مجھے متاثر کر نے والی باتیں‘باتوں کے درمیان اپنی قربانی کے جانوروں کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے کہ میں دس بکرے چار بیل اور ایک بڑا جانور قربانی کا ہر سال کر تا ہوں ایسا بڑا جانور جو دس لاکھ تک کا ہو اُس جانور کو پورے گاؤں علاقے میں عید سے پہلے اچھی طرح بنا سنوار کر گھماتا ہوں اُس کی تصویریں دوستوں سے شیئر کر تا ہوں تاکہ لوگوں علاقے والوں کو میری حیثیت ہمارے خاندان دولت کا پتہ چل سکے پروفیسر صاحب اگر اللہ نے دولت دی ہے تو لوگوں کو بھی پتہ چلنا چاہیے ناں اب میں لاہور میں خاص بڑے جانور کے لیے آیا ہوں ایسا جانور کہ علاقے میں کسی دوسرے کے پاس ایسا جانور نہ ہو اور سارا گاؤں بلکہ اردگر د کے دیہات والے بھی ہمارے جانور دیکھنے آئیں‘ میں سب سے بڑی قربانی کر کے اہل علاقہ کو اپنی شان مقام اور دولت دکھانا چاہتا ہوں جب ملک صاحب خوب بول چکے تو میں بو لا ملک صاحب آپ یہ قربانی اللہ کے لیے کرتے ہیں کہ علاقے کے لیے تو فوری بولے اللہ کے لیے جی تومیں بولا خدا کو عاجزی انکساری پسند ہے تکبر غرور تو خدا کی چادر ہے جو اُس کو چھیڑتا ہے اللہ اُس کو نشان عبرت بنا دیتا ہے اِس موضوع پر ہماری آدھہ گھنٹہ بات ہو تی رہی تو ملک صاحب بولے میں پھر کیسی عید کروں کہ اللہ قبول کر لے تو میں بولا اِس بار آپ عید اللہ کے لیے اِس طرح کریں کہ آدھا گوشت غریبوں کو کچا بانٹیں باقی دیگیں پکا کر روٹیاں بنا کر پلاؤ بنا کر غریبوں کو اچھے طریقے سے بیٹھا کر گوشت کھلائیں اور جو آپ خاص بڑا جانور کر تے ہیں دس لاکھ کا اُس میں سے پانچ لاکھ کے جانور لے لیں باقی پانچ لاکھ غریب مسکینوں بیواؤں میں اپنے والدین کے ثواب کے لیے بانٹ دیں وہ بتا چکے تھے کہ ان کے والدین فوت ہو چکے ہیں والدین کے ذکر پر وہ مان گئے کہ اِس بار وہ عید غریبوں کے ساتھ ہی کریں گے یہ وعدہ کر کے وہ چلے گئے تو آج وہ برفی کے ڈبے کے ساتھ میرے بیٹھے میرا شکریہ ادا کر رہے تھے بولے پروفیسر صاحب میں اپنی ماں سے عشق کرتا تھا اور کرتا رہوں گا اُن کو فوت ہو ئے دس سال ہو گئے آج تک میرے خواب میں نہیں آئی عید سے پہلے میں نے ماں کے نام پر پانچ لاکھ غریبوں میں خاموشی سے بانٹے پھر عید کے دن گوشت غریبوں میں بانٹ کر باقی پکا کر غریبوں کو کھانا کھلایا تو اُسی رات میری ماں خواب میں نظر آئی وہ مسکرا رہی تھی پیار کر رہی تھی پروفیسر صاحب میں پانچ سالوں سے نیند کی گولیاں لے کر سوتا تھا اب ایک ہفتے سے بغیر گولیوں کے پرسکون نیند سوتا ہوں کبھی ماں کبھی باپ مسکراتے ملتے ہیں ملک صاحب گلو گیر لہجے میں روتے ہوئے بولے میں ساری زندگی دکھاوے کی بڑی قربانی کر تا رہا سکون خوشی نہ ملی اِس بار اللہ کے لیے غریبوں کے لیے کی تو والدین بھی خوش اور میں بھی میٹھی نیند سوتا ہوں تو بڑی قربانی تو یہ ہوئی نا ں جو اللہ قبول کرلے پھر ملک صاحب خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ رخصت ہوئے کہ اب بڑی قربانی اللہ اور غریبوں کے لیے ہی ہمیشہ ہو گی۔

Share
Share
Share