کیا ادب میں تقلید ضروری ہے
پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو،
جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد
دنیا کی ہر زبان کے ادب کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابتداء کے ادیبوں نے دوسری زبانو ں کی اہم نگارشات سے تقلید کا رویہ اختیار کیا‘جس کے نتیجہ میں نئی زبان میں ادب کی صورت گری ممکن ہوسکی۔اردو ادب میں فارسی اور عربی زبان و ادب کی تقلید کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان میں باضابطہ ادب کی شروعات ہوئی۔
اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کا دیوان شائع ہوچکا ہے‘ اس کے دیوان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے فارسی زبان کی غزل اور رباعی کے علاوہ دوسری اصناف کی تقلید کرتے ہوئے دکنی میں شعر گوئی اختیار کی۔اسی طرح جب اردو کی پہلی داستاں ”سب رس“ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ملا وجہی نے فارسی کی مشہورکتاب ”دستور العشاق“کے ترجمہ کو ”سب رس“ کی حیثیت سے پیش کیا۔ جبکہ دستور العشاق یحیی ابن سیبک فتاحی کی کتاب ہے۔ جب شمالی ہند کی طرف توجہ دی جاتی ہے تو میر امن دہلوی کی لکھی ہوئی مشہور داستاں ”باغ و بہار“ درحقیقت فارسی کے مشہور قصہ ”چہار درویش“ کا ترجمہ ہے۔ان تمام حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابتداء میں ہر زبان کی ترقی کے لئے تقلیدی رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ جسے بنیاد بناکر اس بارے میں سوچنا ضروری ہے کہ جب ابتدائی تخلیق کاروں نے تقلید کا عنصر پیش نظر رکھا تو کیا عصر حاضر میں بھی تقلید کا رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔بنیادی طو رپر تقلید اور حقیقت ایسا عمل ہے جو جدت کے منافی اور تخلیق کی خصوصیت سے بے نیاز ہونے کاپتہ دیتا ہے۔جہاں تک مذہبی معاملات اور شرعی احکام کے علاوہ دین کی ضروریات کی تکمیل کا معاملہ ہے اس خصوص میں ہر انسان کو اپنے مذہب کی پابندی ادا کرنے کے لئے نہ صرف تقلیدی رویہ اختیا رکرنا پڑتا ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ تقلید پر جمع رہنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ شریعت اورمذہبیت میں تقلید سے ہلکا بھی اختلاف کرنا اصل عبادت سے دور ہوجانے کے مترادف ہے۔مذہب میں بھی تقلید کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ کوئی بھی چیز متواتر کسی عمل کی نمائندگی کرتا رہے تو اس کی وجہ سے مسلسل نمائندگی کسی بھی شخص کو اکملیت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس طرح اگر کوئی شخص تکمیل کے مرحلے طئے کرنے کے لئے تقلید کا طریقہ اختیار کررہا ہے تو اس قسم کی تقلید کو کسی اعتبار سے بھی برا یا غیر فطری قرار نہیں دیا جائے گا۔ دنیا کے تمام مذاہب اوراس کے ماننے والوں نے ابتدائی طور پر تقلید کا سہارا لیا اور اس تقلید کے نتیجہ میں انہیں اعلیٰ مدارج پر فائز کیا گیا۔ اس طرح کسی عمل کا مسلسل کرنا درحقیقت کامیابی و کامرانی کی ایسی دلیل ہے کہ جس کی وجہ سے تقلید کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ادبی دنیا میں تقلید یا سرقہ کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی سنار اپنے سونے سے مختلف قسم کے زیورات ضرور بناسکتا ہے‘ لیکن کسی کی نقل کئے بغیر کسی سنار کے زیور کے ساتھ دوسرے سنار کے زیور میں یکسانیت پیدا ہوجائے تو زیور بنانے کی بنیاد پر اسے نقل یا تقلید کا درجہ نہیں دیا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے تقلید کو اہمیت نہیں دی جاتی۔۔تقلید کی وجہ سے ہی تکمیل کے مراحل طئے ہوتے ہیں‘ اس لئے کوئی بھی شخص تقلید کررہا ہے تو اس کے رویہ پر اعتراض کا طریقہ مناسب نہیں۔ البتہ مسلسل تقلید نقصان کا ذریعہ ہوتی ہے۔تقلید اور نقالی کے فرق کو محسوس کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص فطری طور پر معذور ہے اور وہ چلنے میں لنگڑاتا ہے تو اس فطری مجبوری کی نقل اڑاکر کسی کو بے عزتی کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔اس لئے معذوری‘ بے چارگی اور مجبوری کی صورت میں کسی نقل اڑانا حد درجہ بے حیائی اور شرم کی بات ہے‘ تقلید کی خصوصیت کو ظاہر کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے۔
”تقلید: زبر ت‘جزم۔پیروی‘نقل: فقہ اور دینی امور میں چار اکابر ائمہ میں سے کسی کی پیروی: (قانون) جعل‘فریب: کوئی منصب سونپ دینا۔صف: مقلد۔
تقلیدی: رک: تقلید جس سے یہ منسوب ہے: رواجی‘ نقل‘ کیا ہوا۔“
(علمی اردو لغت‘از: وصی اللہ کھوکر‘ مطبوعہ‘ علمی اکیڈیمی‘ نئی دہلی‘2015‘ صفحہ 292)
فرہنگ سے فراہم کردہ ہدایت کے مطابق مذہبی امور میں تقلید کرنے کو پیروی کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس قسم کی پیروی کی نہ صرف مذہب اجازت دیتا ہے‘ بلکہ شرعی اعتبار سے پیروی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مذہبی معاملات میں تقلید یا پیروی کو جس قدر اہمیت حاصل ہے‘ ادبی اعتبار سے تقلید یاپیروی کو اسی قدر معیوب تصور کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ادبی دنیا میں پیروی در حقیقت نقالی کے ہم معنیٰ ہوجاتا ہے‘جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ کسی انسان کی جسمانی معذوری کی نقل کرنے کو ازحد برا تصور کیا جاتا ہے اسی طرح کسی اہم شاعر اور ادیب کی لکھی ہوئی چیز کو ردوبدل کے ساتھ پیش کرنا یا اس میں کمی یا بیشی کرکے اپنی پیشکش قرار دینا بنیادی طور پر عیب کے درجہ میں داخل ہے۔ غرض شاعری اورادب کی پیشکش کے دوران نقالی کرنا نہ صرف ادبی اعتبار سے غیر مناسب ہے‘ بلکہ ایسے عمل کو حد درجہ ناپسند بھی کیا جاتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان کی تخلیقی صلاحیت کو پیشکش کا انداز حاصل نہیں ہوتا اور وہ سوچنے سمجھنے کے بجائے نقل اڑانے کی طرف مائل ہوتا ہے تو ایسے وقت اس کا پیش کردہ تخلیقی کارنامہ نقالی کی وجہ سے ادب کے دائرہ سے خارج ہوجاتا ہے۔اس لئے ادب میں نہ تو پیروی کو اہمیت حاصل ہے اور نہ تقلید کو اہم سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ کسی نظریہ کو پیش نظر رکھ کر اگر کوئی ادب تخلیق کیا جاتا ہے تو اس قسم کی تخلیقی روش کو نہ تو تقلید کہا جائے گا اورنہ ہی اسے پیروی کا درجہ دیاجائے گا۔ کسی شاعر یاادیب کو رومانیت کا اظہار پسند ہے اورکسی شاعر اور ادیب نے ترقی پسند رحجان کو اہمیت دی ہے اور بعض شاعر و ادیب اپنے اظہار کے لئے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے طریقہ کو اختیار کرتے ہیں تو ان طریقوں کے اختیارکرنے کے عمل کو کسی اعتبار سے بھی تقلیدیا پیروی کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔تقلید یا پیروی اس لئے بھی بری سمجھی جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کی فطرت اور اس کی جدت طرازی کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ تقلید یا پیروی کے دوران تخلیقی کارنامو ں کا گزر نہیں ہوتا‘ بلکہ تخلیق کار نقل اڑانے کے طریقے اختیا رکرکے اسی کو حاصل کا درجہ دیتا ہے جبکہ تخلیق کے لئے ضروری ہے کہ تخلیق کار کی سوچ و فکر اور مشاہدہ کے علاوہ اس کے تجربات کا نچوڑ اس کی خلاقی کے دوران نمائندگی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے تب ہی تخلیق کا رویہ قابل قبول ہوتا ہے۔چونکہ‘ نقالی یا تقلید اورپیروی میں ان خصوصیات کی نمائندگی ممکن نہیں‘ ا س لئے تخلیق کے پس منظر میں تقلید اور پیروی مناسب نہیں سمجھی جاتی۔انگریزی زبان میں پیرو کے لئے Follower کی اصطلاح مروج ہے۔کسی بھی مذہب یا مسلک کا پیرو ہونا ممکن ہے کہ کسی انسان کے لئے فائدہ بخش ہو لیکن ادبی اعتبار سے روایات کی پیروی کرنا اور پرانے خیالات‘ جذبات اور احساسات کو جوں کا توں پیش کردینا ایک اعتبار سے نقل کرنے کا دوسرا وسیلہ ہے ا س لئے ادبی پیروی کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ ادبی طور پر جو نظریات قائم ہوچکے ہیں‘ ان نظریات کی پیروی ممکن ہے۔چنانچہ لسانی نظریات اور تنقیدی نظریات کے پس منظر میں جب کوئی تنقید کے ذریعہ جمالیاتی‘ نفسیاتی‘تاثراتی‘سائنٹفک اور مارکسی نظریات کی پیروی کرتا ہے‘ تو اس طرز کی تنقید کو پیش کرتا یا پھر صوتیات‘ فونیمیات‘اصطلاحات اور فصاحت اور بلاغت کے رویوں کو پیش نظر رکھ کر تشبیہہ استعارہ‘ محاکات اور محاز مرسل کے علاوہ مراعات النظیر کو بروئے کار لایا جائے تو بلا شبہ اس تقلیدی روش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گاجبکہ تخلیق میں پیشکش‘اظہار‘ زبان‘ بیان اور واقعات کی یکسانیت کو نمائندگی دینا تقلیدی روش ہے اس لئے اس قسم کے رویہ کو ادبی طور پر ناپسند کیا جاتا ہے۔غرض تقلید یا پیروی کا عنصر مذہبی اعتبار سے جائز ہے اسی طرح علمی و سائنسی انداز سے پیش ہونے والے نظریات کی تعمیل کرنا بھی مناسب ہے‘ لیکن زبان و بیان اور اظہار کے علاوہ پیشکش کے انداز میں روایت پرستی اور نقالی کو پیش نظر رکھا جائے تو اس قسم کی تقلید یا پیروی کو ادبی اعتبار سے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔اس کے طریقے کو مناسب نہ سمجھنے کی وجوہات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہیں۔
انگریزی زبان میں تقلید کے لئے استعمال ہونے والی تراکیب کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
تقلید: Imitation; copy; counter; feiting تقلید کرنا: to imitate for; to counterfeit اس مقدمہ کی تقلید کی گئی the case was followed تقلیدی: Imitated; copied, counterfeit.
(دی اسٹوڈنٹس پریکٹیکل ڈکشنری‘از: رام نرائین لال بینی مادھو‘1963 ء صفحہ نمبر 200)
انگریزی زبان میں متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی خصوصیت سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح اردو زبان میں مذہبی اعتبار سے تقلید کو اہمیت دی گئی ہے اس انداز کی خصوصیت عربی کے متبادل اصطلاح میں دکھائی نہیں دیتی۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ کسی بھی رسول‘ پیغمبر یاپھراہل شریعت کی تقلید کرنا اپنی جگہ مسلمہ ہے اور اس کو قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔تقلید کا ہم معنیٰ ایک اور لفظ اردو میں مروج ہے جس کے لئے پیروی کی اصطلاح بھی رائج ہے جس کی حال حقیقت کو واضح کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ تقلید سے زیادہ اہم لفظ پیروی کو اہمیت حاصل ہے۔ اس لفظ اور اس کی لغوی خصوصیت کو نمائندگی دیتے ہوئے اس قسم کی یہ وضاحت کی گئی ہے۔
پیروی: اطاعت‘ فرماوں برداری‘ تقلید:کوشش (کرنا یا ہونا کے ساتھ)۔ عام: پیروی
(علمی اردو لغت‘از: وصی اللہ کھوکر‘ مطبوعہ‘ علمی اکیڈیمی‘ نئی دہلی‘2015‘ صفحہ 239)
انگریزی زبان میں پیرو کے لئے Follower کی ترکیب مستعمل ہے‘ جو حسب منشا ہے اور اس کی معنویت بھی واضح ہوجاتی ہے۔اس ترکیب کی خصوصیت کو انگریزی میں اس انداز سے واضح کیا گیا ہے۔
Follower‘ ۱ مطیع‘ پیرو۔ ۲ پس رو ز جو بعد میں آئے۔
(آکسفورڈ اردو / انگلش ڈکشنری‘از: شان الحق حقی‘2011 ء صفحہ نمبر 612)
اگرچہ پیروی اور تقلید کے معنیٰ میں یکسانیت موجود ہے‘لیکن دونو ں کے درمیان موجود فرق کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔مذہبی اعتبار سے پیروی یا تقلید کی اجازت دی گئی ہے۔ ہر مذہب کا لحاظ کرنے والا کسی نہ کسی پیغمبر اور ان کے لائے ہوئے اصولوں پر پابندی کرتاہے اوراس پابندی میں اصل کی پیروی اورتقلیدکوبھی اہمیت دی جاتی ہے۔اگر مسلمان ہے تو وہ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف تمام ارکان اسلام کو وہی انداز سے ادا کرے گا‘جیسا کہ پیغمبر اسلام نے ادا کیا اور قرآن مجید کے حکم کے ذریعہ ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر اس میں سرمو انحراف کیا جائے تو وہ مذہب سے خارج اور پیروی کا غلط استعمال کرنے والاقرار دیاجائے گا۔عیسائی مذہب کے ماننے والے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی کرتے ہیں اور اسلام کو ماننے والے حضرت محمد ﷺکی پیروی کو اپنی زندگی کالازمہ قرار دیتے ہیں اس طرح دنیا کا ہر مذہب ہی نہیں‘بلکہ ہرازم کے ماننے والے درحقیقت ان کے اصولوں کو روبہ عمل لاتے ئرہیں تو اس عمل کو پیروی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ بد ھ مت‘جین مت اور ہندو مت کے ماننے والے ہی نہیں‘ بلکہ سکھ اور دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مختلف مذاہب اورازم کے ماننے والے نہ صرف پیروی کو اپنی زندگی کا لازمہ بنالیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی پیروی سے ہی اپنے مذہب یا ازم کی تکمیل کی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں۔اصل قانون کی نمائندگی اور اس پر عمل آوری کو پیروی کا درجہ دیا جاتاہے۔جب کسی پیریا پیغمبر کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کو سمجھے یا نہ سمجھے بغیر بھی ان کی تکمیل حق ادا کیا جائے تو ایسے اشخاص کو پیغمبر کا درجہ حاصل نہیں ہوتا لیکن وہ پیغمبر کی تعلیمات کو فروغ دینے والے پیرو کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ان کی تابعداری کرنے کو پیروی ہی نہیں‘ بلکہ تقلید کرنے کا موقف حاصل ہوتا ہے۔عیسائی مذہب کے پیرو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی کرتے ہیں جبکہ یہودی حضرت یعقوب ؑ کی پیروی کرتے ہیں۔لیکن ہر مذہب کی پیروی کو منفرد شناخت دے کر اس کی حقیقت کو واضح کرنے والے افراد کے اصولو ں کی پابندی کی تکمیل کرنا پیروی نہیں‘ بلکہ تقلید کہلاتی ہے۔چنانچہ مسلمانوں میں پیغمبر اسلام کی پیروی لازمی ہے‘لیکن اس پیروی کو صحیح سمت عطا کرنے میں چار بڑے ائمہ کی نمائندگی کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ‘ امام شافعیؒ‘امام مالک ؒاور امام حنبل ؒجیسے بزرگوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی پیروی کو لازمی قرار دیتے ہوئے اپنے لئے جو علحدہ راستے اختیار کئے اس پر عمل کرنے والے نہ صرف پیروی سے ہٹ کر تقلید کے حامل قرار دیئے گئے بلکہ چا رائمہ کے طریقوں کو اختیارکرنے والے چار مختلف ناموں سے یاد کئے گئے جس کی وجہ سے اسلام میں حنفی مسلک‘ شافعی مسلک‘ مالکی مسلک اور حنبلی مسلک قائم ہوگیا۔مسلک پر کاربند رہنے والا کسی اعتبار سے بھی پیرو نہیں بلکہ تقلیدکرنے والا قرار دیا جائے گا اور تقلید کرنے والے انسان کی حیثیت سے اسے مقلدکے نام سے یاد کیا جائے گا اور چارائی کے نہ جاننے والوں کو غیر مقدر کا درجہ دیا جائے گا۔اس اعتبار سے پیروی اور تقلید میں موجود فرق بھی واضح ہوجاتا ہے اور دونوں الفاظ میں معنویت اور حقیقت کی نمائندگی بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔جہاں تک پیروی اورتقلید میں موجود فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پیروی اورتقلید میں موجود فرق کو اردو کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ہے۔لیکن انگریزی زبان میں پیروی اور تقلید کے عمل کے لئے ایک ہی لفظ یعنی Follower کا استعمال موجود ہے۔حقائق کی روشنی میں کہ پیروی اور تقلید دو الگ الگ طریقوں کے مختلف انداز ہیں اور انگریزی زبان میں اس کی وضاحت ممکن نہیں۔جیسا کہ انگریزی زبان میں پیرو کے لئے Follower کی ترکیب وضع کی گئی‘ اسی طرح مقلد کے لئے بھی وہی ترکیب استعمال کی جاتی ہے لیکن بعض جگہوں پرمقلد کے لئے Disciple کی ترکیب بھی مروج ہے۔
Disciple: ۱ مرید‘ چیلا‘ارادت مند‘پیرو کسی گرو‘ استاد یافلسفے وغیرہ کا (a disciple of Zen Buddhism مہایان بدھ مت کا پیرو)
(آکسفورڈ اردو / انگلش ڈکشنری‘از: شان الحق حقی‘2011 ء صفحہ نمبر 443)
انگریزی میں استعمال ہونے والی اصطلاحات Follower اور Disciple بھی نہ تو پیروی کی مناسبت کے طورپر استعمال کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی تقلیدکی نمائندگی ادا کرسکتی ہیں۔درحقیقت ان دونوں الفاظ کااستعمال مشرقی ممالک کی قوموں اور ان کے رویوں سے متعلق ہے۔چونکہ انگریزی زبان اور اس کی لفظیات کاتعلق مغرب اورمغربی اقوام سے‘ہے اس لئے مشرقی زبانوں جیسے عربی‘ فارسی‘ ترکی اور جاپانی کے علاوہ سنسکرت کے لفظیات کے متبادل یوروپی زبانو ں میں الفاظ کا تنوع کو تلاش کرنا ممکنات میں سے نہیں ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو میں مستعمل تقلیداورپیروی کی مناسب اصطلاحات انگریزی زبان میں حاصل ہونا دشوار ہے۔
انگریزی زبان میں ایک خصوصی لفظ Conventionality کا استعمال ہوتا ہے۔اس لفظ کے متبادل کے طور پر تقلید کااستعمال ممکن ہے۔انگریزی لغت میں Convention اور Convention کے علاوہ Conventional ism کی تفصیلات اس طرح درج کی گئی ہیں۔
Convention: عمومی اتفاق رائے خصوصاً سماجی طرز وغیرہ کی بابت جواکثریت کی حتمی رائے پرمبنی ہورواجی طریق عمل یا روایت خصوصاً رسمی‘ ریت‘ رسم متحدہ مقصد کیلئے رسمی اجلاس امریکہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندگان کا جلسہ کسی عہدہ کیلئے امیدوار منتخب کرنے کے لئے تواریخ شاہی فرمان کے بغیرہونے والا پارلیمنٹ کااجلاس۔رسمی معاہدہ ریاستوں کے درمیان طئے پانے والی قرارداد‘ باضابطہ معاہدہ کے مقابل غیررسمی۔ ۴ تاش: تسلیم شدہ اصول کے مطابق کھیل جس میں ساتھی کوبازی بدلنے یا چال چلنے کی بابت معلومات دی جاسکتی ہیں۔ ۵ انعقاد کا عمل
conventional: ۱ روایتی‘ رواجی‘ رسمی۔ ۲ سماجی رسوم کا پابند (آدمی)۔ ۳ حسب معمول‘جانا بوجھا‘ مانا ہوا۔ ۴ جوبرجستہ‘پرخلوص‘ صادق یا اصلی نہ ہو‘ بناوٹی۔ ۵ غیر نیو کلیائی(ہتھیار) ۶ فنون روایتی نہ کہ فطری۔
conventional ism: روایت پرستی conventionalist, conventionalize conventionally: روایتہ‘ حسب روایت۔ conventioneer امریکہ:کنونشن یا رسمی اجتماع میں شرکت کرنیوالا شخص۔
conventual: صف: راہباؤں کی تنظیم سے متعلق۔ ۲ فرانسسکن فرقے کی نسبتاًکم کفر شاخ سے تعلق رکھنے والے جو بڑے بڑے صومعات یا راہب خانوں میں رہتے ہیں۔اسم: صومعہ نشیں۔
(آکسفورڈ اردو / انگلش ڈکشنری‘از: شان الحق حقی‘2011 ء صفحہ نمبر ات 320 تا321)
جس طرح مذہب اسلام میں چار ائمہ اور ان کی شریعت پر عمل کرنے والے افراد کو مقلد کہا جاتا ہے اسی طرح عیسائی مذہب میں مختلف راہب اور اہم افرادنے عیسائی مذہب کو جس انداز سے پیش کیا اس کی تقلید کرنے کی روایت بھی جاری ہے۔اس اعتبارسے مذہبی طورپر تقلید کی اجازت ہے اور کسی بھی امام کی تقلید درحقیقت مذہب کی شرعی حقیقت کی تکمیل کرنے کے مماثل ہے جس کی وجہ سے مذہبی طور پر یا سماجی یا معاشی انداز سے تقلیدکرنے کاعمل جائزہے۔لیکن ادبی اعتبار سے کسی شاعریاادیب کے بتائے ہوئے طرزاوراس کے اختیارکردہ رویہ کی ہوبہو تقلید کرنا مناسب نہیں۔اسی لئے تقلید کو ادبی اعتبار سے غیر اہم اور معیار سے گرا ہوا رویہ قرار دیاجاتاہے۔البتہ مختلف تحریکات اور رحجانات کی تائیدیا حمایت کرنا بھی تقلید میں شامل ہے۔جیسے ہندوستان میں ایہام گوئی کی تحریک نے دہلی کے شاعروں کو متاثر کیا‘ شاہ ولی اللہ کی تحریک نے اردو نسل کو متاثر کیا۔ انجمن پنجاب کے رحجان نے اردو ادب میں تبدیلی پیدا کی‘ سرسیدتحریک کا اثر اردو نثر اورشاعری پر دکھائی دیتا ہے‘ رومانی تحریک کا اثر بھی اردو شعر و ادب کا حصہ بنتا ہے‘ یہی نہیں بلکہ ترقی پسند تحریک کے علاوہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے اثرات کو بھی اردو کے شاعروں اور ادیبوں نے اختیارکیا۔ لازمی طور پر ان تحریکات اور رحجانات کی تقلید کرنا کسی اعتبار سے بھی ادبی معیار کو کم کرنے کے مترادف نہیں اور اس قسم کی تقلید کی اجازت ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ میرتقی میر ؔکی غم پسندی اورمرزا غالب ؔکی جدت طرازی کو بھی بطور تقلید استعمال کیا جاسکتا ہے۔لیکن کسی شاعرکے خیال اور اس کے اظہار کے علاوہ کسی نثرنگار کی صلاحیتوں کی نقل اڑانے کو معیوب سمجھاجاتا ہے کیونکہ ایسی نقل تقلید کے دائرہ میں داخل ہوجاتی ہے صنفی تقلید بھی جائز ہے جیسے کوئی شاعر مثنوی کی صنف کے علاوہ غزل‘ مرثیہ‘ قصیدہ‘ رباعی‘ شہرآشوب اور ریختی کے انداز کی تقلید کررہاہے تو اس رویہ کو بھی قبول کیا جاتا ہے۔اسی طرح نثر کی اصناف جیسے ناول‘ افسانہ‘ ڈراما اور ناولٹ کے علاوہ سفر نامہ‘سوانح‘خاکہ‘ رپورتاژ‘ مضمون‘ خطوط‘ انشائیہ‘ دیباچہ‘ مراسلہ اور روزنامچہ کے علاوہ تبصرہ نگاری کے دوران ان اصناف کی صنفی خصوصیات کو بروئے کار لایا جارہا ہے کو بھی تقلید میں شامل ہے۔کیونکہ اصناف کا تعلق اس کے فن اور تکنیک سے ہوتا ہے۔اس لئے فن اور تکنیک کی پابندی کرنا کسی اعتبار سے بھی غیرادبی عمل نہیں‘بلکہ تقلیدکا وصف ہے جس کے ذریعہ صنف اور فن کی نمائندگی ہوتی ہے اس لئے اس کی تقلید کی بھرپور اجازت ہے‘ البتہ شاعر یا ادیب کو اختیارہوتا ہے کہ وہ اپنی جدت طرازی کے ذریعہ اصناف کی اجزائے ترکیبی کو ردوبدل کے ساتھ پیش کرسکے جس کے نتیجہ میں تقلید سے بے نیازی کا وصف ظاہر ہوتاہے۔ عام طور پر کسی بھی صنف کی نمائندگی کے لئے سوچ و فکر کے علاوہ جدت طرازی اور لفظوں کی بندش کے سلسلہ میں نیا پن اختیارکرنے کے بجائے کسی شاعر یا نثر نگار کے اختیار کردہ رویہ کوجوں کا توں پیش کرنا یا تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ اپنے انداز کو روا رکھنا جبکہ بیشتر حصہ کسی دوسری صنف یا فن کا تقاضہ رکھتاہو اس قسم کا عمل تقلیدی رویہ کا حامل ہوتا ہے اس رویہ سے نقالی کا عکس واضح ہوتا ہے۔ایسے تمام طریقے جس کی وجہ سے نقالی کی خصوصیات واضح ہوں یا پھر اس کے انداز کی نشاندہی کا شائبہ پیدا ہو‘ تو پھر اس رویہ کو تقلید کا درجہ دیاجاتا ہے۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ بیشتر معاملات میں تقلید کا اختیارکرنا اہمیت کا حامل ہے اور مذہبی معاملات میں تقلید کو مسلمہ حیثیت حاصل ہے۔لیکن ادبی معاملات میں گوکہ کسی صنف یا فن و تکنیک کی تقلید مناسب ہے لیکن اظہار‘ بیان اور پیشکش کے علاوہ کسی طریقہ کو جوں کا توں استعمال کرنا تقلید میں شامل ہوتا ہے اس لئے ادب کے توسط سے تقلید کا اظہار نہ صرف ادبی موقف کو کمزور کرنے کا وسیلہ بن جاتا ہے بلکہ ادب میں استعمال ہونے والے تمام تقلیدی عناصر کو ادب کے دائرہ سے خارج اور نقالی کے حدود میں شامل کرلیا جاتا ہے۔اگر کوئی طنز و مزاح لکھ رہا ہے یا پھر افسانہ یاناول لکھنے کی طرف مائل ہے اس کے علاوہ غزل اور کسی شعری صنف کی پیشکش کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے صنف کے اعتبار سے تمام تقاضوں کی تکمیل ضروری ہے جو بلا شبہ تقلیدی عنصر ہے لیکن فن کی گنجائش کے مطابق اسے نقالی کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ یہی نہیں‘بلکہ کسی نثر نگار نے اپنی تخلیق میں شعور کی رو Stream consciousness ofکاطریقہ اختیارکیا ہو یا پھر تانیثیت Feminism کے علاوہ حقیقت پسندی Realism کے ساتھ ساتھ عریانیت اور ماورائیت کو اہمیت دی ہو تو تحریرمیں ان خصوصیات کا شامل ہونا نہ تو نقالی ہے اورنہ ہی تقلیدی عنصر کا ضامن ہے‘ بلکہ یہ تمام عوامل کسی بھی ادب کی تحریروں میں چاہے وہ نثر میں پیش کی جائیں یا شاعری میں ہر دو کے اعتبار سے جدت طرازی کا ذریعہ بنتے ہیں اس لئے اس قسم کے طریقوں کااستعمال ادب کو پروان چڑھانے کا وسیلہ بن جاتا ہے‘ اس کے بجائے نقالی کاطریقہ اختیار کیا جائے اوراسے تقلیدکی ضرورت کا حصہ سمجھا جائے تو بلا شبہ ایسا عمل یا طریقہ ادب کے کسی زمرہ میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا‘ اس لئے نقالی اور تقلید سے پرہیز ہی ادب کی دنیا میں اہمیت کاحامل ہے۔