کورونا اور اقتصادی بحران
عظمت علی
۲۰۱۹ء کے آخری مہینہ میں تخلیق ہونے والا وائرس اس وقت عالمی وبا بن چکا ہے ۔بیماری کا مرکز چین کا شہر ووہان رہا ہے۔ وہیں سے اس کا جنم ہوا ہے۔ اوائل میں کسی نے اسے خطرہ کے طور پر نہیں جانا اور چین نے بھی اسے چمگاڈر ، سانپ اور دیگر جانوروں سے جوڑ کر ہم انسان کو الگ تھلگ کردیا۔ نئے سال کا جشن بھی خوب دھوم دھا م سے منایا ۔
کورونا کی موجودگی میں پوری دنیا آرام کاسانس لے رہی تھی ۔ کسی کیا معلوم تھا کہ معمولی تصور کیا جانے والا وائر س نبض کائنات تک رسائی حاصل کرلے گا اورپوری دنیا میں شٹ ڈاؤن کی صورت حال پید اہوجائے گی۔
یوںہی بیماری کی کمی نہ تھی کہ ایک اور بیماری نے کرہ ارض کو گھیر لیا ۔ اس کی آمد سے رفتہ رفتہ رفتار کائنات ، سست پڑتی گئی ۔چین کا شہر ووہان ، اس کا پہلا حملہ قرار پایا لیکن چند ماہ کے وقفے میں اس نے پوری دنیا کو بری طرح متأثر کردیا۔راہ حل کی تلاش جاری ہے۔فی الحال ماسک ، ہاتھ دھونا ، سماجی فاصلے اور بالآخر لاک ڈاؤن ہی بہترین راہ معالجہ مانا گیا ہے ۔جانے کتنی تدابیر اپنائی گئیں لیکن ؎
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دوا تومصرع کا حصہ ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی تک کورونا کی کوئی دواہی نہیںآئی ہے۔ صرف احتیاط پر عمل کیاجارہا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے ملک میں مہینوں سے لاک ڈاؤن جاری ہے ۔ملک میں سب سے پہلا کورونا کیس ۳۰؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو ملا۔ اس کے بعد یہ وائرس اپنی جگہ بناتا گیا۔ مارچ کے تیسر ے ہفتہ میں ماہرین پر واضح ہوگیاتھا کہ کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔اس لیے ۲۴؍ مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ملکی سطح پر۲۱؍روزہ لاک ڈاؤن لگانے کا اعلان کردیا۔امید کی جتائی جارہی تھی کہ ہم تین ہفتے میں کورونا سے جنگ جیت جائیں گے ، اسی طرح جیسے مہابھارت کی جنگ فتح کی تھی لیکن مدمقابل کچھ زیادہ قوی نکلا۔ اس لیے ملک میں مزید ڈاک لاؤن لگادیا گیا ۔ آج ،۵؍ اگسٹ کو۱۳۴؍واں دن ہے لاک ڈاؤن کا۔ تقریباًدوماہ تک تو کاروبار حیات بندرہاتھااور صرف ضروریات زندگی ہی میسر تھیں ۔ایک سروے کے مطابق مارچ میں ۵۳ ؍فی صد سے زائدکاروبار بند رہے ہیں ۔
ایک طرف کورونا ہے تو دوسری طرف دولت کابحران ۔ کیوں کہ کاروبار پر تالے لٹکے ہوئے تھے اور فی زمانہ بھی کوئی خاص آمدنی کے ذرائع نہیں کھلے ہیں۔ کسی کے پاس پیسہ ہے ہی نہیں کہ وہ بازار میں نظر آئے اور یوں بھی سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھنا سب پر ضروری ہے۔ صرف ضروریات زندگی کے لیے ہی گھر سے باہر نکلنا ہے۔ہم بھول بھی جائیںتوموبائل فون یاددلاہی دیتا ہے۔اب بھلاحصول دولت کیوں کر ممکن ہو۔ حالات اتنے برے ہیں کہ بس جی رہے ہیں کسی طرح ۔ جن کے پاس رہی سہی دولت بھی تھی وہ بھی دھیرے دھیرے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔
ٹائمس آف انڈیا کی ۵؍ مئی کی رپورٹ کے مطابق کوڈ۔۱۹کے سبب ملک میں بے روزگاری کی شرح 27.11 تک پہونچ چکی ہے۔ آج دوماہ کے قریب ہونے کو ہے ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح کتنی زیادہ بڑھ چکی ہوگی۔ اس سے زیادہ افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ ملک میں کورونا مریض کی تعداد بھی بہت تیزی سے بڑ ھ رہی ہے۔ اس وقت ۱۶؍ لاکھ کے قریب مثبت کیسیز ہیں ۔ روزانہ کی شرح میں ا س وقت کی سب سے زیادہ تعدادباون ہزارمریض کی رہی ہے۔ سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ کہ ابھی تک اس کی مرض کی کوئی دوا نہیںہے اورمحض احتیاطی تدابیر سے کام لیا جار ہا ہے۔قابل تعجب یہ بھی کہ لوگ کورونا کی دوا کے بغیر صحت یاب بھی ہورہے ہیں۔اب دوا کب آئے گی اور یہ مرض کب ختم ہوگا ، اس سلسلے میں کوئی تشفی بخش جواب نہیں ہے۔ یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک کوئی مؤثر دوا نہیں آتی ، ملک کے اقتصاد میں ترقی کی امید معنی ندار د ۔ بے روزگاری کی شرح کے ساتھ ساتھ شرح اموات بھی بڑھتے رہیں گے اور یوں عالمی آبادی میں کمی کی امید کی جارہی ہے۔
کورونا ملک کے اقتصادیات کے لیے بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ان لاک میں کوئی خاص ذرائع کھلے نہیں ہیں۔ اس وقت نقل مکانی کے بیشتر وسائل موقوف ہیں ۔ریلوے اور ہوائی جہاز سمیت دیگر وسائل آمدنی پر بھی تالے لٹکے ہوئے ہیںجو کہ ایک عظیم خسارہ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔صر ف مارچ اور اپریل میں ملک میں سیاحتی نقصان تقریباً پندرہ ہزار کروڑ یعنی 2.1 بلین ڈالر رہاہے۔پہلے ۲۱؍دن کے لاک ڈاؤن میں روزانہ کی شرح سے ۳۲۰۰۰ کروڑ یعنی (4.5 بلین ڈالر )کاحکومتی نقصان ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اکیس روزہ لاک ڈاؤن میں کل ۱۲۰؍ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ آزادی کے بعد سے سب سے بڑی اقتصادی گراوٹ کورونا کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ملک کے اقتصادیات کے کمر خمیدہ ہورہے ہیں ۔ مقتدر حکومت کو اپنے عوام کو بھی سنبھالنا ہے ، اس لیے اسے بھی دولت کی بہرصورت ضرورت ہے۔
جب ملک کے خزانہ سمٹنے لگیں یا اقتدار میں بیٹھے افراد دولت کی تقسیم سے ہاتھ کھینچنے لگیں تو اس وقت ایک ہی راستہ نظرآتا ہے۔ عالمی بینک سے مدد کا ۔ عالمی بینک سے مدد کا مطلب ، آپ کا مقروض ہونا ہے۔ کسی بھی انسان کا مقروض ہونا نیم غلام ہونے کے مترادف ہے۔ جب ہم کسی کے مقروض ہوں گے تو اس کی باتیں بہرحال ہماری نزدیک قابل احترام اور اس پر عمل کرنا ہماری مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ عالمی نظام واحد(NWO)کا نظریہ اس وقت بہت تیزی سے رفتار پکڑے ہوئے ہے اور یہ کورونا بہترین موقع ہے ،اس کو جاری کرنے کا۔ اس لیے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ کورونا عالمی نظام واحد کی جانب ایک بڑا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
بہرکیف، یہ عجیب بیماری ہے جس کی شناخت کا اب تک کوئی معیا ر نہیں مقرر ہواہے اورنہ ہی دوا آئی ہے۔ بیمار کی تعداد روزانہ تیزی سے بڑھ رہی ۔ ایسے عالم میں ہمیں ہر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازم ہے اور ساتھ ہم پر فرض ہوجاتا ہے کہ ہم معبود حقیقی سے مدد طلب کریںاور ملکی اقتصادیات کو پھر سے معمول پرلانے میںکوشاں ہوجائیں ۔