کالم : بزمِ درویش
دو بکرے
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
کو ئی مسلسل ڈور بیل پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کر نے کی مسلسل کو شش کر رہا تھا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیر تک جا گنے کی وجہ سے صبح نماز پڑھ کر پھر سو گیا تھا میں سستی کا مظاہرہ کر رہاتھا کہ آنے والا دو چار بار کو شش کر کے آخر کار ما یو س ہو کر چلا جائے گا لیکن اُس کا مسلسل ڈور بیل بجانا اِس بات کا واضح اشارہ تھا کہ وہ ہر حال میں مل کر جائے گا
لہٰذا میں نے ہار مان کر جا کر دروازہ کھو لا تو میرا ایک جاننے والا سرکاری محکمے میں کلرک کھٖڑا تھا یہ شخص لاک ڈاؤن سے پہلے تین چار بار میرے پاس دعا کرانے اور تسبیح پوچھنے آیا تھا اپنے دفتر میں فائل ورک کے ساتھ پر یہ جنریٹر کا انچارج بھی تھا کہ لو ڈ شیڈنگ کی صورت میں جو جنریٹر میں پٹرول استعمال ہو تا ہے اُس کا حسا ب کتاب خر چ وغیرہ اِس کے ذمے تھا نیا باس آیا تو اُس نے مختلف آڈٹ کرائے تو اس کے ذمے پچھلے دو سال کا اضافی پٹرول ڈال دیا انکوائری کرا ئی جس میں اِس کو قصور وار قرار دیا کہ تم نے اضافی پٹرول لیا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اِس کے نیچے بندوں نے کر پشن کی تھی یہ بیچارہ پابند صوم و صلوۃ نیک شریف آدمی تھا اِس کو اپنی نیکی پا رسائی کا زعم تھا کہ میں نے کو نسی کرپشن کی ہے جب میرا دامن صاف ہے تو مجھے کو ن پکڑ سکتا ہے انکوائری میں سب کے بیان لیے گئے ہیں لوگوں پر کرپشن ثابت ہو ئی اب فائنل انکوائری جس آفیسر کے پاس تھی اُس نے اِس کو بھی قصور وار غیر ذمہ دار ڈیوٹی ایمانداری سے سرانجام نہ دینے کا جرم ڈال دیا اِس بیچارے نے اپنی صفائی میں بہت شور مچایا لیکن اِس کی بات پر دھیان نہ دیا گیا جب اِس کو پتہ چلا کہ اِس کو بھی لپیٹا جا رہا ہے تو اِس نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے‘ عبادت اذکار پر مزید توجہ دی اِسی سلسلے میں میرے پاس بھی آتا رہا کہ کو ئی ایسی تسبیح اللہ کے نام بتائیں کہ میرا نام انکوائری سے نکل جائے میں بے قصور ہو جاؤں میں نے حوصلہ اور وظیفے دئیے پھر یہ دو تین بار آیا اِسی دوران کرونا کہ وجہ سے لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے بڑھ گئے جس کہ وجہ سے ملاقاتیوں میں تعطل آگیا آج یہ تین ماہ کے بعد تو بولا جناب میں انکوائری میں کلئیر ہو گیا ہوں مجھے بے قصور لکھ دیا گیا تو میں اِس کو لے کر بیٹھ گیا اور بولا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے تو وہ بولا جناب خوشی تو ہے لیکن میرے دل ضمیر پر بہت بوجھ ہے کیونکہ میرا نام انکوائری سے نکالنے کے لیے مجھے رشوت میں قربانی کے لیے صاحب انکوائری کو دو مہنگے بکرے دینے پڑے ہیں اگر میں بکرے رشوت کے طور پر نہ دیتا تو مجھے قصور وار بڑا کر سارا الزام میرے ذمے لگا کر میری نوکری بھی ختم اور پنشن بھی نہیں ملنی تھی لہذا میں نے مجبورا ًاپنی نو کری پنشن اور نوکری کے بعد ملنے والے لاکھوں روپے بچانے کے لیے صاحب کو اُس کی مرضی کے مطابق دو بکرے لے کر دئیے ہیں جو وہ قربانی والے دن ذبح کر کے قربانی کا مذہبی فریضہ ادا کر ے گا یہ بکرے میں نے اکیلے نہیں دئیے ہم تینوں بندے جن پر پٹرول کا الزام تھا تینوں سے صاحب نے دو بکرے لیے ہیں میں پہلے تو بلکل بھی بکروں کی رشوت دینے کو تیار نہیں تھا پھر میرا بہنوئی جو اِس کیس میں میر ی مدد کر رہا تھا اُس کے سارے حالات دیکھئے کے بعد مجھے اور میری بیوی کو مجبورا کیاکہ اگر میں بکرے نہیں دوں گا تو میری جان خلاصی نہیں ہو گی وہ میری جگہ صاحب انکوائری اور اُس کے عملے سے مل رہا تھا جب باقی دونوں بندے تیار ہو گئے تو مجھے بھی رشوت کی لعنت اپنے ماتھے پر ملنی پڑی سر آج میں آپ کے پاس اِس لیے آیا ہوں کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں اب میں بے گناہ تھا لیکن کر پشن میں غرق اِس نظام میں جب میری بقا خطرے میں پڑی جب مجھے بلکل امید نہ رہی کہ میری بے گناہی حق گوئی کا صلہ مجھے ملے گا تو میں نے مجبور ہو کر رشوت دی ہے تو کیا اب بھی میں رشوت دے کر دوزخی ہوں گا اُس بیچارے کی داستان غم سن کر مجھے چکر سا آگیا اُس کے سوال نے میرے پسینے نکال دئیے کہ مسائل کرپشن کی چتا میں سلگتا یہ معاشرہ نظام کتنا عرصہ اور بے گناہ مجبور لوگوں کو اِسی طرح بے رحمی سے بھسم کر تا رہے گا اِس بیچارے کا تعلق اگر کسی بااثر افیسر یا سیاسی بندے سے ہو تا تو ایک فون کال سے اِس نے بے گناہ ہو جاناتھا لیکن کیونکہ یہ کسی طاقت ورآفیسر یا سیاسی وڈیرے کا مراثی نہیں تھا اور جب اِس کی جان انکوائری کی چکی کے پتھروں میں آکر پھنسی تو اس نے اپنی جان اوربچوں کا رزق بچانے کے لیے آفیسر کو منہ بولی رشوت قربانی کے بکرے پیش کر دئیے اگر نہ دیتا تو کرپشن کا ناسور عفریت بن کر اِس کو نگل لیتا پھریا تو یہ خودکشی کر تا یا پھر ساری زندگی کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتا بیچارے کی آنکھوں اور چہرے پر درد بے بسی کا دھواں پھیلا ہوا تھا دھویں کی کڑواہٹ سے آنکھوں میں بار بار گرم پانی آکر کناروں سے بہنے لگتا یہ تو ایک ہے جو صاحب کو دو قربانی کے بکروں کی رشوت دے کر آیا ہے جبکہ اِس کے ساتھ باقی بندوں نے بھی اِسی صاحب کی اِس بد معاشی مطالبے پر اپنی نوکری بچانے کے قربانی کے بکرے پیش کئے اب جس نے کرپشن کی واقعی پٹرول کو بیچا پیسے بنائے اُس کو تو یہ دو بکرے بالکل بھی نہیں چبھے ہو نگے اُس نے تو باقی حرام کی کمائی کو ہضم کر کے دو بکرے دے کر نعر ے مارتے ہوئے جان چھڑالی لیکن جس بیچارے کا قصور ہی نہیں تھا اُس کو پچھتاوے ندامت شرمندگی کے دوزخ میں رشوت کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا یہ بیچارہ ساری زندگی رزق حلال ایمانداری سے نوکری میں لگا رہا اِس کی سانس کی نالی پر یہ دکھ پہاڑ بن کر آبیٹھا تھا یہ تکلیف میں تھا روز محشر کا خوف بے گناہی پر سزا الزام اور رشوت لے کر رشوت کا داغ اِس کی پیشانی اور روح پر لگا کر مر غ بسمل بنا کر اِس کو چھوڑ دیا اب یہ کبھی میرے جیسے اورکبھی علما دین کے پاس جا کر اِس داغ کو دھونے کی کو شش میں لگا ہو اتھا بیچارے کی بے بسی درد دکھ ندامت پامالی دیکھ کر میرا جگر بھی کٹ رہا تھا میں نے اِس کو حوصلہ دیا کہ اللہ تعالی بہت رحیم کریم ہے وہ کسی پر ناجائز ظلم نہیں کر تا وہ اچھی طرح باخبر ہے کہ تم نے ساری زندگی ایماندار ی سے نو کری کی تمہارا قصور بھی نہیں اللہ تم سے باز پرس نہیں کر ے گااور روز محشر ظالم آفیسر کے نیک اعمال تمہارے کھاتے میں ڈالے گا روزمحشرتمہارے ساتھ انصاف ہو گا ایسی بہت ساری حوصلہ دینے والی باتیں کر کے میں نے بیچارے کو بھیج دیا لیکن میرا انگ انگ پور پور ظاہر باطن اُس کی شرمندگی ذلت رسوائی اور رشوت دینے کے کرب تکلیف سے دکھنے لگا کہ پتہ نہیں کب عوام کو مسائل کی سلگتی جھلستی کر پشن کی چتا سے نجات ملے گی کب انصاف کا بو ل بالا ہو گا کب خدائے ذوالجلال اچھے حکمران عوام کے مقدر میں کرے گا دوسرا میں اس راشی آفیسر کے ہمت جرات پر دکھی اور غصہ تھا کہ اُس کی کرپشن اور رشوت ستانی کی لت اور گندگی کس لیول کی ہے کہ جان بوجھ کر عید سے پہلے سب کو بلوا کر اُن کو ذبح کر کے قربانی کے جانور رشوت کے طور پر لے لیے جبکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ قربانی قبول نہیں ہو گی پھر بھی وہ اپنے بیوی بچوں کو یہ حرام کا گوشت کھلائے گا عید کے دن نماز پڑھے گا کتنے دھڑلے سے خاندان والوں کے سامنے اتنے زیادہ بکروں کی قربانی کر ے گا جبکہ اُسے پتہ ہے روز محشر تمام اعمال کا جواب دہ ہو گا ہے ایسے افسران کی رگوں میں خون نہیں رشوت کرپشن خون بن کر دوڑتی ہے اور یہ فرعون بنے مذہبی عبادات کو پامال کر تے نظر آتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ گردش زمانہ کے ساتھ ایک دن یہ بھی قبروں میں جائیں گے جہاں اِن کے پیٹ پھٹ جائیں گے سانپ بچھوزہریلے کیڑے اِن کے جسموں کے نازک ریشے ادھیڑ دیں گے لیکن یہ باز نہیں آتے شلاد ابن عاصمؓ روایت کرتے ہیں ایک دن محبوب خدا شافع محشر سرور دو جہاں ﷺ کو روتے ہو ئے دیکھا تو بے قرار ہو کر عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان میں آپ ﷺ پر قربان آپ ﷺ دونوں جہانوں کے مالک محبوب خدا نبیوں کے سردار ہو کر کیوں رو رہے ہیں تو آقا کریم ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت پر شرک سے خائف ہوں نہ وہ کسی بت کی پرستش کریں گے نہ وہ چاند سورج پتھروں کی پو جا کریں گے بلکہ وہ یہ سب کچھ نہ کر تے ہو ئے گناہ یہ کریں گے کہ اپنے اعمال میں ریاکاری دکھاوا کریں گے اللہ ہمیں عبادات میں ریا کاری کے مرض سے بچائے آمین۔