ماہنامہ آجکل کے چند افسانے : ایک جائزہ :- محمد علیم اسماعیل

Share

ماہنامہ آجکل کے چند افسانے : ایک جائزہ
(اپریل 2019 سے اپریل 2020 تک)

محمد علیم اسماعیل
ناندورہ، مہاراشٹر

ماہنامہ آجکل اردو کا ایک معتبر اور موقر ادبی جریدہ ہے۔ اس رسالے نے ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔ 1942 میں اس کا پہلا اردو ایڈیشن شائع ہوا۔ اس وقت یہ پندرہ روزہ تھا۔ 1949 سے یہ ماہنامہ ہو گیا۔ ہمیشہ سے ہی یہ رسالہ ادبی حلقوں میں کافی مقبول رہا ہے۔ اس کے اداریے سے آغا یعقوب دداشی، وقار عظیم، جوش ملیح آبادی، معین احسن جذبی، شان الحق حقی، جگن ناتھ آزاد، بلونت سنگھ، عرش ملسیانی، شہباز حسین، مہدی عباس حسینی اور راج نرائن راز، محبوب الرحمٰن فاروقی، حسن ضیاء، ابرار رحمانی وغیرہ جیسے ادیب، شاعر اور صحافی وابستہ رہے ہیں۔

جنھوں نے رسالے کے معیار کو کبھی بھی کم ہونے نہیں دیا۔ اس رسالے نے کئی خاص نمبر بھی شائع کیے۔ جس میں گاندھی نمبر، اردو نمبر، ابو الکلام آزاد نمبر، افسانہ نمبر، اقبال نمبر، امیر خسرو نمبر، بہادر شاہ ظفر نمبر، پریم چند نمبر، حسرت موہانی نمبر، غالب نمبر، کشمیر نمبر، عابد حسین نمبر، سجاد ظہیر نمبر، میر انیس نمبر، میر تقی میر نمبر اور مجتبیٰ حسین نمبر کافی اہم ہیں۔ ویسے تو اس رسالے میں شائع تمام نگارشات اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ چونکہ میں افسانوں کا قاری ہوں اس لیے پچھلے ایک سال میں، میں نے اس جریدے میں جن افسانوں کا مطالعہ کیا ہے ان کا سرسری جائزہ یہاں پیش کر رہا ہوں۔

اپریل 2019 کے شمارے میں شامل محمد بشیر مالیرکوٹلوی کا افسانہ ’’آسیب‘‘ متاثر کن افسانہ ہے۔ نہایت ہی کم، تنگ و چست کپڑوں میں اپنے بدن کے نشیب و فراز کی نمائش کرتی ہوئی لڑکیاں، موبائل، انٹرنیٹ، یوٹیوب، سرعام نوجوان کپلس کا رومانس دیکھ کر رمیش کے ذہن پر آسیب سوار ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے اندر کوئی لاوا سا پکتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ پہلے فحش کتابیں سات پردوں میں پڑھی جاتی تھیں، پھر بھی کبھی کبھی وہ وبال جان بن جاتی تھیں۔ لیکن آج فحش فلمیں بھی سات پردوں میں نہیں دیکھی جاتیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ہاتھوں میں اینڈرائڈ موبائلز آ گئے ہیں۔ اور ان موبائلز میں کیا کچھ نہیں ہیں۔ اب سات پردوں کی بات تو دور ہے ایک پردہ بھی درمیان میں حائل نہیں رہا۔ محمد بشیر مالیر کوٹلوی نے سماج میں پھیل چکی بیماری کو اجا گر کیا ہے۔ اور اس کا حل بھی بتا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں ریڈ لائٹ ایریا ہو گا وہاں چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ریپ جیسے مسائل درپیش نہیں ہوں گے۔ محمد بشیر مالیر کوٹلوی نے بتایا ہے کہ ریڈ لائٹ ایریا سماج کے لیے گندی نالی کے مترادف ہیں۔ اور گندے پانی کی نکاسی کے لیے گندی نالی بہت ضروری ہے۔ افسانہ ’’آسیب‘‘ سماجی برائی کے خلاف احتجاجی صدا ہے۔ جو ایک حساس ادیب کا فرض بھی ہے۔

مئی 2019 کے جریدے میں شائع عبدالصمد کا افسانہ ’’آخری غم‘‘ اچھا افسانہ ہے۔ یہ اعلیٰ طبقے اور بزنس گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ جسے ادب سے دلچسپی ہے اور وہ مسلسل ڈائری لکھتی رہتی ہے۔ اس کے قریب میں ہی ایک افسانہ نگار رہتے ہیں۔ وہ ایک دفعہ ان کے پاس اپنی تحریروں کی اصلاح کے لیے جاتی ہے۔ پھر آنے جانے کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لڑکی اور افسانہ نگار دونوں ایک دوسرے میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ پھر اچانک لڑکی کے گھر والے اس کی شادی ایک بہت بڑے بزنس مین سے کرا دیتے ہیں۔ شادی کے بعد ایک روز سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کے ہاتھ سودا سلف کی پڑیا کا ایک کاغذ لگتا ہے۔ اردو کے اس پرزے میں اس افسانہ نگار کے انتقال کی خبر چھپی ہوتی ہے۔ وہ اکیلے میں جاکر اس خبر کو پڑھتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں جاری ہوجاتی ہیں۔ پھر اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی کانچ کی دو چوڑیاں توڑ کر انہیں بالکونی میں لگے پھولوں کے گملے میں ڈال دیتی ہے۔

ستمبر 2019 کے رسالے میں فیروز عابد کا افسانہ ’’ہاتھ رستہ ہوا ہے نرگس کا‘‘ مسلمانوں کے ماضی و حال کو بیان کرتا یہ ایک علامتی افسانہ ہے۔ راوی کے ساتھ ساتھ میں نے بھی مختلف مقامات کی سیر کی۔ کہانی ایک تاثر کے گہرے ہوتے ہوئے مختلف جہتوں میں سفر کرتی ہے۔ اردو میں ایسی کہانیاں اکثر جدیدیت کے عہد میں لکھی گئیں۔
معین الدین عثمانی کا افسانہ ’’سوال‘‘ میں، تقسیم کا المیہ، دہشت کے سائے میں زندگی گزار رہے لوگوں کا درد اور اپنے سے جدائی کا کرب جھیل چکے طبقے کی داستان پیش کی ہے۔ یہ موضوع ایک بڑا موضوع ہے۔ جس کے تحت کئی ناولز اور افسانے بھی تخلیق ہوئے ہیں۔
ملکیت سنگھ مشانا کا افسانہ ’’نایاب سونا‘‘ اچھا افسانہ ہے۔ اس افسانے میں تجسّس ہے، روانی ہے اور ایک اچھی کہانی بھی۔ مصنف نے بہت ہی اچھے طریقے سے اس کہانی کو بنا ہے۔ جسے پڑھ کر محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ ٹی وی پر کوئی کہانی چل رہی ہو۔ ورنہ کچھ کہانیاں تو قاری کے وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔

جنوری 2020 کے شمارے میں سہیل اعجاز صدیقی کا افسانہ ’’خوف‘‘ حکومت کی چال بازیوں کی داستان ہے۔ موہت راوی کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتا ہے، ’’تو یہ ہے وہ بھوت جو ہمیں ڈرانے کے لیے سرحد پار سے بلایا جاتا تھا۔‘‘ یہی بھوت آج بھی بلایا جا رہا ہے۔ موہت اور راوی تو حقیقت جان گئے اب عوام کو سمجھنا ہوگا۔ مائیں بچوں کو بھوت سے ڈراتی ہے تاکہ وہ جلد سو جائے اور حکومت عوام کو بھوت سے ڈراتی ہے تاکہ وہ نیند سے بیدار ہی نہ ہوں۔ جبکہ دونوں کے عمل درست نہیں ہیں۔ بچے جلد نہیں سوتے، وہ اس لیے زیادہ کھیلتے ہیں کیونکہ ان میں اضافی توانائی ہوتی ہے، جسے وہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کو بھوت سے ڈرا کر جلد سلانے کی بجائے ان کی توانائی کو بہتر آموزش کے عمل میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عوام کو نیند سے بیدار کر کے ان کی صلاحیتوں سے تخلیقی اور ملک کی ترقی کے کام لیے جاسکتے ہیں۔

فروری 2020 کے جریدے میں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا افسانہ ’’گئو دان سے پہلے‘‘ حالات حاضرہ کا احاطہ کرتا ہوا افسانہ ہے۔ گائے کو آشرم دان کرنے جا رہے ہر پال تاؤ اور ڈرائیور کو راستے میں گئو رکھشک روک لیتے ہیں۔ پھر انھیں لاٹھی ڈنڈوں سے خوب پیٹتے ہیں۔ معاملہ پولیس تھانے پہنچتا ہے۔ ہرپال تاؤ کی گرفتاری کی خبر سن کر ان کی بیوی بیروتی تائی کی موت ہو جاتی ہے۔گائے آشرم پہنچا دی جاتی ہے۔ دو تین دن تھانے میں رکھنے کے بعد ہر پال تاؤ کو پولیس چھوڑ دیتی ہے۔ لیکن مسلمان ڈرائیو کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ افسانہ فلیش بیک تکنیک میں بیان ہوا ہے۔ شکیل اپنے دوست موہن کو کہانی سنا رہا ہے۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے بڑی بے باکی سے موجودہ حالات کی منظر کشی کی ہے۔

اسی شمارے میں خاکسار کا افسانہ’’ریجیکٹ‘‘ بھی شامل تھا۔ سید اسمٰعیل گوہر نے اس افسانے کے متعلق لکھا ہے: ’’نوجوان افسانہ نگار محمد علیم اسماعیل کے افسانے ’’ریجیکٹ‘‘ نے متاثر کیا۔ افسانے کا عنوان ’’ریجیکٹ‘‘ ایک عام سا انگریزی لفظ ہے۔ جس کے معنی ہے رد کرنا۔ لیکن افسانہ نگار نے اِس عام سے لفظ کو افسانے کے توسط سے بڑی گہرائی عطا کی ہے۔ حالانکہ افسانے کا پلاٹ نیا نہیں ہے۔ اِس سے پہلے بھی کئی افسانہ نگاروں نے اِس پلاٹ کو برتا ہے۔ جب بھی کوئی ماں اپنے کماؤ بیٹے کے لیے دلہن تلاش کرنے نکلتی ہے تو کئی لڑکیاں ریجیکٹ کرتی ہیں۔ کبھی لڑکا خود کسی وجہ سے ریجیکٹ کردیتا ہے۔ اِس افسانے میں بھی منّان خان نامی کردار کئی لڑکیاں ریجیکٹ کرتا ہے اور آخر میں خود بھی ایک لڑکی کے ہاتھوں ریجیکٹ ہو جاتاہے۔ زبان وبیان کے معیار پر کھرا اترنے والا یہ ایک اچھا افسانہ ہے۔‘‘ ( ماہنامہ آجکل اپریل 2020/مراسلات/ص 52 )

اپریل 2020 کے رسالے میں مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ’’بلیووہیل اور پاشا مرزا‘‘ شامل تھا۔ ذوقی کا اپنا ایک الگ انداز ہے۔ ان کے افسانوں میں عصری مسائل بڑی بے باکی سے بیان ہوتے ہیں۔ افسانوں میں نئے تجربات کرنے والوں میں وہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اور ان کے تجربات پسند بھی کیے گئے۔ جو آنے والی نسل کے لیے ایک نیا راستہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ کام ذوقی ہی کر سکتے تھے جو انھوں نے کیا بھی ہے۔ پرانی راہوں پر چلنا آسان ہوتا ہے لیکن پرانی راہوں سے ہٹ کر نئے راستے تلاش کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی راہ خود متعین کی ہے اور پورے اعتماد سے کی ہے۔

رینو بہل کا افسانہ ’’عشق نہ پوچھے ذات‘‘ حقیقت پر مبنی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ سچ ہے عشق کبھی ذات پوچھ کر نہیں ہوتا۔ رینو بہل نے بتایا ہے کہ آج آزادی کے 72 سال بعد بھی ذات پات کی گندگی سماج سے نکلی نہیں ہے بلکہ مضبوطی چمٹی ہوئی ہے۔ جس نے ذہنوں کو بھی گندہ کر دیا ہے۔ میں نے ٹی وی پر ایک خبر دیکھی تھی کہ ایک دلت عورت کو اونچی ذات والوں نے پورے گاؤں میں برہنہ گھمایا تھا۔ شاید اسی واقع سے متاثر ہو کر مصنفہ نے یہ افسانہ قلم بند کیا ہو۔ ایک فن کار جب سماج میں کچھ غلط ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ اور قلم کے ذریعے اپنے حصے کا احتجاج درج کراتا ہے۔ اور ہاں کسی خبر کو افسانہ بنانا بھی بڑی فنکاری کا کام ہے۔

حبیب کیفی کا افسانہ ’’دوسری شادی‘‘ میں بھی ذات برادری کا مسئلہ پیش ہوا ہے۔ شاہد احمد کا پیغام رحمت خانم پر جاتا ہے، لیکن رحمت خانم کے والد نعمت علی خاں اسے ٹھکرا دیتے ہیں، کیونکہ شاہد احمد سیّد برادری سے نہیں تھے۔ پھر کئی برسوں بات شاہد احمد کا رشتہ رحمت خانم کی کنواری لڑکی نازنین پر جاتا ہے۔ یہ ایسا وقت تھا جب رحمت خانم بیوہ اور شاہد احمد رنڈوا ہو چکے تھے، اور بزرگی کو پہنچ چکے تھے۔ رشتہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ لڑکی کی شادی نہیں ہو رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ لڑکی کے ایک پیر میں پیدائشی نقص تھا۔ وہ لنگڑا کر چلتی تھی، اور گھر میں سب اس کے ساتھ حقارت بھرا برتاؤ کرتے تھے۔ اسے بوجھ سمجھتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ شاہد احمد کی تنخواہ اچھی خاصی تھی، اور سبکدوشی کے بعد پینشن بھی۔ شادی ہوتی ہے۔ پھر لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے۔ اس خوشی کے موقع پر ہی شاہد احمد کو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے، اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں، لیکن نازنین کو عزت کی زندگی عطا کر جاتے ہیں۔ کہانی حقیقت پر مبنی لگتی ہے۔

ڈاکٹر مدثر رشید کا افسانہ ’’کرتار پور کوریڈور‘‘ تقسیمِ ملک، فساد اور ہجرت کا کرب بیان کرتا ہوا ایک پُر تاثیر افسانہ ہے۔ کرتار سنگھ اور سکینہ افسانے کے اہم اور بڑے ہی جاندار کردار ہیں۔ جنھوں نے سنا تھا کہ آزادی آنے والی ہے۔ اور انھوں نے اس کا بہت انتظار کیا، لیکن وہ نہیں آئی۔ بچپن کے ساتھی بچھڑ گئے اور بڑھاپے میں ملاقات ہوئی، وہ بھی ادھوری ملاقات۔

آجکل ایک تاریخ ساز رسالہ ہے۔ جس میں شائع تخلیقات معیاری ہوتی ہیں۔ چونکہ میں افسانے کا قاری ہوں اور افسانہ لکھتا بھی ہوں اس لیے میں ماہنامہ آجکل میں افسانوں کے ساتھ ساتھ ان کے تجزیے/تنقید بھی پڑھنا چاہتا ہوں۔
——-

محمدعلیم اسماعیل
Share
Share
Share