ہندوستانی مدارس اسلامیہ کا نظام تعلیم و تربیت
فیاض احمد برکاتی مصباحی
جنرل سکریٹری ٹیچرس ایسوسی ایشن
مدارس عربیہ – اکائی بلرامپور
اس وقت پوری دنیا کے مدارس اسلامیہ کا حال یہ ہے کہ ” ایک دھارے میں چلنے کو معیوب سمجھ کر ، پوری قوم کے نفع ونقصان سے بے خبر ، اپنے محدود وسائل کا استعمال ، بزعم خود اسلام کے مرکز ، دین کے سب سے بڑے سچے داعی اور مسلمانوں کے سب سے بڑے مسیحا کے طور پر الگ الگ پگڈنڈیوں پر اپنی گرتی پڑتی چال چل رہے ہیں ۔
نہ کتابیں ، نہ لائبریری ، نہ سلیقے کے اساتذہ ، نہ با ہوش طلبہ ، اگر ان کی دنیا میں چلے جائیں تو یہی احساس ہوگا کہ یا تو یہ لوگ اس زعم میں مبتلاہیں کہ ” ان کی طرف کوئی وحی آئے گی اور یہ لوگ بغیر کتاب کے ساری باتیں جان جائیں گے ، یا اچانک کوئی معجزہ رونما ہوگا اور ساری دنیا اپنا علمی مزاج چھوڑ کر ان کے فرسودہ نظام تعلیم کی گود میں آگرے گی ” ۔جس قوم پر تین سو سال سے ذہنی ، فکری اور عملی غلامی مسلط ہے اس قوم کے رہنماؤں کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ آخروہ اب تک کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں ؟ ۔ جب بھی کوئی نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات کرتاہے تو بیک وقت پورے ملک کے ہر مسالک کے ذمہ دار ایک ہی سر میں ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ ” ہم تو دینی تعلیم کے ذمہ دار ہیں ، ہم اسلام کی تعلیمات کے مبلغ ہیں ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کے امین ہیں ” اس کے جواب میں کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ ” کئی صدیوں سے آپ نے اپنے مزاج کا اوڑھنا بچھونا فلسفہ قدیمہ کو بنارکھاہے اس سے دین کی کون سی تعلیم جڑی ہے ۔ ممکن ہے یونانی فلسفے کے خوگر یہ کہیں کہ ” دین کی تعلیم کا سمجھنا اس فلسفے کے سمجھنے پر موقوف ہے اس لیے اس کو اس دینی تعلیم کا جزء لاینفک بنائے رکھاگیا ہے ” ارے صاحب ! جس دین کی تعلیم کو خدا نے اتنا آسان بنایا تھا کہ ادنی سے ادنی درجے کا اعرابی سمجھ جاتاتھا اس دین کی تعلیم کو آپ نے یونانی فلسفے کی موشگافیوں کے تکیے کا سہارا دےدیاہے ۔ یہ ایک ضمنی بات تھی جو آگئی ۔اصل مقصد یہ ہے کہ گذشتہ تین سو سالوں سے یہ قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے کیا ہمارا یہی نظام تعلیم ہماری پوری قوم کی نیاپار لگائے گا یا ہمیں کچھ سوچنا ہوگا اور اگر سوچنے اور سمجھنے کے بھی روادار نہیں ہیں تو دین کے نام پر چلنے والے ان اداروں کو بند کرکے ” خدا سے کسی تعلیمی ابابیلوں کے بھیجنے کی دعاکرنی چاہیے ” ۔ایک انگریز مؤرخ لکھتاہے کہ ” پچھلی ڈیڑھ صدی کے اندر مسلمانوں کے نوے سے زیادہ ممالک نے غیر مسلم عیسائی اور بدیسیوں کی غلامی قبول کی ” ان بیانوے ممالک کی تاریخ کا جب میں نے مطالعہ کیا تو میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ ” سارے ممالک میں مسلمانوں نے پورے جوش اور جذبہ ایمانی کے ساتھ باہری قوتوں کا مقابلہ کیا لیکن اندرونی سازش اور قدیم نظام تعلیم کی وجہ سے جدید اسلحے نہ ہونے کی بنیاد پر ہر جگہ غلامی قبول کرنی پڑی ” ۔ لیکن ہمارے اکابرین کا ایک طبقہ آج بھی اسی تعلیم کے بوتل سے کسی مسیحاکے نکلنے کا منتظر ہے ۔ یا یہ کہ ” ہماری عقل اب مفلوج ہوچکی ہے ، قوم کے ماضی سے نہ کوئی تعلق ہے ، نہ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کا جذبہ ہے اور نہ ہی مستقبل سازی کی کوئی پلاننگ ۔مجھے اپنے ایک دوست کی ایک بات ہمیشہ یاد آتی ہے کہ ” مسلمان ابھی کم سے کم ڈیڑھ سو سال دنیاوی منظر نامے سے غائب رہیں گے ” مسلمانوں کی ذہنی پستی ، اخلاقی گراوٹ ، دین سے دوری ، معاشی تباہی ، نوجوانوں کا فکری الحاد دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ میرے مفکر دوست کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوگی ۔ ” مدارس اسلامیہ کی بالکلیہ زبوں حالی ”
اس طرح کے موضوعات پر قلم اٹھانے کا مطلب ہے اپنا سر اوکھلی میں ڈالنا ، اپنے بھی ناراض بے گانے کی ناخوشی کے ساتھ مفت میں گالی گلوج بھی ، لیکن مرض چاہے جتنا بڑا اور پوشیدہ ہو اسے مرض ہی کہنا چاہیے مرض کو صحت کی علامت بنانا عقلی خود کشی ہے ۔ جس طرح اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ” ہندوستانی مسلم اسکالرزنے مسلمانوں کے دبے کچلے افراد کو تعلیم سے آراستہ کیا اور انہیں بلندی تک پہونچانے کی کوشش کی اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مخدوش فکروعمل اور سہل پسندی کی وجہ سے اسلام مسلمانوں میں ہی غیر متعارف اور متمول گھرانوں کی پہونچ سے باہر ہوگیا ۔ یا یوں کہہ لیں کہ پچھلی قوموں کی طرح ہم نے بھی اسلام کا دومعیار بناڈالا ” ۔ ان سب کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم اسلام کو اس کی اصل روحانیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ جس کو جس قدر اسلام سے حصہ ملا وہ اس کو اپنے دامن میں سمیٹے دنیا کی تلاش میں نکل پڑا ۔دین کے بدلے جس قدر دنیا حاصل ہوئی اسی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ۔ مالداروں کے لیے اسلام کے علم برداروں نے نرم رویہ اختیار کیا تو نچلے طبقے پر اسے مشکل بناکر پیش کیا جس کے نتیجے میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 80/ فی صد مسلمان اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ۔ بیس فی صد کو اگر کچھ معلوم بھی ہے تو وہ اس کی روحانیت سے بے خبر ہیں ۔ اس میں مدارس اسلامیہ اور اس کے ذمہ داران نے کیسا کردار ادا کیا ہے اس کو اس طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ” ملک کے بہت سے علاقے میں اوباش اور عیاش طبیعت افراد نے دین کے نام پر ادارے کھولے ، کسی عالم کو رکھ کر کام کرایا اور خود کو دین کے اوپر تصور کرنا شروع کردیا ۔ جن کی حماقت کی وجہ سے نہ دین اپنی عزت بچا سکا اور نہ ہی علماء کی معیشت ، عزت کچھ محفوظ رہ سکی "۔ جسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کرے کیا نہ کرے اس نے کوئی دینی ادارہ کھول لیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اب مدرسوں کا حال دیکھئے ! ہندوستان کے کسی بھی مدرسے میں آپ چلے جائیں آپ کو جو کچھ نظر آئے گا اسے چند لفظوں میں بیان کرسکتے ہیں ۔ ایک خستہ حال عمارت جس کو انسانی ذوق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ عمارت کے اندر کچھ چھوٹے بڑے کمرے ، کچھ لکڑی کی چھوٹی بڑی تپائی ، ان ہی کمروں میں بچوں کے بکسے ، پیٹی ، اٹیچی اور بیگ ، کمرے میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے کپڑے ۔ قرآن کے کچھ نسخے ، کچھ بڑی اور چھوٹی سائز کی کتابیں ۔ ان ہی کمروں میں طلبہ کا سونا بھی اور پڑھنا بھی ، وہی ریڈنگ روم اور وہی کلاس روم ۔ اب کچھ جگہوں پر جزوی تبدیلی آرہی ہے ۔ کھانے کا ایسا انتظام کہ اگر روزانہ وہی کھانا جانور کو بھی دیا جائے تو جانور بھی منہ پھیر لیں ۔ لیکن دین کے ان ٹھیکداروں کے نزدیک ایسے کھانے کے حق دار صرف طلبہ ہیں ۔ مدرسے کے چندے سے اکثر نظما کا گھر چلتا ہے ۔ اچھے مکانات بنتے ہیں اور بہترین گاڑیاں لی جاتی ہیں لیکن دین کی تعلیم حاصل کرنے کے نام پر اپنا مستقبل ان درد مندوں کے ہاتھوں بربادکرنے والے بچوں کی قسمت میں بس وہی "ہاف پلیٹ دال اور ادھ کچلے چاول ” ۔اگر کچھ بول دیں تو جواب آتا ہے فری میں کیا کیا دیں ؟ لگتا ہے اپنے گھرکا دیتے ہیں ؟ پوری دنیا تعلیم کے نام پر فیس لیتی ہے تو یہ لوگ کوئی فیس کیوں نہیں وصول کرتے ؟ مدارس کے ذمہ داران اپنے طرزتعلیم کو موڈیفائی کیوں نہیں کرتے اور کیوں دین کی تعلیم کا معیار اتنا بلند نہیں کرتے کہ ہر شخص اس کی طرف پیش قدمی کرے ۔ تعلیم دینے کے لیے سب سے سستے اساتذہ وہ بھی جی حضوری جن کی عادت ثانیہ ہو ، پانچ سے سات ہزار میں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کوئی دہاڑی مزدور بھی نہیں لگاتا لیکن مدارس کے اساتذہ دس ہزار سے زائد کا مطالبہ نہیں کرسکتے ۔اسی دس ہزار میں کھانا پینا ، کرایہ ، بچوں کی پڑھائی لکھائی سب کچھ ۔جان بوجھ کر غلامی کرانا اور ذہنی استحصال کرنا غالبا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ۔
"نظام تعلیم یانظام ڈھکوسلہ بازی ”
مدارس اسلامیہ کا نظام تعلیم یہ ہے "کوئی مستقل نصاب نہیں ( اکثر مدارس کو دیکھتے ہوئے ) ، دوسو، پانچ سو سال پہلے لکھی جانے والی عربی فارسی کی چند کتابیں ،اس کے بھی چند اوراق جو پورے سال میں مشکل سے پڑھائے جاتے ہیں ، میزان منشعب اور نحومیر جیسی ابتدائی کتابیں پورے سال میں ختم نہیں ہوتیں ، دس سال یا پانچ سال پڑھنے کے بعد بھی ننانوے فیصد طلبہ عربی فارسی تو چھوڑئیے اردو کی سوجھ بوجھ کے لائق بھی نہیں ہوتے ۔ دوسری طرف دوسال میں عربی زبان وادب پر مہارت ہوجاتی ہے ۔ ہندوستان میں کئی ایسے ادارے آر ایس ایس کے بینر تلے چلتے ہیں جس میں عربی زبان وادب کی تعلیم دلاکر طلبہ کو مضبوط معاش سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ لاکھوں کا چندہ برباد کرکے اگر اپنے بچوں کو کسی لائق نہ بناسکیں تو اپنا تعلیمی ادارہ بند کردینا چاہیے ۔ ہمارے ملک میں ہزاروں ایسے مدارس ہیں جو پچاس سال سے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں لیکن آج تک ایک بھی ایسا پروڈکٹ نہیں پیش کرسکے جس پر مسلم سماج کو فخر ہو ۔ اکیڈمک اور اسکولنگ سسٹم کا جال بچھا ہے پورے ملک میں کسی بھی نئے طرز تعلیم کو اپنا کر ہم قوم کے بہتر مستقبل میں اپنا کردار پیش کرسکتے تھے لیکن ہمیں تو اپنی ذات سے مطلب ہے قوم کیا ہے اور قوم کی رہنمائی کیا ہے جانے ہماری بلا ۔ ان مدارس کے ذمہ داران اپنے بچوں کے لیے کسی اچھے اسکول کا سہارا لیتے ہیں لیکن ساری قوم کی بھلائی کے لیے ایک قدم بڑھانے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ اگر کوئی ان راستوں کی طرف جھانک بھی لے تو قیامت سے کم مصیبت نہیں آتی ہے ۔ابھی گزشتہ ہفتہ ہندوستان کے مشہور اسلامی اسکالر اور قوم وملت کے لیے بے لوث خدمات پیش کرنے والا مرد درویش پروفیسر اختر الواسع نے مدارس اور اہل مدارس کی سادگی پر گفتگو کی ، پروفیسر واسع صاحب مدارس کے طلبہ کے لیے خدا کی ایک نعمت ہیں اس کا احساس اس وقت ہوگا جب یونیورسٹی کی دنیا میں مدارس کے طلبہ کو کوئی اخترالواسع نہیں ملے گا ۔ ہندوستان کی چند گنی چنی یونیورسٹیز میں ملک بھر کے درجن بھر مدارس کو الحاق یا معادلہ حاصل ہے ۔لیکن اس خوش اسلوبی کے ساتھ کہ جو بھی سنیں اپنا سر پیٹ لے ۔ ایک ہی مدرسے کی ایک ہی سند کہیں انٹر کے مساوی ہے تو کہیں بی اے کے مساوی ۔ ایک مدرسے کو بی اے کے مساوی ماناگیا ہے تو دوسرے کو ایم اے کے مساوی ۔ سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ابھی تک مدارس ہند نے اس باب میں کچھ نہیں سوچاہے کہ ” ہم ہائی اسکول یا انٹر کی سند کی حیثیت اپنی کس سند کو دیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کبھی یونیورسٹیز اور کالج کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں گئی ۔مدارس کے فارغین دس سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی صلاحیت اور سند کے اعتبار سے مسجد اور مدرسہ کے علاوہ کوئی پرائیویٹ نوکری بھی نہیں کرسکتے ۔ مساجد اور مدارس میں بھی علمی صلاحیت سے زیادہ چاپلوسی اور رٹی رٹائی تقریر دیکھی جاتی ہے ۔ ہر سال سیکڑوں فارغین کی وجہ سے مساجد اور مدارس کی انتظامیہ خوب من مانی کرتی ہے ۔
"کیا کرنا چاہیے ”
ملک میں پھیلے ہوئے تمام مدارس یکساں نصاب لائیں ، چھوٹے مدارس اپنا الحاق بڑے مدارس سے کرائیں ۔ بورڈ کا امتحان دلائیں ، اپنی پرائیویٹ سند کی حیثیت سرکاری اداروں میں منظور کرائیں ۔ قوم کی بھلائی کے لیے بین الاقوامی زبان کو فوقیت دیتے ہوئے طلبہ سے اس پر محنت کرائیں ۔ مدارس کو سسٹمائز کریں ۔ ماہرین سے تبادلہ خیال کریں ۔ اچھے اساتذہ کی بحالی کریں ۔ ماحول صاف ستھرا اور اخلاقی رکھیں ۔ غیر اخلاقی حرکات پر سخت نظر رکھیں ۔ تعلیم کو پیڈ کریں ۔ اگراپنے بعد اپنی قوم کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے نظام میں زمانے کے حساب سے تبدیلی ناگزیر ہے ۔