میرزا ادیب
اردو زبان وادب کا ایک منفرد افسانہ نگار
افضل رضویؔ ۔ آسٹریلیا
بیسویں صدی کے معروف افسانہ نگار، تمثیل نگار، خالہ نگار، سوانح نگار، شاعر،نقاداور کالم نویس، میرزا ادیب جن کا اصل نام میرزا دلاور علی تھا، جنگِ عظیم اول کے چھڑنے سے چند ماہ قبل لاہور میں میرزا بشیر علی کے ہاں /4اپریل 1914میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد بھاٹی گیٹ ہائی سکول، جوکہ مزارِ علی ہجویری ؒ سے متصل سرکلر روڈ لاہور پر واقع ہوا کرتا تھا،
(یہ سکول داتا دربار مسجد کے توسیعی منصوبے کے دوران بند کر دیاگیا تھا)سے دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخل ہوگئے جہاں سے انہوں نے بی۔اے کا امتحان آنرز کے ساتھ پاس کیا۔ شاعری سے ابتدائی عمر سے دلچسپی تھی۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق انہوں نے پہلا شعر بکری پر کہا تھا اور اس وقت وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس نویں جماعت سے میری بھی ایک یاد وابستہ ہے اور وہ یہ کہ میں جب پہلی اور آخری بار میرزا ادیب سے ملا تھا تو میں بھی نویں جماعت کا طالب علم تھا اور یہ ملاقات کوئی طے شدہ یا کوشش کے بعد نہیں ہوئی تھی بلکہ اچانک اور انجانے میں ہوئی تھی اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز میرا قلم ان کی یاد میں چند سطریں لکھنے کے قابل ہو گا۔ بلا شبہ میرزا ادیب کا قد کاٹھ اور ادبی خدمات بے مثال ہیں جنہیں ہمیشہ سراہا جائے گا۔ میرزا ادیب سے اس ملاقات اور ان کے کہے ہوئے الفاظ مجھے آج بھی ہو بہو یاد ہیں۔اگر میری یاداشت مجھے دھوکہ نہیں دے رہی تو یہ اکتوبر1979ء کی ایک شام کی بات ہے جب میں اپنے بڑے بھائی کے کلینک پر تھا اور وہ ابھی آئے نہیں تھے کہ ایک کلین شیو صاحب وارد ہوئے جن کے سرکے بال غالباََ پیری کی نذر ہوچکے تھے، نہایت نرم لہجے میں مخاطب ہوئے،’ڈاکٹرصاحب کب آئیں گے‘؟میں نے عرض کیا کہ بس آتے ہی ہوں گے۔تھوڑے سے توقف کے بعد گویا ہوئے،’کیا تم انجیکشن لگا لیتے ہو؟میری بیوی کو انجیکشن کی ضرورت ہے‘۔ ابھی میں نے جواب نہ دیا تھا کہ بھائی جان آگئے اور پھر ہم ان کے گھر گئے۔ ان کا گھر ملت روڈ اسلام پورہ میں واقع تھا۔ان کی زوجہ محترمہ بہت علیل تھیں لیکن مجھے یہ یاد نہیں کہ انجیکشن کس مرض سے نجات کا تھا مگر مرزا صاحب اور ان کی اہلیہ کی نرم مزاجی آج تک یاد ہے۔آج جب میں ان کی یاد میں یہ الفاظ لکھ رہاہوں تو میرا قلم بار با رک جاتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہواور مرزا صاحب کہہ رہے ہوں،’کیا تم انجکیشن لگا لیتے ہو‘؟مرزا ادیب کی شہرت ان کے افسانوں کے مجموعے ’صحرانورد کے خطوط‘ کی بدولت ہوئی اور ایسی شہرت ملی جسے کبھی زوال نہ ہوا۔مرزا ادیب ترقی پسنداور رومانوی تحاریک دونوں ہی کے اہم ترجمان مانے جاتے تھے۔وہ یک بابی ڈرامہ لکھنے میں بھی کمال رکھتے تھے اور ’فاطمہ بنت عبداللہ‘ یک بابی ڈرامہ جو کہ ایک فلسظینی لڑکی کی کہانی ہے،لکھ کر شہرت ِ دوام حاصل کی۔یہ ڈرامہ کئی سال تک دسویں جماعت کے اردو نصاب کا حصہ رہا۔اگر مرزا ادیب کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں علامت نگاری کو نہایت موثر انداز میں استعمال کیا ہے۔اگرچہ ان کے علاوہ کرشن چندر، پریم چند، غلام عباس،منٹو، بیدی، احمد ندیم قاسمی، اور منشا یاد نے بھی علامتوں کا استعمال خوب کیا ہے لیکن ان کا مقام بلند نظر آتا ہے۔ بقول شاعر
لوگ ان کو ادیب کہتے ہیں
اور ادب بھی ہے ان کا لافانی
طرزِ گفتار بے مثال ان کا
اور تکلم میں اپنے لاثانی
میرزا ادیب نے اپنے ستر سالہ تخلیقی سفر میں بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں۔ علاوہ ازیں کئی جرائد کے مدیر بھی رہے۔ان کی خود نوشت ’مٹی کا دیا‘ بھی ایک ورثے سے کم نہیں۔ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کے بارے1990میں ایک انٹرویو میں کہا تھا،’جب آدمی سفر کرتا ہے تو گرم ریت بھی پاؤں کے نیچے آتی ہے اور سبزہ بھی، پتھریلی زمین بھی اور رکاوٹیں بھی راہ میں آتی ہیں لیکن میں رکا نہیں اورمختلف اصنافِ ادب کو اس لیے اپناتا رہا کہ ہر صنف ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی خدمت کر سکوں‘۔ سات دہائیوں تک قلم کی دولت لٹانے کے بعد یہ نابغہئ روز گار /31جولائی 1999کو اس دنیا سے کو چ کر گیا۔
—