ڈاکٹر شبیر احمد قادری
اک عہدِ بے مثال ،اک فردِخوش خصال
ریاض احمد قادری
گورنمنٹ پوسٹ گریجو ایٹ کالج سمن آباد فیصل آباد
یادوں کے دریچے سے ذرا جھانکوں تو مجھے یاد ہے کہ جب میں نے 1978 میں روزنامہ امروز بچوں کی دنیا میں کہانیاں لکھنا شروع کیں اس وقت میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اسی دوران ایک دن شمع بکسٹال نڑوالہ چوک پر میری نظر بچوں کے ایک رسالہ ” بچوں کی باجی” پر پڑی، فوراََ خرید لیا ایک روپیہ قیمت تھی۔
اس میں ایک اشتہار پڑھا لکھا تھا دو ماہ بعد "بچوں کی باجی” کا ” شرارت نمبر شائع ہوگا اپنی تحریریں ارسال کریں۔ میں نے بھی اپنی ایک شرارت لکھی اور ڈاک کے سپرد کردی۔ رائل پارک لاہور کا ایڈریس تھا، دوماہ بعد شرارت نمبر شائع ہوا تو میں اپنی شرارت اس میں دیکھ کر بہت خوش ہوا پھر مجھے پتہ چلا کہ اس رسالے کا مرکزی دفتر حکیماں والا چوک سول کوارٹرز غلام محمد آباد میں ہے۔ میں پیدل ہی ایک دن وہاں پہنچ گیا اور جن ہستیوں سے وہاں پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی ان میں رسالے کے چیف ایڈیٹر جناب شیخ حمید تبسم اور ان کے جلو میں دو انتہائی خوش پوش اور خوبصورت نوجوان موجود تھے۔ شیخ صاحب نے تعارف کروایا ایک تھے جناب شبیر احمد قادری ، اور دوسرے انجم سلیمی جو اس وقت اے ایس پومی کے نام سے جگنو لاہور میں مسلسل شائع ہو رہے تھے اور اب بچوں کی باجی میں بھی کہانیاں لکھ رہے تھے۔ یہ تھا ہمارا پہلا تعارف اس عظیم شخصیت سے جو بعد میں اپنی مسلسل ریاضت، محنتِ شاقہ اور شبانہ روز جدو جہد سے پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد قادری بنے اور اپنی اسی حیثیت سے شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سینئر ترین استاد کی حیثیت سے سینکڑوں طلبہ کو پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالہ جات میں رہنمائی مہیا کرنے اور ہزاروں طلبہ کو اردو زبان و ادب کی تدریس کے بعد 22 جولائی 2020 کو اپنی عمرِ عزیز کے ساٹھ سال پورے ہونے پر بہ امرِ ربی ریٹائر ہو رہے ہیں۔
اس وقت وہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں سال اول کے طالب علم تھے اور انجم سلیمی میٹرک کر رہے تھے۔میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ اس وقت میں شبیر احمد قادری کی تحریریں روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ایڈیٹر کی ڈاک میں پڑھا کرتا تھا اور ادارتی صفحے پر بھی ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ بچوں کے رسائل مین ان کے معلوماتی مضامین شائع ہوتے تھے۔جناب شیخ حمید تبسم مرحوم و مغفور نے آداب عرض کے سرکولیشن مینیجر اور پھر ڈپٹی ایڈیٹر کے طور پر ملک گیر شہرت حاصل کر رکھی تھی۔ان کے دو نال ” مظلوم ظالمہ” اور ” پجارن کے خطوط” شائع کر داد و تحسین حاصل کر چکے تھے۔اپنے رسائل اور کتب کی فروخت کے حوالے سے ان کی دوستی فیاض بکڈپو امین پور بازار فیصل آباد کے مالک جناب فیاض احمد مرحوم جنہیں بعد میں انہوں نے فیاض احمد فیاض بنا دیا سے تھی۔ جناب شیخ حمید تبسم نے انہیں اپنے بک ڈپو کی طرف سے کتب شائع کرنے کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے کہا مگر یہ کتابیں لکھے گا کون؟ انہوں نے کہا اس بات کی فکر نہ کریں میرے پاس دو لکھاری ہیں۔ شبیر احمد قادری اور انجم سلیمی۔ بس پھر کیا تھا شبیر احمد قادری نے رات دن کی محنت سے بے شمار کتب تشکیل دے ڈالیں۔ ہر ماہ ان کی ترتیب دی ہوئی کتاب ماہانہ رسالہ کی طرح نکلتی اور ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر کے بک سٹالوں پر فروخت ہوجاتیں، ان میں شعروں کی خوشبو، غزلوں کی خوشبو، شعروں کا انتخاب، شعروں کی ڈائری، ریشمی شعر ، نت نئے عنوانات سے اساتذہ ، موجودہ اور نوجوان شعرائے کرام کا کلام شائع ہوتا۔ انہوں نے جنرل نالج کوئز کی بھی بے شمار کتب ترتیب دیں جن میں معلومات پاکستان ، معلومات اسلام، اقبالی معلومات، ادبی معلومات ، کرکٹ کوئز وغیرہ شامل تھیں ۔ شبیر احمد قادری کی تقلید میں دیگر نوجوانوں نے بھی کتب ترتیب دینا شروع کیں اور اس صف میں شامل ہوئے ۔اتنی محنت بے لوث اور بلا معاوضہ ۔ پبلشر کو اور کیا چا ہئے تھا۔ کام شبیر احمد قادری کا اور انعام ان کا ۔ لیکن آج جو شبیر احمد قادری نے حاصل کیا وہ کوئی اورحاصل نہ کرسکا۔اس وقت شبیر احمد قادری نے اساتذہ کی روح اپنے اندر حلول کرلی اور تحقیق و تدوین اور تنقید کا وہ جوہر اپنے اندر سمو لیا جو کسی بھی محقق، نقاد، تدوین کار اورادیب کے لئے لازمی طور پر درکار ہوتا ہے۔ تمام رات جاگ کر وہ کتب ترتیب کرتے اور دن کو اپنی کلاس پڑھتے۔ اسی دوران جناب شیخ حمید تبسم مرحوم نے ایک تنظیم ” چلڈرن ویلفیر ایسوسی ایشن آف پاکستان” بنائی جس کے وہ بانی و سرپرست تھےاور شبیر احمد قادری اس کے صدر اور انجم سلیمی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے مجھے اس تنظیم کا پریس سیکرٹری منتخب کیا گیا۔یہیں سے جناب شبیر احمد قادری میں تنظیمی امور کا شعور پختہ ہوا،اس تنظیم میں ان کا شعبہ نقابت تھا۔ شیخ حمید تبسم مرحوم کی کاوشوں سے جو ادیب شاعر پروان چڑھے ان میں طالب فیصل آبادی، غلام حسین زاہد، سرفرازناز ، طالب رحمانی نثار احمد ، صادق راہی،
شامل تھے۔
شبیر احمد قادری کی یہ شروعات تھیں، میں ان کو روزِ اول ہی سے آئیڈیلائز کررہا تھا اور میری خوا ہش تھی کہ میں ان جیسا بنوں ۔ ان جیسا تو نہ بنا نہ بن سکتا ہوں لیکن شہر کی ادبی دنیا میں بقول جاوید تسکینؔ وہ بڑے قادری صاحب اور میں چھوٹا قادری بروزن استاد بڑے غلام علی خان اور استاد چھوٹے غلام علی خان جانا جانے لگا۔ کچھ دوستوں نے ہمیں قادری برادران کہنا شروع کردیا مجھے اس پر آج بھی ناز ہے شبیر احمد قادری بی اے کے آخری سال میں تھے جب میں نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں سال اول میں داخلہ لیا۔ان میں موجودہ خصائص پہلے دن سے ہی موجود تھے۔ سنجیدگی، متانت، ذہانت، رکھ رکھائو، تہذیبی شعور، مجلسی آداب، حسِ مزاح، حسنِ نظامت۔شبیر احمد قادری کی ملاقات شہر کے نامور ادیبوں سے ہوئی اور انہوں نے اس ادبی میدان میں اپنی بھرپور ادبی خدمات پیش کی۔ شہر میں حلقہ اربابِ ذوق کی برانچ موجود تھی انہوں نے اعجاز ناصر، ؔ شاعر ڈرامہ آرٹسٹ سے مل کر اسی کے وزن پر اور اسی انداز میں حلقہ احبابِ ذوق فیصل آباد قائم کی اور اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1983 میں نوجوانوں کی ادبی تنظیمیں ” تہذیب و ثقافت کمیٹی” اور یارانِ نکتہ داں” قائم ہوئیں ۔ان دونوں تنظیموں کا صدر شبیر احمد قادری کو منتخب کیا گیا جن کے تحت شہر میں بے شمار تقریبات منعقد ہوئیں ۔ پروگرام کا دعوت نامہ شبیر احمد قادری ہاتھ سے لکھتے تھے اسے فوٹو سٹیٹ کرواتے پھر لفافوں میں ڈال کر شاعروں ادیبوں کے گھر پہنچاتے نہ ٹیلی فون کا زمناہ نہ کوئی اور ذریعہ اطلاعات۔ بائیسکل سب سے بڑی سواری تھی ۔ اسی پر میں اور شبیر احمد قادری شاعروں کے ہاں گھر گھر جاتے وہ بھی بغیر سائیکل ویگن پر بیٹھ کر تشریف لاتے جس کا کرایہ ایک روپیہ ہوتا تھا اکثر پروگرام نڑوالہ چوک میونسپل لائبریری میں ہوتے تھے جو شہر کا مرکزی ویگن سٹاپ تھا۔ پروگراموں میں شعرائے کرام کی حاضری آج سے کہیں زیادہ ہوتی ۔ جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر پروگرام ” فنکشن میگزین” اور” سخن دلنواز” تھے جن میں نثری اور شعری تخلیقات ایک میگزین کی طرح پیش کی جاتی تھیں۔ انہی تنظیموں کے تحت نصرت فتح علی خان کے اعزاز میں بھی تھری سٹار ہوٹل میں پروگرام منعقد ہوا۔ جاوید تسکین انہی پروگراموں میں اپنے طنزو مزاح سے بھرپور فکاہیہ مضامین پڑھتے تھے اور ان کی ایک مزاح نگار کے طور پرشہرت پورے ملک میں پھیل گئی ۔ اسی دور میں میاں اقبال اختر نے ادبی تنظیم ” صدف” بنائی اور اس کے تحت جمعرات وار ادبی نشستوں کا سلسلہ شروع کیا ان کی سب سے بڑی دریافت مقصود وفا، سمیع اللہ عرفی، خاور جیلانی ، ناصر مجیداور محمد نعیم ثاقب ہیں۔ جناب شبیر احمد قادری نے صدف میں بھی اہم کردار ادا کیااور صدف کی ادبی خدمات پر ایم فل اردو کے مقالہ کی نگرانی فرمائی جو میاں اقبال اختر کے صاحبزادے میاں سرمد اقبال نے جی سی یونیورسٹی شعبہ اردو کے تحت تحریر کیا۔
شبیر احمد قادری ایک اور بڑا حوالہ ادبی صحافت کا ہے جس کا آغاز وہ 1975 ہی سے کر چکے تھے لیکن 1982 میں ڈیلی بزنس رپورٹ میں انجم سلیمی کے ساتھ مل کر رنگین ادبی صفحہ کا آغاز دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ اس وقت صرف روزنامہ جنگ کا رنگین ادبی صفحہ مشہور تھا فیصل آباد سے رنگین ادبی صفحہ کی اشاعت شہر کے ادیبوں کے لئے انتہائی حیران کن بھی تھی اور مسرت انگیز بھی۔اس صفحہ میں کسی ادیب شاعر کا نام ہی شائع ہوجانا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ شبیر احمد قادری اور انجم سلیمی اپنے ناموں کے پہلے پہلے حروف کو جوڑ کر "شاقاس” ( شبیر احمد قادری انجم سلیمی) کے نام سے مشترکہ ادبی کالم لکھتے تھے جس میں بڑے چبھتے ہوئے انکشافات ہوتے تھے۔ پھر شبیر احمد قادری بطور انچارج ادبی صفحہ روزنامہ ” عوام” فیصل آباد میں تشریف لائے اور چھا گئے۔ اب ان کی شہرت ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ اس صفحہ کو بذریعہ ڈاک ملک بھر کے تمام ادیبوں شاعروں کی میز تک پہنچایا جاتا تھا۔ جناب شبیر احمد قادری بہت محنت کرتے تھے۔ صفحہ ہاتھ سے کتابت ہوتا تھا۔ وہ رات دو بجے تک بھی دفتر میں رہتے پورا صفحہ جڑوا کر عوام کی سیڑھیاںاترتے اور صبح ہونے تک پیدل ہی کبھی اکیلے کبھی علی محسن کے ساتھ اپنے گھر منصور آباد پہنچ جاتے اس کا تفصیلی احوال سید علی محسن اپنی تحریروں میں بتا چکے ہیں۔پھر لاہور سے ڈاکٹر علی اختر شمار نے اپنا مکمل ادبہ ماہانہ اخبار بجنگ آمد نکالا تو شبیر احمد قادری کو ان کا فیصل آباد میں بیورو چیف بنایا گیا۔انہوں نے اس کا بھی حق ادا کردیا شہر کے ہر ادیب شاعر کو اس کا ممبر بنایا اور سالانہ خریداری کی فیس انتہائی ایمانداری اور دیانت سے لاہور ہیڈ آفس پہنچا دیتے۔
شہر بھر کی سب سے زیادہ ادبی خبریں، کتابوں پر تبصرے، ادیبوں شاعروں کے انٹرویو وہ بجنگ آمد میں شائع کرواتے تھے۔فیصل آباد ان دنوںادبی دنیا میں پہلے نمبر پر آگیا اور شبیر احمد قادری اس کی وجہ تھے۔ خود پس منظر میں رہے دوسروں کو پیش منظر پر لاتے رہے۔
جب انہوں نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ایم اے اردو کرلیا تو شہر کے ادیبوں میں بھی خوشی منائی گئی۔ فیاض احمد فیاضؔ مرحوم نے ٹی پارٹی کا اہتمام کیا اور شبیر احمد قادری کی ترتیب شدہ تمام کتب کے نئے ایڈیشن شائع کئے جن میں ان کی تعلیمی قابلیت کو بھی اپڈیٹ کیا گیااور شبیر احمدقادری ایم اے لکھا گیا۔ 1986 میں جب وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں لیکچرر اردو منتخب ہوئے تو شہر کے تمام ادبی حلقوں میں بے پناہ خوشی منائی گئی۔ ان کے اعزاز میں شہر مین ایک بہت بڑی ادبی تقریب پذیرائی منعقد کی گئی جس میں انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا میاں ندیم باری ؔ نے اپنے شعلہ بیاں خطاب میں کہا "مجھے آج خوشی ہے کہ شبیر احمد قادری ایک استاد بن کر جارہا ہے وہ پاکستان کی نسلِ نو کی علمی ادبی اور اخلاقی تربیت کرے گا۔ وہ پاکستان کا آنے والا مستقبل سنوارے گا۔ وہ ایک بزنس مین نہیں بنا نہیں تو وہ پیسے جمع کرنے کے لالچ میں مصروف ہو جاتا وہ ایک بینکر نہیں بنا نہیں تو وہ رات دن سکے گنتا رہتا وہ ایک استاد بنا ہے وہ حرف شماری کرے گا اور زندگی بھر لفظوں کی قیمت پر کھے گا "۔ آج ان کی ریٹائر منٹ پر ہمیں انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے کہ انہوں نے نہ صرف ان توقعات کو پورا کیا بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر زیادہ بہتر حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ما شاء اللہ سبحان اللہ ۔ وہ شہر کی ادبی تقریبات اور ادیبوں کی جدائی برداشت نہ کر سکے اویر ایک سال بعد ہی پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور سے منتخب ہوکر گورنمنٹ کالج جڑانوالہ تشریف لائے اور اپنے ایک سال پہلے ٹوٹ جانے والے ادبی خدمت کے سلسلے کو پھر وہیں سے جوڑ لیا۔
28 مئی 1987 کو روزنامہ عوام فیصل آباد کے ایڈیٹر استادِ محترم جناب قمر لدھیانوی ؒ انتقال فرماگئے ۔ ان کی نشست جناب محمد ظہیر قریشیؒ نے جناب شبیر احمد قادری کے سپرد کی ۔ وہ اس ایڈیٹر شپ کے دور میں بھی ادبی خدمت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ ادبی صفحہ مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اداریہ لکھتے رہے۔ تمام انٹرویوز بھی خود لکھ کر شائع کرتے رہے۔کراچی سے جناب صبیح رحمانی نے نعت رنگ نکالا تو اس کے ادارہ تحریر میں شامل ہوئے اور تصنیف و تالیف اور تحقیق و تنقید میں موثر کردار ادا کیاشیخ زکریا اشرفی نے نعت نیوز نکال تو انہین بھرپور صحافتی اور تحریری تعاون فراہم کیا۔ پیر آصف بشیر چشتی مرحوم ؒنے ” شہرِ نعت” نکالا تو اس کے ایڈیٹر بنے اور بے لوث کام کیا۔
وہ ادیبوں شاعروں کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔اصل میں ان کی فیملی یہی ادیب شاعر بن چکے تھے۔ یہ ان کے اہلِ خامہ بھی تھے اور اہل ِ خانہ بھی۔ شبیر احمد قادری نے اپنی زندگی کا سب سے زیادہ وقت انہی میں گزارا تھا۔ حتی ٰ کہ تمام رات بھی وہ شعرائے کرام میں بیٹھے رہتے تو انہیں کبھی کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ وہ سب کے گھروں میں جاتے رہتے تھے۔ فیصل آباد کی دو ادبی نسلیں ان کے سامنے پروان چڑھیں۔ وہ ان تمام بزرگ شعرائے کرام کے جنازوں میں شریک ہوئے جو ان 42 سالوں کے دوران انتقال فرماگئے۔ ان کی یاد میں تقاریب منعقد کیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ادبی ایڈیشن شائع کئے۔ ان کی برسیوں پر مکمل اشاعت اور پروگرامز کا اہتمام کیا ان کی اتنی زیادہ ادبی خدمات ہیں کہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں انہیں جتنا بھی خراج ِتحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
1995 میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد تشریف لے آئے تو زیادہ کھل کھلا کر ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 25 سال جو ایک صدی کا چوتھا حصہ بنتا ہے ، گورنمنٹ کالج کو دئے۔ ان کی ان ربع صدی کی خدمات کا احاطہ ہی ناممکن ہے۔2002 میں یہ ادارہ کالج سے یونیورسٹی میں بدل گیا تو ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوگیا اور انہوں نے ایم فل کی کلاسز کی تدریس ، مقالہ جات کی نگرانی اور سیمینارز کے انعقاد میں قائدانہ کردارادا کیا ۔ اپنی تعلیمی استعداد میں بھی مسلسل اضافہ کیا۔اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی
وہ اپنے اساتذہ کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں ان کے مودب ترین شاگرد ہیں ۔ پروفیسر عصمت اللہ خان مرحومؒ شبیر احمد قادری کا استاد ہونے پر انتہائی نازاں تھے اور ان کا نام فخر سے لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ریاض مجیدؔ سے تو ان کا تعلق انتہائی مثالی ہے۔وہ ان کے ایم اے اردو کے مقالہ ” سرور بجنوری حیات و خدمات”، ایم فل اردو کے مقالہ ” خلیق قریشی کی علمی وا دبی خدمات ” اور پی ایچ ڈی کے مقالہ ” حافظ لدھیانوی حیات و فن ” کے نگران مقالہ ہو کر پاکستان میں منفرد اعزاز بنا چکے ہیں یہ ایسا ریکارڈ ہے جو شاید ہی کبھی ٹوٹے کہ ایک ہی استاد ایم اے ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے کا نگران ہو
بقول احمد فراز
؎ ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فرازؔ
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا۔
آج 22 جولائی 2020 کو اپنی سروس مکمل کرکے اپنی ہی مادرعلمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔جہاں انہوں نے اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ بھی کام کیا۔ اپنے کلاس فیلوز اور ہم عصر رفقائے کار کے ساتھ بھی کام کیا اور آج اپنے بعد میں آنے والی نسل یعنی شاگردوں کے ساتھ بھی کام کیا کم و بیش تین نسلوں کے ساتھ کام کرنے کا بھی تجربہ ایک منفرد ریکارڈ ہے ۔ میرا اور ان کا تعلق 42 سال سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے میں ان کے نقشِ قدم پر چلتا رہا وہ ہمیشہ مجھ سے آگے رہے۔ آج وہ ایک مستند محقق، ثقہ ادیب، مسلمہ دانشور، صاحب الرائے نقاد اور نامور دانشور کے طور پر مقام و اعزاز حاصل کر کے فن کی معراج پر پہنچ چکے ہیں اور بامِ عروج پر پہنچ کر ریٹائر ہو رہے ہیں میں انہیں وہیں سے کھڑا حیرت سے دیکھ رہا ہوں جہاں وہ 1978میں مجھے ملے تھے ۔ وہ بڑے سے بھی بڑے قادری بن گئے اور میں چھوٹے سے بھی چھوٹا۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری آپ کی عظمت کو سلام ۔
وہ اب بھی مجھ سےکہیں آگے نکل چکے ہیں بقول اقبال
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنےوالے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار نے انہیں بہترین خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ جو سلسلہ انہوں نے ” کتب مینار” کے نام سے عوام میں شروع کیا تھا اسے فیس بک پر بھی جاری رکھا اور آج کل ایک فیس بک پیج پر جاری رکھے ہوئے ہیں
میں انہیں بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں نے ہر لمحہ ان سے سیکھا وہ میرے بھی استاد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت تندرستی توانائی درازی ءِ عمل عطا فرمائے اور وہ باقی زندگی بھی ہنسی خوشی گزاریں ۔آمین
شبیر قادری
اک فرد خوش خصال ہےشبیر قادری
اک عہد لازوال ہےشبیر قادری
اک انجمن ہے آپ جو خود اپنی ذات میں
وہ صاحب کمال ہےشبیر قادری
استاد محترم ہے وہ معمار قوم ہے
جس کو نہیں زوال ہےشبیر قادری
خوش پوش خوش مزاج خوش بخت خوش مذاق
اک پیکرِ جمال ہے شبیر قادری
تحقیق نقدونظر اور تدریس علم و فن
ہر جا پہ با کمال ہے شبیر قادری
افضل حمیدؔ، ماجد ؔاور عزیزؔ کے بقول
اک عہد بے مثال ہےشبیر قادری
عظمت میں جو مثال بھی اپنی ہے خود ریاضؔ
وہ مرد بے مثال ہے شبیر قادری
ریاض احمد قادری
—–
One thought on “ڈاکٹر شبیر احمد قادری : اک عہدِ بے مثال ،اک فردِخوش خصال :- ریاض احمد قادری”
بہترین شخصیت۔بہترین مضمون۔ خوبصورت تحریر۔