افسانہ : ننھی کلی
تحریر : منیب مسعود
وہ سٹریچر پر بے سدھ پڑی تھی مگر ٹوٹتی سانسیں اب بھی چل رہی تھیں۔ دل کی دھڑکن مدھم پڑ چکی تھی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دل دھڑک دھڑک کر اب تھک چکا ہو اور ابدی سکون کا متمنی ہو۔ ننھی پری کا گلاب جیسا جسم مانو مرجھائی ہوئی کلی کی مانند ہوا کے آخری جھونکے کے انتظار میں تھا اور گرم اتنا کہ جیسے تپتے صحرا پہ عمر گزاری ہو ۔
اتفاق سے آج رات ہی میری سول ہسپتال میں نائٹ ڈیوٹی لگی تھی ، ویسے تو عوام الناس میں ہمارا طبقہ کچھ بےحس اور کام چور تصور کیا جاتا ہے، وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ عموما ایسے مریض جو آخری سانسیں لے رہے ہوں ان کو دیکھ کر بھی ہمارا دل نرم نہیں پڑتا اور انسانیت سے ہمدردی تو جیسے ہمارے خون میں ہی شامل نہ ہو، مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہر روز سینکڑوں مریض دیکھ کر اور علاج کرکے جب ہماری طاقت ختم ہو چکی ہوتی ہے، جب ہم حواس کھو بیٹھتے ہیں اور جب ہمدردی بھی چار گھنٹے کا آرام چاہتی ہے تو کس طرح پھرتی سے چاک و چوبند ڈیوٹی پر لگ جائیں ۔اس ہمدردی کو زندہ کرنے کے لیے رات کے آرام کی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگلے روز سویرے ہی کسی کا لاڈلہ پھر ہمارے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور یہی ساری زندگی کی روٹین ہے۔
بہرحال اس بے حسی کے باوجود میرے دل میں اس انمول کلی کے لئے کچھ عجیب سا انس پیدا ہوگیا تھا ،جس کا کوئی وارث ابھی تک نہ پہنچا تھا ۔ایمرجنسی واڑڈ میں ہی اس کو ابتدائی طبی امداد دی گئی تھی مگر سانس اکھڑ رہی تھی۔ پھر اسکے اجڑے بال اور چہرے پر نشانات زیادہ پریشان کرنے لگے تھے۔ دل میں کچھ عجیب سا خوف بڑھنے لگا تو کچھ اہم ٹیسٹ کروانے بھجوا دیا ،معصوم بہت دبلی پتلی تھی اور لباس سے متوسط گھرانے کی عزت معلوم ہوتی تھی ،عمر کوئی لگ بھگ سات برس کے قریب تھی ۔
کافی انتظار کے بعد جب میں نے پریشان حال نرس کو دیکھا تو پریشانی بڑھ گئی۔ چند لمحوں بعد ٹیسٹ رپورٹ پڑھ کر بے اختیار اِس بے حس ڈاکٹر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ،وہی جس کا ڈر تھا، زبردستی اپنے دل کو جس بات پر یقین کرنے سے ہچکچا رہا تھا ،ہر آئے دن سینکڑوں وطن عزیز کی معصوم کلیوں کی طرح یہ بھی کسی حیوان کی درندگی کا نشانہ بن چکی تھی اور اس کی جان بچانے کےلیے میری آس ٹوٹ چکی تھی ۔کیوں کر میں اس کو زندہ رکھتا ؟ کیوں ؟
اِس واسطے کے اس کی ذات والدین کی شرمندگی کا باعث بنے یا اِس واسطے کہ جب یہ سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچے تو اس کے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں اور بقیہ زندگی کوٹھے کی رکھیل سے بھی بد تر ہو اور حیرت کی بات یہ کہ وہی معاشرہ جو اس کلی کو یہ داغ دیتا ہے پھر وہ خود ہی رشتے جوڑنے سے انکار بھی کر دیتا ہے کہ”یہ تو داغدار ہے “۔
آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے رئیس معصوم بچی کو گڑھا کھود کر اندر ڈالتے پھر اس کے آنسو سے بھرے چہرے پر مٹی ڈالنا شروع کر دیتے اور جب سسکیوں کی آواز مدھم ہوتے ہوتے خاک میں مل جاتی تو واپس لوٹتے۔میں یہ سوچتا ہوں کہ وہ کفار زیادہ بدکردار تھے یا آج کا مسلمان؟
انہی سوچوں میں گم تھا کہ نرس دوبارہ میرے ضمیر کو جھنجوڑ تے ہوئے یوں گویا ہوئی “sorry sir, she is no more”
اور میں اپنے دل میں جانے کیوں اس کے چراغ گل ہو جانے کی خبر پر الحمدللہ کہنا چاہتا تھا ۔
کیا یہ شکر کا موقع تھا ……؟