دکنی غزل کی روایت اور دکن کی پہلی غزل گو شاعرہ
ڈاکٹر ایم۔معین الدین
حیدرآباد ۔ دکن
اردو ادب کی تاریخ میں سرزمین دکن کوکئی اعتبار سے انفرادی حیثیت حاصل ہے۔اسی سرزمین کواردو کی پہلی ادبی تخلیق کدم راؤ پدم راؤ‘محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہے۔اس مثنوی کاخالق فخردین نظامی ہے۔ جس نے بہمنی سلطنت کے دارالحکومت بیدر میں یہ مثنوی لکھی ہے چنانچہ احمد شاہ ولی بہمنی کی مدح اس میں موجود ہے۔
اس نایاب مثنوی اور شاعر کاذکر سب سے پہلے نصیرالدین ہاشمی نے اپنے ایک مضمون ”بہمنی عہد کاایک دکنی شاعر“ کے ذریعہ اردو دنیا کوواقف کروایا(۱)۔ اس مثنوی کاوحید نسخہ الیاس احمدادریسی کتب فرو ش کی ملکیت تھا۔ادریسی صاحب نے نصیرالدین ہاشمی کومخطوطہ دکھایا اور انہوں نے مطالعہ کے بعد مضمون لکھا۔یہاں اس امر کاانکشاف بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ مخطوطہ چونکہ ناقص الطرفین ہے اور نظامی نے مثنوی کاکیانام رکھاتھا اس کا علم نہیں ہوتا چنانچہ مثنوی کے دومرکزی کرداروں کو بنیاد بناتے ہوئے نصیرالدین ہاشمی نے مثنوی کانام ”کدم راؤ پدم راؤ“ قرار دیاہے۔
قطب شاہی عہد میں بہمنی عہدکی یادگار فیروز بیدری‘ محمود اور ملاخیالی کی چند غزلیں ملتی ہیں اورپھر ملاوجہی‘ حسن شوقی اور ملاغواصی نے دکن میں غزل کی روایت کوآگے بڑھایا۔ محمد قطب شاہ کاجانشین عبداللہ قطب شاہ ہواہے جواپنے دادا محمد قلی قطب شاہ کی طرح شعروشاعری کاوالہ وشیدا تھا۔ عبداللہ بھی صاحبِ دیوان شاعر ہواہے۔
قطب شاہی سلطنت کے شعرا کے برخلاف بیجاپور میں غزل سے زیادہ مثنوی کو فروغ حاصل ہوا۔ محمد قلی قطب شاہ کاہم عصر عادل شاہی سلطان ابراہیم عادل شاہ نورس نے اپنے لئے ایک بالکل نئی راہ منتخب کی تھی چنانچہ اس نے غزل اور مثنوی کے برخلاف گیت لکھے جو اُس کی تصنیف ”کتاب نورس“ میں موجود ہیں۔ حسن شوقی‘ ملاوجہی اور ملاغواصی کاہم عصر ہے جس نے گولکنڈہ میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعدبیجاپور پہنچا اس نے مثنوی میزبان نامہ کے علاوہ غزلوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ حسن شوقی کی منتشر غزلوں کو دکنی کے مختلف محققین نے دریافت کیاہے۔ ان تمام غزلوں کوڈاکٹر جمیل جالبی نے اکٹھا کرتے ہوئے اُس کے دیوان کو مرتب کیاہے۔
محمدقلی قطب شاہ‘ وجہی‘ غواصی اور عبداللہ قطب شاہ کے برخلاف حسن شوقی نے اپنی دکنی غزل کوفارسی رنگ وآہنگ دے کرجدید اسلوب اور نئے معیارِ سخن کانمونہ بنادیاتھا۔ حسن شوقی کے بعد بیجاپور میں نصرتی‘ شاہی‘ ہاشمی اور ایاغی وغیرہ نے غزل کوفروغ دیا۔
دکن کی تہذیبی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ زمانے قدیم ہی سے دکن میں شعرا کے ساتھ ساتھ شاعرات نے بھی شاعری میں اہم حصہ ادا کیاہے۔ ایک زمانے تک ماہ لقا بائی چندا کو پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھا جاتا تھا۔اردوکا پہلا صاحب دیوان شاعرہونے کااعزاز محمد قلی قطب شاہ کے سربندھا ہے محمد قلی قطب شاہ‘ گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت کا پانچواں بادشاہ جو ۹۸۸ہجری مطابق ۱۵۸۰ء میں تخت نشین ہوااور ۱۰۲۰ ہجری مطابق ۱۶۱۶ء میں انتقال کیا۔اس کے جانشین محمد قطب شاہ نے ۱۰۲۵ ہجری مطابق ۱۶۱۷ء میں محمد قلی قطب شاہ کے تمام کلام کو یکجا کیا‘ مرتب کیااور اس پر ایک منظوم تقریظ لکھی ہے۔ محمد قطب شاہ کی یہ تقریظ اردو میں پہلی تقریظ قرار دی گئی ہے(۲)۔ایک زمانے تک مہ لقابائی چندا کو پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھاجاتا تھا۔مہ لقا بائی چندا کی تاریخ پیدائش ۱۱۱۸ ہجری ہے اور دیوان کاسن ترتیب۱۲۱۳ ہجری مطابق۱۷۹۷ ء(۳) ہے(۴)۔ڈاکٹراشرف رفیع (۵)کی تحقیق سے مستند طورپر اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ لطف النساء امتیاز اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعر ہ ہے اس لئے کہ امتیاز کی پیدائش ۱۱۵۵ ہجری ہے اور دیوان کا سن ترتیب۱۲۱۲ ہجری مطابق ۱۷۹۶ ء ہے۔ماہ لقا اور امتیاز کے دیوان کے سن تصنیف میں صرف ایک سال کا فرق ہے اس لئے لطف النساء امتیازکو اولیت حاصل ہے۔
استاد محترم ڈاکٹر نسیم الدین فریس کی تحقیق کے مطابق حضرتہ بی بی فتح الملک اہلیہ حضرت قاضی محمود دریائی اردو کی پہلی شاعر ہ ہے جس نے دو جکریاں لکھی ہیں (۶)۔راقم کو دکن کی ایک خاتون فاطمہ صاحبہ متخلص بی بی زوجہ حضرت سید محمد قادری خاکی کی ایک غزل ملی ہے جو تقریباًتین سو برس پہلییعنیبارویں صد ی ہجری میں لکھی گئی ہے۔(۷)
امتیاز اور ماہ لقا کے علاوہ چند اور خواتین شاعرات کا ذکر ہمیں مختلف تذکروں اور ادبی تصانیف میں ملتا ہے جیسے تیرھویں صدی ہجری میں ایک شاعرہ آمینہ بی عرف امین صاحبہ کاذکر ملتاہے جن کا تعلق آرکاٹ سے تھا۔وہ۱۲۳۹ ہجری کو پیدا ہوئیں۔ آپ کی شادی قاضی بدرالدولہ سے۱۲۵۰ ہجری میں انجام پائی۔آمینہ بی کی حیثیت ایک مترجم کی ہے اورغالباً یہ شاعرہ اردو کی پہلی مترجم قرار پاتی ہے انہوں نے ایک سے زایدفارسی رسالوں کا اردو میں ترجمہ کیاہے۔ اس کیعلاوہ چہل حدیث کے نام سے نثرمیں ایک رسالہ بھیتالیف کیاہے۔ آمینہ بی کا انتقال ۱۳۱۰ ہجری مطابق ۱۸۹۳ء میں مکہ معظمہ میں ہوا۔
اس کے بعد ایک اور خاتون لطف النساء بیگم آثیمہ آرکاٹی کا نام ملتا ہے۔آثیمہ آرکاٹ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔۱۲۴۱ ہجری کو پیدا ہوئیں۔آپ کے والد کانام نجف علی خان تھا اور افتخار تخلص کرتے تھے آرکاٹ کے شرفاء میں شمار کئے جاتے تھے۔آثیمہ کی تعلیم وتربیت والدبزرگوار کی خاص نگرانی میں ہوئی۔آپ کو حافظ محمدعلی واعظ رامپوری سے بیعت حاصل تھی۔ آثیمہ کی شادی قادر محی الدین خان سکندر جنگ ثانی سے ہوئی جوآرکاٹ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آپ سے تین مثنویاں یادگارہیں۔ پہلی مثنوی گلبن مہ رُخان (یعنی گلشن عاشقاں) دوسری مثنوی گلشن مہوشاں اور تیسری مثنوی گلشن شاہداں ہے۔
لطف النساء بیگم آثمیہ آرکاٹی کے تینوں مثنویوں کے مخطوطے کتب خانہ آصفیہ (حیدرآباد) میں محفوظ ہیں۔ ان مخطوطات کا ذکر نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تصنیف کتب خانہ آصفیہ کے اردو مخطوطات کی فہرست میں تفصیل سے کیا ہے۔ان تین مثنویوں میں پہلی مثنوی جس کا نام گلبن مہ رُخان ہے(یعنی گلشن عاشقاں) جو۱۲۶۸ہجری کی تصنیف ہے۔دوسری مثنوی گلش مہوشاں ہے جو ۱۲۷۷ ہجری کی تصنیف ہے۔ تیسری مثنوی جس کا نام گلشن شاہداں رکھا گیا ہے یہ ۱۲۴۸ ہجری کی تصنیف ہے اوراس مخطوطے کی کتابت کا سن ۱۳۹۴ ہجری ہے۔ان تاریخی شواہد اور پس منظر میں یہ مستند طورپر کہاجاسکتا ہے کہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ حضرت سید محمدقادری خاکی دکنی کی پہلی غزل گو شاعرہ قرار پاتی ہے۔
اردو ادب کے مورخین اور محققین کا عموماً یہ تاثر ہے کہ دکن کے علاقے رائل سیمااور مدراس میں اردو ادب کی روایت موہوم ہے یایہاں اردو ادب کی روایت کمزور رہی ہے۔لیکن حقیقت کچھ اور ہے اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف انساء امتیاز کاتعلق یقینا اورنگ آباد سے تھا اور اپنی آخیر عمر میں وہ حیدرآباد چلی آئیں تھی۔ ماہ لقا بائی چندہ کااصل وطن بھی دکن نہیں تھا اس نے حیدرآباد ہجرت کی تھی۔ جبکہ امین بی اور آثمیہ کاتعلق سرزمین ارکاٹ (موجودہ چنیائی) سے تھا۔ استاد محترم ڈاکٹر حبیب نثار نے اردو کی پہلی نثر نگار خاتون منور بیگم کی بازیافت کی ہے (۸)جس کاتعلق سرزمین رائل سیماسے تھا اور فاطمہ بی بی اہلیہ حضرت سید محمد قادری خاکی بھی ادونی‘ رائل سیما ہی سے تعلق رکھتی ہے۔
ادونی کا ذکر ۱۴ویں صدی عیسوی سے تاریخ میں ملتا ہے۔ایک زمانے میں ادونی موریہ اور ستاواہانہ راجاؤں کے زیر نگرانی رہا۔علاء الدین خلجی کے سپاہ سالار ملک کافور نے جب دکن کو فتح کیا تو ادونی پہلی مرتبہ مسلمانوں کے زیر تسلط آیا۔اس کے بعد کئی مسلمان صوبہ داروں اور حاکم ایک کے بعد دیگر نے حکومت کی اور جب بہمنی سلطنت قائم ہوئی تو ادونی اپنے حدوداربع کی وجہ سے اہم مقام قرار پایاتھا۔ اس کے بعد عادل شائیوں اور وجے نگر کے درمیان ادونی کے لیے کئی جنگیں لڑی گئیں۔۱۵۶۸ سے ۱۶۸۶ تک ادونی عادل شائیوں کا ڈھال بنا رہا۔بعد میں یہ مغلوں کے زیر نگین آگیا۔ اورنگ زیب عالمگیر نے جب ادونی کو فتح کیا تو اس کا نام بدل کر امتیاز گڑھ رکھ دیا۔ آصف جاہی سلطنت کے قیام کے بعد ادونی آصف جاہوں کے زیر نگرانی آگیا اور ۱۹۸۴ تک یہی حیثیت برقرار رہی۔۱۹۵۶ء کے بعد ادونی کی سیاسی حیثیت ایک دم ختم ہو گئی اور فی الحال یہ ضلع کرنول میں شامل ہے۔
فاطمہ صاحبہ متخلص بی بی کے حالات زندگی کا پتہ نہیں چلتا۔البتہ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ چپگری (ضلع اننتاپور Anantapur‘آندھراپردیش)کے ایک معروف گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ مخطوطے کی اندرونی شہادت سیصرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت سید محمد قادری خاکی کی زوجہ تھیں۔حضرت سید محمد قادری خاکی صاحب دیوان شاعر گذرے ہیں۔۸۵۱۱ ہجری میں پیدا ہوئے۔آپ شہر ادونی(ضلع کرنول‘آندھراپردیش) کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد بزرگوار کا نام سید جمال الدین قادری ثانی تھا۔شاہ خاکی ادونوی ایک پرگو شاعر تھے آپ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا دیوان مرتب کیاتھا۔فارسی نثر میں ایک مختصر رسالہ تصوف کے موضوع پر یادگارہے۔آپ نے رباعی میں بھی طبع آزمائی کی ہے یہ تمام رباعیاں ان کے دیوان میں موجود نہیں ہیں بلکہ ادونی کے ایک نجی کتب خانے میں مخزونہ ایک مجموعے میں یہ تمام رباعیاں موجود ہیں (۹)۔شاہ خاکی کا انتقال ۱۲۰۸ ہجری میں ہوا۔نصیرالدین ہاشمی دکن میں اردو میں شاہ خاکی کے دیوان کی بابت لکھتے ہیں۔
”سید محمدقادری نام اور خاکی تخلص تھا۔ ولی کازمانہ دیکھا ہے۔ دیوان ہنوز شائع نہیں ہوا۔ریختی میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ مولاناحبیب الرحمن خان صاحب شیروانی کے کتب خانے میں ان کا دیوان موجود ہے۔“(۱۰)
ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور‘ سید محمدقادری خاکی کے دیوان کے غیر مطبوعہ ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے اس کی ریختی پر بھی اظہار خیال کیاہے۔ لکھتے ہیں۔
”سید محمد قادری خاکی‘ ولی کے ہم عصروں میں سے تھے انہوں نے ہاشم علی بیجاپوری کی تقلید میں ریختی کی طرف توجہ کی لیکن اس میں تصوف کی چاشنی نمایاں رکھی اور ایک پورا دیوان مرتب کرڈالا۔ دیوان ابھی تک طبع نہ ہوا۔“(۱۱)
سید محمد قادری خاکی کے دیوان کے دو مخطوطات ملتے ہیں ایک مخطوطہ ادونی کے محقق وشاعر جناب سیدعارف نعمانی کے نجی کتب خانے میں موجود ہے اور دوسرا مخطوطہ ذخیرہ حبیب الرحمن شیروانی میں ”دیوان رنگین“ کے نام سے ملتاہے جو کتب خانہ مولانا آزاد علی گڑھ میں محفوظ ہے۔اس مخطوطے کا سن ترتیب ۱۱۸۲ ہجری ہے۔اسی مخطوطے میں آپ کی اہلیہ کی ایک غزل موجود ہے۔شاعرہ کانا م فاطمہ ہے اور تخلص بی بی ہے جو غزل کے مقطع میں بھی موجود ہے، مخطوطے کی تفصیل اس طرح ہے۔
مخطوطہ جملہ ۹۵ اوراق پر مشتمل ہے۔ہر صفحہ پر سطور کی تعداد گیارہ ہے۔ مخطوطے کا کاغذ دیسی ہے اور مکمل مخطوطہ سیاہ روشنائی سے لکھا ہوا ہے۔ دیوان میں غزلیات کے علاوہ مخمس، مستزاد،ریختی،اورمثنوی شادی نامہ ملتے ہیں۔ مخطوطے کا ترقیمہ اس طرح ہے۔
”تمت تمام شد دیوان رنگین کلام توحید انجام سید محمد قادری عرف بڑے صاحب ابن سید جمال اللہ قادری مدظلہ العلی بخط زیشت سید حسین قادری عرف شاہ میاں بتاریخ دہم ربیع الاول ۱۱۸۲ ہجری قلم شد۔“ (۱۲)
مخطوطہ کرم خوردہ ہوگیا ہے جس سے متن کو پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔مخطوطے کے آخری صفحہ کے دائیں حاشیہ پر غزل کی ہیئت میں مناجات موجود ہے۔عنوان اس طرح لکھا ہے۔
”تصنیف مناجات فاطمہ صاحبہ عرف بی بی صاحبہ اہلیہ خاکی“(۱۳)
عنوان میں شاعرہ کا نام فاطمہ صاحبہ لکھاہے اور ان کی عرفیت بی بی صاحبہ بتائی گئی ہے چونکہ غزل کے مقطع میں بی بی بطور تخلص آیاہے اسی لئے راقم نے اہلیہ سید محمد قادری خاکی‘ فاطمہ صاحبہ کاتخلص بی بی بیان کیاہے۔
عنوان کے ذیل میں پانچ اشعار پر مشتمل غزل موجود ہے۔ چونکہ مخطوطہ بوسیدہ ہوگیا ہے اور یہ غزل صفحے کے دائیں حاشیہ پر لکھی گئی ہے اور مذکرہ صفحہ بوسیدگی کی وجہ سے کسی قدر ضائع ہوگیا ہے اس لئے اشعار کے ابتدائی الفاظ کی شناخت دشوارہوگئی ہے۔ تیسرے اور چوتھے شعر کے دونوں مصرعوں کے ابتدائی لفظ بھی ضائع ہوئے ہیں۔ غزل میں مقطع موجودہے۔غزل کے اشعار ملاحظہ ہو۔
میری نگہہ میں دیکھوں میرا ھیے(ہی) پیر دستا
جدھر نظر کروں تو مرشد خدا ہو دستا
مرشد کا کیان(گیان) انجن لاکیا(گیا) ھے مجہ(مجھ) نین میں
خوش کیان(گیان) کے نظر سوں دیکھوں تو سب میں لال دستا
ظاہرکے(کی) تو نظر کون ناشاداب رکھا ہے
تیرے کرمِ فضل سون دونوں جہاں ہے دستا
۔۔۔ بلا کو میرے کاڑے کانوں اے ہے
۔۔۔ ابرم(بھرم) سو راحت جو مچہ(مجھ) کون دستا
بیبییے(بی بی) کی تون مناجات ہر وقت سن پیاری(پیارے)
دیدار وس(اُس) سجن کا سب میں عیاں ہو دستا (۱۴)
یہ اشعار زبان و املا کے اعتبا رسے بھی اہم ہیں۔غزل کے متن میں قدیم املا کے آگے قوسین میں راقم نے آج کااملا اور تلفظ لکھ دیاہے۔ قدیم دکنی میں یہ غزل لکھی گئی ہے اسی لئے الفاظ بھی ایسے ہیں جو اب متروک ہوگئے ہیں جیسے دستا‘ سوں وغیرہ وغیرہ۔ ”دستا“ کی ردیف میں دکن کے بیشتر شعراء نے غزل لکھی ہے۔ملاغواصی نے بھی”دستا“ ردیف میں غزل لکھی ہے اسی زمین میں شاہ سلطان ثانی نے طبع آزمائی کی ہے۔یہاں صرف دومثالوں پر اکتفا کیاجاتا ہے۔مطلع ہے۔
جوکوئی اپنے گمان میں ہے اوسے ہرجا گمان دستا
جو کوئی اپنے نشان میں ہے اوسے ہر جا نشان دستا
ولی اور رنگ آبادی نے بھی ”دستا“ردیف میں غزل لکھی ہے۔ ایک شعر یہاں لکھا جاتاہے۔
یو تل مکہہ کے کعبہ میں مجہ اسود مجر دستا
زنخداں میں تیرے مجہ چاہ زمزم کا اثر دستا
بی بی کی غزل کا املا قدیم ہے جن حروف پر آج ہم دو مرکز ڈالتے ہیں یہاں متن میں ایک ہی مرکز استعمال کیاگیا ہے۔ جیسے گ کے لئے ک اوریاے معروف اور یائے مجہول کے نیچے دو نقطے ڈالے گئے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ یاے معروف کے نیچے دو نقطے ڈال کر یاے مجہول مراد لی گئی ہے اور یائے مجہول کے نیچے دو نقطے ڈال کر یائے معروف قرار دیاگیا ہے۔ غزل کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ شاعرہ کی استعداد غزل گوئی میں بہت اچھی تھی۔ مناجات کے مضامین کے بیان میں مہارت کااندازہ بھی ہوتاہے یقینا بی بی نے مزید کلام منظوم کیا ہوگاافسوس کہ سوائے اس ایک غزل کے ہماری دسترس میں مزید کچھ نہیں۔ سارا کلام یا تو ضایع ہوگیا یا پھر ہنوز دریافت نہیں ہوا ہے۔
بی بی فتح الملک کا تعلق سرزمین گجرات سے تھا لیکن فاطمہ بی بی کا تعلق ادونی کے ایک مشایخ گھرانے سے ہے اور ادونی شروع ہی سے عادل شاہی اور آصفیہ سلطنت کااٹوٹ حصہ رہاہے اس تناظر میں ہم کہے سکتے ہیں کہ فاطمہ بی بی اہلیہ شاہ خاکی آصفیہ سلطنت کی پہلی معلوم غزل گو شاعرہ قرار پاتی ہے اوراس پس منظر میں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اردو کی پہلی غزل گو شاعرہ بھی فاطمہ بی بی ہی ہے۔فاطمہ بی بی کامزار ادونی میں روضہ شہزادہ ولی میں موجود ہے۔
٭٭٭٭
حوالے و ماخذ
۱) نصیرالدین ہاشمی کایہ مضمون رسالہ ”معارف“ بابت اکتوبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا ہے۔
۲) محمد علی اثر”اردو کی پہلی تقریظ اور اس کاخالق“ مشمولہ بصارت سے بصیرت تک ”۲۰۱۲ء
۳) ڈاکٹرمحمد نسیم الدین فریس ”اردوکی پہلی معلوم شاعرہ“ مضمون مطبوعہ رسالہ ”نئی کتاب“ دہلی‘ شمارہ۷ اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۸ء ص ۴۱
۴) ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے اپنی مرتبہ کتاب ”مہ لقا (مہ لقا بائی چندا کی زندگی اور اس کا کلام)میں مہ لقا بائی چندا کے دیوان کی ترتیب کا سن ۱۲۰۲ ہجری مطابق ۱۸۰۵ء لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو دراصل تسامح ہوا ہے۔ص ۹۱
۵) اشرف رفیع ”لطف انساء امتیاز“ مضمون مطبوعہ رسالہ ”سب رس“ مارچ ۲۰۰۸ء۔
۶) ڈاکٹرمحمد نسیم الدین فریس ”اردوکی پہلی معلوم شاعرہ“ مضمون مطبوعہ رسالہ ”نئی کتاب“ دہلی‘ شمارہ۷ اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۸ء ص ۴۲
۷) ملاحظہ ہو ”دیوان رنگین“ از حضرت سید محمد قادری خاکی مخطوطہ مخزونہ مولانا آزاد لائبریری‘ علی گڑھ‘ حبیب الرحمن کلکشن نمبر (۹۶)۵۴ ۔
۸) ڈاکٹر حبیب نثار ”اردو کی پہلی خاتون نثر نگار“ مضمون مشمولہ ”المیزان“ مسودہ‘ زیر اشاعت
۹) ”دیوان رنگین“ مخزونہ‘ نجی کتب خانہ‘ جناب سید عارف نعمانی ادونیوی‘ میں محفوظ ہیں۔
۱۰) نصیرالدین ہاشمی ”دکن میں اردو“ تیسری اشاعت ء ص ۳۷۸
۱۱) ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ”اردو شہ پارے(جلد اول) ۱۹۲۹ء ص ۱۶۹
۱۲) ”دیوان رنگین‘‘ مخطوطہ نمبر (۹۶) ۵۴‘ کتب خانہ مولانا آزاد‘ علی گڑھ ص۹۵
۱۳) ایضاً
۱۴) ایضاً