خورشید ہاشمی بھی داغ مفارقت دے گئے :- ڈاکٹر سیّد احمد قادری

Share
خورشید ہاشمی

معروف اردو صحافی خورشید ہاشمی
بھی داغ مفارقت دے گئے

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 8969648799

آج صبح صبح دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ معروف صحافی خورشید ہاشمی13 / جولائی2020 ء کی شب 11 / بجے کے آس پاس اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ یہ ایسی افسوسناک اور نا قابل یقین خبر تھی کہ میں بہت دیر تک یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ مجھے کسی بھی حال میں یقین ہی نہیں ہو رہا تھا، کہ کل تک یہ ہنستا بولتا شخص اس طرح اچانک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا۔

میں نے پٹنہ کے کئی صحافیوں کو فون لگایا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ یہ خبر غلط ہے۔ لیکن سبھوں کا فون سویئچ آف آیا۔ مجھے محسوس ہواکہ یہ سبھی لوگ اپنے غم اور آنسوؤں میں خاموشی کے ساتھ ڈوبے ہوئے ہیں۔ مجھ پر کافی دیر تک سکتہ طاری رہا۔ بہت دیر تک ان سے ہونے والی کئی ملاقات اور فون پر ہونے والی گفتگو کی یادوں میں ڈوبتاچلا گیا۔اسی درمیان یہ بھی خبر ملی کہ ان کی موت کی خبر کو ا ن کے بڑے بھائی مولانا اقبال احمد حسنی برداشت نہیں کر سکے اور تین بجے صبح میں وہ بھی اپنے بھائی سے جا ملے۔ اناالیہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ پاک ان دونوں کو جوار رحمت میں جگہ دے،ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے تمام چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا ہو۔
خورشید ہاشمی کی پیدائش یکم مارچ 1958 ء کو گیا میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام سید محمد پیارے حسن ہے۔انھوں نے بنیادی تعلیم مقامی مکتب اور مدرسہ سے حاصل کیا۔ اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی تک کی ڈگریاں لیں۔ اردو ادب اور صحافت میں پوسٹ گریجویٹ تک کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد تحقیق کی خاردار اور دشوار گذار وادیوں کی بھی انھوں نے خاک چھانی۔ تحقیقی کام اپنے لئے بھی کیا اور کچھ دوسروں کی بھی اس میدان میں مدد کی۔ تحقیق کیلئے انھیں خدا بخش فیلو شپ بھی حاصل ہوئی تھی۔
حصول تعلیم کے بعد خورشید ہاشمی نے صحافت کوبطور پیشہ اپنایا۔کیونکہ صحافت کا پیشہ ان کی نظر میں دیانت داری، ایمانداری،بے باکی، حق گوئی اور انصاف پسندی کا پیشہ تھا،جوان کے مزاج سے بڑی حد تک میل کھاتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ عصر حاضر میں یہ چیزیں صحافت میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ جس کی وجہ کر انھیں کبھی بھی معاشی سکون و اطمینان حاصل نہیں رہا، ہاں ذہنی اور روحانی سکون و اطمینان ضرور میسر رہا۔ انھوں نے اپنی انا،ضمیر اورخودداری کو ہمیشہ ترجیح دی اور کبھی بھی عصری منافقت اور جی حضوری کو پسند نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اپنے معیار اور مزاج سے سمجھوتہ ہی کیا۔
خورشید ہاشمی نے اپنی صحافتی زندگی کاآغاز20برس کی عمر میں کالج میگزین سے کیا۔ بعد میں روزنامہ اقرأ،(کولکاتہ)، روزنامہ(دیش بدیش) اور اردو نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے روزنامہ ’قومی تنظیم‘ پٹنہ کے شعبہئ ادارت سے وابستہ ہو ئے اور مختلف صحافتی رول نبھاتے ہوئے روزنامہ’قومی تنظیم‘کو بہار و جھارکھنڈکاایک اہم اخبار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کے بعد وہ کچھ عرصہ تک پٹنہ سے جاری ہونے والے روزنامہ ’انقلاب‘ کے بھی بیورو چیف رہے۔ اس کے علاوہ تقریباً دو دہائیوں سے پٹنہ دوردرشن کی اردو خبروں کے شعبہ سے بطور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر اور چند برسوں سے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم اور ماس کمیونکیشن سے بطور فیکلٹی ممبر بھی وابستہ رہے۔ انھیں بہار اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
خورشید ہاشمی مرحوم ماضی میں 14 سال تک راشٹریہ سہارا / عالمی سہارا کا بیورو انچارج، 5 سال ماہنامہ ’سہیل‘،گیا کے مدیر اعزازی اور 5 سال تک قانون ساز اسمبلی کی پریس گیلری کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
اپنی موت سے قبل وہ روزنامہ ’تاثیر‘ سے منسلک ہو کر اپنی صحافتی صلاحیتوں سے اس اخبار کو مقبول بنانے میں پوری طرح منہمک تھے۔ اپنی صحافت میں خورشید ہاشمی اپنے افکار و اظہار اور حسن و معیار کو، جس اعتدال اور سنجیدگی کے ساتھ سامنے لاتے تھے۔ وہ عصری صحافت میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ جو اب دیکھنے کو کم ہی ملتا ہے۔خورشید ہاشمی نے اپنی صحافتی خدمات کے لئے کبھی بھی صلہ کی پرواہ کی، نہ ہی ستائش کی تمنّا کی۔ اس لئے ان کی اعلیٰ صحافتی صلاحیتوں اور خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ جب کبھی اعلیٰ اور معیاری اردو صحافت کی بات ہوگی،خورشید ہاشمی کی خدمات کا ضرور اعتراف کیا جائے گا۔
خورشید ہاشمی کی پیاری،دلنواز،ہردلعزیز شخصیت،جو اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے، ان کی نماز جنازہ سبزی باغ، جامن گلی مسجد میں 14 / جولائی کو بعد نماز ظہر ادا کی گئی اور شاہ گنج قبرستان میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔ خورشید ہاشمی اپنی شرافت، ایمانداری او ر جرأت مندی کے ساتھ ساتھ اردو صحافتی خدمات کے لئے باعث ہمیشہ یاد آتے رہینگے۔
—-

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
Share
Share
Share