مولانا عبد الواحد صاحب
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
امانت علی قاسمی
استاذ ومفتی دارالعلوم وقف دیوبند
ابھی چند دنوں قبل شہر بھاگل پور کے معیاری ادارہ مدرسہ رشید العلوم کے مہتم مولانا انعام الحق صاحبؒ کی رحلت کا اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا،ذہن و دماغ سے ابھی ان کی یادیں محو نہیں ہوئیں تھیں کہ اسی شہر کی ایک دوسری بڑی شخصیت حضرت مولانا عبد الواحد صاحب کی وفات نے پھر سے مغموم اور دل و دماغ کو بے چین و بے قرارکردیا۔
اہل علم کے جانے کا سلسلہ جس تیز گامی کے ساتھ جاری ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا اپنے آخری منزل کی طرف بہت جلد پہونچنا چاہتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ علم اس طرح ختم نہیں ہوگا کہ لوگوں کے سینے سے ایک دم علم اٹھالیا جائے گا؛ بلکہ علم کے اٹھانے کی صورت یہ ہوگی کہ اہل علم بڑی تیزی کے ساتھ کوچ کرجائیں گے۔ اس وقت جو منظر ہمارے سامنے ہے وہ رفع علم کی اس حدیث کی واضح تفسیر ہے۔
بہت سے تجزیہ نگاروں نے بہار کی مٹی کی ایک خاصیت کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں چھَپنے سے زیادہ چھُپنے کی خواہش ہوتی ہے،وہ نام سے زیادہ گم نامی کو پسند کرتے ہیں گو یہ عمومی صورت حال نہ سہی؛ لیکن کسی حد تک صحیح صورت حال ہے۔ آج جب کہ پرنٹ میڈیا کا دور ہے، سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن بہار کی مٹی اپنی اسی خاصیت پربرقرار ہے،کتنے لوگ علم کے کوہ ہمالہ پر فائز ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگیے اور لوگوں کا پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ بڑے عالم بھی تھے۔
آج سے نصف صدی ماضی کی طرف جائیے تو ایک اور چیز نمایاں ہو کردکھائی دے گی کہ مدارس کے فضلاء اپنے اساتذہ کی باتوں پر حددرجہ عمل کرتے تھے اور اساتذہ ان کو جہاں بھیج دیتے تھے وہ وہاں بلا چوں چرا چلے جاتے تھے، چاہے وہاں ان کی صلاحیت کے مطابق کام ہو یا نا ہوچاہے وہاں ان کی معاشی ضرورت کی تکمیل ہورہی ہو یا نہ ہورہی ہو، حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحبؒ کو ان کے ا ستاذ نے بھاگل پور کے ایک گاؤں پورینی میں تدریس کے لیے بھیج دیا تو حضرت وہاں چلے گئے اور استاذ کے حکم کے مطابق دینی خدمت انجام دیتے رہے، اسی طرح ماضی کے جھروکے میں جھانک کردیکھئے تو مدارس کے فضلاء کو جہاں پڑھانے کی جگہ مل جاتی وہاں پڑھانے کے لیے بیٹھ جاتے تھے، خواہ اس میں ان کی صلاحیت کا لحاظ ہو یا نہ ہو، قابلیت اور صلاحیت کے باوجود اگر حفظ یا ناظرہ قرآن کے لیے کہہ دیا جاتا تو وہ حضرات اس کے لیے تیار ہوجاتے تھے، موجودہ دور میں یہ دونوں صفت عنقا ہوتی جارہی ہیں۔
مولانا عبد الواحد صاحبؒ کو اللہ تعالی نے زبردست علمی صلاحیت سے نوازا تھا، آپ پڑھنے کے زمانے سے ہی بہت باصلاحیت تھے اور اپنے ساتھیوں کو تکرار کراتے تھے، آپ نے عربی کی زیادہ تر تعلیم دارالعلوم مؤ میں حاصل کی، آپ کی فراغت بھی یہیں سے ہے، یہاں آپ کے ساتھیوں میں بہت سے ممتاز چہرے تھے جنہوں نے بعد میں اپنے علم و فضل کے ذریعہ شہرت کے بام عروج کو حاصل کیا تھا آپ کے ساتھیوں میں حضرت مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمی تھے فقہی میدان میں جن کی قابل قدر خدمات آج بھی ارباب افتاء کی آنکھوں کا سرمہ ہیں۔ اس طرح کے بہت سے قابل و فائق ساتھی آپ کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن آپ اپنے ساتھیوں میں بالکل ممتاز تھے، دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ ثانی،شیخ عبد الحق صاحب اعظمی بھی اس زمانے میں دارالعلوم مؤ میں ہی زیر تعلیم تھے یہ تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ساتھی تھے، تاہم مولانا عبد الواحدصاحبؒ خود کہا کرتے تھے کہ میں نے مولانا عبد الحق صاحب کو زمانہ طالب علمی میں بعض کتابیں پڑھائی ہیں،اس سے آپ کی علمی صلاحیت کا انداز لگایا جاسکتاہے:بلکہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ جب دارالعلوم مؤ میں ایک سال کئی ا ساتذہ حج پر تشریف لے گئے تو بعض کتابوں کو پڑھانے کے لیے انتظامیہ نے آپ کو مکلف کیا تھا جب کہ آپ اس وقت ششم عربی میں داخل تھے۔۴۵۹۱ء میں آپ کی فراغت دارالعلوم مؤ سے ہوئی اور فراغت کے بعد آپ دارالعلوم مؤ میں استاذ بنائے گئے لیکن یہاں زیادہ دنوں تک رہنا مقدر نہ تھا اس کے بعد اپنے مادر علمی دارالیتامی چمپانگر سے وابستہ ہوگئے۔ آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز بھی اسی دارالیتامی سے کیا تھا،اس وقت آپ کے ساتھیوں میں حضرت مولانا قمر الہدی صاحب مفتاحی،سابق صدر جمیۃ علماء بھاگل پور، مولانا عین الدین صاحب چانچے، اور ان کے برادر خورد مولانا توحید صاحب تھے۔ ضلع بھاگل پور کا یہ دارالیتامی قدیم ہونے کے ساتھ تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اس کے پہلے ناظم مولانا نعیم صاحب تھے ان کے بعد مولانا اسحق صاحب اور مولانا غلام حسین صاحب ہوئے اور اب اس کے مہتمم مولانا نسیم صاحب مظاہری ہیں،یہ یتیم خانہ آج اسلام پور مسجد سے متصل واقع ہے اس سے پہلے ناتھ نگر تھانہ سے متصل علاقہ سردارپور میں واقع تھا، جس وقت شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب نے دارالیتامی کا معاینہ کیا تھا اور عربی میں معاینہ لکھا تھا اس وقت یہ سردار پور میں ہی واقع تھا اور مولانا عبد الواحدصاحب اور مولانا مفتاحی صاحب ؒ نے اسی جگہ تعلیم حاصل کی تھی۔
دارالیتامی کے بعد مولانا عبد الواحد صاحب نے عربی تعلیم اصلاح المسلمین چمپانگر میں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کے پاس حاصل کی، مولانا عبد الرحمن صاحب کرن پور بھاگل پور کے تھے اور اُس زمانہ میں جمعیۃ علماء کے صدر تھے، انہوں نے ہی علاقے میں عربی تعلیم کی روح ڈالی تھی، ان کے شاگردوں نے نہ صرف مدارس سے فراغت حاصل کرکے علماء کی صفوں میں اضافہ کیا؛بلکہ علمی دنیا میں نام روشن کیا اور حیرت انگیز طور پر تعلیمی ملی سرگرمی انجام دی، ان کے شاگردوں میں علامہ اکرام علی صاحب نوراللہ مرقدہ، مولانا قمر الہدی مفتاحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مولانا قمر الحسن صاحب سابق مہہتم جامعہ عربیہ شاہ جنگی و صدر جمعیۃ علماء بھاگل پور، اور حضرت مولانا انصار صاحب مدظلہ العالی شیخ الحدیث دارالعلوم حیدر آباد وغیرہ نمایاں نام ہیں۔
بہار کی اسی مٹی کی خاصیت کا اثر تھا یا بزرگوں کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ کہ مولانا عبد الواحدؒ قابل باصلاحیت ہونے کے باوجود دارالیتامی کی تدریس سے وابستہ ہوگئے جہاں عربی کی تعلیم برائے نام تھی، لیکن آپ اس ادارے سے وابستہ رہے اور طویل عرصے تک وہاں آپنے خدمت انجام دی،اس کے بعد ۶۹۹۱ء میں جب اصلاح المسلمین میں جلالین کی جماعت قائم ہوئی تو وہاں کے دور رس ذمہ داروں اور جوہری شناخت کے حامل ارباب انتظام نے جلالین جیسی اہم کتاب کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں،اس وقت مولانا باضابطہ تودارالیتامی کے استاذ تھے اور دارالیتامی میں ہی جلالین کے طلبہ کی علمی پیاس بجھاتے تھے اس زمانے کے شاگردوں میں مولانا عطاء اللہ قاسمی اورمولانا عبید الرحمن قاسمی وغیرہ ہیں یہ دونوں اس وقت اصلاح المسلمین کے مؤقر اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں اور تعلیمی و ملی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔اس کے بعد جب اصلاح المسلمین میں دورہ حدیث قائم ہوا تو آپ باضابطہ اصلاح المسلمین سے وابستہ ہوگئے اور اخیر عمر تک جلالین،ترجمہ قرآن کے علاوہ دورہ حدیث میں نسائی،ابن ماجہ وغیرہ کے درس دیتے رہے۔آپ کی ولادت ۳۴۹ء میں ہوئی اور فراغت۴۵۹۱ء میں ہوئی اس طرح قریب ستر سال تک آپ نے درس و تدریس کے مسند پر بیٹھ کر گل افشانی کی بالآخر قریب نوے سال کی عمر میں علم و عمل کا یہ تابندہ ستارہ۹ /جوالائی ۰۲۰۲ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتاہی رہے گا
آپ نے قریب ستر سال تک دینی خدمات انجام دیں، اس عرصے میں نہ جانے کتنے نشیب و فراز آئے ہوں گے اور کن آزمائشی دور سے گزر نا پڑا ہوگا جو لوگ مدارس سے وابستہ ہیں وہ اس کا انداز ہ لگاسکتے ہیں، لیکن ان کے اساتذہ نے ان کی جو تربیت کی تھی، اور اس تربیت کے نتیجے میں ان کا عزیمت کا جو مزاج بنا تھا اس کا ثمرہ تھا کہ انہوں نے بلاکسی شکوے کے پوری زندگی تعلیم و تدریس میں گزاردی۔ان کا مزاج تدریس و تعلیم کا تھا بہت ممکن ہے کہ ان کو دارالیتامی میں اپنے مزاج پر عمل کرنے کا موقع نہ ملا ہو لیکن جب آپ اصلاح المسلمین سے وابستہ ہوئے تو آپ نے خوب محنت کی ہر وقت پڑھانے کے درپہ رہتے تھے اور پوری خواہش ہوتی کہ بچوں میں وہ اسپرٹ منتقل کردی جائے تو ان کے اساتذہ نے ان کے اندر ڈالی تھی۔
مدرسہ اصلاح المسلمین کے قدیم استاذ حضرت مولانا اویس صاحب قاسمی جو راقم الحروف کے بھی استاذ ہیں،انہوں نے بتایا ”کہ ان کو پڑھانے کا شوق بہت تھا،کوئی بھی گھنٹہ خالی ہوتا تو پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے، وہ کہاکرتے تھے کہ میرے تو جانے کا وقت آچکا ہے میں چاہتا ہوں کہ اسی پڑھتے پڑھاتے اس دنیا سے جاؤں، اخیر عمر میں جب ضعف و نقاہت کی وجہ سے ان کے بعض اسباق کم کردئے گئے تو وہ مولانا سے شکایت کرتے تھے کہ مجھے گھنٹہ کیوں نہیں دیتے ہیں، میں پڑھانا چاہتا ہوں۔شعبہ حفظ میں جب کوئی بچہ حفظ مکمل کرکے پورا قرآن ایک مجلس میں سناتا تو یہ ذمہ داری آپ کی ہی ہوتی آپ پوری دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ ایک مجلس میں حافظ قرآن کا قرآن سنتے تھے یہ ان کے فرائض میں داخل نہیں تھا؛ لیکن کام کرنے کا ان کا جذبہ قابل دید تھا“
اخلاص و عمل کا ایسا نمونہ اب کم دکھائی دیتا ہے۔اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے،ان کی زندگی بے داغ تھی، کبھی کسی مسئلے میں الجھتے نہیں دیکھا، طبیعت میں سادگی تھی، علم و عمل میں یکسانیت تھی، خلوص و تقوی سے لبریز ان کی زندگی تھی، میں نے جب ان کو دیکھا تو عصا کے ساتھ چلتے دیکھا غالبا ایک آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی تھی،مجھ سے عام طورپر راستے میں ملاقات ہوتی تھی، لیکن جب کبھی ملاقات ہوتی تو میرا ہاتھ پکڑ لیتے تھے اور مختلف طرح کی باتیں کرتے تھے، بظاہر نہ مجھ سے کوئی قرابت تھی اور نہ ہی کوئی خاص شناسائی، علاقہ ایک ہونے کی بنا پر میں ان کو اور وہ مجھ کو جانتے تھے اس کے علاوہ کوئی خصوصی نسبت اور کوئی خاص ربط و تعلق نہیں تھا لیکن جب کبھی ملتے تو اس محبت بھرے انداز سے ملتے تھے کہ آج جب ان کی وفات کی اطلاع ملی تو دلی صدمہ محسوس ہوا اور محسوس ہوا کہ کوئی علم و عمل کا پیکر رخصت ہوگیا۔