اُردو زبان کی فروغ میں صوفیائے کرام کا حصہ
ریاض احمد
ریسرچ اسکالر شعبہ اُردو
او پی جے ایس یونیورسٹی – چُورو راجستھان
ماہر لسانیت کے فراہم کردہ اور بزرگانِ دین کے ملفوظات اور اُردو زبان کی اولین تحقیقات کے مطابق اُردو زبان کے فروغ اور اسکے نشونما کے متعلق یہ بات قتعت کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ واقعی اُردو زبان و ادب کے فروغ ونشونما میں صوفیائے کرام نے گراں قدر خدمت انجام دی ہے اور نمایا کردار ادا کیا ہے۔
یہ مخلص اور بے لوص لوگ بندگانِ پروردگار تک پروردگار (خُدا) کا پیغام پہنچانے کے لئے کوشاں اور بے تاب تھے۔۔وہ لوگوں کے دلوں تک دستک دینا چاہتے تھے اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنا پیغام لوگوں تک اُن کی ہی زبان میں پہنچاے۔ صوفیائے کرام نے خواص کی ادبی زبان کے بجائے عوام میں رائج زبان کو ہی اپنے پیغام کو ہی وصیلہ اظہار بنایا۔ اور ان کی ہی بولی میں تعلیم و تلقین فرمائی۔
چناچہ صوفیائے کرام جس علاقے میں گئے اور وہاں کی ہی بولی سیکھ کر اُس علاقے کے لوگوں تک ان کی ہی بولی میں اپنا پیغام پہنچاتے تھے۔ اُنہوں نے عوامی زبان کے دائرے کو وسیع اور کشادہ کیا۔ اور وقتََ فوقتََ ضروریات کے مطابق نئے نئے الفاظ کے استعمال سے اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔
اہل علم نومولود نے صوفیائے کرام سے پہلے عوامی زبان و بولی یعنی اُردو میں لکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔عالموں کی تصانیف اس عوامی اور بازاری زبان میں کبھی پیش نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس زبان میں پیش کرنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے۔صوفیائے کرام نے اس روایت سے بغاوت کرتے ہوے عوام سے عوام کی زبان یعنی اُدو میں گفتگو کی سنسکرت زبان میں رائج مذہبی اسطلاحات اور علاقائی زبانوں کے الفاظ بھی استعمال کئے۔
صوفیائے کرام کی بے انتہا کاوشوں کے نتیجے میں اُردو زبان کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔ بقولِ مولوی عبدالحق ”صوفیوں ہی کی جرت کا فیصلہ تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگوں نے بھی ہچکچاتے ہوے اس کا استعمال شعر و سخن، مذہب و تعلیم اور علم حکمت کے اغراض کے لئے شروع کردیا۔یہی وجہ ہے کہ میں صوفیائے کرام کو اُردو کا محسن خیال کرتا ہوں“۔
مولوی عبدالحق نے اپنے مقالہ ” اُردو کی ابتدائی نشونما میں صوفیائے کرام کا حصہ “ میں تفصیل کے ساتھ ان بزرگانِ دین کا تذکرہ کیا ہے۔ جنہوں نے اُردو زبان کے دائرے کووسعت و جمیعت بحشنے میں نمایا خدمات انجام دی ہیں۔ عبدالحق نے خواجہ معین الدین چشتی اور فریدالدین شکر گنج ہی کے عہد سے ان بزرگانِ دین کی کوششوں کا پتہ لگایا ہے جن کی کوششوں اور سرگرمیوں سے اُردو زبان کی تشکیل و ترویج میں مدد ملی ہے۔
اُدو زبان و ادب اور اُردو نظم ونثر کو بنیاد فراہم کرنے والے اور اس کی روایتوں کی تشکیل میں گراں قدر خدمات اور نمایا کردار ادا کرنے والے بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کی فہرست کافی طویل ہے۔ ان میں سے بعض کا ذکر زیل میں کیا جا رہا ہے۔
امیر خسرو:
یہ ساتوی صدی ہجری کے بزرگ ہے انہوں نے اُردو کی ادبی شان عطا روانے میں کافی خدمات کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے فارسی و ہندی کی آمیزش سے اُردو کا پہلا روپ پیش کیا ہے۔ یعنی امیر خسرو وہ پہلی شخصیت ہے جس نے فارسی و ہندی کی آمیزش سے اُردو کا اولین نقشہ پیش کیا۔شیخ شرف الدین یحیٰ منیری یہ صاحب پوربی اور ہندی زبانوں کے شاعر تھے۔ جھاڑ پھونک کے منتر بھی جو ہندی زبان میں ہیں۔ان ہی سے منسوب ہیں جنہوں نے وآگے چل کر اُردو کا روپ اختیار کر لیا۔اسی طرح خواجہ بندہ نواز گیسودراز نے بھی اُردو کی بھر پور خدمات انجام دی ہیں۔ معراج العاشقین، ہدایت نامہ، شکار نامہ تلاوت الوجود وغیرہ ان کی مشہور اور کامیاب تصانیف ہیں۔ خواجہ بندہ نواز کی نثری تحریر کا رنگ اسطرح ہے۔ ” نبی کہے تحقیق خُدا کے درمیان تے ستر ہزار پردے اُجیالے کے ہور اندھیار کے اگر اس میں تے یک پردہ اُٹھ جاوے تو اس کی آنچ تے میں جلوں “۔
ایک شعر بطور نمونہ:
کر نقاش جب تجھ دیکھیا صورت تری لکھنا سکیا
ان جسدکر جتنا جیا سب جنم اپنا کھونے
صدرالدین: حضرت بدرالدین چشتی کی مرید اور خلیفہ تھے بہمنی دور کے اس بزرگ کے تصوف سے متعلق ایک کتاب ”کسبِ محویت“ بہت مشہور ہوئی ہے اس کے علاوہ انہوں نے بہت سارے رسالے بھی لکھے ہیں۔ ان حضرات کے علاوہ سید محمد اکبر حسینی کا نام بھی بہت اہم ہے۔ یہ حضرت گیسودراز کے صاحبزادے تھے۔ یہ ایک مشہور عالم و فاضل بزرگ تھے۔ انہوں نے نثر و نظم دونوں میں نام کمایا ہے۔ شاہ میرانجی شمس العشاق نے بھی اُردو زبان کو فروغ دیتے ہوے بہت سارے رسالے اور نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی تصانیف میں بشارتِ الذکر، خوش نامہ، شرح مرغوب وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان بزرگان دین کے بعد سب سے اہم نام مُلا وجہی کا ہے۔ انہوں نے اپنی مثنوی ’قطب مشتری‘ اور مشہور تمثیلی داستان ’سب رس‘ اور تصوف سے متعلق ایک تصنیف ”تاج الحقائق“ پیش کر کے اُردو کے دائرے کو وسعت بخشنے اور ادبی شان پیدا کرنے میں اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان کے علاوہ حضرت قطب عالم، حضرت شاہ عالم، حضرت سید محمد جونپوری، شیخ بہاوالدین باجن، شہخ عبد القدوس گنگوہی، شہخ ہاشم حسنی علوی کے ہاں نثر و نظم کے ایسے ٹکڑے ملتے ہیں جن کو قدیم ریختہ و دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ عوامی زبان ادبی و تخلیقی زبان کا درجہ حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ ان بزرگان دین کے پیش نظر اس وقت تک اُردو زبان کی ترقی زیادہ نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے تو بس اپنا پیغام پہنچانے کے لئے اس عوامی زبان کو اپنا ذریعہ بنایا تھا۔ اسی طرح آگے بھی اس ضمن میں نئے نئے اضافے ہوتے گئے اور اُردو زبان کے فروغ ونشونما میں نئی راہیں ہموار ہوتی گئی۔ اور اُردو اس زمانے کی عوامی زبان بن کر اپنے تمام ادبی و تخلیقی امکانات کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئی۔ اس طرح ان صوفیائے کرام نے اُردو زبان کو موجودہ شکل اختیار کرانے میں جو کارنامہ انجام دیا ہے یہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
—-
Riyaz Ahmed
(OPJS University Churu Rajasthan)
فون نمبر: 7889734495/9596088326
ایی میل: