اسم محمّد کا اعجاز — صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
اسلام کے رکن اول یعنی شہادت توحید و رسالت کے دو حصے ہیں ۔۔ پہلا حصہ عقیدہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ پر مشتمل ہے دوسرا شہادت رسالت یعنی محمد عبدہ و رسولہ سے عبارت ہے۔۔۔ان دونوں حصوں کو بظاہر الگ الگ خیال کیا جاتا ہے ۔۔مگر واقعہ یہ ہے کہ شہادت توحید ایک دعوی ہے اور شہادت رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعوے کا ثبوت اور اس کی دلیل ہیں ۔
کیونکہ اللہ تعالی کے واحد و یکتا ہونے کا یقینی اور حتمی علم صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت سے کائنات کو حاصل ہوا ہے۔۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہکوئی ظاہری حسن و جمال میں شریک و ہمتا اور نہ کوئی باطنی حسن و جمال میں ہمسر ہے ۔۔۔انھی گوناگوں خصوصیات اور کمالات کی بنا پر اللہ جل شانہ کے بعد زمین و آسمان میں سب سے زیادہ تعریف و توصیف میرے آقا حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آئی ہے ۔۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمد رکھا گیا ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محمدیت کو اللہ رب العزت نے اپنی یکتائی کی واحد دلیل ٹھہرایا اور ارشاد فرمایا کہ میں واحد و یکتا ہوں ۔اس لیے کہ میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حسن و جمال اور سیرت و کردار میں یکتا ہے اور فرمایا جن لوگوں کو میری وحدانیت کی شہادت درکار ہو ، وہ میرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھنے لیں ، اس کی وجہ پیر تے طیبہ اور محاسن عالیہ کا مطالعہ کر لیں ، انہیں دنیا میں توحید کا سب سے بڑا ثبوت اور سب سے بڑی دلیل ہاتھ آ جائے گی۔۔۔
خداوند عالم نے اپنے محبوب کے لیے جو نام پسند فرماتے تھے اور بقول حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کے اللہ تعالی نے اپنے محبوب کا اسم گرامی اپنے نام پاک سے مشتق کیا ہے ، پس وہ عرش والا محمود اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔۔ان کی خبر اللہ جل شانہ نہ صرف یہ کہ انبیاء و رسل کو دیتا رہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کو بھی اس کی خبر پہنچا دی گئی تھی اسی لیے ان دونوں ناموں کی حفاظت بھی ہوتی رہی کہ کسی اور کو ان ناموں کے رکھنے کی جرات نہ ہو ۔۔۔۔ یہی نہیں بلکہ ان ناموں کے صدقے میں یہاں تک اہتمام ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلے اور آباؤاجداد کے ناموں میں بھی کوئی ایسا نام نہ آنے پائے جو کفر و شرک کی گندگی کا نشان یا علامت لیے ہوئے ہو ۔۔عرب کی فضا میں شرک اور بت پرستی گھلی ہوئی تھی وہ اپنی اولادوں یا قبیلوں کے جو نام رکھتے ہیں وہ یا تو مشرکانہ ہوتے یا مکروہ اشیاء پر رکھے جاتے ہیں یا پھر بے معنی ہوتے۔۔۔جیسے عبد الدار (آستانہ کا غلام)’ عبدؤد (ود دیوتا کا غلام)، حرب ( لڑائی )،جہل (جہالت)، عبد الشمس (سورج کا غلام)،عبدالعزی (عزی دیوتا کا غلام )، حزن (غم )، شداد (تندخو )وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورتوں کسے نام خنسا (چپٹی ناک والی)، عاصیہ ( نا فرمان )، رباب (باجہ )،عفرا (مٹی میں لتھڑی ہوئی) وغیرہ ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ قبیلوں کے نام بنو اسد ( شیر والے )، بنو صنبہ ( گوہ والے)،بنو نمرہ ( چیتے والے)وغیرہ اہم ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سارے نام کفر ؤ جہالت کی نشانیاں اپنے اندر سمیتے ہوے ہیں ۔۔۔لیکن شان کریمی اور اپنے محبوب اور اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا عالم دیکھئیے کہ جس طرح اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی حفاظت اور بشارت مسلسل چلی آ رہی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ ، خاندان اور اجداد کے ناموں میں اتنی احتیاط رکھی کہ کل کفار مکہ اور یہودی کسی بھی نام کو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب و جد ( باپ دادا) میں ہو ، مکروہ بتا کر طعنہ زنی نہ کر سکیں ۔۔۔۔اسی طرح ان ناموں کی حفاظت فرمائی اور یہ اہتمام فرمایا کہ کوئی بھی ایسا نام نہ رکھنے پائے جو اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعنہ زنی اور اس کی دل آزاری کا سبب بن سکے ۔۔اس خاص حفاظت کا نتیجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل خاندان کے نام عبداللہ رضی اللہ عنہ(اللہ کا غلام)، آمنہ رضی اللہ عنہا (امن جانے والی )،حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا (حلم والی )، ام یمن رضی اللہ عنہا (برکت والی)_ثوبیہ رضی اللہ عنہا (اعلی اخلاق و کردار والی)،عائشہ رضی اللہ عنہا (زندہ رہنے والی)، ام سلمہ رضی اللہ عنہا ( سلامتی والی )وھب ( بخش)، بنوہاشم(قحط میں بھوکوں کو روٹی چورہ کرکے کھلانے والے ) ، بنو سعد (نیک بخت )،شبیہ (سفید بالوں، بزرگی والے)، مناف (ممتاز ، شریف ، بلند)، وغیرہ رکھے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ان تمام اسماء میں بندگی ،شرافت، بزرگی، امن، بخشش ،حلم بزرگی ،سلامتی، شجاعت، اعلی اخلاق، نیک بختی اور خدمت جیسے اوصاف نمایاں ہیں ۔۔گویا اللہ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلے اور خاندان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ کو ناموں کی شکل دیکھ کر پھیلا دیا تھا اور پھر ان سب کو سمیٹ کر رک جا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جزو بنا دیا۔۔ یہ سب اللہ کی مشیت کے تحت ہی ہوا ۔۔۔میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے اسما مبارک عرب کے جاہلانہ و بت پرستانہ ناموں کے مقابلے میںاس طرح خوبیوں اور وصف سے روشن اور ممتاز ہیں۔ جیسے پتھروں میں ہیرے جواہرات ‘جیسے کانٹوں میں گلاب ہیں ۔۔۔۔حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کی معنوی خوبیاں شان و عظمت ،جلال و ہیبت ،لطف و عنایت، حسن و جمال، وصف و کمال ،رموز و اسرار انسانی نگاہ سے چھپے ہوئے ہیں۔۔لیکن صوری حسن بھی اتنا ہے کہ مداحان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تفسیروں میں دفتروں کے دفتر گل و گلزار کر دیے ہیں۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ناموں کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے ان میں کیسے کیسے راز چھپا رکھے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم کا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ( اللہ کا غلام) ہے ۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے مقدس ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر مطہر عبودیت کے خون سے تشکیل پذیر ہوا۔۔والدہ ماجدہ کا نام آمنہ رضی اللہ عنہا (امن چاہنے والی) ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن و آشتی کے بطن میں مراتب وجود کو مکمل فرمایا ۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انا یعنی دایہ کا نام حلیمہ رضی اللہ عنہا ( حلم والی) ہے ۔۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلم و بردباری کے دودھ سے تربیت فرمائی ۔۔ یہ اسرار پنہانی جوان اسما مبارکہ میں ہیں، ان کااجتماع ( ایک جگہ جمع ہو جانا)محض اتفاق نہیں ہے بلکہ قادر مطلق یہ بتا دینا چاہتا ہے کہ جس بچے کے پیکر عنصری میں ایسےفضائل ایک جگہ جمع ہو ،وہ حقیقتا اسم بامسمیٰ ہوگا ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں اسما گرامی احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں عجیب خصائص اور بدیع آیات ہیں، وہاں ایک اور نرالی بات یہ بھی ہے کہ سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے اللہ تعالی نے جملہ انسانوں کو اپنے بچوں کا نام محمد اور احمد رکھنے سے روکے رکھا اور کسی کو ان ناموں سے موسوم نہ ہونے دیا حالانکہ گزشتہ کتب سماویہ میں آپ کے یہ دونوں نام مذکور تھے ۔۔۔۔۔
انبیاء کرام علیہم السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری سنائی ہے حضرت عیسی علیہ السلام اپنی ساری زندگی احمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کا ڈنکا بج جاتے رہے۔۔۔لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے لوگوں کو اس نام کے رکھنے سے روکے رکھا ۔۔(یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور تک دنیا میں کسی بچے کا نام احمد اور محمد نہیں رکھا گیا )۔ ۔۔ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الشفا تعریف حقوق المصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لکھا ہے ۔۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی اس نام کے ساتھ موسوم نہیں ہوا تا کہ ضعیف عقیدے والوں کے دلوں میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ پیدا ہونے پائے اس صورت میں گمان ہو سکتا تھا کہ شاید اسی شخص کے بارے میں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی بشارت دی گئی ہے )۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب و عجم میں کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا ہاں جب آپ کی ولادت باسعادتکا زمانہ قریب آیا اور اس وقت کے اہل کتاب نے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد آمد کی خوشخبری سنائی لوگوں میں یہ شہرت عام ہوئی کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے والے ہیں اور ان کا نام پاک حضرت محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہو گا ۔۔
الفاظ مجموعہ حروف ہوتے ہیں ۔اگر ان میں سے کسی ایک حرف کو بھی کم کر دیا جاۓ تو بقیہ حروف اپنے معنی کھو بیٹھے ہیں مثلا ریاض ایک با معنی لفظ ہے ۔۔اور ۔۔ر ۔۔ی ۔۔ا ۔۔ض ۔۔کا مجموعہ ہے ۔۔اگر ان حروف میں ایک حرف بھی کم کر دیا جاۓ تو بقیہ حروف بے معنی ہو کر رہ جائیں گے لیکن اللہ رب العزت جل شانہ کا اسم ذاتی ” اللہ ” اور میرے آقا و مولا کے دونوں اسماے ذاتی محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قاعدے ، کلیے اور فارمولے سے مستثنی ہیں ۔۔۔۔۔
لفظ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا صحیح اور بامعنی لفظ ہے کہ اگر اس لفظ میں سے کوئی ایک حرف بھی کم کر دیا جائے تو بھی بقایا حروف بامعنی رہیں گے مثلا اس کا پہلا حرف میم ہٹا دیا جائے تو ہمارے پاس "احمد” باقی رہ جاتا ہے ۔جس کے معنی ہیں ۔۔بے پایاں تعریف و توصیف ، یعنی محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی ہستی ہیں جو بے پایاں ستائش و توصیف کے لائق ہیں اور واقعی آج ہر دیدہ و بینا گواہ ہے کہ مغرب سے مشرق تک اور شمال سے لے کر جنوب تک کرہ ارض پر ہر جگہ ہر مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف ہو رہی ہے ۔۔دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی لوگوں کے دلوں میں جاگزیں نہ ہو ۔۔۔ہر مسجد میں روزانہ پانچ بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی اسم گرامی کا ڈنکا بلند آواز سے بجتا ہے ۔۔دنیا میں قریہ قریہ ، بستی بستی یہی حال ہے پھر کائنات کا خالق حقیقی خود اور اس کے بے حد و حساب فرشتے ہر وقت میرے آقا تاجدار عرب و عجم ، امام الانبیا حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور درود و سلام کے گلدستے بھیج رہے ہیں ۔۔واقعی آپ اللہ جل شانہ ہو کا وہ شاہکار ہیں جس کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے۔۔ کم ہے ۔۔۔۔اگر محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے” ح ” کو کم کر دیا جائے تو” ممد” باقی رہ جاتا ہے ۔۔یعنی مدد کرنے والا ۔۔عطاے خداوندی سے آپ ہمیشہ سے اپنے چاہنے والوں کی مدد فرماتے رہے ہیں ۔۔۔
اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ابتدائی” میم اور ح ” حذف کر دیے جائیں تو باقی رہ جاتا ہے "مد” جس کے معنی ہیں ” کشیدن ” یعنی کھینچنا ۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم پاک ایسی پرکشش ہے کہ ایک دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف کھینچ لیا ہے ۔۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشش نے ایک دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا ہے ۔۔۔” مد” کے ایک معنی بلند اور دراز کے بھی ہیں ۔۔یہ میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کی طرف اشارہ ہے۔۔
اور اگر دوسرے میم کو بھی ہٹا دیا جائے تو صرف ” د ” (دال) باقی رہ جاتا ہے ۔۔جس کا ایک معنی مفہوم ہے دلیل دینے والا ۔۔یعنی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی وحدانیت پر دال ہے ۔۔۔”دال "کی ایک اور معنی ہیں رہنما ۔۔۔۔گویا حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری دنیا کے لیے رہنما ہیں ۔۔۔
لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لفظ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ہر حرف بامقصد اور بامعنی ہے ۔۔شروع کا الف ہٹا دینے سے” حمد” باقی رہ جاتا ہے جو بامعنی لفظ ہے اگر شروع کا الف اور ح نکال دیں تو "مد” رہ جاتا ہے ۔۔یہ بھی بامعنی لفظ ہے اگر اس میں سے میم کو بھی حزف کر دیا جائے تو دال رہ جاتا ہے یہ بھی بامعنی لفظ ہے۔۔ ۔۔۔۔
اللہ جل شانہٗ نے جب تکوين کائنات کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے اپنے نور سے اپنے محبوب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا پھر اس نور سے کائنات کی ایک ایک شے وجود میں لائی گئی۔۔
ہر چیز ہر نعمت محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ان کی خاطر پیدا کی گئی ہے اور کل کائنات میں جو کچھ بھی ہے، خالق کل نے وہ سب کا سب اپنے حبیب احمد مجتبیٰ دل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبضہ و اختیار میں دے دیا ہے اور ہر شے پر نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھ دیا ہے تا کہ سب جان لیں کہ ہر چیز محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہے۔۔ ہر شہر کے مالک محمد ہیں ۔۔۔صلی اللہ علیہ و آلہٖ و اصحابہٖ و بارک وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا بات ہے وہ چشم بینا کہاں سے لائیں ! جو زمین و آسمان میں اس نام نامی کے جلوے دیکھے ۔۔نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں نہیں ؟۔محبّتوں کے روزن سے نظارہ تو کرو ۔۔عالم بالا کا وہ کونسا عنصر ہے جس پر اس مقدس اسم کی حکمرانی اور سلطانی نہ ہو۔۔ زمین و آسمانوں کا وہ کونسا گوشہ ہے جس پر اس کا نام نامی کی بادشاہت نہیں ہے ۔۔اللہ رب العزت کو اپنے محبوب کا نام پاک ، اسم مبارک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس قدر پیارا ہے کہ اس نے یہ نام کائنات کے ذرے ذرے پر لکھ دیا ہے ۔۔۔
مرغوب ہے کیا صلی علیٰ نام محمد
آنکھوں کی ضیا دل کا جلا نام محمّد
اللہ رے رفعت کہ سر عرش خدا نے
اپنے ید قدر ت سے لکھا نامِ محمد
ہر حور کے سینے پہ’ہر اک شے پہ جناں کی
ہے قدرت خالق سے کھدا نام محمّد
اوراق پہ طوبی کے ، فرشتوں کی نگہ میں
کس شان سے منقوش ہوا نام محمّد
تکبیر میں ،کلموں میں، نمازوں میں، ازاں میں
ہے نام الہی سے ملا نام محمد
دن حشر کے جنت میں وہ جائے گا لاریب
تعظیم سے یاں جس نے لیا نام محمد
(صلی اللہ علیہ و آلہٖ و اصحابہٖ و بارک وسلم )