شہنشاہ کائنات کا نظام سلطنت
محترم محمد رضی الدین معظم ؒ
حیدرآباد ۔ دکن
نوٹ : محترم محمد رضی الدین معظم صاحب ‘ ایک نامور ادیب ‘ معروف استاد اور ایک شخصیت کے مالک تھے ۔ان کے کئی مضامین جہان اردو کی زینت بن چکے ہیں۔غالباََ کورونا کے ابتدائی لاک ڈاون کے دوران آپ انتقال فرما گئے ۔ آپ بہت دنوں سے علیل تھے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماے ‘ ان کے درجات کو بلند فرماے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ۔ یہ مضمون ان کے فرزند نے ہمیں ارسال کیا ہے۔
آج تک جس طرح اقوام عالم میں بادشاہوں‘ وزراء صدور مملکت کے ہاں ایک مخصوص منظم منتخبہ شاہی فوج ہوا کرتی ہے جس میں مخصوص پولیس‘ مخصوص عملہ اور مخصوص عہدہ دار و افسران ہوتے ہیں………. بالکل اسی طرح شہنشاہ کائنات جل شانہ جل جلالہ رب العزت حق سبحانہ و تعالیٰ کے ہاں بھی سب سے زیادہ طاقتور خدائی نظام کو چلانے والا ایک منظم مستحکم نورانی عملہ موجود ہوتاہے جو کائنات سے متعلق اللہ ذوالجلال کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور اپنے ان فرائض میں ذرہ برابر بھی کوتاہی و عدول حکمی نہیں کرپاتے………… آج جوں جوں سارا عالم مادیت کی جانب کشش کرتا جارہا ہے اللہ رب العزت سے اور ان کے جلال و جبروت سے بندگان خداوند کی توجہ اور دلچسپی مفقود ہوتی جارہی ہے اور دنیا کے خرافات میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ وہ اللہ جل شانہ کے تصور سے بھی غافل و نادان ہوچکے ہیں۔ آج ہماری حالت اس نوبت تک پہنچ چکی ہے کہ ہم عالم کے کسی ملک‘ ریاست کے حکمراں یا مادی طاقت فوج‘ پولیس‘ اسلحہ‘ نظام حکومت کے بارے میں تو بکثرت معلومات رکھتے ہیں لیکن سب سے بڑے تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ وزرائے اعظم کے وزیر اعلیٰ اور صدر الصدور کے صدر اعظم‘ حکمرانوں کے احکم الحاکمین‘ ملک الملوک حق سبحانہ و تعالیٰ کی طاقت و قدرت اور اس کے عظیم الشان و مایہ ناز ممتاز‘ معظم مسعود اقبال مند نظام و قانون سے ناآشنا ہیں۔ آج عالم کے ہر بشر کو احکم الحاکمین رب العالمین کے غیبی نظام سے واقفیت حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔ آج کی اس ملاقات میں بندۂ عاجز شہنشاہ کائنات احکم الحاکمین رب العالمین کے نظام کو چلانے والے عملے کے متعلق ایک معمولی خاکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
فرشتے ”خدائی نظام کو چلانے والا نورانی عملہ“ :
انسان اور جنات کی طرح فرشتے بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ حق سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا کیا ہے ہے۔ وہ زمین و آسمان ہر جگہ موجود ہیں مگر رب العزت نے انہیں ہماری نظروں سے پوشیدہ رکھا ہے۔ وہ لاتعداد و بے شمار ہیں اللہ جل جلالہ کے سوا کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا۔ حدیث شریف میں ہے کہ تمام مخلوقات کے دس جزو ہیں جن میں سے ملائکہ کی تعداد (نو) ہے اور باقی ایک تمام مخلوقات کی۔ وہ معصوم ہیں ان سے کسی طرح کا گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ ان کی فطرت سراسر اطاعت خداوندی ہے۔ یہ مرد عورت پن سے پاک ہیں یہ مرد ہیں نہ عورت یعنی ان کی کوئی خاص صورت نہیں یہ ہر شکل میں ظہور میں آسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہے کہ ان کے دو دو تین تین چار چار پر بھی ہوتے ہیں۔ کھانے پینے وغیرہ جسمانی لوازم سے پاک ہیں۔ یہ ہر وقت خدا کی یاد اور اس کی حمد و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے انہیں جن فرائض پر منظم و منتخب کیا ہے وہ ان کو صحیح پورے طور پر بحسن خوبی انجام دیتے ہیں۔ کارخانہ قدرت کے مختلف کام ان میں سے اکثریت کے تفویض ہیں اور یہ جس جس کام پر بھی مامور ہیں اس کو بجالانے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرپاتے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو اپنی نورانی طاقت عطا فرمائی ہے کہ وہ حسب خواہش حسب ضرور ت حسب معاملہ اپنی شکل و صورت کو تبدیل کرسکتے ہیں اور آن واحد اور آناً فاناً ایک سمت سے دوسری سمت پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دراصل آنکھوں سے نظر نہ آنے والی مخلوق ہے۔ حتیٰ کہ حق سبحانہ نے انہیں وہ طاقت و قوت عطا فرمائی ہے کہ بحکم خداوندی اپنے ایک پر کی مدد سے ساری کائنات کو زیر وزبر کرسکتے ہیں۔
اللہ ذوالجلال کے نظام کو چلانے والے نورانی عملے کی فوج بے حد وبے انتہا ہے جس کی تعداد معلوم کرنا ناممکن ہے۔ اس عظیم المرتبت مایہ ناز ممتاز معظم مسعود اقبال مند نورانی عملہ میں پولیس‘ سی آئی ڈی سب ہی قسم کے فرشتے اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی حاصل کردہ اور پیش کردہ رپورٹیں‘ مبالغہ آمیزی سے دروغ بیانی سے بالکل مبرا ناقابل انکار حرف بہ حرف سچی اور صداقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ الغرض پوری کائنات کو چلانے والے یہی فرشتے ہیں۔
چار فرشتے اولوالعزم‘ ممتاز‘ معظم اور افضل ہیں: اللہ رب العزت نے اپنے اس عظیم المرتبت مسعود اقبال مند نظام کو چلانے کے لئے جہاں لاتعداد ملائکہ و فرشتوں کا انتظام فرمایا ہے ان میں سے چار فرشتوں کو اولوالعزم‘ ممتاز معظم اور افضل قرار دیا ہے وہ یہ ہیں:
(۱) حضرت جبرئیل علیہ السلام‘ جو پیغمبرو ں کے پاس وحی لایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم جو پیغمبرو ں پر نازل ہوا کرتا تھا خواہ جبرئیل کے ذریعہ ہو یا اور طریقے سے اس کا نام وحی ہے۔
(۲) حضرت میکائیل علیہ السلام جو پانی برسانے اور مخلوق کو روزی پہنچانے پر مامور ہیں۔
(۳) حضرا اسرافیل علیہ السلام جو صور لئے کھڑے ہیں اور قیامت کے دن پھونکیں گے۔
(۴) حضرت عزرائیل علیہ السلام جو ہر جاندار کی روح قبض کرنے پر مامور کئے گئے ہیں۔
فرشتوں پر ایمان لانا لازمی ہے: جس طرح ایک عاقل‘ بالغ‘ خدائے واحد ذوالجلال پر ایمان لانے کا مکلف ہے‘ اسی طرح خدائی نظام کو چلانے والے نورانی عملے یعنی فرشتوں پر ایمان لانا لازمی ہے۔ ان کے وجود سے انکار کرنا کفر ہے۔ امنت باللہ و ملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر والبعث بعد الموت والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ۔ (ترجمہ) ”میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے پر اور تقدیر پر کہ اس کی بھلائی و برائی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔“
آسمانی فرشتوں کا نظام عمل :
(۱) آسمان اول کے فرشتے بیل کی شکل کے ہیں۔ ان فرشتوں کا نام حفظہ ہے۔ یہ گنتی میں لاتعداد ہیں ان کے سردار کا نام اسماعیل ہے۔
(۲) آسمان دوم کے فرشتے گھوڑے کی شکل کے ہیں۔ یہ فرشتے حق سبحانہ و تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی آواز بادل کی گرج جیسی ہوتی ہے۔ تسبیح پڑھتے وقت ان کے منہ سے نہایت چمکدار روشن منور نور کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ ان فرشتوں کے سردار کا نام رادیائیل ہے۔
(۳) تیسرے آسمان کے فرشتوں کی فوج مختلف رنگ کے پرندوں کی طرح ہے جن میں سے ہر پرندے کے ستر پر ہوتے ہیں۔ تیسرے آسمان کے فرشتوں کے سردار جنجائیل کہلاتے ہیں۔
(۴) آسمان چہارم کے فرشتے عقاب کی شکل و صورت کے ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے ایک ہزار بازو ہوتے ہیں۔ ان فرشتوں کے سردار صلصائیل کہلاتے ہیں۔
(۵) پانچویں آسمان کے فرشتے چھوٹے معصوم انسانی بچوں کی شکل و صورت کے ہوتے ہیں ان میں ہر ایک بصہ ایک ہزار لغت جانتاہے۔ ان فرشتوں کے سردار کا نام سخیائیل سے موسوم ہے۔
(۶) چھٹے آسمان والے فرشتے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کے ہم شکل ہوتے ہیں ان کے سردار کا نام صوریائیل ہے
(۷) آسمان ہفتم والے فرشتے بنی آدم کی شکل و صورت کے سے ہوتے ہیں جو ہر وقت حضرت انسان کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور جب کسی انسان کا انتقال ہوتاہے تو اس مرنے والے شخص کے غم میں آہ وزاری کرتے ہیں۔ اس ساتویں آسمان کے فرشتوں کے سردار کا نام میخائیل ہے۔
فرشتے جو عرش الٰہی کو اٹھانے والے ہیں :
حضرت علامہ عینی شارح بخاری شریف فرماتے ہیں۔ مروی ہے کہ عرش الٰہی کو چار فرشتے اٹھانے والے ہیں۔ ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ انسانی شکل و صورت کا ہوتاہے‘ دوسرا بیل کی شکل و صورت کا‘ تیسرا فرشتہ گدھ کی شکل وصورت کا اور چوتھا فرشتہ شیر کی شکل و صورت کا۔
عرش الٰہی کی بناوٹ :
حضرت علامہ نسفیؒ کا قول ہے کہ عرش الٰہی کے جملہ (۳۶۰) ستون ہیں جن میں ہر ایک کی لمبائی بارہ ہزار سال کی مسافت ہے اور ہر دو ستون کے درمیان ستر ہزار شہر واقع ہیں اور ہر شہر میں ستر ہزار محل بنے ہوئے ہیں اور ہر محل میں ستر ہزار فرشتے رکھے گئے ہیں۔ عرش الٰہی کے طول و عرض کی کوئی حد نہیں اور عرش الٰہی کو بلاناغہ ستر ہزار نورانی کپڑوں سے ملبوس کیا جاتاہے کسی بشر کی مجال نہیں ہے کہ اس طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لے۔
لوح محفوظ :
لوح محفوظ میں کائنات اور مخلوقات سے متعلق وہ اقوال اندراج کئے گئے ہیں جو آفرینش عالم سے تا قیامت حالات و کیفیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوح محفوظ جو ایک قدرتی کتاب ہے سفید آب دار موتی کی مانند ہے جس کو سرخ یاقوت اور زمرد سے سجایا گیا ہے۔ اس لوح محفوظ کی چوڑائی زمین و آسمان کی چوڑائی کے برابر ہے۔ اس کی لمبائی اللہ رب العزت کے سوا کسی کو نہیں معلوم۔ عرش الٰہی اور کرسی کے درمیان لوح کا مقام ہے۔
اللہ جل جلالہ جبروت کی کرسی :
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: ”وسع کرسیہ السموات والارض“۔ اللہ تعالیٰ کی کرسی تمام آسمانوں اور زمینوں کو محیط ہے۔ اس کرسی کی بناوٹ سفید موتی کی ہے ا سکے طول و عرض کا علم بھی اللہ جل جلالہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ عرش الٰہی کے مانند اللہ رب العزت کی اس کرسی کے بھی ۳۶۰ ستون ہیں اور ہر دو ستون کا درمیانی فاصلہ بارہ ہزار سال کی مسافت کے برابر ہے۔
ملائکہ مقربین کے اسمائے گرامی اور کنیت :
حضرت علامہ عینی شارح بخاری شریف رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
(۱) جبرئیل علیہ السلام جن کا اصل نام عبدالجلیل ہے اور کنیت ابوالفتوح ہے۔
(۲) میکائیل علیہ السلام کا اصلی نام عبدالرزاق اور کنیت ابوالغنائم ہے۔
(۳) اسرافیل علیہ السلام کا اصلی نام عبدالخالق ہے اور کنیت ابوالمنافع ہے۔
(۴) عزرائیل علیہ السلام کا اصلی نام عبدالجبار ہے اور کنیت ابویحییٰ۔
حضرت ابن ثابت رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ اللہ ذوالجلال کی جانب سے متذکرہ چاروں فرشے دنیا کے کاموں کی تدبیر پر مامور ہیں۔
(۱) حضرت جبرئیل علیہ السلام لشکروں اور ہواؤں کے انتظامات اور وحی پر مامور ہیں۔
(۲) حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور زمین کی پیداوار کے انتظامات پر مامور کئے گئے ہیں۔
(۳) حضرت عزرائیل علیہ السلام کے فرائص ہر جاندار کی روح قبض کرنا ہے۔
(۴) حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے اور ان تینوں ملائکہ عظام پر اللہ ذوالجلال کا حکم لاتے ہیں۔
فرشتوں کی سرزمین :
حضرت مقاتل رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ کوہ قاف کے عقبی حصہ میں زمین کا ایک بہت بڑا وسیع حصہ ہے جو چاندی کے رنگ کی مانند ہے۔ اس حصہ میں بے شمار اور ان گنت فرشتے رہتے ہیں اور ان کی کثرت تعداد کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتاہے کہ اگر آسمان سے ایک سوئی پھینکی جائے تو وہ فرشتوں کے سروں پر ہی گرے گی‘ زمین تک نہیں پہنچ سکے گی۔ مروی ہے ماہ رجب المرجب میں ہر شب یہ تمام فرشتے یکجا اکٹھاہوکر اللہ رب العزت کے حضور میں امت رسول معظم ؐ خیر الانام ممتاز الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائے مغفرت میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ جل جلالہ ان کی آہ و زاری کو دیکھ کر فرماتاہے کہ”تم کیا چاہتے ہو؟“فرشتے عرض کرتے ہیں ”یا احکم الحاکمین! ہم امت محمدیہ رحمتہ اللعالمین کی بخشش طلب کرتے ہیں“۔ اللہ سبحانہ فرماتاہے کیوں مایوس ہوتے ہم نے امت رسول معظم خیر الانام کے لئے بخشش عام کردی ہے اور سب کو مغفرت عطا کی ہے۔ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔
زمین فرشتے کے ایک کاندھے پر قائم ہے :
مروی ہے کہ جب اللہ جل شانہ صاحب جلال و جبروت نے زمین کی تخلیق فرمائی تو وہ کشتی کے مانند تھپیڑوں پر تھپیڑے کھانے لگی تو حق سبحانہ و تعالیٰ نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ زمین کو ساکن و برقرار کر رکھے بحکم خداوندی فرشتے نے زمین کے نیچے داخل ہوکر کرۂ زمین کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھ ایک مشرقی سمت ایک مغربی سمت پھیلا کر زمین کے ساتوں طبق کو مضبوطی سے جکڑلیا۔ کرۂ زمین کو قابو میں کرنے کے بعد جب فرشتے کے قدم لڑکھڑانے لگے تو اللہ رب العزت نے جنت سے ایک بیل کو بھیج دیا جو چالیس ہزار ٹانگ اور چالیس ہزار سینگ والا ہے۔ اس بیل نے اپنے سینگ فرشتے کے پاؤں پر رکھنے چاہے لیکن اس کے سینگ فرشتے کے قدموں تک نہ پہنچ سکے تو حق سبحانہ و تعالیٰ نے ایک سبز رنگی یاقوت بیل کے سینگوں پر رکھ دیا اسی یاقوت پر فرشتے کے پیر رکھے ہوئے ہیں اور قیامت تک زمین اسی طرح برقرار رہے گی۔
سات زمینوں پر انسانی مخلوق آباد کی گئی ہے :
علمائے کرام سے منقول ہے کہ زمینوں کو بھی سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس پر انسانی آبادی مخلوق کی گئی ہے۔ حضرت ستریؒ اپنے مشائخ کرام کے حوالے سے فرماتے ہے ں کہ زمین کے سات طبقے ہیں۔ زمین کا پہلا طبقہ جس پر ہم آبا دہیں۔ دوسرے طبقے میں ریح عقیم ہے تیسرے پر جہنم کے پتھر ہیں جن سے جہنم کی آگ روشن کی جائے گی‘ چوتھے طبقے پر جہنم کی گندھک ہے‘ پانچویں زمین پر سانپ ہی سانپ بسائے گئے ہیں۔ چھٹے میں جہنم کے بچھو ہیں کے برابر اور ہمشکل ہیں جن کے کان نیزوں سے زیادہ تیز اور نوکدار ہیں۔ آخری طبقہ ابلیس لعین کا مقام ہے۔
اللہ رب العزت کا خفیہ عملہ‘ کراماً کاتبین :
اللہ جل شانہ نے ہر مرد عورت کے حالات کی رپورٹ تیار کرنے کے لئے ہر شخص پر دو فرشتوں کو مامور فرمایا ہے۔ ان فرشتوں کے نام کراماً کاتبین ہیں۔ انسان جو کچھ کرتاہے‘ کہتاہے‘ دیکھتاہے‘ سنتا ہے‘ چلتاہے۔ غرض ہر حرکت اور ہر فعل جو انسان سے سرزد ہوتا رہتاہے فرشتے‘ کراماً کاتبین ہوبہو نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ یہی ریکارڈ اللہ ذوالجلال کے پا س انسان کا اعمال نامہ تیار کرانے میں مدد دیتاہے جو قیامت کے روز بارگاہ رب العزت میں پیش ہوگا اور روز قیامت اسی کی بنا پر اپنا فیصلہ صادر کرے گا اور اسی اعمال نامے کے ذریعہ دوزخ اور جنت کا مستحق قرار دیا جائے گا۔
بعد موت تحقیق و جانچ پڑتال کرنے والے فرشتے :
جب حضرت انسان انتقال کرجاتے ہیں تو جیسے ہی میت کو دفن کردیا جاتاہے تو دو فرشتے میت کے پاس آتے ہیں جن کو منکر نکیر یا نکیرین کہا جاتاہے۔ اس وقت جس میت میں روح ڈال دی جاتی ہے اور پھر میت سے حسب ذیل سوالات کئے جاتے ہیں:
(۱) تیرا رب کون ہے (۲) تو کس مذہب کا پیروکار ہے (۳) حضور رسول معظم ممتاز الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ مبارک دکھا کر پوچھا جاتاہے کیا تم ان کو پہچانتے ہو! جو مسلمان دیندار اور ایماندار ہوتے ہیں وہ فوراً ہی ان سوالات کا جواب دیدیتے ہیں‘ ان کے جوابات کی بناء پر ان پر عذاب یا ثواب ہوتا رہتاہے۔
۳۶۰ دستکاروں کی مدد سے ہمارا رزق تیار ہوتاہے :
جب ہم دستر خوان پر کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں تو ہماری روٹی کو ہم تک پہنچنے میں ۳۶۰ دستکاروں کی مدد کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ ان دستکاروں میں سب سے پہلا فرض حضرت میکائیل علیہ السلام انجام دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرشتے شمار میں آتے ہیں جو بادلوں کو حرکت دیتے ہیں اور پھر بارش ہوتی ہے اس کے علاوہ کئی فرشتے چاند‘سورج‘ ہوا وغیرہ کی مدد سے پھر زمین کے چوپائے اور بالآخر وہ مردوزن ہیں جو ہماری روٹی تیار کرتے ہیں تب جاکر ہم اپنی روٹی کھاتے ہیں۔
جنازہ کے ہمراہ فرشتے بھی چلتے ہیں :
حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ حضور افتخار المرسلین رسول معظم ممتاز الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت کی روح فرشتوں کے دست مبارک میں ہوتی ہے اور جب تک جنازہ قبر تک نہیں پہنچ جاتا برابر جنازے میں شریک رہتے ہیں۔ جیسے ہی جسد میت قبر میں اتار کر مٹی کے برابر کردیا جاتاہے تو یہ فرشتے روح کو دوبارہ میت کے جسم میں ڈال کر ہٹ جاتے ہیں مردے سے نکیرین سوالات کرتے ہیں۔
بوقت موت نابینا اشخاص بھی ملک الموت کو دیکھ لیتی ہیں :
حضرت عکرمہؓ سے دریافت کیا گیا کہ جو آدمی دنیا میں نابینا رہا کیا وہ آخر وقت ملک الموت کو دیکھتا ہے۔ حضرت نے جواب دیا کہ روح قبض کرتے وقت مرنے والے کو ملک الموت بخوبی نظر آتے ہیں چاہے وہ زندگی میں کتنی ہی مدت نابینا کیوں نہ رہا ہو۔
بوقت موت فرشتے انسان کو جکڑبند کرلیتے ہیں :
حضرت خواجہ فضیل بن عیاض سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ جس انسان کی روح قبض کی جاتی ہے تو وہ خاموش کیوں رہتاہے حالانکہ انسان کی حساسیت کا یہ عالم رہتا ہے کہ اگر ایک ادنیٰ سی چیونٹی بھی کاٹ لے تو وہ بے قرار و بے چین ہوجاتاہے؟ حضرت فضیلؓ نے فرمایا ”انسان حالت سکرات میں اس لئے خاموش ہرتے ہیں کہ ایسے وقت ان کو فرشتے جکڑبند کرلیتے ہیں“۔
ملک الموت کی شکل و صورت :
ایک بار حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے حضرت عزرائیل علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا ”اے ملک الموت! تم کافروں کی روح کس طرح قبض کرتے ہو“۔ ملک الموت نے جواباً عرض کیا۔ اچھا آپ اپنا منہ ذرا پھیر لیجئے۔ جیسے ہی حضرت ابراہیمؑ نے اپنا منہ پھیرا کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سیاہ فام شخص ہے جس کا سر فلک کی قربت میں ہے اور اس سیاہ فام شخص کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔
ذکر الٰہی و دکر محمدیؐ کے وقت فرشتوں کا نزول :
حدیث شریف میں ہے کہ حضور مصلح اعظم افتخار المرسلین ممتاز الانبیاء رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی مجلس ذکر الٰہی کے لئے منعقد ہوتی ہے تو اس پر رحمت و مغفرت نازل ہوتی ہے‘ فرشتے اس مجلس کو ڈھانک لیتے ہیں اور اللہ ذوالجلال ان بندوں کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں سے فرماتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جو شخص حضور معظم پر ایک بار درود بھیجتا ہے تو اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر بار رحمت بھیجتے ہیں (احمد) حضور ممتاز الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے اور کہنے لگے جو شخص آپ پر درود پڑھتا ہے اس پر ستر ہزار فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور جس پر فرشتے رحمت بھیجتے ہیں وہ جنتی ہے (خیر المواعظ)جس مجلس میں حضور رسول معظم ممتاز الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھی جاتی ہے اس سے ایک خوشبو نکلتی ہے جو فلک تک پہنچتی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ وہ مجلس ہے جس میں حضور رحمتہ اللعالمین پر درود پڑھا گیا۔ (دلائل الخیرات) اگر کوئی مجلس میں بیٹھتے وقت ”بسم اللہ الرحمن الرحیم وصلی اللہ علی محمد“ کہہ لیں تو اللہ جل جلالہ ایک فرشتے کو مقرر فرمادیتا ہے جو اس کو غیبت سے باز رکھتا ہے‘ مجلس سے اٹھتے وقت بھی اگر یہی پڑھے تو دوسروں کو اس کی غیبت سے باز رکھتاہے اور فرمایا کہ اللہ کے فرشتوں کا نزول زمین پر ہوتا رہتا ہے اور وہ میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں (نسائی) پھر مزید فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو فرشتے مقرر فرمائے ہیں‘ جب کسی مسلمان کے سامنے میرا ذکر ہوتاہے اور وہ مجھ پر درود پڑھتاہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں غفراللہ لک (اللہ تجھے بخش دے۔آمین) اللہ تعالیٰ و فرشتے اس کے جواب میں آمین کہتے ہیں (طبرانی) حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور رسول معظم نے فرمایا جو کوئی بندہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود کو ایک فرشتہ بارگاہ خداوندی میں لے جاتاہے اللہ جل جلالہ فرماتاہے کہ کہ اس درود کو میرے بندے محمدؐ کی قبر پر لے جاؤ تاکہ وہ اس کے پڑھنے والے کے لئے دعائے مغفرت کریں اور اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔ (بیہقی)
بروز قیامت عرش الٰہی کا سایہ کن پر ہوگا؟ :
حضور مصلح اعظم افتخار المرسلین رسول معظم ممتاز الانبیاء سردار دوجہاں احمد مجتبیٰ نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت ہولناک دردناک دن عرش الٰہی کا سایہ حسب ذیل لوگوں پر ہوگا اور ان کو جوار رحمت اور قربت کاملہ کا پورا پورا شرف حاصل ہوگا۔
”امام عادل‘ جوانی میں اللہ کا عبادت گزار‘ جس شحص کے دل میں سدا مسجد کا خیال رہے کہ اذاں ہو تو ادائیگی نماز کے لئے مسجد میں جاؤں گا۔ دو اشخاص جو محض اللہ ذوالجلال کے لئے آپس میں محبت و دوستی کو روا رکھتے ہیں۔ جس شخص کو کسی حسینہ جمیلہ نے اپنا نفس سپرد کردیا ہو اور وہ باوجود قدرت کے خوف خدا کی وجہ سے زنا سے باز رہا ہو۔ وہ شحص جو اس قدر پوشیدہ طریقہ سے صدقہ کرتا ہوں کہ دائیں ہاتھ کے صدقے کی خبر بائیں ہاتھ کو مطلق نہ ہوسکے۔ تخلیہ میں خوف خدا سے آہ وزاری کرنے والا‘ مقروض کو محض اللہ ذوالجلال کی خوشنودی کی خاطر مہلت دینے والا‘ حسن اخلاق سے پیش آنے والا‘ تجارت میں بخوف خدا سچائی کو ملحوظ رکھنے والا‘ اندھیری رات میں مسجد کی طرف جانے والا‘ بھوکے کو کھانا کھلانے والا‘ یتیم کی پرورش کرنے والا‘ بیوہ عورت کا خدمتگار‘ ایسی بیوہ جو محض اپنے بچوں کی دینداری و صحیح تربیت کی خاطر دوسرا نکاح نہ کرے۔ ایسا شخص جو اپنے عمدہ کھانے میں یتیم کو بھی شریک کرے۔ ایسا شخص جو اللہ رب العزت کی معیت کا یقین رکھتا ہو۔ ایسا غریب جو باوجود فقر و فاقہ کسی کی طرف نگاہ اٹھاکر نہ دیکھے‘ نہ اس کوکوئی جانے پہچانے غیر معروف اور خاموش زندگی بسر کرنے والا۔ ایسا شخص جو بچپن میں قرآنی تعلیم حاصل کرے اور نوجوانی میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہو۔ جس کی آنکھ‘ کان‘ ناک حرام چیزوں سے باز رہیں جس نے حرام چیز کی جانب نگاہ تک اٹھاکر نہ دیکھا ہو۔ جو سود و رشوت نہیں لیتا۔ جس نے مصیبت زدہ کی مصیبت دور کی۔ جس نے سنت رسول معظم کو زندہ کیا۔ درود شریف بکثرت پڑھنے والا‘ بیماروں کی عیادت کرنے والا‘ دل و زبان سے خدائے پاک کا ذکر کرنے والا‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکرنے والا‘ اہل تقویٰ“۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد جن پر قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ ہوگا ستر کے قریب قریب ہے۔ یہ تعداد مختلف احادیث میں مذکور ہے۔ سطور بالا میں ان میں سے کچھ مخصوص کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو بروز قیامت سایہ عرش الٰہی میں رکھے اور جوار رحمت اور قربت کاملہ کے شرف سے فیض یاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
٭٭٭