مسجد سے افضل امام اور مؤذن ہوتاہے
مفتی محمد ضیاء الحق قادری فیض آبادی
اسلامک ریسرچ اسکالر،
رابطہ نمبر 9721009708
سمجھ میں نہیں آتا کہ چھیڑوں داستاں کیسے
ہنساؤں تو بغاوت ہے رولاؤں تو بغاوت ہے۔
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے
ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر لوگ علماے کرام کی عظمت و عزت سے غافل رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ انتہائی ناروا تعلقات رکھتے ہیں۔حالانکہ علماے کرام کی شان و شوکت بیان کی جائے تو ایک طویل مضمون تحریر میں لایا جا سکتاہے آج کے اس دور پر فتن میں علماے کرام کی گستاخی کرنے کو ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے جب کہ غور و فکر کیا جائے تو اکثر لوگوں کی گرفت ہوتی ہے علماے کرام کی گستاخی کی بنا پر یہی سبب ہے کہ علماے کرام کی گستاخی کر کے رحمت خدا وندی سے محروم ہو گئے ہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ منقول ہے کہ فتح مکہ کے حسین موقع پرکعبہ شریف کی چھت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو چڑھا کر یہ ارشاد فرمایا کہ ایکعبہ تیری حرمت اورعزت اپنی جگہ لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑھ کرایک انسان کی جان، مال،عزت وآبروہے۔اگرکوئی اس کو نقصان پہنچائیگاتووہ کعبہ کوڈھانے سے بھی زیادہ بڑھ کر ہے۔ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی المولی عنہما نے کعبہ معظمہ کو دیکھ کر فرمایا۔مااعظمک واعظم حرمتک والمومن اعظم حرمۃ عند اللہ منک اے کعبہ تیری بڑی عظمت و شان ہے لیکن ایک مومن کی عزت و عظمت اللہ کے نزدیک تجھ سے کہیں زیادہ ہے۔(ترمذی شریف)اب ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے جوقوم اپنے علماء کرام کا خون چوسی اور ان کی بے حرمتی کرنے میں فخر محسوس کرے وہ رحمت خداوندی کی کیسے مستحق ہوسکتی ہے۔ماو شما اگر اپنے گردو نواح میں جاکرمساجد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے فلاں گاوں کی مسجد کی تعمیر میں ایک کروڑ روپئے صرف ہوے ہیں۔اور اگر کہی پر مسجد کی تعمیر میں اگر پچاس لاکھ روپئے صرف ہوکر تعمیری کام مکمل ہوا تو مسجد کی کمیٹی کے لوگ خوش نمائی میں پچاس لاکھ صرف کر دیتے ہیں۔اس طرح سے اپنے علاقہ کی ایک مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا ماشائ اللہ ہرطرف تعمیری سرگرمیاں نظر آرہی تھیں۔کام بہت تیزی سے چل رہاتھا۔ کہیں پر سنگ مرمر بچھایا جارہا تھا تو کہیں پر ٹائلیں لگائی جارہی تہیں۔ توکہیں پر بجلی فٹنگ،کہیں پر ریپیرنگ وغیرہ وغیرہ!معلوم کرنے پر مسجد کی موجودہ کمیٹی نے بتایا کہ. تقریبا15 لاکھ روپے لگ چکے ہیں اور اندازہ کے مطابق اتنے ہی روپے ابھی اور بھی لگ جائیں گے۔تعجب اس کام پرنہیں ہورہا تہا،بلکہ میری حیرت کی اصل وجہ یہ تہی۔کہ مسجد بنی بنائی پہلے ہی سے موجود تھی،بس نمازیوں کی سہولت اوراس سے بہی زیادہ خوش نمائی کے جذبہ سے یہ کام کیا جارہا تھا،اگلے ہی لمحہ مسجد کے امام صاحب قبلہ سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے ان کی تنخواہ معلوم کی اس امید پر کہ ایسی جگہ20ہزارسے کم تنخواہ کیاہوگی،جس مسجدمیں 30لاکھ روپئے خوش نمائی کیلیے لگاے جاسکتےہوں،تو اس جگہ پر اتنی تنخواہ کوئی مشکل نہیں لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب امام صاحب قبلہ نے جواب میں صرف اور صرف 7ہزار تنخواہ ! اورستم بالایے ستم وہ بھی وقت پرنہیں ملتی،میں متفکر ہو گیا کہ سن2020میں اس سے کہیں زیادہ کاتومتولی کیگہرکادودھ ہی آ جاے گا اور ایک امام صاحب کی ضروریات گھی،تیل، آٹا،سبزی،گوشت،بچوں کی اسکول فیس جیسے چائے اور ناشتہ دوا،مہمان،سفر وغیرہ کے اخراجات نئے کپڑے،سردی اورگرمی کی ضروریات،وغیرہ وغیرہ،ان سب کاموں کیلئے7 ہزار ۔۔۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
انتہائی افسوس کے ساتھ سارے جذبات کو دل میں محسوس کیا،پھر اپنے ایک کرم فرما مشفق عالم دین مفتی شرع متین صاحب قبلہ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔اسے سن کر وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے اور قبلہ مفتی صاحب کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور فرمانے لگے کہ آج مسلمانوں پرجوحالات آرہے ہیں یہ علما کا خون چوسنے اور بے حرمتی کرنے کی ہی وجہ سے آرہے ہیں ۔خود حضور علیہ السلام نے طواف کعبہ کرتے ہوئے کعبہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
ما اطیبک و اطیب و یحک والذی نفس محمدی بیدہ لحرمۃ المومن اعظم عند اللہ حرمۃ منک۔
اے کعبہ تو بھی پاکیزہ تیری ہوا بھی پاکیزہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی جان ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی عزت تجھ سے کہیں زیادہ ہے (ترمزی شریف صفحہ ۲۹۰)
سرکار مدینہ سلطان انبیاء علیہ السلام نے حجراسود کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا تھاکہ تجھ سے زیادہ عزت والا ایک مسلمان ہے،تو جب ایک مسلمان حجراسودسے افضل ہیتوعالم شریعت یقینا بدرجہ اولی افضل ہے۔ الہذا مسجد سے افضل مسجدکا امام اور مؤذن ہیں۔اب اگر مسجد کے ممبران یاکمیٹی اورمتولی حضرات ائمہ مساجد کو کمتر اورمسجدوں کو ان سے افضل سمجھ رہے ہیں تو ان کو جاہل اجہل ناہنجار بیوقوف متکبرنا لائق کہہ دیاجائے تو کوئی غلط بات نہیں۔ (یہدیہم اللہ ویصلح بالہم) راقم الحروف کا بارہا تجربہ رہا ہے کہ جب بھی مسجد کمیٹی کے پاس کچھ بیلنس بڑھ جاتاہے، تو ان کی سوچ و فکربس یہی ہوتی ہیکہ کس طرح اس پیسے کو پیشاب خانہ،بیت الخلاء، اینٹ گارا مٹی میں لگا دیاجائے، چاہے ان حضرات کو کوئی چیز بنی بنائی توڑ کر ہی کیوں نہ بنانی پڑے مگران کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ،امام یا موذن یا مدرس کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جائے یا ان کی کسی ضرورت پرخرچ کردیا جاے مکتب میں اساتذہ کرام کا اضافہ کردیائے جائے یہ بات حرف غلط کی طرح سے ان حضرات کے دماغ میں نہیں آتی۔
وطن عزیز کی مساجد کے ہزاروں ائمہ کرائے کے مکانوں میں یا مسجد کے ایک حجرہ میں رہ کر زندگی کے شب و روز کو گذارکر اس سراے فانی سے رخصت ہوگئے مگر افسوس صد افسوس! ان فرعون صفت ممبران مساجد کمیٹی کو ذرا بھی رحم نہیں آیا اور خوف خدا سے ان کا دل عاری ہوکر امت کے لاکھوں کڑوڑوں روپیے غیرضروری تعمیرات میں صرف کر دیے گئے۔ خوف خداسے عاری ایسے ممبران مساجد کو دھیان رکھنا چاہیئے کہ حساب وکتاب کادن اور اعمال تولنے والی ترازو ان کے لیے بہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سرکار مدینہ سلطان انبیا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم غلامان محمدصلی اللہ علیہ وسلم کواپنے امام ومؤذن علما کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین!