ادب اور ادبی خصوصیات کی ہمہ گیری
پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو،
جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد
ادب اور ادبی خصوصیات کی نمائندگی پر اظہار خیال بنیادی طور پر حد درجہ دشوارمرحلہ ہے کیونکہ انسان کو حاصل ہونے والی خوشی یا پھر اس کے دل میں موجود غم کی کیفیت کو بیان کرنا جس طرح سخت دشوار ہے اور اس کے ساتھ ہی خوشی اور غم کے معاملات کو ناپا اور تولا بھی نہیں جاسکتا۔ادب اور ادب کی خصوصیات کا تعلق بھی انسان کے جسم اور اس کے روحانی معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔
اسی لئے ادب اور ادبی خصوصیات کی ہمہ گیری کو پیش کرنا اور اس کی وضاحت کو نمایاں کرنا بھی سخت دشوار ہے۔صرف اس قدر کہاجاسکتا ہے کہ ادب اور ادب پارے کی عمدہ خصوصیات جن ادبی نثری تحریروں یاشاعری میں شامل ہوں گی‘ ان خصوصیات کے توسط سے انسان بلا شبہ دو بڑے جذبوں سے آراستہ اور پیراستہ ہوتا ہے اور ان جذبوں کو عام انداز سے مسرت اور بصیرت کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ادب اور ادبی خصوصیات سے وابستہ کوئی بھی فن پارہ چاہے اس کا تعلق شعری انداز سے ہو یا نثر نگاری کے علاوہ شعری و نثری اصناف کے کسی بھی مرحلہ سے کیوں نہ مربوط ہو اگر اس کے توسط سے اگر سامع یا قاری کو مطالعہ کے بعد سکون و آرام اور تسکین کے علاوہ راحت اور مسرت کے علاوہ بصیرت کا سامان میسر آتا ہے تو پھر اس رویہ کو ادب اور ادبی خصوصیات کا حامل قرار دیا جائے گا۔ ادب کی نمائندگی صرف شعری اور نثری اصناف سے نہیں ہوتی‘ بلکہ ہردور میں شعر و ادب کے تقاضے اور اس کے ساتھ ساتھ اظہار کی برجستگی اور لفظو ں کی ساختگی کے علاوہ جملوں اور فقروں میں روانی کے ساتھ ساتھ حد درجہ صاف ستھرا اور شستہ انداز نمائندگی کا درجہ حاصل کرلے تو ہی کوئی بھی ادبی تحریر مکمل ادب کی نمائندہ اور ادبی خصوصیات کی علمبردار قرار دی جائے گی۔
کسی بھی تحریر کو چاہے وہ نثر کی نمائندہ ہو یا شاعری کا وسیلہ سے ‘ اس کا ادب میں شمار کرنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ ادب کے تمام تر تقاضوں کی تکمیل نثر پارے کا حصہ بن جائے یاشاعری کا وجود قرار دیاجائے‘ لازمی ہے کہ کسی بھی ادب میں شاعری کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح نثر کے تقاضے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ نثر کے لئے افسانوی نثر کے تقاضوں کی مکمل تکمیل اور غیر افسانوی نثر کی اصناف کے لئے ان کے فن اور تکنیک اصولوں کی تعمیل کی جانی ضروری ہے۔اسی طرح شاعری کے لئے تمام شعری اصناف کی ضرورتوں کو پوراکرتے ہوئے شعر گوئی پر توجہ دیئے جانے کی وجہ سے کوئی نثر کا لکھا ہوا حصہ یا شاعری کا لکھا ہوا کلام فن اور تکنیک سے وابستہ ہوکر ادب کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔زبان و بیان اور اظہار کے علاوہ صنف کی ضرورت کے ساتھ ساتھ تخلیقی حسیت اور پیش کرنے والے کے تجربات اور احساسات کے علاوہ اس کی ذاتی سوچ اور سماج پسندی کا اندازجب تک اس کی تخلیق کا حصہ نہیں بنتا‘ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ادبی تحریر یا شعری حیثیت ادب کے دائرہ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ عام طور پر یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ ہر لکھی ہوئی چیز کو ادب کے احاطہ میں شامل کیا جانا چاہئیے ایسی سوچ بلا شبہ ادھوری سوچ ہی نہیں‘ بلکہ حد درجہ بے ادبی کی دلیل ہے۔ادب اور ادب کی خصوصیات کا شمار اسی وقت ممکن ہوتا ہے‘جبکہ کوئی بھی لکھنے والے کی تحریر میں نثر یا شاعری کی صنفی خصوصیات کے ساتھ زبان و بیان اور اظہار کی بے ساختگی کے علاوہ فن کی گہرائی اور گیرائی کا وصف نمایاں ہوتا ایسی تحریر کو ادب اور ادبی خصوصیات کا حامل شعر یا نثر کا کارنامہ قرار دیاجائے گا۔
ہر دور اور ہر زمانے کی ضرورتوں کے اعتبار سے ادب کی تحریر اور ادبی تقاضوں کی تکمیل میں فرق پیدا ہوتا ہے‘ اگر کسی ادب دوست نے دوسو یا تین سو سال پہلے لکھی جانے والی تحریری خصوصیات کوشامل کرکے موجودہ دور میں اس اندازکو ادب اور ادبیات کا اظہاری رویہ قرار دے تو بلا شبہ مناسب نہیں قرار دیا جائے گا۔ یعنی ہر دو رکاادب اس دور کے سماجی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور مذہبی تقاضوں کی تکمیل میں حصہ ہی نہیں لیتا‘ بلکہ اس دور کے انسانی تقاضوں اور مسائل کی نمائندگی کا حق بھی ادا کرتا ہے‘ اس لئے ادبی تحریر یا ادبیات کی نمائندہ خصوصیت کو کسی بھی عہد اور اس کے دور سے ضروروابستہ کیا جائے گا۔غرض ادب تحریر کرنے کے دوران ادبی خصوصیت میں سب سے اہم بات یہی ہوتی ہے کہ ادب کو ماورائی نہ بنایا جائے‘ بلکہ حقیقی بنانے کے لئے تاریخی اور سماجی پس منظر کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضرورتوں اور انسانی مسائل کو بھی ادب کے معاملات میں شامل کیا جائے۔اردو زبان ہی نہیں‘ بلکہ دنیا کی ہر زبان کے قدیم ادب میں ماحول‘ معاشرہ‘ سماج اور انسانی مسائل کی نمائندگی کو کو نظرانداز کیاجاتا تھا‘ جس کے نتیجہ میں ایسا ادب پیدا ہوا جو داستانوی ادب کی حیثیت سے شہرت رکھتا اور شاعری میں بھی مثنوی اور قصیدہ کی مبالغہ آمیز روایت نہ صرف ادب کے قدیم ذخیروں میں موجود ہے‘ بلکہ اسی کو ادب کی ضرورت کہا جاتا ہے۔موجودہ دور میں داستانوی ادب کی غیر فطری خصوصیت اور مثنوی اور قصیدہ کے شعری ورثے میں بھی حقیقت سے بے نیازی اختیار کی گئی۔چنانچہ اس دور کے ماحول اور سماج کے علاوہ انسانی جستجو اور جدوجہد کو اس دور کے ادب میں پیش نہیں کیا گیا اگر موجودہ دور میں ادب اورادبیات کی خصوصیات کو نمائندگی ہو تو دور حاضر کے انسان کے مسائل اور اس کی جدوجہد ہی نہیں‘ بلکہ اس کے عہد کے معاشرہ کی خصوصیات کو بھی شعری یا نثری انداز میں بیان کیا جائے تو ایسا ادب ہی ہم عصر ادب کہلائے گا۔ ہر زمانے کا ادب اس دور کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔چنانچہ اردو میں لکھا ہوا داستانوی ادب اور مثنوی کے علاوہ قصیدہ گوئی کا ادب بلا شبہ مبالغہ آمیز اور حیرت انگیز ماحول کی نمائندگی کرنے والے زمانے کا ادب کہلاتا ہے‘جسے دور جدید کے ادب کے ناقدوں اور محققوں نے ”ادب برائے ادب“کے دور سے تعبیر کیا ہے۔ ایسے ادب کو دل بہلائی اور وقت گزاری کے علاوہ حیرت انگیز دنیا سے وابستگی کا ادب قراردیا‘ اس قسم کے ادب عصرحاضر میں فروغ نہیں دیاجاسکتا‘ کیونکہ موجودہ زمانے کی دنیا اور انسان کی سماجی حالت اور اس کی جستجو کے علاوہ ترقیات کے پس منظر میں اس کی بگڑتی ہوئی اخلاقی‘مذہبی اور معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ جن ممالک میں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے‘ وہاں کے معاشرہ میں پڑھی ہوئی تہذیب سے دوری اور‘اخلاق اور مذہب بیزاری کے رویوں کو پیش کرتے ہوئے ادب لکھا جائے تو ایسا ادب‘ ادبی خصوصیات‘ماحول اور معاشرہ کا نمائندہ قراردیا جائے گا۔اسی خصوصیت کو ظاہر کرنے کی وجہ سے موجودہ دور کے ادب کو ”ادب برائے زندگی“کی حیثیت سے قبول کیاجاتا ہے۔ ا س اعتبارسے ادب اورادبی خصوصیات میں وہ تمام عوامل شامل ہوئی ہیں‘جن کے ذریعہ انسان دنیا میں ترقی یا تنزل یاپھر خوشی اورغم کے علاوہ معاملات اور مسائل سے وابستہ ہوکر انہیں حل کرنے اور عملی طور پر زندگی کی جدوجہد کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے۔غرض ایسے معاملات کو نثر میں یا شاعری کے ذریعہ پیش کیا جانا ہی ادب اور ادبیات کی خصوصیات میں شامل ہے اور اسی کی وجہ سے ادب میں تنوع اور ادب کی خصوصیات میں حد درجہ اختراع پسندی شامل ہوجاتی ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ ادب کے لئے شعری اظہار اختیار کیا جائے یا نثری رویہ کو پیش نظر رکھا جائے‘دونوں خصوصیات میں ادب اسی وقت لوگوں کو مسرت اور بصیرت سے وابستہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جبکہ ادب لکھنے والے کی تحریر کے ذریعہ جدت پسندی‘ ایجادی قوت اور متنوع خیالات کی نمائندگی ہوگی۔اگر کسی ادیب کے تحریری رویہ سے تقلیدی عنصر نمایاں ہورہا ہے یا پھر وہ کسی دوسرے فن پارے کی تقلید کرنے اور اس کے انداز کو اپنے طرز میں پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ایسا ادب نہ تو ادبیات میں شامل کیاجائے گا اور نہ ہی ایسی تحریرو ں کو ادب کی علمبردار قرار دینا مناسب سمجھا گیا۔ اس کے توسط سے ادب کی توسیع ہونا اورادب کے حدود کو وسعت دینے کی گفتگو بھی بے فیض ہے۔ہرادب چاہے وہ نثر میں لکھا جائے یا شاعری کے توسط سے منظر عام پر آئے شعری اور نثری تحریرکو تخلیق کی خصوصیت سے وابستگی برقرار رہے تو ہی وہ ادب اور ادبیات کی نمائندگی کرتا ہے۔تخلیق کی خصوصیت اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جبکہ کسی بھی زبان کی ادبی خصوصیات کا لحاظ رکھا جائے‘ اگر شاعری ہو تو اس کے توسط سے وزن‘ بحر اورقافیہ و ردیف کے علاوہ شعری اصناف کے ساتھ ساتھ نثر کی افسانوی اور غیرافسانوی خصوصیات پر توجہ دیتے ہوئے نہ صرف اختراع پسندی کو پیش نظر رکھا جائے بلکہ متنوع خیالات کو پیش کرنے کے لئے اظہار کی بالیدگی اور زبان کی موجودہ روش کو پیش نظر رکھا جائے تو ہی کسی بھی ادب پارہ میں کوئی بھی ادبی خصوصیت یاادبیا ت کی ہمہ گیری واضح ہوگی ہے۔ جہاں تک ادب اور ادبیات کا معاملہ ہے یہ تصور کرلینا مناسب نہیں کہ قدیم دور سے کسی بھی ادب میں موجود شعری اور نثری اصناف کے روایتی انداز میں اظہار خیال کرناہی ادب اورادبیات کی دلیل ہے۔ایسا نظریہ حق پسند نظریہ نہیں قرار دیاجائے گا۔جس طرح انسان کی سوچ اور اس کے مسائل حل کرنے کے معاملات میں تبدیلیاں رونماء ہوتی رہتی ہیں‘ اسی طرح شعری اور نثری اصناف اور ان کے تقاضوں میں بھی تبدیلیو ں کاپیدا ہونا بھی فطری انداز اختیار کرنے کی دلیل ہے۔اس لئے قدیم روایتی شعری اور نثری اصناف سے واقفیت کے ساتھ جدید اور عالمی زبانوں سے منتقل ہونے والی شعری اور نثری اصناف پر توجہ دینا بھی ادب اور ادبیات کی خصوصیات میں شامل ہے۔اس اعتبار سے شاعری میں داخل ہونے والی نئی شعری اصناف میں نہ صرف پنجابی زبان کا ماہیااور جاپانی زبان کا ہائیکواور انگریزی زبان کے سانیٹ‘ ترائیلے کے علاوہ ہندی زبان سے گیت اور دوہے کی روایت رفتہ رفتہ اردو زبان کا شعری حصہ بن چکی ہے۔اسی طرح اردو زبان کی غزل کی روایت کو ہندوستانی زبانیں ہی نہیں‘ بلکہ یوروپی زبانیں بھی اختیار کررہی ہیں۔انگریزی شاعری سے آزاد اور معریٰ نظم ہی نہیں‘ بلکہ نثری نظم بھی اردو شاعری میں اپنا اثر دکھارہی ہے‘ اسی طرح اردو نثر میں ادب اور ادبیات کے توسط سے نہ صرف ناول‘افسانہ‘ ڈراما‘ناولٹ‘ رپورتاشسوانح‘ خود نوشت سوانح‘خاکہ‘ تحقیق‘ تنقید اور سفر نامہ کے علاوہ سرگزشت کا انداز بلا شبہ ارد و کی ادبی نثر میں انگریزی ادبیات سے منتقل ہوا۔اس طرح دور حاضر میں کوئی شخص زبان و ادب کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کے لئے ان شعری اور نثری اصناف کی طرف توجہ دے اور اس میں تخلیقی صلاحیت کے علاوہ اختراعی اور ایجادی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے زبان و بیان کے ساتھ ساتھ اظہار کی بے ساختگی پرتوجہ دے تو اس قسم کی تمام تحریروں کو بلا شبہ ادب اور ادبیات کا وسیلہ قرار دیاجائے گا۔بشرطیکہ اس میں نیا پن اور جدت طرازی ہو‘ اس کے بجائے تقلید‘ خوشہ چینی اور نقالی کا انداز شامل ہو یا پھر اس میں دوسری زبانوں کے ادبیات کے ترجمہ کی خصوصیت کو شامل کیا جائے تو بلا شبہ ایسا انداز ادب اور ادبیات کے تقاضوں کے مغائر قرار دیا جائے گا جس کے توسط سے ایسی تحریریں نہ تو ادبی تحریریں قرار دی جائیں گی اور نہ ہی ان میں شامل مواد کو ادبیات کا درجہ دیا جائے گا۔
ادب اورادبیات کی سب سے اہم ضرورت شعری و نثری اصناف میں پیش کیا جانے والا وہ متن یا مواد ہے جس میں تخلیقی حسیت اور اظہاری حقیقت شامل ہوتی ہے۔ہر صنف نثر اور شاعری بلا شبہ تخلیقی حسیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور اسی طرح متن میں اظہار کرنے کا فطری رویہ شامل نہ ہو تو ایسی تحریر بھی ادب کے دائرہ سے دور اور ادبیات کی خصوصیات سے بے نیاز قرار دی جائے گی۔کسی بھی ادبی صنف یا ادبی اظہار کے لئے اس کی سب سے بڑی ضرورت مواد یا متن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔مواد میں جس قدر گہرائی اور گیرائی کے علاوہ جدت پسندی اور اختراعی صلاحیت کا استعمال ہوگا‘اسی قدر مواد یامتن کو پسند کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔جس طرح کوئی بھی کاریگر خام مواد حاصل کرکے اس میں اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کو شامل کرکے اہم چیز وجود میں لاتا ہے تو اس کی اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور کی پلاسٹک صنعت اور کاغذ کی صنعت کے علاوہ کانچ کی صنعت کے علاوہ ہر قسم کی معمولی سی معمولی صنعت جیسے مٹی سے برتن بنانے کے معاملہ میں بھی جب تک کمہار اپنی کاریگری کا مظاہرہ کرکے مٹی میں خوبصورتی پیدا کرنے کی خصوصیت شامل نہیں کرے گا‘ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ گندھی ہوئی مٹی میں حسن پیدا ہو۔اس سے بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہر ایجاد‘ہر تخلیق اور ادبی معاملہ میں شعری اور نثری خصوصیت میں جب مواد کو شامل کیا جاتا ہے تو اس مواد کے ساتھ متن پیش کرنے والے کی جدت طرازی اور فنی آگاہی کے علاوہ فکر کی گہرائی اور گیرائی شامل ہوتو ہی کسی بھی ادب پارے میں خوبیوں اور خصوصیات کا شامل ہونا ضروری ہے۔کسی فن کار کے ذریعہ تصویر بنائی جاتی ہے یاسنگتراشی کے نمونے پیش کئے جاتے ہیں یا کوئی موسیقی کی دھن بنانے میں مصروف ہوتا ہے‘ یا پھر کسی شخص کے ذریعہ فن تعمیر کے نمونے وجود میں آتے ہیں اور کسی سائنسداں کے غور و فکر کے نتیجہ کے علاوہ کسی مفکر‘ دانشور اور اہل علم فرد کی تحریر سے الفاظ ادا ہوتے ہیں تو ایسے وقت مواد کی موجودگی کے ساتھ مواد پیش کرنے والے کی دلچسپی اور اس کی اپنی ذہانت کے علاوہ کاریگری کو بھی دخل ہوتا ہے‘جس کے بعد ہی کوئی تحریر یاکوئی ادب پارہ اپنے انداز سے حد درجہ معرکتہ الآرا قرار دیئے جانے کی خصوصیات کا حامل ہوجاتا ہے۔اس طرح ادب اور ادبی خصوصیات کے ذریعہ ہر صنف نثر اور شاعری میں مواد کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘ لیکن مواد میں حسن پیدا کرنا اور اس میں کاریگری کے علاوہ فنکاری کا مظاہرہ کرنا بلا شبہ تخلیق کار کے مزاج اور اس کی ذہنی صلاحیت کا کارنامہ ہے۔غرض ادب اور ادبی خصوصیات میں نہ صرف زبان و بیان اور اظہار کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی صنفی خصوصیت کو کام میں لاتے ہوئے کسی بھی موجود مواد یا متن کو تمام تر کاریگری کے ساتھ پیش کرنا حقیقت میں ادب اور ادبیات کی نمائندگی کرنے کے مترادف ہے‘ چنانچہ دنیا کے شاعرو ں اور ادیبوں کے توسط سے جس قسم کے شعری اور نثری کارنامے انجام پاتے ہیں‘ ان میں لازمی نہیں کہ ہر شاعر اور ادیب کی جانب سے پیش کردہ نثری و شعری ادب کو اہمیت حاصل ہوجائے‘ بلکہ وہی ادب اور ادبی خصوصیات سے وابستہ فن پارے کو حد درجہ مقبولیت حاصل ہوگی جو بلا شبہ کاریگری کے ساتھ ادب کے طریقہ کو اختیار کرنے اور اس میں صنفی اور فنی خصوصیات کو جگہ دینے کا اہم کارنامہ انجام دیتا ہے‘ اسی لئے شاعری کی تمام اصناف میں افسانوی کے علاوہ غیرافسانوی اصناف کی تمام خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر ادب لکھا جائے تو ہی ایسا ادب قابل قبول ہوگا۔قصیدہ کی صنفی بھی خصوصیات مرثیہ میں شامل نہیں کی جاسکتیں‘ اسی طرح غزل کی صنفی خصوصیات کو رباعی میں جگہ نہیں دیا جاسکتا۔یہی صورتحال نثری اصناف کابھی ہے‘ چنانچہ افسانہ کی فنی خصوصیات کو ڈرامے میں شامل نہیں کیا جاسکتا اور ناول کی فنی خصوصیات کو افسانہ میں جگہ نہیں دی جاسکتی۔ یہی نہیں‘ بلکہ انشائیہ‘ خاکہ اور سوانح کی صنفی خصوصیات کو سفر نامہ‘ تذکرہ‘ دیباچہ‘ تحقیق اور تنقید کی اصناف میں شامل نہیں کیا جاسکتا‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ تخلیق کا ر چاہے وہ نثر کی نمائندگی کرتا ہو یاپھر شاعری کے توسط سے اپنے فن کے جوہر دکھاتا ہو‘ اس کے لئے زبان‘ بیان‘ اظہار اور مواد کی پیشکشی کے ساتھ ساتھ صنف کی ضرورت اور اس سے آگاہی کے علاوہ صناعی اور کاریگری کو پیش نظر رکھنا بی ضروری ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اور ادیب کی لکھی ہوئی تحریر کو ادبی کارنامہ نہیں قرار دیا جاسکتا‘ بلکہ ایسی تحریریں ہی کارنامہ کا ذریعہ رکھتی ہیں جن میں تمام ادبی خصوصیات اور ادبیات کے تمام محاسن کو شامل کرکے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس میں کاریگری کی صلاحیت شامل ہوجائے۔ ان تمام حقائق کے باوجود بھی پیش ہونے والے فنی کارنامہ میں مسرت اور بصیرت کی خصوصیت کا دخل نہ ہو تو پھر ایسی تحریر نہ تو ادبی تحریر قرار دی جاسکتی ہے اور نہ اس میں شامل ہونے والے عمل کو ادبیات کا درجہ دیاجاسکتا ہے۔اس طرح ادب لکھنے والے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ جس صنف کی نمائندگی کررہا ہے اس سے آگاہی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں پیش کردہ مواد میں جدت اور نئے پن کی نشاندہی کرتے ہوئے ایسے فن کارانہ رویہ کا استعمال کرے کہ جس کی وجہ سے نثری یا ادبی کاوش مکمل طور پر ادبی خصوصیات کی حامل ہوجائے۔جس کے لئے صرف مواد اور صنف کے علاوہ زبان و بیان اور اظہار کی خصوصیات کو ہی اہم مقام حاصل نہیں ہوتا‘ بلکہ فنکار کی جدت طرازی اور اس کی کاریگری کے نمونو ں کو اہمیت دی جاتی ہے۔تعمیر کا ماہر شخص کسی وقت بھی ریت‘ اینٹ‘ سمنٹ اور تعمیر کے لئے استعمال ہونے والے مواد کی طرف توجہ نہیں دیتا‘ بلکہ وہ تیار ہونے والی عمارت میں خوبصورتی پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اسی طرح کوئی سنار‘ کوئی لوہار اور کوئی ہیرے جواہرات کا پاریکھ بھی یہی طریقہ اختیار کرتا ہے کہ جو چیز اس کی وجہ سے وجود میں آئے وہ منفرد ہو اور اس میں کاریگری کے عمدہ اوصاف شامل ہوں‘ اسی طرح ادب کی شعری اور نثری اصناف کو اختیار کرتے ہوئے جو شاعر اور ادیب ذہن کی چابکدستی اور جدت طرازی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایجادی صلاحیتوں کے ساتھ کوئی بھی ادب پارہ پیش کیا جاتا ہے‘اس میں ادب کی فنی‘ ادبی‘ موادی اور کاریگری کے علاوہ لکھنے والے کی ذہنی سطح کی نمائندگی بھرپور انداز سے شامل ہوجائے اور اسے پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں مسرت اور بصیرت کا رحجان واضح ہوجائے تو ہی ایسی تحریر وں کو ادب اور ادبی مزاج کے حامل ہی نہیں‘ بلکہ ادبیات کا علمبردار قرار دیا جائے گا۔ اسی لئے دنیا کے کسی بھی ادب میں لکھی جانے والی تحریر کو ادبی اور نمایاں مقام حاصل نہیں ہوتا‘ بلکہ جن شعری اور نثری کاوشو ں کے ذریعہ قاری کے ذہن کو بالیدگی حاصل ہواور اس کے مطالعہ سے مسرت اور بصیرت کے کارنامے انجام دیئے جائیں تو ایسے ہی کارناموں کو علم و ادب کی میراث کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔