سنجیدگی و سادگی کے پیکر مولانا انعام الحق صاحب :- امانت علی قاسمی

Share
مفتی امانت علی قاسمی

سنجیدگی و سادگی کے پیکر مولانا انعام الحق صاحب

امانت علی قاسمی
استاذ ومفتی دارالعلوم وقف دیوبند

۳/جولائی بروز جمعہ صبح نو بجے دارالافتاء میں فتوی نویسی کا کام کررہاتھا کہ اطلاع ملی کہ حضرت مولانا انعام الحق صاحب،صاجبزادہ حضرت مولانا علامہ اکرام علی صاحب سابق شیخ الحدیث جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کا معمولی علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جانا تو سب کو ہے، کوئی رہنے نہیں آیا ہے اور ہر کسی کے آنے سے پہلے اس کے جانے کا وقت طے ہوجاتا ہے،یہ اور سی بات ہے کہ اس کا علم نہ جانے والے کو ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے متعلقین کو ہوتا ہے،تاہم بعض مرتبہ جانے سے پہلے موت کا الارم بج جاتا ہے،کچھ مہلک بیماری مریض کو اس کے آگے کی منزل کا پتہ بتادیتی ہے، اور بعض مرتبہ اس کی مہلت بھی نہیں ملتی ہے،اس دوسری موت پر صدمہ زیادہ ہوتا ہے۔پھر اگر جانے والا صرف خاندان کا سربراہ نہ ہو؛ بلکہ کسی بڑے ادارے کا ذمہ دار ہو تو اس کے جانے کا درد اور بھی گہرا ہوجاتا ہے،مولانا انعام صاحبؒ اسی دوسری قسم میں شامل تھے۔ آپ کے جانے سے نہ صرف ان کے خاندان کے لوگوں کو غم ہوا ہے؛ بلکہ آپ کے ادارے میں پڑھنے والے، اس ادارے کے وابستگان،اور ان کے علمی فیض سے فیض پانے والے پورے حلقے کو بلکہ علاقہ میں انہوں نے جو علم کا چراغ روشن کیا تھا اس کی جو روشنی دور تک پھیل رہی تھی اور جہاں جہاں اس کی روشنی پہونچ رہی تھی ہر ایک نے اس ناگہانی تکلیف کو محسوس کیا ہے۔
حضرت مولانا انعام صاحب،کی فراغت 1918ء میں ہوئی دارالعلوم کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر آپ دورہ حدیث میں زیر تعلیم تھے۔آپ دارالعلوم دیوبند کے بافیض لوگوں میں تھے،آپ نہ صرف بڑے باپ کے صاحبزادے تھے، بلکہ ایک عرصے تک آپ کی زندگی جہد و مسلسل سے عبارت ہے،ابتداء میں آپ نے تدریس کو معاشی مشغلہ نہیں بنایا؛بلکہ دینی مشغلہ بنایا تھا،معاش کے لیے آپ کاروبار کرتے تھے،اوراعزازی طور پر علاقہ کے معروف ادارہ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر(بھاگل پور،بہار) میں تدریسی خدمات انجام دیتے تھے، یہ ادارہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے اور سو سال سے زیادہ قدیم ہے،آپ نے یہاں بڑی نیک نامی کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دی؛بلکہ آپ کو اس ادارے کے اہتمام کی پیش کش کی گئی تھی لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا،ایک مرتبہ آپ کو مہتمم بنادیا گیا تو آپ نے ایک ہی رات میں ا ستعفی دے دیا۔
آپ خلیق طبیعت کے حامل تھے، منکسرا لمزاج تھے، تحمل اور بردباری، سادگی و ملنساری،آپ کی نمایاں صفات تھیں،علماء سے محبت کرتے تھے،اورحضرت علامہ اکرام علی صاحب کے سچے جانشین تھے،اور ان کے کام او رمنصوبے کو حسن و خوبی، عزم و استقلال اوربڑی نیک نامی کے ساتھ آگے لے کر جارہے تھے،حضرت علامہؒ نے رشید العلوم (قصبہ،چمپانگر،بھاگل پور،بہار) کی شکل میں جو پودہ لگایا تھا،مولانا مرحوم اس کی جڑ یں مضبوط کررہے تھے،اور تنا ور درخت کی شکل میں ادارہ کی ملک و بیرون میں پہچان کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے،آپ نے رشید العلوم میں معیاری تعلیم و تربیت کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی،اور ادارہ نے شہر اور صوبہ میں تعلیم و تربیت کے باب میں نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے، طلبہ ادارے میں پڑھنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے ہیں یہ سب مولانا مرحوم کی شبانہ روز جد و جہد اور سوزدروں کا نتیجہ تھا۔
رشید العلوم کے اصل بانی حضرت مولانا علامہ اکرام علی صاحبؒ تھے، آپ ملک کے نامور محدث شمار ہوتے تھے، اور زندگی کا بیشتر حصہ علم حدیث کی خدمت میں صرف کی تھی،پوری دنیا میں آپ کے شاگرد پھیلے ہوئے ہیں،آپ کے علمی افادات کی اہل علم کی نگاہ میں بڑی قدر و قیمت ہے، علامہ ا کرام علی صاحب جب بولتے تھے تو محسوس ہوتا تھاکہ علم کے موتی رولتے ہیں، اس لیے حضرت علامہ کے افادات کی اشاعت کی بڑی شدید ضرورت تھی، مولانا انعام صاحب جب بھی بیرونی سفر پر جاتے تھے تو ان سے حضرت علامہ کے افادات کی اشاعت کا اصرار ہوتا تھا، اور خود بھی مولانا،صاحب بصیرت عالم دین تھے؛اس لیے آپ نے اس سلسلے میں مختلف لوگوں سے بات کی اوران کے کاموں کے اشاعت کی ترتیب بنائی، اس موضوع پر احقر سے بھی اکثر و بیشتر بات ہوتی تھی،احقر حضرت علامہ اکرام علی صاحب کی ترمذی کی تقریر کو مرتب کررہا ہے، جلداول چھپ کر منظر عام پر آچکی ہے اور جلد ثانی کا کام تکمیل کے مرحلہ میں ہے،راقم الحروف نے یہ کام کئی سال پہلے شروع کیا تھا لیکن ہجوم کار کی بناء پر مکمل نہیں کرسکا تھا، بعض اوقات میں نے معذرت بھی کی کہ کام کسی اور سے کرالیں شاید جلدی سے کام منظر عام پر آجائے لیکن مولانا کا ایک ہی جملہ ہوتا تھا کہ کام آپ کو ہی کرنا ہے اور میں کسی اور یہ کام نہیں کراؤں گا۔
اس کی بھی ایک خاص وجہ تھی، مولانا مرحوم مجھ سے بہت زیادہ مانوس تھے،جس وقت میں دارالعلوم میں زیر تعلیم تھا مولانا اس وقت اکثر دیوبند تشریف لاتے اور میرے پاس ہی قیام کرتے تھے،اس وقت رشید العلوم کی تعمیر کا کام چل رہاتھا، مختلف موضوعات پر کھل کر باتیں ہوتی تھیں، میں چوں کہ طالب علم تھا اس لیے بے باکانہ تبصرہ کرتا تھا اور مولانا کو پسند آتا تھا ایک مرتبہ آپ دارالعلوم دیوبند میں طلبہ بھاگل پور کی انجمن بزم سہول کا اختتامی پروگرام کے موقع پر تشریف لے آئے، میں نے آ پ کی صدارت میں یہ پرواگرام کیا اور آپ کی خدمت میں سپاس نامہ بھی پیش کیا مولانا اس سے بہت خوش ہوئے۔
میں جب بھی وطن جاتا تھا تو مولانا سے ضرور ملاقات ہوتی تھی، اگر میں کسی وجہ سے خود نہ جاسکتا توآپ، مفتی عبد اللہ آزاد صاحب یا مولانا محبوب صاحب کے توسط سے مجھے بلاتے تھے، اور تحفۃ العبقری کے سلسلے میں گفتگو ہوتی تھی،اور اس کے ساتھ ہی بہت باتیں ہوتی تھیں، محسوس ہوتا تھا کہ آپ اپنے ادارے کو ملک کا ممتاز ا دارہ بنانا چاہتے ہیں، ہر وہ کام جودینی مدارس کے لیے مناسب ہے وہ کرنا چاہتے تھے،مولانا نے بہت جلد اپنے ا دارے میں دورہ حدیث تک کی تعلیم شروع کرادی تھی، یہ میں سمجھتا ہوں کہ بہار کی حدتک اس مدرسہ کا امتیار ہوگا جہاں اس قلیل مدت میں بخاری کی تعلیم ہونے لگی تھی، لیکن، کسی وجہ سے جلد ہی وہاں دورہ حدیث کا سلسلہ موقوف ہوگیا اور تعلیمی نظام پنجم یا شسم عربی تک محدود ہوکر رہ گیا۔ مولانا فرماتے تھے میں یہاں بہت کام کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے کام کے ا یسے افراد میسر نہیں ہیں جو میں چاہتا ہوں، مولانا کی خواہش تھی کہ میرے ادارے سے کوئی ماہنامہ جاری ہو،تاکہ اس کا فائدہ دور دراز تک جائے، ایک مرتبہ تو میں نے ماہنامہ نکالنے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی تھی لیکن،اے بسا آرزہ کہ خاک شدہ
مولانا کی زندگی کا اہم کارنامہ جو ان کا مشن اور منصوبہ تھا وہ دہ ہے:
جامعہ رشید العلوم کی تعلیمی و تعمیری سرگرمی اور حضرت علامہ اکرام علی صاحب کے افادات کی ترتیب و اشاعت، میں سمجھتا ہوں کہ مولانا مرحوم کے جانشین ان دونوں کاموں کو لے کر آگے بڑھیں گے،اور مولانا کے خواب اور ان کی امیدوں پر پورا اتریں گے،اللہ تعالی حضرت مولانا انعام صاحب ؒ کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی توفیق عطاء فرمائے

Share
Share
Share