تلنگانہ حکومت کے اقدامات
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کر ے !
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
الیکشن کے مو قع پر عوام کے دل لبھا کر ووٹ حاصل کرنا اور اس کے بعد من مانی کرنا ملک کی سیاسی پارٹیوں کا ایک مزاج بن چکا ہے۔ اس معا ملے میں کو ئی بھی پارٹی دودھ کی دُھلی ہوئی نہیں ہے۔ ہر پارٹی کا رپورٹ کارڈ اُ ٹھا کر دیکھ لیجیے۔ رائے دہندوں سے ووٹ بٹورنے کے لئے زمین آ سمان کے قلابے ملا دئے جا تے ہیں
اور ایسے ایسے وعدے عوام سے کئے جا تے ہیں اس پر بیچاری عوام بھروسہ کر نے پر مجبور ہو کر ان کے حق میں خوشی خوشی ووٹ ڈا لنا اپنا فرض سمجھنے لگتی ہے۔ ملک کے آزادی کے بعد چند دہوں تک پھربھی کسی فیصلہ کو کر نے سے پہلے عوام کی مر ضی اور ان کی رائے بر سر اقتدار حکومت ملحوظ رکھتی تھی۔ لیکن اب یہ حال ہو گیا کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں اپنی اکثر یت کی دھونس جما کر بر سر اقتدار پارٹی ایسے ناعاقبت اندیش اقدامات کر نے سے بھی نہیں ہچکچاتی جس سے اس کے حق میں ووٹ ڈالنے والے رائے دہندوں کے جذبات بھی مجروح ہو جا تے ہیں۔ تلنگانہ حکومت کے حالیہ اقدامات اسی بات کا اشارہ کر تے ہیں کہ ٹی آر ایس حکومت کو اب عوامی جذبات اور احساسات کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ تلنگا نہ کی عوام نے دوسری مر تبہ ٹی آر ایس کو اقتدار اس امید کے ساتھ سونپا تھا کہ جو کام پہلی معیاد میں نو زائیدہ ریاست ہو نے کی وجہ سے ادھورے رہ گئے تھے اسے ٹی آ ر ایس حکو مت پارٹی کے سر براہ اور ریاست کے چیف منسٹر کے۔ چندر شیکھرراؤ کی زیر قیادت پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ تلنگانہ تحریک کو کامیاب انداز میں چلانے اور ریاست کی چار کروڑ عوام کے غیر متزلرل اعتماد کو جیتنے کے نتیجہ میں ملک کی 29ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ ریاست 2/ جون 2014کو منصہ شہود پرآ ئی۔ اس ریاست کے وجود میں آ نے کے بعد پہلی مر تبہ ہو ئے 2014 کے تلنگانہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو اکثر یت حا صل ہو ئی۔ کے۔ چندر شیکھر راؤ کو ریاست کے پہلے چیف منسٹر بننے کا اعزاز حا صل ہوا۔ریاست میں ہو ئے پہلے ریاستی اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو جو غیر معمولی کا میابی ملی اس میں تلنگانہ کے تمام طبقات اور خاص طور پر مسلم را ئے دہندوں کا کلیدی رول رہا۔ تلنگانہ تحریک کو کا میابی سے ہم کنار کرانے میں بھی ریاست کے مسلمانوں نے نا قا بلِ فراموش کردار ادا کیا۔ منڈل کی سطح سے لے کر ریاست کی سطح تک مسلمانوں نے تلنگانہ تحر یک کا ساتھ دیا۔ خاص طور پر موؤمنٹ فار پیس اینڈ جسٹس (MPJ) اور جماعت اسلامی ہند، حلقہ تلنگانہ نے: انصاف برائے تلنگانہ، تلنگانہ برائے انصاف: کے عنوان پر ایک زبردست مہم چلا کر تلنگانہ کے مسلمانوں کو متحدہ طور پر تلنگانہ تحریک سے جوڑ نے میں کا میابی حا صل کی۔ اس کا اعتراف ریاست کی تمام سیاسی پارٹیوں بشمول ٹی آر ایس نے کیا کہ جماعت اسلامی کی شعور بیداری سے تلنگانہ تحریک کی طرف مسلمان راغب ہو ئے اور ان کی اس تحر یک میں شمو لیت سے علیحدہ ریاستِ تلنگا نہ کا خواب شر مندہ تعبیر ہو سکا۔ ریاست کے مسلمانوں نے تلنگانہ تحریک کا اس بنیاد پر ساتھ دیا تھا کہ اس تحریک کے علمبردار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ تلنگانہ ریاست ایک سیکولر ریاست ہو گی۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی 27/ اپریل 2001کو اس ایک نکاتی ایجنڈہ کے ساتھ کے۔ چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں قائم کی گئی تھی کہ یہ پارٹی علحدہ تلنگانہ کے قیام کے لئے جدوجہد کر ے گی اور ایک سیکولر ریاست کو وجود میں لانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گی۔ کے سی آر کے اسی عزم اور حو صلہ نے اُس وقت کی مر کز اور ریاست میں قائم کانگریس حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ ریاستِ تلنگانہ کے قیام کو یقینی بنائے۔ تلنگانہ کے تمام طبقوں کی بلا تکان جدو جہد نے کے سی آر کے خوابوں میں رنگ بھر دیا۔ تلنگانہ کا قیام مشتر کہ جد و جہد کا ثمرہ ہے
چیف منسٹر کے۔ چندر شیکھر راؤ ایک سیکولر سیاستدان کی حیثیت سے ملکی سیاست میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ انہوں نے بار ہا اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ تلنگانہ میں فرقہ پرستی کو پنپنے نہیں دیں گے۔ لیکن ان کے بعض فیصلوں سے یہ تا ثر ابھرتا ہے کہ ان کے کر نے میں اور کہنے میں کہیں نہ کہیں کوئی جھول پا یا جا تا ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ پوری ریاست میں کورونا کے قہر نے ہزاروں انسانی جا نوں کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ ہر طرف موت کے سا یے منڈلا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مر نے والوں کی تعداد بڑ ھتی جا رہی ہے۔ دواخانے مر یضوں سے بھر چکے ہیں۔ حکومت اس وباء کے سا منے بے بس ہو گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس مضمون کی اشاعت سے پہلے پھر ایک مر تبہ تلنگانہ کے بعض علاقوں اور خاص طور پر حیدرآ باد میں حکومت لاک ڈاؤن نا فذ کردے۔ حالات انتہائی سنگین ہو تے جا رہے ہیں۔ انسانی جانوں کو موت کے منہ میں جا نے سے بچانے کے بجائے تلنگانہ کے چیف منسٹر ہندوستان کے سابق وزیراعظم پی۔ وی۔ نر سمہا راؤ کی پیدائش کی صدی تقاریب منانے کی تیاریاں کر تے ہیں تو یہ ایک مضحکہ خیز اقدام ہو گا، جو کے سی آر کے لئے بھی مستقبل میں پشیمانی اور شرمندگی کا موجب بنے گا۔ عوامی خزانے کو عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ایسے کا موں پر خرچ کرنا جس سے عوام کے زخم تازہ ہوجا ئیں، کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہو گی۔ ایسے دگرگوں حالات میں پی۔ وی، نر سمہا راؤ کی پیدائش کی صدسالہ تقاریب کو منعقد کر نے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ ریاست کے حالات سازگار بھی ہو تے تو ایسی شخصیت کی یاد نہ منائی جا تی جس نے اپنے نا عا قبت اندیش اقدامات کے ذریعہ ملک کے اتحاد اور اس کی یکجہتی کو وہ نا قابل تلافی نقصان پہنچایا کہ ہندوستان ساری دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔
پی۔ وی۔ نر سمہا راؤ، تلنگانہ کے محض ایک باشندے تھے، انہیں ہر گز تلنگانہ کا سپوت نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنی آ بائی ریاست کو بدنام کر نے کا ذر یعہ بنے۔ بحیثیتِ وزیراعظم انہوں نے بابری مسجد کا تحفظ نہ کر کے ایک ایسا جرم کیا ہے کہ تاریخ انہیں معاف نہیں کر ے گی۔ تاریخ کے صفحات پر ان کا نام ایک ناکام وزیراعظم کی حیثیت سے درج ہو چکا ہے۔ اب لاکھ کو ئی ان کی شان میں قصیدے پڑھ لے اور ان کی تقاریب منا لے، تاریخ نے ان کا جو مقام ان کی غلط کارستانیوں کی وجہ سے متعین کر دیا ہے، اُ سے نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ مٹا یا جا سکتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بحیثیتِ سربراہِ حکومت، پی۔ وی۔ نر سمہاراؤ پر یہ دستوری ذ مہ داری ڈالی تھی کہ وہ ہر حال میں ایو دھیا میں بابری مسجد کی حفا ظت کر یں۔ لیکن ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ انہوں نے اس نازک مسئلہ میں مجر مانہ خا مو شی اختیار کی۔ ان کی مبینہ سر پرستی کے نتیجہ میں فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور 6/ ڈسمبر 1992کو با بری مسجد دن کے اُ جالے میں قانون کے رکھوالوں کی مو جودگی میں فسطائی طا قتوں کے ہا تھوں شہید کر دی گئی۔ وقت کا نیرو بانسری بجا تا رہ گیا۔6/ ڈسمبر کو ملک کا سیکولرازم اور جمہوریت بھی بابری مسجد کے ملبہ میں دفن ہو گئی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کو کھلی غنڈہ گردی قرار دیا۔جس کے ذ مہ دار پی وی نر سمہاراؤ تھے۔
پی۔ وی۔ نر سمہا راؤ کی بد اعمالیوں کا خمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑا۔ دس سال (1994- 2004) تک کانگریس سیاسی بن باس کو جھیلنے پر مجبور ہو گئی۔ مسلمانوں نے کا نگریس کو دھتکار دیا۔ ہر الیکشن میں اُ سے شکست و ریخت سے دوچار ہو نا پڑا۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صدر کانگریس سو نیا گاندھی نے با بری مسجد کی شہادت پر مسلمانوں سے معافی چاہی۔ مسلمانوں نے کانگریس کو معاف کر تے ہوئے دوبارہ 2004کے پارلیمانی انتخابات میں بھر پور اکثریت سے کا نگریس کو کامیابی دلائی۔ دوسری مر تبہ 2009کے لوک سبھا الیکشن میں بھی کانگریس مسلمانوں کی تائید کے نتیجہ میں حکومت بنا نے میں کا میاب رہی۔ پی۔ وی۔ نر سمہاراؤ اگر واقعی سیکولر ہو تے تو وہ کانگریس میں رہتے ہوئے فرقہ پرستوں کا ساتھ نہ دیتے۔ یہ حقیقت خود کانگریس کے قا ئدین جا نتے تھے کہ پی وی نر سمہا راؤ کانگریس کے سیکولر نظر یات سے زیادہ آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظر یہ پر ایقان رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تر بیت آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر ناگپور میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ سو نیا گا ندھی ان سے ہمیشہ ناراض رہیں اور جب وہ دنیا سے چلے گئے، سو نیا گاندھی نے ان کی نعش کو ان کی آ بائی ریاست بھیج دیا۔ اور وہاں ان کے ساتھ قدرت نے کیا معا ملہ کیا اُسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایسا شخص جو ملک کا وزیراعظم رہا، مرنے کے بعد ملک کی راجدھانی میں اس کا انتم سنسکار کرنے اور اس کی یادگار بنانے کی خود اس کی پارٹی، جو ملک میں بر سر اقتدار تھی اجازت نہیں دی تو پھر اب کیوں نر سمہاراؤ کی یاد کو تازہ کر نے کا بیڑا تلنگانہ کے چیف منسٹر اُٹھارہے ہیں۔ بعض حلقے یہ باور کر رہے ہیں کہ کے سی آر، پی وی نرسمہاراؤ کی تقاریب منا کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ کانگریس نے انہیں عملا اپنی صفوں میں سے نکال دیا ہے۔کے سی آر، پی وی نرسمہا راؤ کی صدی تقاریب منا کر یہ ثابت کر نا چا ہتے ہیں کہ کانگریس اپنے قد آور لیڈر کی توہین کر دی اور ان کو ان کا مستحقہ مقام نہیں دیا۔ اس طرح وہ کانگریس کے فرقہ پرست اور نرسمہاراؤ کے ہمنواؤں کو ٹی آر ایس سے جوڑنا چا ہتے ہیں۔ ٹی آر ایس کو دوسرا خطرہ بی جے پی سے ہے۔ تلنگانہ سے بی جے پی کے 4ایم۔ پی۔ لوک سبھا کے لئے گزشتہ الیکشن میں منتخب ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک مملکتی وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس وقت تلنگانہ کی جو گورنر ہیں وہ سابق میں تامل ناڈو میں بی جے پی کے اہم عہدے پر براجمان تھیں۔ انہوں نے بھی اشارے دے دیے کہ وہ کورونا کے معاملے میں تلنگانہ حکومت کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ اگر گورنر، مرکزی حکومت کے عزائم کو رو بہ عمل لانے کا ارادہ کر لے تو ریاستی حکو مت کا ڈانوا ڈول ہونا لازمی ہے۔ یہ خطرہ کے سی آر کی حکومت پر منڈ لا رہا ہے۔ اس لئے کے سی آر نے مرکز کو خوش کر نے کے لئے پی وی نر سمہا راؤ صدی تقاریب کا شو شہ چھوڑا ہے۔بحرحال پی۔ وی۔ نر سمہاراؤ صدی تقاریب کے منانے میں چیف منسٹر کے سی آر کے جو بھی عزائم پوشیدہ ہیں وہ ان کو مبارک۔ لیکن ان کا یہ اقدام ہندوستان کے سارے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ ان کے اس فیصلے سے ان کی سیکولر ساکھ بُری طرح متا ثر ہو گی۔ ان کے اس نا عاقبت اندیش اقدام سے وہ سیکولر لیڈر کہلانے کے حق سے محروم ہو جا ئیں گے۔ ایک ایسی شخصیت جس نے ملک کے دستور اورقانون کی دھجیاں اپنی عدم کار کردگی کے ذر یعہ اُڑادی اس کی صد سالہ یوم پیدائش تقاریب کے لئے کروڑوں روپیوں کو مختص کر نا، مختلف شہروں میں ان کے مجسمے لگانا، ان کو ملک کا اعلیٰ تر ین اعزاز بھارت رتن دینے کا مطالبہ کر نا، ملک کی معروف حیدرآباد سنٹرل یو نیورسٹی کا نام بدل کر ان کا نام دینے کی سفارش کر نا اور تلنگانہ کے تاریخی شہر ورنگل کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے پی وی نر سمہاراؤ کے نام معنون کر نا، یہ سب درا صل عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹانے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی بھی ہو سکتی ہے۔ کے سی آر اس معا ملے میں ملک کے دیگر سیاستدانوں سے بہت آ گے ہیں۔ وہ ایک گھاک سیاستدان ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ریاست میں جو ہا ہا کار مچی ہو ئی ہے اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے پی وی نرسمہاراؤ کی پیدائش کی صد سالہ تقاریب کاہوّا کھڑا کر کے وہ کورونا کے پھیلتے ہوئے مرض کو روکنے میں حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن یہ دور سو شیل میڈیا کاہے۔ کسی چیز کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے: