اخلاقی اصلاحات کے بغیر معاشی اصلاحات بیکار :- صباء ناز

Share

اخلاقی اصلاحات کے بغیر معاشی اصلاحات بیکار

صباء ناز – کراچی

قوموں کا عروج و زوال حکمران کے کردار پر منحصر کرتا ہے – آج اسی کا دوسرا حصہ لکھنے جا رہی ہوں، حکمران کے کردار میں حکمران کی سوچ کا رول سب سے اہم ہے،جو حکمران سوچتا ہے وہی اس کا عمل ہوتا ہے- دنیا کے پہلے حکمران اللہ تعالی ہیں –

اللہ تعالی کی اخلاقیات پر مبنی سوچ اللہ تعالی کے قائم کردہ آئین قرآن پاک سے ظاہر ہے- جس میں اللہ تعالی نے اچھائیوں اور برائیوں کو صاف ظاہر کر دیا ہے – برے کاموں پر سخت سزائیں، اچھے کاموں ہر انعام مختص کیا ہے – اللہ تعالی نے حضورﷺ کو دنیا میں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا – ان کا مشن کسی ایک شعبے میں اصلاحات کرنا نہیں – بلکہ زندگی کے تمام شعبوں کی تعمیر میں انقلابی اور اصلاحی تبدیلیاں کیں – آپ کے افکارو نظریات ، اعتقادات و عبادات ، اخلاق و معاملات ، معشیت و سیاست غرض زندگی کے ہر شعبے اور حصے میں انقلابی اور اصلاحی تبدیلیاں کیں ـ آپ کو دنیا کے پیشواؤں اور معلموں میں ممتاز ترین مقام حاصل ہے – حضورﷺ نے اللہ تعالی کے آئین کو دنیا میں نافذ کرنے کےلیے پہلے عوام کو اخلاقی سوچ دی – اس کے بعد معاشی اصلاحات کیں، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے دلوں میں غلط کاموں کے لیے نفرت پیدا کی، اس کے بعد معاشی اصلاحات کے لیے قوانین بنائے –
1ـ اخلاقی اصلاح کے بغیر معاشرتی اصلاحات بیکار ہو جاتی ہیں – حضورﷺ نے اس طرف خصوصی توجہ مبذول فرمائی – ان برائیوں کو جو معاشرے کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں، دور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی- جھوٹ، وعدہ خلافی، غرور و تکبر اور جھوٹی شہادت کو گناہ کبیرہ قرار دیا- جوئے ، شراب نوشی کے نقصانات ان کے فائدے سے زیادہ ہیں ، لوگوں کو بتایاـ لوگوں کے دلوں میں شراب کے متعلق نفرت اور ناپسند ید گی کے جذبات پیدا کیے – 4 ھ میں نئے قرآنی حکم کے مطابق نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا- 7 ھ میں آخری اور قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تو لوگوں نے اطاعت کے جوش میں شراب گلیوں میں بہا دی، یہاں تک کے انکے برتن تک توڑ دیے-
2ـ معاشی طور پر اہل عرب اسلام سے پہلے اقتصادی بد حالی کا شکار تھے، اس کے اسباب ایک تو عرب کے اپنے جغرافیائی حالات تھے، دوسری طرف معاشرے میں دولت اور ذرائع دولت کی غیر منصفانہ تقسیم– مزید براں معاشرے میں جوئے،شراب نوشی کے رواج، مسلسل خانہ جنگیوں، سودی نظام اور وراثت کی تقسیم کے غلط قانون نے اس بدحالی کو کمال تک پہنچایا تھا- اس معاشی ابتری کو دور کرنے کےلیے حضورﷺ نے پہلے افراد کے ذہینوں میں یہ بات بیٹھائی، کہ سب دولت کا مالک اللہ ہے،جو کائنات کا مالک ہے، یہ لوگوں کے پاس اللہ کی امانت ہے، جیسے کمانے اور خرچ میں مذہبی پابندیوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے – پھر اخلاقی تعلیم کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے دولت کی اندھی محبت کو ختم کیا- اور بتایا بلند مقصد کے لیے اسے خرچ کرنا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہےـ اس طرح افراد میں اتفاق فی سبیل اللہ کے پاکیزہ جذبہ کو ابھار کر دولت کو گردش میں لانے کا انتظام کیا، زکوتہ کی ادائیگی کا فریضہ اسی رشتے کی ایک کڑی ہے، جسے اسلام کے معاشی نظام میں اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اسے ارکان اسلام میں شامل کیا گیا ہے ـ اپنی ضروریات پر خرچ کرتے، راہ خدا میں صدقات و خیرات دینے اور زکوت دینے کے بعد جو دولت کسی جگہ سمٹ جائے، اسکو پھیلانے کے لیے اسلا م نے قانون وراثت نافذ کیا، اسکا منشاء یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے، خواہ وہ زیادہ ہو یا کم،اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نزدیک یا دور کر کے تمام رشتے داروں میں مرد ہوں یا عورت درجہ بد درجہ پھیلایا جائے ـ اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کی دولت کو بیت المال میں داخل کر دیا جائے ـ
حضورﷺ کا احسان عظیم ہے کہ عورتوں کو ذلت کی پستیوں سے نکال کر تمام انسانی حقوق سے نوازا ـ اسلام سے پہلے عورت کا وجود دنیا میں اکثر ذلت و شرم اور گناہ کا باعث سمجھا جاتا تھا، بیٹی کی پیدائش پر باپ ذلت سے بچنے کے لیے اسے مار ڈالتا، حضورﷺ نے اس رسم کو ہی ختم نہیں کیا،بلکہ باپ کو بتایا، بیٹی کا وجود اس کے لیے ہر گز عار نہیں ہے ـ اس کی پرورش اور حق رسائی تو باپ کو جنت کا مستحق بناتی ہے، شوہر کو سمجھایا، نیک بیوی اس کے لیے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہے ـ بیٹے کو بتایا کہ خدا اور ر سول کے بعد سب سے زیادہ عزت، قدر و منزلت اور حسن سلوک کی مستحق اس کی ماں ہے ـ اسلام نے ان اخلاقی ہدایات کے ساتھ ساتھ عورت کو قانونی طور پر معاشی حقوق بھی عطا فرمائے ـ وہ عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے، باپ سے،شوہر سے، اولاد سے، قریبی رشتے داروں سےـ زمانہ جاہلیت میں لا تعداد شادیوں کا رواج تھاـ اسلام نے اس کی چار تعداد مختص کر دی ـ اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص سب بیویوں کے ساتھ مساوی اور یکساں سلوک کر سکے ـ
اسلام سے پہلے غلاموں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی ـ کہ ان کی جان و مال کی کوئی قیمت نہ تھی ـ ان کی زندگی کا مقصد اپنے آقاؤں کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے سوا کچھ نہ تھا ـ روم اور ایران جیسی مہذب سلطنتوں میں بھی ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھےـ معمولی قصور پر ان کے پورے خاندان کو اذیت ناک سزائیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاـ حضورﷺ نے غلاموں کو مساوات کا درجہ دیا ـ حجتہ الوداع کے مقوقع پر فرمایا! اے لوگو! اگر کوئی حبشی غلا م بھی امیر ہو اور وہ تمہیں خدا کی کتاب کے مطا بق چلائے تو اس کی اطاعت اور فرما برداری کرو”
اسلام کا اس طبقے پر احسان عظیم یہ ہے کہ اس نے علم و سیاست ، مذہب و معاشرت غرض زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی راہیں کھول دیں ـ
حضورﷺ نے معاشرتی اصلاحات سے پہلے اخلاقی اصلاحات کیں، عوام کو اچھائی اور برائی میں سب سے پہلے فرق سمجھایا، اس کے بعد برائیوں کے لیے عوا م کے دلوں میں نفرت ڈالی اور پھر اچھائی کی راہ پر چلایاـ اس کے بعد معاشرتی اصلاحات کے ذریعے ریاست مدینہ قائم کی ـ قوموں کی ترقی اخلاقی اصلا حات سے شروع اور معاشرتی اصلاحات پر ختم ہوتی ہیں ـ
کوئی بھی معاشرہ اخلاقی اصلاحات کے بنا معشرتی اصلاحات پیدا کرنے میں قائم نہیں رہتا، نا انصافی کا عروج ، حقوق غضب کرنا، لوٹ مار کو برائی نہ سمجھنا، احتساب کو کالا قانون کہنا، احتساب کو کسی ادارے کی آزادی پر حملہ سمجھنا، یہ ہیں اقدامات اور اعمال جو اخلاقیات سے گری ہوئی سوچ کے زمرے میں آتےہیں، ایسی سوچیں اور اعمال معاشرے کو تباہ تو کر سکتےہیں، مگر معاشرے کو عروج پر نہیں لا سکتےـ سوچ عمل کا عکس ہے اور اخلاقی سوچ تبدیلی کی طرف پہلا قدم ـ دلوں میں برائی کے لیے نفرت اور اچھائی کے لیے محبت پیدا ہوجائے تو معاشرے خود بخود تبدیلی کی طرف جاتے ہیں ـ

Share
Share
Share