چینی جارحیت – خارجہ پالیسی کی ناکامی تو نہیں؟ :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

چینی جارحیت
ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی تو نہیں ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

آزاد ہندوستان کی تا ریخ میں 15/ اور 16/ جون 2020کی درمیانی رات ایک ڈراؤنا خواب بن کر ہندوستانی قوم کا پیچھا کر ے گی۔ اس بھیانک رات میں پھر ایک بار ہمارے ملک کے بہادر فوجیوں نے ملک کے سر حدوں کی حفاظت کر تے ہو ئے اپنی جانیں وطن کے لئے قربان کردیں۔ لداخ کی گلوان وادی میں 20 فوجی جوا نوں نے چینی فو جیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے موت کو گلے لگالیا۔

وزیر اعظم نر یندر مودی نے دعویٰ کیا کہ شہیدوں کا یہ خون را ئیگاں نہیں جائے گا۔ ہندوستان کے 130کروڑ لوگوں کے دل بھی اس اندوہ ناک وا قعہ پر غم و غصہ سے بھرگئے۔ ایک سال پہلے ہی جموں و کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں ہو ئے دہشت گر دانہ حملے میں ملک کے سپا ہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس سا نحہ کے زخم ابھی سو کھے بھی نہیں تھے کہ ہندو ستانی فو جیوں کو چینی فو جیوں کے ہا تھوں ہلاک ہو نا پڑا۔ 45سال کے دوران ایسا پہلی مر تبہ ہوا ہے کہ ہندوستانی اور چینی فوج کے درمیان پُر تشدد جھڑپ ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ملک کے 20جوان، چینیوں کے حملے سے لہو لہان ہو کر اپنی جان کھو بیٹھے۔ اس واقعہ نے ہندوستانی قوم کو ہِلا کر رکھ دیا ہے۔ آ خر وہ کیا وجوہات ہیں کہ ایک پر سکون وادی میں اچا نک جنگ کا ما حول پیدا ہو گیا۔لائن آ ف ایکچول کنٹرول (LAC) پر اگر چکہ ایک اضطراب آ میز خاموشی کئی بر سوں سے پا ئی جا تی ہے لیکن خونریز تصادم کی نو بت گزشتہ کئی دہا ئیوں سے نہیں آ ئی۔ 1988 میں آنجہانی را جیو گاندھی کے دورہ چین کے بعد دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات بھی پیدا ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں چین سے گہرے دوستانہ تعلقات کے قیام کے لئے مختلف سطح پر ٹھوس اقدامات بھی کئے۔ لیکن 15/ جون کی رات کو ہو ئے بد بختانہ واقعات نے تاریخ کے زخموں کو پھر سے ہَرا کر دیا ہے۔ اب یہ سوال کیا جارہا ہے کہ چین کی اس جا رحیت کے بعد بھی کیا ہندوستان، چین کو اپنا با اعتماد دوست بنائے رکھنے میں کا میاب ہو سکے گا۔ تاریخ کے مختلف مر حلوں میں چین نے ہندوستان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ہند۔ چین معاہدہ کے باو جود، دونوں ملکوں میں دوستی نہ رہ سکی۔ ہندی۔ چینی بھا ئی بھا ئی کے نعرے فضاء میں گو نجتے رہے، لیکن اس کے بعد بھی چین نے وعدہ خلافی کر تے ہو ہوئے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ 1962میں ہوئی اس جنگ کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ وادی گلوان میں ہونے والے یہ حا لیہ واقعات تاریخی تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان کشید گی آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان آپسی چپقلش اور سر حدوں پر تناؤ کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اکٹوبر 1959میں بھی ہندوستانی فوج، چینی جارحیت کا خمیازہ بھگت چکی ہے۔ اُس وقت چینی فوجیوں نے 9ہندوستانی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور تین فوجیوں کو اپنی حراست میں لے لیا تھا۔ ان میں فوجی دستے کے سر براہ کرم سنگھ بھی شا مل تھے۔ ہند۔ چین تعلقات میں اس وقت زبر دست دراڑ پڑ گئی جب ہندوستان نے مارچ1959 میں تبت کے دلائی لا مہ کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ ہندوستان کے اس اقدام نے چین کو برانگیختہ کردیا۔ چین کی نظر میں دلائی لا مہ کو ہندوستان میں پناہ دینا درا صل اسے آ نکھ دکھانے کے مترادف ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں مذاکرات یا سمجھوتہ کی کو ئی امید با قی نہ رہی۔ 1962کے چینی حملے کے بعد باہمی تعلقات کی رہی سہی امید بھی ٹوٹ گئی۔
1962کے چینی حملے کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جو اہر لعل نہرو نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو با وقار مقام و مر تبہ دلانے کے لئے ملک کی خارجہ پا لیسی پر نظر ثا نی کر نے کی ضرورت ہے۔ چین کی اس کھلی جارحیت کا جواب دینے کے لئے نہرو نے پوری خارجہ پا لیسی کو ایک نئی سمت دینے کا جرات مندانہ اقدام کیا۔ 1955 میں انہوں نے دنیا کو ایک نیا نظریہ دیتے ہو ئے غیر جانبدار تحر یک کی بنیاد رکھی۔ پنڈت نہرو نے اسے ایک عالمی تحریک بنا نے کے لئے یوگوسلوا کیہ کے مارشل ٹیٹو، مصر کے جمال عبد النا صر اور انڈونیشیاء کے سکارنو کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ اس تحر یک کے قیام کا مقصد دنیا کو بڑی طاقتوں کے چنگل سے نکال کر ان کو اپنا ایک آزاد موقف عطا کرنا تھا۔ پنڈت نہرو یہ جا نتے تھے کہ چین، اپنے کیمو نسٹ نظر یہ کے ساتھ آگے بڑ ھتے ہوئے اپنے پڑوسیوں کو بھی اپنے دام میں گرفتار کرسکتا ہے۔ ہند۔ چین معاہدہ کے جو نکات تھے وہی غیر جانبدار تحریک کا منشور بنے، جسے عرف عام میں پنچشیل کے اصول کہتے ہیں۔ اس تحریک نے ہندوستان کو وقار بخشا۔ اس کی آواز عالمی اداروں میں توجہ سے سنی جا نے لگی۔ ایک سو سے زائد ممالک نے غیر جانبدار تحریک سے اپنے آ پ کو جوڑا۔ یہ تحریک افریقی۔ ایشیائی ملکوں کی آزادی کی نقیب بنی اور اس نے کئی ملکوں آزاد کر انے میں کلیدی رول ادا کیا۔ پنڈت نہرو نے اپنی مد برانہ سیا ست کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستان کی خارجہ پا لیسی کو وہ مضبوط بنیادیں فراہم کیں کہ پڑوسی ممالک انگشت بدانداں ہو گئے۔ اسی لئے پنڈت نہرو کو ہندوستان کی خارجہ پا لیسی کا معمار بھی کہا جا تا ہے۔ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی نہرو کے سیاسی خیالات کی عکاّسی کرتی ہے۔ جب سے ملک میں بی جے پی کو اقتدار ملا ہے، یہ پرو پگنڈا بھی زور و شور سے کیا جا رہا ہے ملک کے پہلے وزیراعظم کی غلطیوں کی وجہ سے آج جموں و کشمیر کے حالات بھیانک ہو گئے ہیں۔ ان کی غلط حکمت عملی وجہ سے پاکستان، ہندوستان کو ہر محاذ پر پریشان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اور اب یہ بھی کہا جا رہا ہے چین کی جو جا رحیت گزشتہ دنوں سا منے آئی ہے، اس کے بھی ذ مہ دار کانگریس کے قا ئدین ہیں۔ چین کی موجودہ صورت حال پر تبصرہ کر تے ہوئے جب سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے وزیراعظم نریندر مودی کو یہ مشورہ دیا کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ایسے الفاظ کے استعمال سے گر یز کیا جائے جس سے ملک کی سلا متی اور سا لمیت متا ثر ہو تی ہو اور اس سے چین کے سازشی منصوبوں کو تقویت ملتی ہو۔ لہذا بہت سوچ سمجھ کر اقدام کر نے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیراعظم کے اس بیان کو سنجیدگی سے لے کر اس پر عمل کر نے بجا ئے بی جے پی کے قا ئدین بھڑک گئے۔اور منموہن سنگھ پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے یہ تک کہہ دیا کہ منموہن سنگھ نے بحیثیت وزیر اعظم، ہندوستان کی سینکڑوں مربع کلومیٹر اراضی بڑی بے بسی کے ساتھ چین کے حوا لے کر دی۔ اس قسم کے بیان کے دینے کا مقصد اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈا لنے کے سواء اور کچھ نہیں ہے۔ یو پی اے حکومت کے دور میں اگر چین نے ہندوستان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تو بی جے پی کے قا ئدین کا فرض تھا کہ وہ اپنی دیش بھگتی کا ثبوت دیتے ہوئے سر حدوں پر جاکر دشمن کو مار بھگاتے ہوئے اپنی جان دیدیتے۔ لیکن دیش بھگتوں کی ایسی کو ئی مثال سامنے آج تک نہیں آ ئی۔ حکو مت سے سوال کر نے پر اُ سے ملک سے غداری کا نام دے کر اپنے ہی ملک کی عوام کی زبان کو بند کر دینے سے دشمن کے عزائم پر کو ئی روک نہیں لگ سکتی۔ آج اگر محباّنِ وطن یہ پو چھتے ہیں کہ آ خر وادی گلوان میں ہمارے 20فوجی، چینی جا رحیت کا شکار کیسے ہوئے ہیں، انہیں نہتے کیوں وہاں پر بھیجا گیا، 15جون کی رات جو کچھ ہوا، اُ سے کیوں چھپا یا جا رہا ہے،یہ پو چھنا کیا ملک دشمنی ہے؟
اس وقت دونوں ملکوں کی قیادت کو اپنی دانشمندی اور دور اندیشی کا مظا ہرہ کر نا ضروری ہے۔ مو جودہ دور 1962کی طرح کا نہیں ہے۔ 2020کے اس عصری دور میں وقت کا پہیہ بہت آ گے نکل گیا ہے۔ ہندوستان اور چین بھی دنیا کے طاقتور مما لک میں شمار کئے جا تے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ آ بادی رکھنے والے ملک ہیں۔ اور سب سے زیادہ تشو یش ناک پہلو یہ ہے کہ دونوں کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں۔ خدانخواستہ پرسکون وادی گلوان، آ تش فشاں بن جا تی ہے اور دونوں ممالک جذ بات کی رو میں بہہ کر بے دریغ ہتھیاروں کا استعمال کرنے لگیں تو اندازہ کیجیے کہ انسانیت کا کتنا بڑا نقصان ہوگا۔ وقت اور حالات کا تقا ضا یہی ہے کہ ٹکراؤ اور تصادم کے بجا ئے گفت و شنید کے ذر یعہ دیرینہ مسائل کا حل نکا لا جائے۔ فوجی دستوں کو تیار رکھنے اور ایک دوسرے کو دھمکا نے کے بجائے سفارت کاری کے عمل کو تیز کیا جائے اور دنوں طرف سے ایسے بیانات دینے بند کر دئے جا ئیں جس سے آپسی خلیج اور بڑ ھتی جا ئے۔ بدلے کی بھو ؤنا کے بجا ئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جا ئے۔ افہام و تفہیم سے ہی مسائل کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام ترا شی سے مسائل الجھتے جا تے ہیں۔بعض حلقوں سے یہ مطا لبہ کیا جا رہا ہے چینی اشیاء کی خریدو فروخت ملک میں بند کر دی جا ئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان اس موقف میں ہے کہ چینی درآمدات پر پابندی عائد کر دے۔اس نازک اور ہنگا می دور میں بھی جب کہ ہمارے فوجی چینی جا رحیت کی وجہ سے اپنی جا نوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، ہندوستان کی حکومت چین سے کئی تجارتی معاہدے کر نے میں مصروف ہے۔ اسٹیج سے دیش بھگتی کی با تیں کی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کوئی ہمارے علاقہ میں نہ داخل ہوا ہے اور نہ ایک انچ زمین پر کسی کا قبضہ ہوا ہے۔ جب یہ دعویٰ سچ ہے تو پھر چین کو دھمکانے اور پورے ملک میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر نے کا کیا جواز ہے۔ اکیسو یں صدی کے اس دور میں کوئی ملک دوسرے ممالک کی اشیاء کا با ئیکاٹ کر کے ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لئے ان باتوں پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے حکو مت کو وہ سازگار ما حول پیدا کر نا چا ہیئے کہ کو ئی ہم سے دشمنی کر نے کے بارے میں نہ سو چے۔ مغربی ممالک کی مثال ہمارے سا منے ہے۔ یہ ممالک کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کر تے ہو ئے دنیا کے دیگر ملکوں کو اپنے زیرِ اثر لا نا چا ہتے ہیں۔ امریکہ اسی تاک میں بیٹھا ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کے تنازعہ سے اپنا الّو سیدھا کرے۔
چین سے مڈبھیڑ کے اس موقع پر ملک کے اربابِ حل و عقد کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے پڑوسی کیوں ہم سے ناراض ہو کر ہم کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ہند۔ پاک تعلقات زیادہ دن تک کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان برف جمی ہوئی ہے۔ نیپال ہمارا دیرینہ دوست رہا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں نیپال حکو مت نے ہمارے ملک کے چند علاقوں کو شا مل کرکے ملک کا ایک نیا نقشہ دنیا کے سا منے پیش کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قدیم تہذیبی اور مذہبی تعلقات ہونے کے باوجود نیپال اب ہندوستان کا حریف بنتا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش، جس کو آزاد کرانے کے لئے اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پورے ملک کی فوج جھونک دی تھی۔ محض ہندوستان کی فوج کی طاقت کے نتیجہ میں بنگلہ دیش وجود میں آیا، آج اس ملک کی حکومت بھی ہندوستان کی خارجہ پالیسی سے خوش نہیں ہے۔ کئی معاملات میں بنگلہ دیش، ہندوستان سے اختلاف کرتا نظر آرہا ہے۔سری لنکا بھی تامل مسئلہ پر ہم سے بہت پہلے دور ہو چکا ہے۔ ہندوستان اگر اپنے پڑوسیوں سے تعلقات بحال رکھنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اس سے ملک کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ملک کے حکمران ہندوستان کو عالمی سطح پر قائدانہ رول دلانے کے لئے غلط فہمیوں کو ختم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کی راہیں تلاش کریں۔

Share
Share
Share