حکمران کا کردار قوموں کا عروج و زوال
میں صباء ناز ، کراچی
دیکھا جائے تو دنیا کے پہلے حکمران اللہ تعالی ہیں ، جن کے پاس پوری کائنات کے اختیا رات ہیں ـ اللہ تعالی کی صٖفات” وہ رحیم بھی ہیں ،کریم بھی ہیں، غفار بھی ہیں ، کہار بھی ہیں ،غفور بھی ہیں ، رازق بھی، مالک بھی ہیں اور منصف بھی ـ تمام اختیارات اس ذات کے ہاتھ میں ہیں، اس ذات نے پوری دنیا کو قرآن پاک کی صورت میں ایک مکمل آئین بھی دے دیا ہے ـ
حضورﷺ کے ذریعے تمام دنیا کو زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھا دیا – اس روئے زمین پر اس ذات نے اپنے بعد اپنے اختیارات دنیا کے حکمرانوں کو تفویض کر دیے ہیں ـ ہم ابتداء سے اب تک دیکھیں تو بہت سی سلطنتیں قائم ہوئیں ہیں ـ حضور ﷺ کی صفات سے کون واقف نہیں ہے ـ انھوں نے انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھایا، زمانہ جاہلیت سے دنیا کو اخلاقیات ،انسانی حقوق کا تحفظ ، انسانیت کا درد اور قدر سیکھائی، دنیا کو محبت سے رہنا سیکھایاـ دنیا کو بتایا، جب تک آپ اللہ کے دیے ہوئے آئین پر خلوص نیت کے ساتھ چلیں گے ـ تو کامیاب و کامران ہوں گے ـ ایک حکمران میں بھی وہی صفات ہونی چاہیئں، جو اللہ تعالی کی صفات میں شامل ہیں، یعنی ڑحم کرنے والا، انصاف کرنے والا، درد دل رکھنے والا، بہادر، نڈر ـ لیکن اگر ایک حکمران میں یہ صفات نہ ہوں تو وہ حکمران اور اس کی قوم کبھی کامیاب و کامران نہیں ہو سکتی ـ
حضورﷺ نے اپنے دس سالہ عہد حکومت میں جو قدم اٹھایا، قرآنی ہدایت کے مطابق اٹھایا ـ حضورﷺ کا مشن کسی ایک شعبے میں اصلاح کرنا نہ تھا،آپ نے افکار و نظریات، اعتقادات و عبادات، اخلاق و معاملات اور معشیت و سیاست، غرض زندگی کے ہر شعبے اور حصے میں انقلابی و اصلاحی تبدیلیاں کیں ـ آپ نے انسانیت کے تصور میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا ـ اور اس حقیقت کو بنی نوع انسان پر وا ضع کیا کہ اس کائنات میں جس کا صرف ایک خدا ہے ـ انسان کی حیثیت اس کے نائب کی ہے ـ اس حقیقت کے علم نے انسان کو عزت و شرافت کے بلند ترین مدار ج پر فائز کر دیاـ سینکڑوں ، ہزاروں خداؤں کی غلامی سے نجات دلا کر ذلت و رسوائی کی پستیوں سے نکال کر اسے اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ کے اعلی ترین منصب سے نوازا ـ
حضور ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کے حکمرانوں کو دیکھیں تو انہوں نے بھی اپنے ادوار میں اللہ تعالی کے دیئے ہوئے آئین کے مطابق اپنی قوموں کو چلایا، بغاوتوں کو فرو کیا، فتوحات حاصل کیں، عوام کے حقوق کا تحفظ کیا، عوام کے ساتھ ناحق کرنے والوں کے خلاف سختی سے پیش آئے، انصاف کا ایسا نظام پیش کیا کہ حکمران خود بھی خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ـ یہاں تک کہ عوام عزت اور احترام سے نہ صرف زندگی گزارتی ،بلکہ دین کی تبلیغ میں بھی پیش پیش رہتے ـ انسانیت کا درد ایسا رکھتے کہ تکلیف میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے، جیسے بے غرض و غایت ہو کر حکمران عوام کی خدمت کرتے، ویسے ہی عوام ان کا حکم بجا لاتےـ
کسی حکومت کا دستور اور قانون کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو، اگر اس کے سربراہ منتظم سیرت و کردار کی خوبیوں سے عاری ہوں ـ تو وہ نظام حکومت عوام کی کوئی خد مت انجام نہیں دے سکتا ـ اس حیثیت سے جب ہم خلافت راشدہ کے ادوار کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس دور کی خوبیوں اور برکتوں کا سر چشمہ خلفا کے بے داغ اور مثالی کردار تھےـ
خلفائے راشید کے بعد اگر ہم بنو امیہ ، بنو عباس، سلطنتیں عثمانیہ اور بنو امیہ اندلس کی سلطنتوں کے حکمرانوں کا حال پڑھیں تو جب تک ان سلطنتوں میں سیرت و کردار کے لحاظ سے اعلی پائے کے حکمران آتے رہے، انسانیت کا د ر د رکھنے والے، انصاف کا اعلی معیار رکھنے والے، علم اور علماء سے محبت کرنے والے، اللہ تعالی کے آئین کے مطابق قوموں کو چلانے والے حکمران جب تک آتے رہے، ان سلطنتوں کو عروج ملتا رہا، لیکن جیسے ہی ان حکمرانوں نے میرٹ سے ہٹ کر اپنے لائق اور اہل بیٹوں پر اپنے نالائق ، نااہل ، عیاش، قمار باز، شراب اور رقص و سرور کے رسیا بیٹوں کو حکومت کا اختیار دیا تو یہ سلنطتیں نہ صرف زوال پذ یر ہو ئیں، بلکہ عبرت کا نشان بنیں ـ
بنو امیہ کے زوال کا اہم سبب ، خلفاء کی عیش پسندی اور نااہلی تھا،عیش و عشرت میں پڑ کر کا ر سلطنت سے بے اعتنائی برتی اور مردانہ جوہر کھو دیے، اللہ تعالی کے دیے ہوئے آئین سے منہ موڑ لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ حکمرانی کی اہلیت جاتی رہی، آخری دور کے خلفا اس لحاظ سے رسوا ہوئے کہ ان کے عہد میں ارکان حکومت اور روسا کی باہمی مناقشت اور جھگڑے بڑھتے بڑھتے کشت و خون تک پہنچ گئے، اس نفاق کا نتیجہ سلطنت کے خطرناک تھا، جس سے فائدہ اٹھاکر بنو عباس نے اقتد ار کے حصول کی جد و جہد شروع رکردی ـ
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو عباس میں کئی خلفاء انفرادی حیثیت سے بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، ان کی فیاضی، علم دوستی، اور علماء پر وری ضرب المثل بن چکی تھی، ملک خوشحال اور رعایا فارغ البال تھی، ابتداء میں ملک کی بھاگ دوڑ منصور، ہارون ، مامون جیسے طاقتور اور بیدار مغز حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی، معتصم نے فوج میں ترکوں کو داخل کیا، اور متوکل ان پر قابو نہ پانے کے باعث انہی کے ہاتھوں مارا گیاـ اس کے جانشین ایک سے بڑھ کے ایک نااہل اور نکمے ثابت ہوئے ـ جن کے عہد میں دارلخلافہ پر بھی غیروں کا تسلط قائم ہو گیاـ ان میں اتنی اہلیت بھی نہ تھی، کہ عسکری اور ملکی نظام درست کر کے سلطنت کو اندرونی اور بیرونی حملوں سے محفوظ رکھ سکتے، اسی پستی اور کمزوری کا نتیجہ بغداد کی تباہی اور خلیفہ مستعصم با اللہ کے درد ناک انجام کی صورت میں نکلا ـ خلافت کی بنیاد چونکہ غلط اصولوں پر تھی، اس لیے مدا ومت نصیب نہ ہوئی، طرز حکومت شخصی اور استبدادی تھا، جسمیں جمہور کا کوئی دخل نہ تھاـ لازما” خلفاء میں وہ تمام خامیاں پیدا ہونےلگیں، جو اس قسم کے طرز حکومت کا لازمی حصہ ہیں ـ تکلفات ، شراب ،عیش و نشاط ، تفریح و یز داں ایسے مشغلوں نے انہیں امور سلطنت سے غافل کر دیاـ جس سے ملک میں بدا منی پھیلنی شروع ہوگئی، اور امراء کو خود مختاری کی جرات ہوئی ـ ٹرمپ اور مودی جیسے حکمران نسلی ، مذہبی تفریقات پر مبنی سوچ رکھنے والے، امتیازات کی سوچ کو عوام پر مسلط کرنے والے حکمران قوموں کی تباہی کا سبب تو بن سکتے ہیں، قوموں کی ترقی کا سبب کبھی نہیں بنتےـ
پس ثابت ہوا کہ حکمران کا کردار قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتاہےـ