کورونا کا قہر اور تعلیمی بحران :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کورونا کا قہر اور تعلیمی بحران

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770

کورونا کی عالمی وباء کی قہر سامانی کا زور ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ملکوں میں اس مرض کو پھیلنے سے روکنے کی تمام تر کوششوں کے با و جود اس میں کو ئی غیر معمولی کا میابی دیکھی نہیں جا رہی ہے۔ دن بہ دن اموات کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

ہمارے ملک ہندوستان کی صورتِ حال بھی ہر گذرتے دن کے ساتھ ابتر ہو تی جا رہی ہے۔ کوئی یہ کہنے کے مو قف میں نہیں ہے کہ آ خر کب اس موذی اور جان لیوا مرض سے انسا نیت کو نجات ملے گی۔ گذ شتہ چار مہینوں سے کووِڈ۔19نے پوری انسانی آ بادی میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر طرف بیچینی اور اضطراب کی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔ سماجی ما ہرین اس بات کی تحقیق میں سر گرداں ہیں کہ واقعی تاریخ کے کسی دور میں ا نسان اس قسم کے ہولناک حالات سے دوچار ہوا ہے؟ اسے خوش قسمتی کہیے یا بد قسمتی کہ سماجی ماہرین کے مطابق اس قسم کے حالات سے دنیا کبھی دوچار نہیں ہو ئی جیسے کہ اس وقت سنگین ترین حالات کے دور سے گذر رہی ہے۔ پوری انسانیت
اس وقت جس مایوسی اور شکست خوردگی کا شکار ہو گئی ہے ایسے نا گفتہ حالات بیک وقت ساری دنیا میں نہیں پیدا ہو ئے۔ اٹھاریں صدی کے اواخر میں جب پلیگ کے متعدی مرض نے دنیا میں تباہی مچادی دی تھی اُ س وقت بھی حالات بڑے نازک ہو گئے تھے، لیکن پوری دنیا اس سے متا ثر نہیں ہو ئی تھی۔ اسی طرح گذشتہ صدی کے دوران اسپین میں آ ئے ہوئے فُلو نے یوروپ کے مختلف ممالک میں انسانی جانوں کو خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ باقی دنیا اس کے قہر سے محٖفوظ تھی۔ لیکن اس وقت کورونا وائرس سے دنیا کا کو نہ کونہ حیران اور پریشان ہے۔ جن ممالک کو اپنی سائنسی ترقی پر ناز تھا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ انہیں کو ئی بیماری چُھو کر بھی نہیں جا سکتی وہ سب سے زیادہ کورونا سے متا ثر ہو تے جا رہے ہیں۔
کورونا نے زندگی کے ہر شعبہ کو متا ثر کر کے رکھ دیا ہے۔ کو ئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جو کورونا کے مضر اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ اس وقت ہم نہ پوری دنیا کی بات کر رہے ہیں اور نہ زندگی کے مختلف شعبوں پر کورونا سے پڑ نے والے اثرات کا جا ئزہ لے رہے ہیں۔ اس مضمون میں صرف ہندوستان کے تعلیمی شعبہ پر اس وباء کے کیا اثرات اب تک پڑے ہیں اور آ ئندہ کیا کچھ مضر اثرات پڑ نے کے امکانات ہیں، اس کا مختصر خلاصہ اس امید کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ ماہرین تعلیم، اسا تذہ برادری، سرکاری تعلیمی ادارروں سے وا بستہ عہدیدار، خا نگی تعلیمی اداروں کے سر براہ اور خاص طور پر طلباء اس بارے میں غور و خوص کر تے ہو ئے ملک میں ہو نے والے تعلیمی بحران سے قوم کو بچانے کی را ہیں تلاش کر یں گے تاکہ ہندوستان میں خاص طور پر کمزور طبقوں اور اقلیتوں کو تعلیمی مواقع حاصل رہیں تاکہ ان کی تعلیمی پسماندگی دور ہو سکے۔کہیں ایسا نہ ہو سکے کہ کورونا کے مضر اثرات کا شکار یہ طبقے ہو جائیں اور تعلیم سے دور کر دیے جا ئیں۔
ہندوستان میں گذشتہ تین مہینوں سے اسکول بند پڑے ہیں۔ اور کو ئی نہیں جا نتا کہ اسکولوں کی کشادگی کب عمل میں آ ئے گی۔ فروغِ انسانی وسائل کے وزیر را میش پوکھریال نے چند دن پہلے اعلان کر دیا کہ 15/ ا گسٹ سے پہلے اسکولوں میں تعلیم کے آ غاز کے امکانات نہیں ہیں۔ مر کزی حکومت نے بھی بتا دیا کہ جو لائی کے دوسرے ہفتہ میں حالات کا جا ئزہ لے کر کو ئی فیصلہ کیا جائے گا۔ پورے ملک میں اسکولوں کو 25/ مارچ سے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے وقت سے بند کر دیا گیا ہے۔ بعض ریاستوں میں لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے ہی اسکولوں کو تعطیلات دے دی گئیں۔ کورونا وائرس کی بڑھتی ہو ئی وباء کے پیشِ نظر دسویں جماعت کے امتحانات بھی بعض ریاستوں نے منسوخ کر دئے اور بعض نے انہیں ملتوی کر دیا۔ چھوٹی جماعتوں کے بچوں کو بغیر امتحان کے پروموٹ کر دیا گیا۔ تعلیمی سال 2019-20بہر حال گذر گیا۔ اب نئے تعلیمی سال کے آ غاز پر بھی حالات میں کوئی بدلاؤ نہیں آ یا ہے۔ کورونا کی وباء بڑ ھتی ہی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں بچوں کے لئے آ نے والا تعلیمی سال کیا وا قعی ان کے لئے پڑ ھنے پڑ ھانے کا ماحول پیدا کر ے گا یا پھر غیر یقینی کی اس کیفیت میں مز ید اضا فہ ہو جا ئے گا۔بعض گوشوں سے اس بات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تعلیمی سال 2020-21 کو زیرو ائیر(Zero Year) قرار دے دیا جا ئے۔ اس قسم کا مطالبہ، والدین، قانونِ حقِ تعلیم کے جہدکاروں کے علاوہ دہلی گورنمنٹ ٹیچرس اسوسی ایشن کی جانب سے حالیہ دنوں میں کیا گیا ہے۔ حکومت اگر ان اپیلوں کو قبول کر لیتی ہے تو آ نے والے تعلیمی سال میں بھی کوئی خاص تعلیمی سر گرمی دیکھنے میں نہیں ملے گی۔ہندوستان میں حکومت کے سروے کے مطابق 25کروڑ اسکولی بچے 15لاکھ اسکولوں میں تعلیم حا صل کر رہے ہیں۔ اس میں 33%طلباء خانگی اسکولوں میں تعلیم حا صل کر ر ہے ہیں۔ کورونا وائرس نے اُن بچوں کے مستقبل پر سوال لگا دیا ہے جو سرکاری مدارس میں تعلیم حا صل کر تے ہیں۔ اس بات کے پورے آ ثار پا ئے جا رہے ہیں اگر اسکولوں کی کشادگی عمل میں بھی آ تی ہے تو سابقہ طرز پر اب اسکولوں کو چلانا ممکن نہ ہوگا۔ بہت سارے احتیاطی اقدامات روبہ عمل لانا لازمی ہو جا ئیگا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ حکومت جدید ٹکنالوجی کے ذر یعہ تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلیوں کے اشارے دے رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آن لائن کلاسیس رکھی جا ئیں گی۔ اس کے ذر یعہ نصاب کی تکمیل کی جا ئے گی۔ خانگی اسکولوں میں آن لا ئن کلاسیس کا آ غاز بھی ہو گیا ہے۔ بتا یا جا رہا کہ آن لائن کلاسیس کے نام پر سال بھر کی فیس بھی خا نگی مدارس وصول کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے واضح ہدایات جا ری کی گئیں کہ طلباء سے سوائے ٹیوشن فیس کے اور کوئی فیس و صول نہ کی جا ئے۔ لیکن کارپوریٹ اسکولس مبینہ طور پر ہر نوعیت کی فیس و صول کر رہے ہیں اور والدین بھی بحالتِ مجبوری یہ فیس ادا بھی کر رہے ہیں۔ جہاں تک آن لائن کلاسیس کا معا ملہ ہے، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ تعلیم اسکولی طلباء کے لئے تعلیم کا کوئی مو ثر ذر یعہ نہیں ہے۔ اس سے طالب علم کوئی زیادہ فا ئدہ نہیں اٹھا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور گھمبیر بن جائے اگر حکومت بھی سرکاری اسکولوں میں آن لائن طرزِ تعلیم کا سہارا لینے لگے۔ سرکاری اسکولوں میں جو بچے تعلیم حا صل کر تے ہیں وہ عام طور جدید ٹکنالوجی سے نا واقف ہوتے ہیں۔ ان کے والدین کے پاس ایک سیل فون ہو نا ہی بڑی بات ہے، لیکن کیا غریب والدین اس قسم کے بھاری فون رکھنے کے متحمل ہو تے ہیں کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے بچوں کو مسلسل آن لائن کلاسیس میں شریک کر کے ان کی تعلیمی حالت کو بڑ ھا سکتے ہیں۔ اور پھر ان دیہی علاقوں میں رہنے والے بچوں کا کیا حال ہو گا، جو اس قسم کی جدید ٹکنالو جی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ حکومت کی تعلیمی محاذ پر جو بھی تگ و دو دیکھی جا رہی ہے اس سے شہری علاقوں کے طلباء کچھ حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دورداز علاقوں میں ان سہولتوں کا فقدان عام بات ہے۔ ملک کے کئی دیہاتوں میں اب بھی اسکول نہیں ہیں۔ ایسے بچے کیسے جدید ذرائع تعلیم سے وابستہ ہو کر تعلیم حا صل کر سکتے ہیں۔
اس بدلتی تعلیمی صورت حال میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ طلباء کا تعلیمی معیار کس طرح بلند رکھا جا سکتا ہے۔ ریاستِ تلنگانہ میں حکومت ایک نئی تعلیمی پا لیسی کا بھی اعلان کر نے والی ہے۔ طلباء کے بارے میں بھی یہ زمرہ بندی کی جا سکتی ہے کہ ملک کے بچوں کی ایک اچھی خا صی تعداد کارپوریٹ اسکولس میں تعلیم حا صل کر رہی ہے، لہذا ان کے بارے میں زیادہ فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہ بچے جو سر کاری اسکولوں میں تعلیم حا صل کر رہے ہیں اور وہ جو دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ کس طرح سے ان بدلتے ہو ئے حالات میں اپنے تعلیمی معیار کو بڑھاتے ہوئے آ گے بڑھ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سرکاری مدارس اور ان میں خاص طور پر اردواور تلگو میڈیمس کے اسکولس کی حالت بڑی خستہ ہے۔ اس کی مختلف وجو ہات ہیں۔ اس کی تفصیل میں گئے بغیر یہ دیکھنا ہے کہ دستیاب سہولتوں کا استعمال کر تے ہوئے طلباء کی تعلیمی ترقی کے کیا کچھ اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ سب بڑا اور فوری حل طلب مسئلہ یہ ہوگا کہ جد ید ٹکنالوجی کا فائدہ انگلش میڈ یم کے طلباء کو زیادہ ہوگا۔ دوسری زبانوں اور خاص طور پر کیا اردو زبان میں وہ سارے ذرائع موجود ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے اردو ذر یعہ تعلیم کے طلباء کے معیار کو کم ہو نے سے بچایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک تعلیم کے لئے ٹکنالوجی کے استعمال کی بات ہے، حالیہ نیشنل سمپل سروے کے مطا بق ہندوستانی گھرانوں میں اگر چکہ اسمارٹ فون کا چلن زیادہ ہے۔ لیکن11% گھرانے ہی اپنے پاس کمپیوٹر رکھتے ہیں۔ 24%خاندان انٹرنیٹ سہولت رکھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ فیصد اور کم ہوجا تا ہے۔ صرف 15%لوگوں کے پاس ہی یہ سہولت ہے۔اگر ایک خاندان میں ایک کمپیوٹر بھی ہے تو وہ خاندان کے تمام بچوں کے لئے کس طرح ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔ اگر کسی کے چار بچے ہیں اور سب کی آن لائن کلاس ایک ہی وقت شروع ہو تی ہے تو وہ کس طرح بیک وقت کلاس میں شر یک ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر معاشی طور پر کمزور طبقات کے لئے حصولِ علم پھر ایک مر تبہ محض ایک خواب بن کر رہ جا ئے گا۔ سرکاری مدارس کی ایک بڑی تعداد جدید ٹکنالوجی سے نا واقف ہے۔ وہ اسا تذہ جو اپنی ایک لمبی سروس مکمل کر چکے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہو گی۔ اس سے طلباء کا نا قابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ ایک بہت بڑا چیلنج جو حکومت کے لئے ہوگا وہ یہ کہ آ یا حکومت ہر طالبِ علم کو یہ جد ید آلات فراہم کرے گی؟ وہ حکومت جو بچوں کو وقت پر کتابیں فراہم نہیں کر سکتی، اسکول کے لئے ایک صحیح عمارت تعمیر نہیں کر سکتی، طلباء کی تعداد کی منا سبت سے اسا تذہ کا تقرر نہیں کر سکتی کیا وہ طلباٗ کو کمپیوٹر، لیاب ٹاپ یا اسمارٹ فون دلانے میں اپنی فراخدلی کا ثبوت دے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی آ ڑ میں ملک میں ایک ایسے تعلیمی نظام کو رائج کر نے کو شش کی جا رہی ہے جس سے صرف سما ج کا آسودہ طبقہ ہی مستفید ہو سکے گا۔ جو صا حبِ حیثیت ہیں ان کو ہی تعلیمی مواقع ملیں گے۔ وہی اقتدار کے سر چشموں پر قبضہ کر سکیں گے۔ ان ہی عزائم کو سا منے رکھ کر تعلیمی پالیسیاں مر تب کی جا رہی ہیں۔ کورونا کا بہا نہ کر کے حکو مت تعلیم کے بجٹ کو کم کر دے گی اور اسے خانگی شعبہ کے حوالے کر دے گی۔ جب تعلیم کا شعبہ خانگی سیکٹر بن جا ئے گا تو تعلیم غریبوں کی دسترس میں نہیں رہے گی۔ وہ لوگ جو صاحبِ ثروت ہیں وہی صا حبِ تعلیم بن جا ئیں گے، پھر صا حبِ اقتدار بننے میں انہیں کو ئی دیر نہیں لگے گی۔ بعض گوشوں سے کہا جارہا ہے ڈیجیٹل تعلیم سے بہت سے فا ئدے ہوں گے۔ کہیں بھی رہ کر تعلیم حا صل کر نا آ سان ہو جائے گا۔ اس کے لئے خرچ بھی کم آ ئے گا۔ لیکن ان باتوں میں کوئی وزن نہیں ہے۔تعلیم میں حکومت جو تبدیلیاں لارہی ہے اس کا مقصد تعلیم کو خانگیانہ ہے، جو ہر لحاظ سے ملک اور قوم کے لئے نقصان دہ ہے۔

Share
Share
Share