افسانہ : صدمہ
ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:
پنکی تم کہاں ہو؟ پنکی میری پیاری بہنا تم کہا ہو؟
میں نے کہا : پنکج بھیا میں یہاں ہوں صوفے کے پیچھے۔
پنکج بھیا جیسے ہی صوفے کے پیچھے مجھے ڈھونڈنے آئے،اتنی دیر میں، میں وہاں سے نکل کر ممی پاپا کے کمرے میں چھپ گئی۔
پنکج بھیا پکارنے لگے پنکی تم کہاں ہو؟ میں کہنے لگی میں یہاں ہوں۔ پنکج بھیا ناامید ہو کر صوفے پر بیٹھ گئے اور مجھے بہت دیر تک نا پاکر رونے لگے۔ اتنے میں ممی نے پنکج بھیا سے اشارے میں کہا کہ پنکی ہمارے کمرے میں ہے۔ پنکج بھیا ڈور کر کمرے میں آئے اور مجھے پکڑ کر کہنے لگے۔
میں نے تمہیں پکڑ لیا، میں نے تمہیں پکڑ لیا۔ تم ہار گئی،میں جیت گیا۔ میں رونے لگی۔
تبھی پنکج بھیا نے کہا تو ہارنے پر روتی کیوں ہو؟ اچھا بس میں نے تمہیں نہیں پکڑا۔ تم جیت گئیں
۔اس آنکھ مچولی کھیل کو یاد کرکے میری اور پنکج بھیا کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ ایسی کئی باتیں ہم اس لوک ڈاؤن کے درمیانی دنوں میں کر رہے تھے۔ پرانی یادیں اب دوبارہ تازہ ہو رہی تھیں۔ایک مرتبہ کی بات ہے مجھے تھوڑا سا بخار آگیا۔جتنا ممی پاپا پریشان نہیں ہوئے اتنا پنکج بھیا پریشان ہوگئے۔انہوں نے میرا بڑا خیال رکھا۔وہ مجھے بار بار پیشانی پر کپڑا بھگوکر رکھاکرتے تھے۔ وقت پر کھانا کھلاتے اور کبھی میں ضد کرتی تو وہ اپنے ہاتھوں سے کھلاتے۔ پنکج بھیا میرے بڑے بھائی سے زیادہ میری پرچھائی تھے مگر انہوں نے کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ ہی ستایا۔میں یہ ساری باتیں اکثر اس ڈائری میں لکھا کرتی تھی۔ میں اس دن کو نہیں بھول سکتی جب پنکج بھیا کا جنم دن تھا اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں ان کے لیے کوئی اچھا سا تحفہ خرید کر لے آتی۔پھر بھی میں نے ان کے لیے رسوئی میں جاکر ان کے لیے حلوہ بنایا۔اس حلوے کو بنانے کے دوران میرا ہاتھ گرما گرم کڑھائی سے چمٹ گیااور میرا ہاتھ جل گیا۔
میں رونے لگی۔ممی۔۔۔ممی پکارنے لگی۔
ممی کے ساتھ پنکج بھیا بھی وہاں آگئے اور جیسے ہی انہوں نے میرا جلا ہوا ہاتھ دیکھا وہ رونے لگے اور کہنے لگے بہت درد ہو رہا ہوگا۔وہ مجھے ہال میں لے جا کر میرے ہاتھ پر جلدی سے دوائی لگائی۔اس وقت ہم دونوں کی آنکھوں میں دُکھ کے آنسو بہنے لگے۔میں چوٹ کے مارے رو رہی تھی اور پکنج بھیا میرے درد کو لے کر رو رہے تھے۔ممی نے پنکج بھیا کو بہت سمجھایا۔تو اگر تیری بہن کو اتنا پیار کریگا تو یہ کبھی رسوئی نہیں کر پائے گی۔ آج نہیں تو کل اسے رسوئی کرنی ہوگی کیا تو ہر بار ایسے ہی کرکے اسے کبھی رسوئی کرنے نہیں دے گا۔ اتنے میں پاپا بھی آگئے۔وہ پکنج بھیا کوتحفہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے مجھے آج بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر میرے بچوں میں آپس میں کتنا پیار ہے۔ لوک ڈاؤن کے دنوں میں ہم ایک دوسرے کی باتیں کرنے بیٹھ گئے۔
تب میں اور اب میں بہت فرق آگیا تھا اور جو فرق نہیں آیا تھا وہ ہے پکنج بھیا کا مجھ سے بے انتہا پیار کرنا۔ہم دونوں شام کے وقت آنگن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ اچانک زوروں سے ہوائیں چلنے لگی۔پنکج بھیا مجھ سے کہنے لگے پنکی چلو گھر کے اندر ورنہ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔مجھے دُھول سے ایلرجی تھی جیسے ہی میں اورپکنج بھیا گھر میں داخل ہوئے مجھے چھینک پر چھینک آنی شروع ہوگئی۔ پنکج بھیا نے کہا پنکی میں نے تم سے کہا بھی چلو جلدی گھر میں مگر تمہیں تو ہواؤں کا لطف اٹھاناتھا دیکھ لیا نتیجہ تم بیمار پڑ گئیں۔ اس لوک ڈاؤن میں ہسپتالوں کی حالت خستہ تھی زیادہ تر چھوٹے ہسپتال بندھ تھے اور بڑے ہسپتال ہی کُھلے ہوئے تھے اور اوپر سے جنرل دوائیں لینادینا دونوں ہی مشکل تھا۔میں نے پنکج بھیا سے کہا تم میری بالکل بھی فکر مت کرو۔میں ابھی لونگ، کالی مرچ، اجوائن، نمک، تلسی کے پتّے، اورگڑ،ڈال کر کاڑہ بنا کر پی لوں گی۔ اور ٹھیک بھی ہو جاؤں گی۔ دوسرے روز مجھے سردی میں راحت ہوگئی۔اس لوک ڈاؤن میں نہ تو ہم کسی سے مل سکتے تھے اور نہ ہی کسی کو بلا سکتے تھے۔ یہ ایک عجیب کیفیت تھی جہاں سب ساتھ مگر وہ کھیل کود،منورنجن نہیں تھا بس چاروں طرف خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔
پکنج بھیا مجھ سے کہنے لگے ہر بار تم رکشا بندھن پر اپنی من چاہی چیز مانگ لیا کرتی تھی مگر اس بار پتہ نہیں کیوں مجھے ڈر سا لگ رہا ہے۔میں نے کہا پکنج بھیا اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اس بار آپ اپنے ہی ہاتھ سے راکھی باندھ لینا۔پکنج بھیا نے کہا وہ کیوں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے تم نے مجھے راکھی باندھی نہ ہو۔اچھا میں تمہیں تحفہ بھی نہیں دوں گا۔ ویسے یہ بتاؤ پنکی میڈم آپ اس لوک ڈاؤن میں جا کہاں رہی ہو؟ میں نے کہا میں تم سب سے بہت دور جارہی ہوں۔میرا اس گھر میں من نہیں لگتا،میں باہر جانا چاہتی ہوں۔گھومنا چاہتی ہوں، سیرو تفریح کرنا چاہتی ہوں۔ آئیس کریم کھانا چاہتی ہوں۔ پکنج بھیا نے کہا تو یہ بات ہے۔میں تو کچھ اور ہی سمجھا۔میں نے پکنج بھیا سے پوچھا بتاؤ نا آپ نے کیا سمجھے؟ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں سمجھا تم شادی کرکے اپنے سسرال جانا چاہتی ہو۔ کیا بھیا میں اپنے من کی بھی نہیں کر سکتی۔ پکنج بھیا کہنے لگے میں تجھے موٹر سائیکل پر سواری کرا کر لاتا ہوں۔ میں اتنی خوش ہوئی کہ میں جھومنے لگی۔میں اور پکنج بھیا سواری پر نکل پڑے۔راستے سارے ویران تھے۔دکانیں ساری بند تھیں۔پکنج بھیا مجھ سے کہنے لگے دیکھا پنکی باہر کا کیا عالم ہے؟ اچانک موٹر سائیکل راست میں خراب ہوگئی وہ تو اچھا تھا کہ گھر بہت نزدیک تھا ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ہمیں راستے میں ایک بوڑھی عورت ملی۔اس عورت کو کبھی ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہم کو چھٹّی دکھا کر پتہ پوچھ رہی تھی۔ پکنج بھیا نے انکار کیا۔مگر میں نے اس چھّٹی پر لکھے پتے کو بتایا کہ یہ تو واست کالونی ہے جو یہاں سے تین کلو میٹر دور ہے۔اس بوڑھی عورت نے مجھے دھنیہ واد کیا اور وہ وہاں سے چل دی۔میں اور پکنج بھیا گھر پر آگئے۔ گھر میں آنے کے بعد مجھے ہلکا سا بخار محسوس ہونے لگا اور سردی کا احساس ہونے لگا۔ مجھے دوائی بھی دی گئی مگر کوئی فرق نہیں پڑھنے لگا۔ پکنج بھیا مجھے بڑے ہسپتال لے گئے وہاں پر مجھے اندر لے جانے کے بعد ٹیسٹ کیا گیا اور پتہ چلا کہ مجھے کورونا ہوگیا ہے۔ میرے پکنج بھیا کو کہا گیا آپ گھر جائیے۔آپ کی بہن کو کورونا ہوگیا ہے۔ آپ کو بھی گھر جانے بعد کورن ٹائن میں رہنا ہوگا گھر کے تمام لوگوں کا کورونا ٹیسٹ ہوگا۔ میں چیختی رہی پکنج بھیا۔۔۔پکنج بھیا۔۔۔۔پکنج بھیا۔۔۔۔آپ مجھے یہاں سے لے جاؤ۔
ہسپتال کے سبھی لوگوں کے چہروں پر بڑا ماسک لگا ہوا تھا۔ ایک نرس آئی اور مجھے اشارے سے کہنے لگی کہ یہاں سے چلو۔مجھے ایک بڑے سے کمرے میں لے جایا گیا۔مجھے بیڈ نمبر تیرا کی طرف اشارہ کیا گیا اور اور کہا کہ یہ تمہارا تیرا نمبر کا بیڈ ہے۔ اتنے میں ہلکا سا بلو رنگ کا لباس پہنے ایک ڈاکٹر آیا اور دوری بنا کر میری جانچ کرنے لگا۔اس نے مجھ سے کہا زور سے سانس لو۔میں نے ایسا نہیں کیا تو وہ ڈاکٹر مجھے ڈانٹنے لگا۔وہ نرس جو مجھے چھوڑنے آئی تھی اس نے مجھے تھپڑ لگایا اور کہا تم ڈاکٹر کی بات کیوں نہیں سُن رہی ہو۔ میں رونے لگی۔یہ ہسپتال تھا کہ قید خانہ تھا جہاں ایسا سلوک کیا جارہا تھا۔ ڈاکٹر نے جیسے تیسے چیک کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ اس کمرے میں دو ہی بیڈ تھے بارہ نمبر کا اور تیرا نمبر کا۔ بارہ نمبر پر مجھے وہی بوڑھی عورت ملی جس نے مجھ سے پتہ پوچھا تھا۔ میں نے اس بوڑھی عورت سے بات کرنی چاہی مگر اس بوڑھی عورت کو سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔وہ کسی کو بلانا چاہتی تھی مگر مریض کو نہ تو باہر نکلنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کسی کو جا کر بلانے کی اجازت تھی۔ میں رونے لگی۔پکنج بھیا کو ممی پاپا کو یاد کرکے رو رہی تھی میرے بغیر ان کا کیا حال ہوا ہوگا یہ سوچ کر بے چین ہو رہی تھی۔ میں نے صبح جو کھایا تھا اس کے بعد دوپہر کا کھانا ہسپتال سے آیا جو بے حد بد مزہ تھا اس سے بھی زیادہ خراب اس کھانے کو دینے کا انداز اور اوپر سے یہ کہا گیا یہ لے لو تمہارا کھانا۔ میں جب بھی کھانے کو دیکھتی تو مجھے پکنج بھیا یاد آتے۔ میں جب بھی بیمار ہوئی،تب پنکج بھیا نے میرا کتنا اچھے سے خیال رکھا تھا۔ ہسپتال نہیں تھا وہ قید خانہ تھا اس بوڑھی عورت نے بلا آخر دم توڑ دیا۔اس بات کی خبر لینے کو کوئی نہیں آیا۔ مجھے احساس ہوا تو میں نے اس کھانا دینے والے شخص سے کہا یہ بوڑھی عورت مر چکی ہے اسے یہاں سے لے جاؤ۔مگر اس نے بھی ایک کان سے سُنی اور دوسرے کان سے ان سُنی کر دی۔ میں بہت گھبرا گئی۔وہ بوڑھی جیسے مجھ سے کہہ رہی ہو کہ تمہارا بھی حال ایسے ہی ہونے والا ہے یہ ہسپتال نہیں ہے یہ تو قید خانہ ہے اور اس کورونا وائرس کا قید خانہ یعنی موت۔میں رونے لگی،چیخنی لگی۔مجھے صحیح طریقے سے دوا اور کھانا نہ ملنے پر کمزوری محسوس ہونے لگی۔میں اس ہسپتال کے ہر ایک دن کے حالات کو قلم بند کر رہی تھی وہ قلم اور کاغذات میرے پاس نرس کی بدولت آئے تھے یہ میرے پکنج بھیا کو جانتی تھی اور کہتی تھی تم ڈرنا مت۔ میں تمہارا خیال رکھوں گی۔ میں بہت خوش تھی اس روز کے بعد کمرے میں نہ تو ڈاکٹر آیا اور نہ ہی کوئی نرس آئی۔ مجھے اکیلے میں بہت ڈر لگ رہا تھا اور اوپر سے اس بوڑھی عورت کی لاش۔ میں نے جوں توں کرکے خبر پہنچائی کہ وہ بوڑھی عورت مر چکی ہے۔ اس کمرے میں دو شخص آئے اور کہنے لگے یہاں کوئی عورت مر گئی ہے۔میں نے اشارے میں کہا ہاں وہ بیڈ نمبر بارہ۔ دونوں شخص کے ہاتھ میں لکڑی کے بانس کے بڑے دنڈے تھے وہ اس بوڑھی عورت کی لاش کو پہلے ٹھونس مار کر نیچے گراتے ہیں جہاں سفید رنگ کا پلاسٹک بچھا ہوا تھا اسی ڈنڈوں کے سہارے اس سفید پلاسٹک کو لاش کے ساتھ لپیٹ کراور چاٹی لگا کراس لاش کو رگڑ رگڑ کر کمرے سے لے جاتے ہیں۔ یہ سارے منظر میں ان کاغذات پر لکھ رہی تھی۔ہسپتال کی بد انظامیوں پر کوئی نہیں سوال کر رہا تھا سب کو ڈاکٹروں کی ہمت بڑھانی تھیں ان نرسوں کا حوصلہ بڑھانا تھا مگر مریضوں کے ساتھ ہوئے سلوک پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو رہا تھا۔ صحیح غذا اور وقت پر دوا نہ ملنے پر میری طبیعت بگڑنے لگی۔ میں نے کئی بار دروازے کھٹکھٹائے مگر وہاں کوئی نہیں آیا۔میری سانس اکھڑ رہی تھی۔میں نے ان کاغذات پر لکھا پکنج بھیا آپ کہاں ہو؟ آپ مجھے دیکھنے کیوں نہیں آئے؟ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا یا جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا کون ذمہ دار ہے؟ یہ لکھتے لکھتے میرا دم نکل گیا۔
اب میری روح میری لاش کو دیکھ رہی تھی ۔میرے مرنے کے بعد اس کمرے میں نئے مریض لائے گئے اور میری لاش کو اس بوڑھی عورت کی مانند ہسپتال کے مردہ خانے لے جایا گیا مگر وہاں جگہ نہ ملنے پر مجھے دوسرے کمرے میں ڈال دیا گیا۔دو تین دنوں تک میری لاش یہی رکھی گئی اسی وجہ سے میری لاش سڑ چکی تھی اور بد بو مار رہی تھی تبھی اچانک میڈیا والے جو ہسپتال سے خبر معلوم کر رہے تھے کتنے مریض اچھے ہوگئے کتنے نہیں؟اتنے میں انہیں بھی بدبو آنے لگی اور انہوں نے جب میری لاش والا کمرہ کُھلایا تب سب کے سب چیخ اٹھے ایسی درد ناک موت ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہوگی۔ میری لاش کو اس بیڈ کے ساتھ ہی جلا دیا گیا۔ میرے بیڈ نمبر تیرا پر لکھ رکھے وہ کاغذات تم تک ضرور پہنچائے گئے ہوں گے بھیا۔
پکنج بھیا نے روتے روتے ان کاغذات کو پڑھا اور انہیں اتنا صدمہ لگا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے۔ ایک ہی بات بار بار دہرانے لگے پنکی تم کہاں ہو،میں تمہارا پیاراپکنج بھیا تمہارے پاس آ رہا ہوں۔ ممی پاپا کی چھوٹی سی دنیا اجڑگئی۔ کورونا وائرس کی وبا نے ایک اور ایسے گھر کو پھونک ڈالا جہاں بھائی بہن کے میٹھے،سچے اور پیارے بھرے رشتے ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر رہ گئے۔
——
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad