نسل پرستی کی آگ میں جھلستا امریکہ !
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770
ایک ایسے وقت جب کہ ساری دنیا میں کورونا وا ئرس نے تبا ہی مچا رکھی ہے۔ ہزاروں لوگ اس بیماری کی تاب نہ لا کر لقمہ اجل بنتے جارہے ہیں۔ حکو متیں اس وباء کی روک تھام کرنے میں اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہیں۔
امریکہ میں گزشتہ چند ہفتوں سے نسل پرستی کا عفریت اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ ایک سفید فام پو لیس عہد یدار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی ہلاکت نے پورے امریکہ کو ہِلاکر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے سب سے طا قتور صدر کو احتجاجیوں نے بنکر میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ 25 /مئی 2020کو ہوئے اس دل دہلادینے واقعہ نے انسانی حقوق کے تحفظ کی دُہائی دینے والے امر یکیوں کی پول دنیا کے سا منے کھول کر رکھ دی۔سیاہ فام جارج فلا ئڈ کو سفید فام ڈیریک چرڈن نے جس بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا اس پر سیاہ فام امر یکیوں میں جہاں غم و اندوہ کی گھٹا ئیں چھا ئی ہیں وہیں غیض و غضب اور جذبہ انتقام بھی اُبل پڑا ہے۔ سیاہ فام امریکیوں نے اپنے زبردست احتجاج کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ آزادی صرف سفید فام شہر یوں کا حق نہیں ہے۔ زندگی صرف انہیں کی قیمتی نہیں ہے۔ بلکہ با وقار زندگی گذارنے کا سب کا بنیادی حق ہے۔ اگر کوئی سفید فام اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے غصہ اور انتقام کے جذبات سے مغلوب ہوکر حقوقِ انسانی کی دھجیاں اُڑا دیتا ہے تو انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ اس بدبختانہ واقعہ نے پھر سے یہ بات دنیا کے سا منے واشگاف انداز میں پیش کر دی کہ عالمی انسانی حقوق کے چمپئن اپنے ہی شہر یوں کے ساتھ کس قسم کی نسلی امتیاز کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جارج فلائڈ کی بے بسی کی حالت میں موت کے بعد جس قسم کے مظاہرے امریکی حکومت کے خلاف کئے جارہے ہیں اس سے یہ امید بندھتی ہے کہ بہت جلد انسانیت عظمی، امر یکی اربابِ حل و عقد کی چیرہ دستوں سے واقف ہوجائے گی۔ جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈے کی بناد پر جس نئے عالمی نظام کی بنیاد ڈا لی جارہی ہے اس کی حقیقت سے بھی دنیا با خبر ہوجائے گی۔ امریکی معاشرہ رنگ و نسل کی جن گتھیوں میں آ ج بھی جکڑا ہوا ہے، اس کا اندازہ بھی اس حادثہ فاجعہ سے بخو بی ہوگیا ہے۔ آج امریکہ کے متعدد شہر نسل پرستی کی آ گ میں جھلستے جا رہے ہیں۔ اس احتجاج کا ایک امید افزاء پہلو یہ بھی ہے کہ اس قتلِ عمد کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں بھی احتجاج شروع ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی دن دھاڑے اس پامالی کے خلاف ساری دنیا میں غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکہ میں اس نعرے کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی کہ: نو جسٹس، نو پیس: یعنی انصاف نہیں تو امن نہیں۔ یہ بات کس قدر حیرتناک اور المناک ہے کہ ایک مہذب سماج میں ایک وردی والا اپنے ہی ہم وطن کی گردن پر اپنا گھوٹنا رکھ کر مار ڈالتا ہے۔ وہ شخص اس پولیس عہدیدار سے بار بار التجا کرتا ہے اور کہتا ہے وہ سا نس نہیں لے پارہا ہے، لہذا وہ اسے چھوڑ دے۔ لیکن سفید فام پولیس اہلکار کی شقاوتِ قلبی کا اندازہ کیجیے کہ وہ اس نہتے شخص کی درخواست کو ٹھکراتے ہو ئے اُ سے موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ یہ ہے وہ امر یکی معا شرہ جس کی قصیدہ خوانی کر نے میں مسلمان بھی پیچھے نہیں ہیں۔ جس ملک میں علوم و فنون کے دریا بہتے ہوں، سا ئنس اور ٹکنا لوجی جن کی گرفت میں ہو اور جو ملک پوری دنیا کے امن کا ٹھیکیدار بنا بیٹھا ہو اور جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر کسی بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہوں وہاں اگر ایک عام شہری کے ساتھ اس قسم کے ظلم اور بر بر یت کا رویہ اختیار کیا جا تا ہے کہ وہ بیچارہ اپنی جان سے ہا تھ دھو بیٹھتا ہو تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ وہ ملک اور وہ معا شرہ اخلاقی پستی کی آ خری انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ جس سماج میں انسانی جان کی قدر و قیمت با قی نہ رہے وہ کس طرح سے ایک مہذب اور پُر امن سماج کہلا سکتا ہے۔ جس ملک میں انسانی حقوق کے پر خچے اڑا دئے جا تے ہوں اور جہاں شخصی آزا دی کو رنگ یا نسل کی بنیاد پر قد موں تلے روند دیا جا تا ہو، وہاں ا حترام آ دمیت کا درس دینا، گو نگوں اور بہروں کے سا منے بین بجا نے کے مترادف ہو گا۔
یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ سر زمینِ امر یکہ میں نسل پر ستی کا یہ پہلا واقعہ ہو ا ہے۔ امر یکہ کی تاریخ میں اس کے کئی شواہد ملتے ہیں۔ صرف ماضی قریب کے ایک وا قعہ کو لیجیے۔ آ ج سے ستّر، پچہتّر سال پہلے مارچ 1944 میں بھی ایک بے گناہ نو جوان نسل پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ اس نو جوان کا نام جارج سٹینی تھا۔ اُ سے ایک ناکردہ جرم میں ما خوذ کر کے امر یکی عدالت نے اپنے فیصلہ کے ذ ریعہ اس کے ہاتھ میں موت کا پروانہ تھما دیا تھا۔ 70سال کے بعد 2014 میں طویل سماعت کے بعد عدالت نے جارج سٹینی کو بے قصور قرار دیا۔ یہ ہے امریکہ کے انصاف کا پیمانہ۔ ایک شخص کو بغیر کسی ثبوت اور شہادت کے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے اور کئی دہوں کے بعد دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے بے قصور کوانصاف فراہم کرنے کا ڈرا مہ رچایا جاتا ہے۔ جارج سٹینی کا قصور بس یہ تھا کہ وہ ایک سیاہ فام تھا۔ 14سالہ جارج سیٹنی جس طرح اُس وقت پو لیس کی بربریت کا شکار ہوا تھا اب 46سالہ جارج فلائڈ کو بھی پولیس کے ہاتھوں اپنی جان گنوانی پڑی۔ فرق یہ ہے کہ جارج سیٹنی پر ایک بے بنیاد الزام لگا کر مقد مہ چلا یا گیا، اور اسے پولیس نے تھرڈ ڈگری استعمال کر تے ہوئے اس جرم کو قبول کرنے نے پر مجبور کیا، جس سے یہ جرم سر زد ہی نہیں ہوا تھا۔ پھر پولیس سے معا ملہ عدالت تک پہنچا۔ امریکی عدالت میں مقدمہ چلتا رہا۔ اسی دوران امریکی ریاست کیرولینا میں الیکشن کا مرحلہ آگیا۔ ہر پارٹی کو سفید فاموں کی حمایت ضروری تھی۔ سیاہ فاموں کو ابھی سیا سی حقوق امر یکہ میں نہیں ملے تھے۔ سیٹنی کا وکیل چالس پلوڈن بھی سفید فام تھا اور الیکشن میں حصہ لے رہا تھا۔ سیٹنی کے مقدمہ کا فیصلہ سیاسی جیوری کو کرنا تھا، جس کے سارے جج سفید فام تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مقد مہ کی جب سما عت شروع ہوئی تو کو ئی ٹھوس ثبوت اور گواہ پیش نہیں کئے گئے اور سیٹنی کے وکیل نے بھی کوئی جرح کر نے ذ حمت گوارا نہ کی۔ صرف دس منٹ میں جیوری نے اپنا فیصلہ سنا تے ہو ئے سیٹنی کو قصوروار قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنادی۔ 16/ جون 1944امر یکی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جب ایک بے قصور شخص موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اسی دن شام 07:30 بجے سیٹنی کو الیکڑک چئیر پر بٹھا کر 2400میگا واٹ کا کرنٹ اس کے جسم میں ڈورا کر انصاف کے نام پر انسانیت کابہیمانہ قتل کر دیا گیا۔جن امریکیوں نے دو کمسن سفید فام بہنوں کا قتل کیا تھا وہ تو بچ گئے اور جارج سیٹنی جس نے ان بچیوں سے سرِ راہ بات کی تھی، اسکی زندگی کا خا تمہ کر دیا گیا۔ 1944سے اب 2020ختم ہو نے والا ہے لیکن قاتلوں کا آ ج تک پتہ نہ چل سکا۔ اُن لڑ کیوں کے قاتل سفید فام تھاس لئے وہ قانون کے شکنجہ میں نہ ا ٓ سکے۔ امر یکی پولیس کو لازمی تھا کہ کسی نہ کسی کو قا تل بنا کر عدالت میں پیش کرتی، اس کے لئے ایک سیاہ فام جارج سیٹنی مل گیا اور اس پر قتل کا الزام تھوپ کر پولس بری الذمہ ہوگئی لیکن ایک بے قصور تو دنیا سے چلا گیا۔ جب کہ مغرب کے علمبرداروں کا دعویٰ ہے کہ سو قصوروار چھوٹ جائیں لیکن ایک بے قصور کو سزا نہ ہو۔ اگر یہی پیمانہ سب کے لئے ہے تو تو پھر پون صدی پہلے جارج سیٹنی کے موت کا ذمہ دار کون ہے اور اب جارج فلائڈ کو کس ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی ہے۔
سفاکیت اور بر بریت کے ان واقعات پر انسانیت بے ضمیری اوربے حسی کا ثبوت دے تو اس پر ماتم کے سوا اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی حکو مت اپنے ہی شہریوں کے تئیں کم از کم انسانوں قدروں کا لحاظ نہ رکھے اور مذہب، جنس، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنے لگے تو اس سے عالمی امن کے قیام کی توقع رکھنا ایک خیالِ عبث ہی ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو دنیا کا سُپر پاور ملک کہلوانے والا امریکہ خود اپنی عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مسلسل نا کام ہوتا جارہا ہے، اس کی طرف امید بھری نظریں اٹھائے رکھنا اپنی ہی کوتاہ بینی کے مترادف ہوگا۔ جس ملک میں ناانصافی اور ظلم کی ایک نئی تاریخ پھر سے لکھی جا رہی ہو، اس سے عبرت لینے کے بجائے اس کے سا منے کشکول لئے کھڑے رہنا،انسانیت کی توہین ہے۔ جس ملک میں عدل و انصا ف کے پیما نے رنگ و نسل کی بنیاد پر طے کئے جاتے ہیں وہاں سے دنیا میں عدل و انصاف کو قا ئم کر نے کی با تیں ایک افسانے سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے۔ سفید فام اقوام کی بر تری کا نشہ ابھی بھی مغربی اقوام کے سر پر سوار ہے۔ یہ دنیا کے دیگر ممالک کو کمزور اور بے بس بناکر اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اسی مریضانہ ذہنیت نے غم و غصہ کے ساتھ امر یکی معاشرہ میں مایوسی کا ماحول بھی پیدا کر دیا ہے۔ خاص طور پر امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نسل پر ستانہ پالیسیوں نے امریکہ کو دنیا کی نظروں میں حقیر بناکر رکھ دیا ہے۔ جب سے اقتدار ان کے ہا تھوں میں آیا ہے، امر یکہ مسلسل عالمی سطح پر اپنا وقار کھوتا جا رہا ہے۔ حالیہ کورونا وائرس کی قہر سا مانی کا شکار سب سے زیادہ امر یکہ ہوا۔ آج بھی امر یکہ کورونا کے معا ملے میں پہلے نمبر پر ہے۔نیویارک کے مئیر کا یہ جملہ یادگار بن گیا کہ کورونا نے نیویارک کو قبرستان بنا دیا۔ اس عالمی وباء کا خاتمہ بھی نہیں ہوا کہ امر یکہ نسلی تشدد کی لپیٹ میں آگیا۔گذشتہ دس، بارہ دن سے امر یکہ میں لوٹ مار مچی ہے اور پورے ملک میں افراتفری اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ منگل کو ہوئی جارج فلائڈ کی آ خری رسومات میں ہزاروں افراد کی شرکت سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی لاوا پھٹنے والا ہے۔ اب بھی امر یکہ کے مختلف شہروں میں نسل پرستی اور پو لیس کے خلاف مظا ہرے ہو رہے ہیں جس میں ہر طبقہ کی عوام شریک ہو رہی ہے۔حالات اس قدر دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ سے استعفیٰ کی مانگ کی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ اب بھی حالات سے سبق لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حالات بے قا بو ہوجائیں گے تو وہ فوج کو طلب کرلیں گے۔ لیکن ٹرمپ شاید یہ بھی جانتے ہوں گے کہ عوامی غیض و غضب کے سا منے فوج بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ بے گناہوں کا جب خون بہتا ہے توساری دنیا سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔نسل پرستی کے خلاف اگر احتجاج عالمی سطح پر پھیل جائے تو امریکی صدر کے لئے کوئی جائے پناہ نہ ملے گی۔ وہ اپنی عوام کے دلوں کو جیتنے کے بجائے اس کی آواز کو بزورِ طاقت کچلنا چا ہتے ہیں تو وہ اس آ ندھی کو روکنے میں ناکام ہو جائیں گے جس کا سامنا اس وقت سارا امریکہ کررہا ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کر نے والے امر یکہ میں تاریخ کے ایک لمبے عرصے سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد بھی جاری ہے۔ مارٹن لوتھر اور چرچل جیسے انسا نیت کے پاسبانوں نے سابق میں امریکہ کی نسل پرستی کے خلاف صدا ئے احتجاج بلند کی اور اب بھی بارک اوبا جیسے سیاہ فام لیڈر امریکی معاشرے سے اس خباثت کو ختم کرکے انسانی جانوں کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کو امن اور بھا ئی چارہ کا درس دینے والے اپنے شہریوں کو باوقار زندگی گزارنے کے کیا موا قع فراہم کر تے ہیں۔ اور کس طرح احترامِ آ دمیت اور اخوتِ انسانی کا جذبہ امریکہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیا اسی جواب کی منتظر ہے۔