اذان کا چوتھا کلمہ – حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ (3)
مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536
اذان کا چوتھا کلمہ – حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ (2) کے لیے کلک کریں
فہم نماز کی تحریک ایک طرح سے فہم قرآن کی تحریک بھی ہے اس لئے کہ سال میں ایک مرتبہ پنجوقتہ نمازوں اور نماز تراویح کے ذریعہ مکمل قرآن تمام نمازیوں کے سامنے پیش ہو ہی جاتا ہے
اب اگر تمام نمازیوں کو اپنی ایک سالہ نماز کا علم ہو گیا تو گویا ان کو پورے قرآن کا علم ہو گیا، ویسے پنجوقتہ نمازوں میں زیادہ تر آیات اور سورتیں تکرار کے ساتھ ہی پڑھی اور سنی جاتی ہیں اور یہ آیات اور سورتیں بھی نمازیوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے کافی ہیں اگر وہ ان آیات اور سورتوں کو سمجھ لیں، جس طرح قرآن مجید میں اقامت نماز کا وسیع تصور ہے جو دین کی تمام تعلیمات کو شامل ہے اسی طرح حدیث میں بھی اقامت نماز کا وسیع تصور ہے بہ طور مثال چند احادیث پیش کی جارہی ہیں، ایک حدیث میں نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے لئے عُمُوْدُ اور عِمَادُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مطلب یہ کہ نماز پورے دین کی عمارت کی بنیاد ہے ظاہر بات ہے یہ بات بھی نماز کے حق میں اسی وقت صادق آسکتی ہے جب کہ نماز کو اس کے وسیع تصور کے ساتھ لیا جائے جس میں پورے دین کی اقامت کا مفہوم شامل ہے یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اس حدیث کی تشریح میں یہ الفاظ بھی شامل کے ہیں۔فَمَنْ اَقَامَھَا فَقَدْ اَقَامَ الدِّیْنَ وَمَنْ ھَدَمَھَا فَقَدْ ھَدَمَ الدِّیْنَ۔ یعنی جس نے نماز کو قائم کیا تحقیق کہ اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو ڈھا دیا تحقیق کہ اس نے دین کو ڈھا دیا۔
مذکورہ حدیث اور اس کی تشریح سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ صرف نماز ادا کرنے سے نماز کو قائم کرنے کا حکم ادا نہیں ہوتا بلکہ نماز کے تقاضوں کو زندگی میں قائم کرنے سے نماز کو قائم کرنے کا حکم پورا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی مذکورہ حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اقامت دین، اقامت نماز کا لازمی تقاضہ ہے اور جو نماز کے عمل میں اقامت دین کو شامل نہ سمجھے گو یا اس نے ابھی نماز کی حقیقت نہیں سمجھی، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازی حضرات اقامت دین اور غلبہ دین کو اپنی نماز کا حصہ ہی نہیں سمجھتے اور مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ ان تحریکات کی مخالفت کرتے ہیں جو معاشرہ میں اقامت دین اور غلبہ دین کا کام کر رہی ہیں جب کہ ان نمازیوں کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ نماز کے وہ تقاضے جو وہ پورا نہیں کر پا رہے ہیں تو یہ تحریکات پورا کر رہی ہیں، واضح رہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دین اسلام کی تمام تعلیمات کو نافذ و غالب کرنے کا نام اقامت دین ہے، یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اگر اہل ایمان اپنی نمازوں کے پیغام کو سمجھ لیں تو یہ کام آسان ہو جاتا ہے اور ویسے بھی اہل ایمان صرف اقامت دین کی جدوجہد کے مکلف ہیں مطلب یہ کہ اہل ایمان مکمل دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں لیکن دین غالب نہیں ہو سکا تو اس سلسلہ میں اہل ایمان سے نہیں پوچھاجائیگا کہ تم نے دین کو غالب کیوں نہیں کیا جس طرح حضرت نوحؑ ساڑھے نو سو سال دین کی تبلیغ کرتے رہے لیکن چند ہی لوگوں نے دین قبول کیا اسی طرح ان کی قوم میں بھی دین غالب نہیں ہو سکا لیکن اس سلسہ میں اللہ کی طرف سے حضرت نوحؑ کی کوئی باز پُرس نہیں ہوئی بلکہ ان کی مخالف قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہو گیا، البتہ اگر کوئی لوگوں کی مخالفت سے ڈر کر دین اسلام کو صرف عقیدہ و عبادت کے طور پر قبول کرے اور اسلام کو صرف عقیدہ و عبادت کے طور پر پیش کرے تو ضرور اس سلسلہ میں اللہ کی طرف سے باز پُر س ہوگی کیونکہ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی کا نام ہے اور اس کو اسی حیثیت سے قبول کرنا اور پیش کرنا ضروری ہے لیکن افسوس ہے کہ ابھی بہت سے پنجوقتہ نمازیوں نے دین اسلام کو صرف عقیدہ و عبادت کے دین کے طور پر قبول کیا ہوا ہے اور صرف عقیدہ عبادت کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ نماز کی تَکْبِیرِ تَحْرِیْمَہْ ہی میں دین اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے قبول کرنے کی دعوت ہے، اس لئے کہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کے معنی صرف اللہ سب سے بڑا کے نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کا حکم سب سے بڑاہے کے ہے، کیونکہ قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ مکہ کے کافر بھی اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کے خالق و مالک کی حیثیت سے مانتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے نزدیک کافر قرار پائے تو اس کا بنیادی سبب یہی تھاکہ وہ اللہ کو حکم کے لحاظ سے سب سے بڑا نہیں مانتے تھے اور اللہ کو سب سے بڑا ماننے کا لازمی تقاضہ ہے کہ اللہ کے حکم کو بھی زندگی کے تمام شعبوں میں سب سے بڑا سمجھا جائے، اور یہی اسلام کی بنیادی دعوت ہے اور یہی نماز کی بھی دعوت ہے بلکہ اذان کی بھی یہی دعوت ہے اور اذان و نماز میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی تکرار سب سے زیادہ اسی لئے رکھی گئی ہے کہ ہر مسلمان کے ذہن میں اللہ کے حکم کی بڑائی ہر وقت تازہ رہے،کیونکہ اس دنیا میں حق وباطل کے جھگڑے کی بنیاد یہی چیز ہے کہ باطل پرست زندگی کے معاملات میں اپنے حکم کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اہل ایمان کے لئے اذان و نماز رہنمائی،اللہ کے حکم کی بڑائی کو ماننے کے لئے معین و مدد گار بنتی ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ بہت سے نمازی برسہا برس گزرنے کے باوجود اذان و نماز کا مطلب جاننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جو تھوڑے بہت جانتے ہیں وہ اس کے مطابق عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کچھ نمازی اذان و نماز کا مطلب جان کر اس پر عمل کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں اگر چہ ایسے نمازی ابھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ نماز کو قائم کرنے کا یہی وسیع تصور آنحضورﷺ نے ایک نہر کی مثال کے ذریعہ سمجھایا، چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کی حدیث ہے۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَرَاَیْتُمْ لَوْ اَنَّ نَھْرَاً بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمِِ خَمْسَاً ھَلْ یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہِ شَیءُ قَالُوْا لَا یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہِ شَیءُ قَالَ فَذَالِکَ مَثَلُ الصَّلَوٰاتِ الْخَمْسِ یَمْحُواللّٰہُ بِھِنَّ الْخَطَایَا۔ (بخاری و مسلم) باب کتاب الصلوٰۃ) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسو اللہ ﷺ نے فرمایا‘بتاؤ تم میں سے کسی کے دروازہ کے سامنے ایک نہر ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کچھ میل باقی رہ سکتا ہے تو صحابہؓ نے کہا کہ اس پرکچھ بھی میل باقی نہیں رہ سکتا، تو آپؐ نے فرمایا پس اسی طرح پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہوں کومٹا دیتا ہے) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز پڑھنے والا ہر نماز میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا عہد کرتا ہے اسی طرح سیدھے راستہ پر چلنے کی دعا کرتا ہے اور گمراہی کے راستہ سے بچنے کی دعا کرتا ہے تو ظاہر ہے وہ نماز کے بعد کے عمل میں لازماً سیدھے راستہ کو اختیار کرے گا اور گمراہی کے راستہ سے بچے گا، اس لئے ایک نمازی سے قطعاً یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ نماز میں جو پڑھے اور سنے نماز کے بعد اس کے خلاف عمل کرے، لیکن نماز کی یہ تاثیرنمازی کے اندر اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ نمازی، نماز میں پڑھنے اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھے، مگر یہ المیہ ہے کہ آج بیشتر نمازی اپنی نماز کی آیات اور سورتوں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پچاس سال کی نمازیں بھی زندگی سے برائیوں کو دور نہیں کر رہی ہیں، مذکورہ حدیث ایک طرح سے قرآن کے اکیسویں پارے کی پہلی آیت کی تشریح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اِنَّ الْصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ، یعنی بیشک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُرے کاموں سے، چونکہ نماز کا پیغام نمازی کے لئے بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکنے کا باعث بنتا ہے اس لئے نماز کے متعلق یہ بات کہی گئی، لیکن یہ کیفیت بھی نمازی کے اندر اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ اس کو اپنی نماز کے پیغام کا علم
ہوگا، اور نماز کے علم میں خصوصیت کے ساتھ منکرات کا علم ہے اس لئے کہ مذکورہ آیت و حدیث میں نماز کو برائیوں سے روکنے والی چیز قرار دیا گیا ہے لیکن یہ افسوس ہے کہ ابھی زیادہ تر نمازیوں کو خود اپنی زندگی میں موجود اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا علم نہیں ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان نمازیوں میں برائیوں کو جاننے کا جذبہ تک نہیں پایا جاتا جب کہ سورۂ فاتحہ کی آخری آیت جو کہ ہر نماز کی بھی آیت ہے، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الْضَّآلِّیْنَ کہہ کرہر نمازی نے ہر طرح کی گمراہی اور برائی سے واقف ہونے اور بچنے کا تقاضہ اپنے اوپر عائد کر لیا اب اگر وہ ہر طرح کی گمراہی اور برائی سے واقف نہیں ہورہا ہے تو خود وہ اپنی نماز کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ظاہر ہے جو خود اپنی نماز کی خلاف ورزی کرے اس کی نماز کیسے اسے برائیوں سے بچا سکتی ہے؟
اسی طرح اِھِدِنَا الْصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہہ کر ہر نمازی نے زندگی کے تمام شعبوں میں نیکی کے راستہ سے واقف ہونے اور اسے اختیار کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر عائد کر لی، اب اگر وہ زندگی کے تمام شعبوں میں نیکی کے راستہ کا علم حاصل نہیں کرتا ہے تو وہ صریح طور سے اپنی نماز کی خلاف ورزی کر رہا ہے، گویا کہ ایک نمازی کیلئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق دین اسلام کی تعلیمات کا علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے اسی طرح ایک نمازی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق غیر اسلامی چیزوں کا علم حاصل کرے اور ان سے بچے، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ بہت سے نمازیوں نے نماز کے علم میں ابھی زندگی کے متعلق سیدھے اور غلط راستہ کو جاننے کو شامل ہی نہیں کیا بلکہ صرف نماز کی ادائیگی کے طریقہ اور فرائض و واجبات و سنتوں کو جاننے کو ہی نماز کا مکمل علم سمجھ لیا، جب کہ یہ صرف نماز کی ادائیگی کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف نماز کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ نماز پڑھنے والے نماز کو زندگی میں قائم کرنے کا بھی علم حاصل کرے تاکہ زندگی میں نماز عملی لحاظ سے بھی قائم ہو اور نماز کے متعلق اللہ کا حکم بھی پورا ہو۔
نماز کے اسی اقامت کے تصور کی بناء پر ماضی میں مسلمانوں میں کسی گناہ اور برائی کے سرزد ہونے کی بناء پر علماء اور مفتیان کرام سے یہ پوچھنے کا رجحان عام تھا کہ فلاں شخص فلاں برائی میں مبتلا ہے تو اس کی نماز درست ہے یا نہیں تو علماء اور مفتیان کی طرف سے جواب آتا تھا کہ اس شخص کی نماز درست نہیں ہے تو ظاہر ہے نہ یہ سوال نماز کی ادائیگی کے درست اور نا درست ہونے کے متعلق کیاجاتا تھا اور نہ جواب نماز کی ادائیگی کے درست اور نادرست کے متعلق دیا جاتا تھا، بلکہ یہ سوال نماز کے قائم ہونے اور نہ ہونے کے متعلق کیا جاتا تھا اور جواب بھی نماز کے قائم ہونے اور نہ ہونے کے متعلق دیا جاتا تھا لیکن مسلمانوں میں اب برائی اور گناہ کے سرزد ہونے کی
صورت میں علماء اور مفتیان کرام سے نماز کی درست ہونے اور نہ ہونے کے متعلق سوال کرنے کا رجحان بھی بہت کم ہو گیاہے، اور علماء و مفتیان کرام کی طرف سے نماز کے درست ہونے اور نہ ہونے کے جواب کا رجحان بھی بہت کم ہو گیا ہے اس کی اصل وجہ یہی ہیکہ نماز کو صرف ایک ادائیگی کی عبادت کے طور پر سمجھ لیا گیا ہے جب کہ وہ پورے دین کی ایک نمائندہ عبادت ہے اور اس کا مقصد زندگی میں اس کو قائم کرنا ہے۔ماضی قریب کے ایک اسلامی مفکر اور شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے بھی نماز کے اسی وسیع تصور کو جا بجا اپنے کلام میں پیش کیا ہے اور ساتھ ہی نماز کے ناقص تصور پر جابجا طنز اور تنقید بھی کی ہے چناچہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نماز یں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں
مذکورہ شعر کے پہلے مصرعہ میں جہاں علامہ اقبالؒ نے دین میں نماز کے وسیع تصور کو پیش کیا وہیں دوسرے مصرعہ میں ہندوستان میں نماز کا جو محدود تصور اور برہمنی کرَن ہو گیا اس پر طنز بھی کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو نمازیں کبھی دین اسلام کی سر بلندی کا ذریعہ تھی وہی نمازیں ہندوستان میں صرف پرستش کا ذریعہ ہو گئیں، جس طرح برہمنوں کے پاس مندروں میں پوجا پاٹ کا تصور ہے، کہ اس پوجا کا نظام زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو ہندوستانی مسلمانوں نے بھی مسجد میں نماز کے نام پر کی جانے والی عبادت کو نظام زندگی سے الگ کر دیا، جب کہ نماز اسی لئے فرض ہوئی کہ پوری زندگی اس کے مطابق گذرے، ایک اور شعر میں علامہ اقبالؒ نے نماز کے اسی ناقص تصور پر تنقیدکی چنانچہ فرماتے ہیں۔
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدہ کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
مُلّا کا لفظ فارسی زبان میں دین کا علم رکھنے والے کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کو اردو میں عالم کہتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے مذکورہ شعر میں ہندوستانی علماء کے ناقص تصور دین پر تنقید کی ہے کہ انہوں نے نماز کی ادائیگی کی اجازت کو اسلام کی آزادی سمجھ لیا جب کہ اسلام کی آزادی بالکل اور چیز ہے اور نماز کی ادائیگی کی اجازت اور چیز ہے، اسی قبیل کے ایک اور شعر میں فرماتے ہیں۔
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
مذکورہ شعر میں بھی علامہ اقبالؒ نے ائمہ کے ناقص تصور دین کو واضح کیا کہ انہوں نے صرف نماز کی ادائیگی کی امامت کو قوم کی امامت کے قائم مقام سمجھ لیا جب کہ نماز کی ادائیگی کی امامت اور چیز ہے اور قوم کی امامت
بالکل اور چیز ہے، یقینا نماز کی امامت کے ساتھ قوم کی امامت کا تصور بھی جُڑا ہوا ہے لیکن وہ صرف نماز کی ادائیگی کی امامت کے ساتھ نہیں جُڑا ہوا ہے بلکہ نماز کے وسیع تصور کی امامت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے جس میں نماز کو معاشرہ میں قائم کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔ علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ علامہ اقبالؒ نے ’ہند‘ کا لفظ پاکستان کے پس منظر میں استعمال کیا ہے بلکہ علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے کے ہیں جب کہ پاکستان او ر بنگلہ دیش کا کوئی وجود نہیں تھا اور یہ دونوں ملک بھی ہندوستان ہی کا حصہ تھے، خود علامہ اقبالؒ کا انتقال ۸۳۹۱ء میں ہوا یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے نو سال پہلے اس لئے کہ پاکستان کا وجود ۷۴۹۱ء میں ہوا۔ اور کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہئے کہ علامہ اقبالؒ نے ہندوستانی علماء و ائمہ پر خوامخواہ تنقید کی ہے بلکہ خود علامہ اقبالؒ کے دوسرے اشعار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ اقبالؒ نے تنقید برائے نصیحت کی ہے اور نہایت درد و دلسوزی کے ساتھ علامہ اقبالؒ نے ہند کے علماء ائمہ اور عوام کو نماز کے وسیع تصور کا پیغام دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجد یں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازیؓ نہ رہے
تیری نماز بے ُسرور تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزرایسے امام سے گزر
جو میں سرسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملیگا نماز میں
جیسا کہ اس سے پہلے یہ بات عرض کی جا چکی کہ انسانی اور اسلامی زندگی کا کوئی تقاضہ ایسا نہیں ہے جو نماز میں شامل نہ کیا گیا ہو۔