کالم : بزمِ درویش
ایس ایچ او کا لاک ڈاؤن
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
پچھلے تین دن سے تنویر کا نسٹیبل مسلسل کال کر رہا تھا ساتھ میں روز بہت سارے میسجز بھی کر تا سر میں مشکل میں ہوں ہر حال میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں رمضان کا آغاز ہو چکا تھا میں دنیا بھر میں کرونا وبا کی وجہ سے گھروں میں چھپے لوگوں کی طرح گھر میں ذکر اذکار عبادت اور بہت عرصے سے التوا میں پڑیں کتابیں لکھ رہاتھا –
پچھلے کئی سالوں سے بے پناہ مصروفیت سرکاری نوکری کے ساتھ سینکڑوں لوگوں سے روزانہ ملنا اِس وجہ سے کتابیں نہیں لکھ پا رہا تھا رمضان میں موسم خوشگوار تھا کرونا کی وجہ سے میل ملاقتیں ختم ہو گئیں تھیں بلکہ کرونا کی وبا نے سب کو سماجی دوری پر مجبور کر دیا تھا اگر آپ لوگوں سے ملنا بھی چاہیں تو لوگوں نے دوری اختیار کر لی تھی بلکہ لوگ گریزاں تھے خود بھی ہر شخص اِس پراسرار وبائی مرض کی وجہ سے خوف بے بسی کی چادر میں لپٹا بیٹھا تھا جدید ترقی یافتہ دور کے انسان نے سائنس کی ترقی میں آنکھ کھو لی تھی اِس لئے اُس کے چاروں طرف آسائشیں بکھری پڑی تھیں اُسے آرام دہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کی عادت سی بن گئی سائنس کی بے پناہ ترقی کی وجہ سے موجودہ دور کے انسان کو ایسی تمام مراعات سہولتیں آسائشیں میسر تھیں جو سوسال پہلے بادشاہوں امیروں کبیر وں کو حاصل تھیں معاشی استحکام ترقی یافتہ اقوام نے اپنی ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کے زور پر آسمانی زمینی آفتوں پر بہت حد تک کنٹرول حاصل کر لیاتھا لیکن خدا کے ایک جھٹکے کرونا نے انسان کو اُس کی اوقات یاد کرادی میڈیکل سائنس کی ترقی بے بسی کی تصویر بن گئی جدید ہسپتال اور ڈاکٹر حضرات بے بسی مایوسی کے پتلے بن کر رہ گئے آج کے انسان نے یہ بے بسی پہلی بار دیکھی تھی زندگی سب کو پیاری ہو تی ہے ٹی وی پر دن رات کرونا عفریت کا شکار مریضوں کو موت کی وادی میں اُترتے دیکھ کر گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ ہر ایک نے گھر میں گھریلو سر گرمیاں ڈھونڈلی تھیں میں بھی رمضان عبادت اور کتابوں میں غرق دنیا سے سارے روابط منقطع تھے لیکن تنویر بار بار مدد مدد کی پکار کر رہا تھا تو آخر کار میں نے اُس کو کہا آکر مل جاؤ تو اگلے ہی دن آگیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا جناب کسی دوست سے کہہ کر میری ٹرانسفر کرا دیں مجھے تھانے سے لائن حاضر کرادیں کسی سرکاری آفیسر کے گھر کا چوکیدار بنوا دیں اور کچھ نہیں تو چھٹی دے دیں میں اُس کے روئیے پر پریشان ہو گیا کہ سپاہی حضرات تو تھانوں میں ڈیوٹی کو پسند کر تے ہیں بلکہ تھانوں میں جانے کے لیے رشوت سفارش کر ا کر پوسٹنگ کر اتے ہیں اِس بیچارے کو کیا ہو گیا ہے جو تھانے کی بادشاہی چھوڑ کر کسی دوسری جگہ نوکری کر نا چاہتا ہے‘ تھانے میں تو لنگر پانی وافر مقدار میں ملتا ہے باقی جگہوں پر تو دھوپ کے انگارے برداشت کر نا پڑتے ہیں یا پھر بت کی طرح کھڑے کھڑے سوکھ جاناہو تا ہے یہی بات میں نے اُس سے کی یار دیکھو تم لوگ تو تھانوں کی نوکری کے لیے سفارش کر اتے ہو خو د کہتے ہو روزانہ کے لنگر پانی سے گزارا ہو تا ہے تنخواہ ساری بچ جاتی ہے اب تم کہتے ہو کہ تھانے کی نوکری نہیں کر نی تو وہ بولا جناب لنگر پانی تو سارے ہی کھاتے ہیں لیکن جب سے رمضان آیا ہے تو میں نے نیت کی کہ جس طرح شیطان کو رمضان میں باندھ دیا جاتا ہے اُسی طرح میں نے بھی سارا رمضان رشوت نہیں لینی حرام کی کمائی نہ خود کھانی ہے نہ اپنے بچوں کو کھلانی ہے اور نہ ہی کسی کو کھانے دینی ہے اور نہ ہی ناجائز کسی کو تنگ کر ناہے میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اِس رمضان میں ایمانداری سے نوکری کر نی ہے رمضان کا اب آغاز ہو گیا کرو نا کی وجہ سے لاک ڈاؤن پہلے سے ہی جاری تھا اب ہمارے تھانے کو بہت سارے دیہات بھی لگتے ہیں ایس ایچ او صاحب نے حکم دیا کی کل سختی کر دو کو ئی دوکان کھلی نظر نہ آئے شہرکے ساتھ کسی گاؤں میں بھی کو ئی دوکان خوانچہ رہڑی والا قلفی والا نظر نہ آئے‘ سر ہم نے ایس ایچ او صاحب کے حکم کی تعمیل کی ایس ایچ او صاحب بار بار سختی کا حکم دے رہے تھے ہم نے علاقے میں گھوم پھر کر ساری دوکانیں مارکیٹیں بند کرادیں بازاروں میں دیہات میں جا کر اعلانات کر دئیے کہ کو ئی دوکان کھولنے کی جرات نہ کرے چند دن تو دوکانداروں نے پر ہیز کیا پھر عید کی آمد آمد کی وجہ سے چند دوکانیں کھلنا شروع ہو گئیں ہمیں حکم تھا جیسے ہی کو ئی دوکان کھلے دوکاندار کو پکڑ کر تھانے لے آنا ہے ہم نے دھڑا دھڑ دوکانداروں کو پکڑ کر تھانے لانا شروع کر دیا یہاں پر اور ہی دھندا سٹارٹ تھا تھانیدار صاحب ہر دوکاندار سے پانچ چھ ہزار لے کر اُسے چھوڑ دیتا ہم بیچارے غریب شریف دوکانداروں کو پکڑ کر لاتے تھانیدار صاحب پیسے لے کر چھوڑ دیتے اِس پکڑ چھوڑ میں تھانیدار صاحب روزانہ لاکھوں روپے کمانا شروع ہو گئے شہر کے دوکانداروں کے ساتھ ہم نے گاؤں کے چھوٹے دوکانداروں کے بھی بے دردی سے پکڑنا شروع کر دیا جب سپاہیوں نے دیکھا تھانیدار اکیلا جیب گرم کر رہا ہے تو انہوں نے موقع پر دوکانداروں سے دوہزار پانچ ہزارلے کر چھوڑنا شروع کر دیا سر رمضان کاآخری عشرہ آگیا‘ ایس ایچ او صاحب نے خوب دولت اکٹھی کی ہے اُس نے سارے کام چھوڑ دئیے ہیں اِسی کا م پر لگا ہوا ہے دوکاندار اب خوشی سے اُس کی جیب گرم کر تے ہیں تھانیدار کی اِس بے رحمانہ لوٹ مار پر جب میں نے اپنے ساتھیوں اور تھانیدار صاحب سے احتجاج کیا تو وہ بولے تم مولوی کدھر سے آگئے ہو تھانیدارصاحب نے کہاآرام سے نوکری کرو ورنہ ایسا پھنساؤں گا کہ ساری عمر یاد رکھو گے اب سر نوکری آرا م سے کرنا چاہتا ہوں لیکن ایس ایچ او صاحب کی سلطنت ہے جہاں پر مجبور شریف دوکاندار وں کو روزانہ بکروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے اور ہم بے رحم قصابوں کی طرح اُس کا ساتھ دے رہے ہیں کانسٹیبل رو دھو کے چلا گیا میں نے وعدہ کیا کہ جلدی اللہ تمہاری مدد کر ے گا میں بھی کو شش کروں گا اُس کے جانے کے بعد میں حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا کس طرح اناڑیوں کی طرح ناتجربہ کاروں کی طرح ایک حکم صادر فرماتے ہیں اُس کے بعد پھر اُس کو عملی طور پر کرنے کے تنائج اُس کے مضمرات پر بلکل بھی غور نہیں کر تے ہمارے تھانیداروں کو رشوت کی لت پرانی لگ چکی ہے آپ نے اِن کے ہاتھ میں خنجر پکڑا دئیے ہیں جن سے وہ بے رحمی سے عوام کو ذبح کر رہے ہیں اگر آپ نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیاہے تو اِن سرکاری غنڈوں کو بھی کنڑول کر یں اِن کا بھی محاسبہ کریں کہ یہ عوام کے دوست بن کر نوکری کریں اُن کے آقا نہ بن جائیں پاکستان کی گورنمنٹ کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں اگر کو ئی اچھا اقدام اٹھائے تو نیچے سرکاری اہلکار اُس کے سارے حسن کو خراب کر دیتے ہیں دوسرا پولیس کلچر کی اصلاحات کا ڈھنڈورہ موجودہ حکومت نے بھی بہت پیٹا تھا کے پی کے پو لیس ریفارمز اور ماڈل پولیس تھانوں کے اشتہار لگائے گئے لیکن موجودہ کرونا کی وبا جب موت کے سائے ہر گلی محلے پر منڈلاتے نظر آئے بڑے بڑوں کے دل دھل گئے لیکن پتہ نہیں ہماری پولیس اورتھانیدار صاحب کس مٹی سے بنے ہو ئے ہیں کہاں اِن کی تربیت ہو ئی ہے کس سیار ے سے یہ تشریف لائے ہیں کہ پوری دنیا میں اِس جان لیوا بیماری نے لاشوں کے ڈھیرلگا دئیے ہیں ساری ترقی یافتہ اقوام نے بھی اِس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں مخیر حضرات نے اپنی تجوریوں کے منہ ضرورت مندوں کے لیے کھول دئیے ہیں لیکن ہماری پولیس کہ جب ہر طرف موت کا خوفنا ک رقص جاری ہے انہوں نے اپنی غنڈہ گر دی شروع کر دی ہے میرے کئی دوست جو دوکاندار ہیں انہوں نے اِن فرعونی تھانیداروں کے ایسے ایسے لوٹ مار کے کارنامے سنائے ہیں کہ انسان کان پکڑتا ہے ساتھ ہی حکومت کی ناہلی کے بھی سارے پول کھل جاتے ہیں کہ احکامات جا ری کر دیتے ہیں اُس پر عمل درآمد کرانے والوں کو بھی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے وہ جس طرح چاہیں مسائل کی غربت کی چتا میں جھلستے ہوئے عوام کو اور ذبح کر یں لوٹ مار کریں۔کیسے لوگ ہیں کوئی موقع نہیں دیکھتے ایک تو رمضان کا مبارک مہینہ اوپر سے کرونا کی وبا لوگ ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اگر گاؤں کا کو ئی غریب خوانچہ فروش یا دوکاندار اپنے خاندان کے لیے روٹی کمانے بیٹھ ہی گیا ہے توتم فرعون بن کر اُس پر ٹو ٹ پڑتے ہو گورنمنٹ نے لاک ڈاؤن کر کے ایک احسن قدم اٹھا تھا تا کہ بھپری ہو ئی کرونا کی وبا کو کنڑول کیا جاسکے اِس پراشوب دور میں بھی جب زندگیاں کچے دھاگوں سے لٹکی ہو ئی ہیں یہ بے رحم درندے اپنی دوکان سجا کر بیٹھ گئے ہیں دوکانداروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر لاتے ہیں چند ہزار لے کر چھوڑ دیتے ہیں اِس طرح روزانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں مہینے کی ایوریج کیا ہو گی یہ آپ ہی اندازہ لگائیں غربت مسائل کے بیلنے میں جکڑی غریب عوام ستر سال سے زاہد عرصے سے اُس مسیحا کے انتظار میں ہر بار کسی حکمران کو منتخب کر تی ہے جو اس عوام کش نظام کی جگہ فلاح عوام کا نظام لائے لیکن ہر بار عوام کے خوابوں کو تو ڑ دیا جاتا ہے حکمران یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایس ایچ او کی کرپشن اگر آپ نہیں روکتے تو آپ کے کھاتے میں جاتی ہے۔