شادی کیوں نہیں ہوتی
صباء ناز
کراچی
ہمارے ہاں بہت سے مسئلےمسائل ایسے ہیں، جن کا حل صرف اور صرف انسان کےاپنے ہاتھ میں ہے نہ کہ حکومتوں کے ہا تھ میں ـ انسان کےاپنے پیدا کیے ہوئے مسائل میں سے ایک مسئلہ چھوٹی عمر میں بچوں کی شا دی کر دینا ہے، دوسرا مسئلہ بڑی عمر میں بھی شادی کا نہ ہونا، دوسرا بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے-
چھوٹی عمر کی شاد یوں کے حوالے سے قوانین وضع کر دیے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود آج بھی ایسے والدین موجود ہیں ہمارے معاشرے میں جو کم عمری میں بچوں کی شادی کر دیتےہیں ـ خیر میرا مقصد آج بڑی عمر میں شادی نہ ہونے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے مسائل پر بات کرنا ہے، ان مسائل کا ذکر کرنا ہے، جس پر سوچنے اور عمل کرنے کےلیے میں حکومت سے کسی بھی قسم کی اپیل یا قانون بنانے کی بات نہیں کروں گی، کیونکہ میں نے کچھ لوگوں کو اس مسئلےپر بھی یہ کہتے سنا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے پر یہ قانون بنانا چاہیے کہ جو بھی طالب علم یونیورسٹی میں داخلہ لینے آئے، جب تک اس کے پاس نکاح نامہ نہ ہو،تب تک اسے داخلہ نہ دیا جائے یونیورسٹی میں ـ جو کہ میرے خیال میں سہی عمل نہیں ہے، کیونکہ شادی وہ رشتہ ہے،جو نہ تو زبردستی بنایا جا سکتا ہے،نہ ہی نبھایا جا سکتا ہے ـ کچھ مسائل کا حل انسان کے اپنے پاس ہوتا ہے اگر وہ انہیں حل کرنا چاہیں تو کر سکتےہیں ـ اگر وہ حل نہ کرنا چاہیں، تو ایسے لوگ چھوٹے سے چھوٹے مسئلےکو بھی مسئلہ فیثہ غورث بنا دیتے ہیں ـ اس لیےجب تک انسان اپنے مسائل کو خود سمجھ کر اپنے مسائل کا خود حل نہیں کرے گا،کوئی بھی انسان کے خود ساختہ کھڑے کیے گئے مسائل کا حل نہیں نکال سکتا-
آج ہمارے ملک میں لاکھوں لڑکے لڑکیاں بڑی عمر میں بھی کنوارے بیٹھے ہیں ـ شادی کم عمری میں ہو یا زیادہ عمر میں بھی نہ ہو، دونوں عوامل میں سب پہلے ذمہ داری ماں باپ کی سوچ، تربیت اور عمل کی آتی ہے، کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں کیا پلینگ کرتے ہیں، وہ بچوں کی شادی وقت پر کرنے کے حق میں ہیں یا نہیں- کچھ ماں باپ اپنے بچوں کے رشتے جلدی ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں، مگر کبھی جہیز کا مسئلہ آ جاتا ہے،کہیں ماں باپ ذات پات ، رنگ و نسل کو بیچ میں لا کر رشتے گنواتے رہتے ہیں- کہیں اچھا رشتہ مل جائے تو اکثر لڑ کیاں اس لیے چھوڑ دیتی ہیں وہ رشتہ کہ شادی کے بعد جاب کرنا چاہتی ہے مگر لڑکے والے جاب کروانا نہیں چاہتے- کہیں آئیڈ یل کی تلاش میں لڑکا یا لڑکی اپنی عمر گنوا دیتے ہیں، تو کہیں ایسا ہوتا ہے کہ جن بچوں کے سر پر ماں باپ کا سایہ نہ ہو اور گھر کا بڑا بھائی ہو یا بہین ہو، وہ اپنی خود غرضی کی بھینٹ اپنے سگے رشتوں کو چھڑھا دیتے ہیں- اگر گھر کا بڑا بھائی ہے تو اپنی بہنوں کی شادی اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں جائیداد میں سے حصہ نہ دینا پڑے اور اگر گھر کی بڑی بہین ہے تو وہ بھائی کی شادی اس لیے نہیں کرواتیں، کہ انہیں بھائی کو دوسری عورت کے ساتھ شئیر کرنا پڑے گا یا بھائی پر قائم ہوئی ہماری حکمرانی اور رعب چھین لے گی باہر سے آئی ہوئی لڑکی – بس یہ سوچ بہینوں کی بھائیوں کو اور بھائیوں کی بہنوں کو ساری زندگی کنوارا رہنے پر مجبور کر دیتی ہے، یہی نہیں کہیں ماں باپ ایسے خود غرض ہو جاتےہیں بیٹے یا بیٹی کے معاملے میں کہ کوئی شاید یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ماں باپ ایسے بھی ہو سکتے ہیں- ماں باپ اکثر بیٹے کو پڑھا لکھا کر اسے جاب پر لگواتے ہیں، اور اس کی وقت پر شادی اس لیے نہیں کرتے کہ پہلے ہم کچھ سال اپنے بیٹے کی کمائی کھا لیں، اسی کمائی کھانے کے چکر میں بیٹے کی عمر گزر جاتی ہےمگر ماں باپ کو بیٹے پر رحم نہیں آتا- کہیں ماں باپ بیٹی کو پڑھا لکھا کر اس سے نوکری کرواتے ہیں، اپنا گھر چلواتے ہیں،بیٹی پر بیٹوں جیسا بوجھ ڈال دیتے ہیں- لیکن جب اس بیٹی کی عمر گزر جاتی ہے شادی کی، تو وہی ماں باپ شادی نہ ہونے پر یا شادی کی عمر گزر جانے پر بیٹی کو پتھر مارنے والے اور طنز و تشنیہ کرنے والے سب سے پہلے ہوتے ہیں- کہیں لڑکیاں یا لڑکے خود دوسروں کے خراب تعلقات دیکھ کر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں- یہ تمام وہ مسائل ہیں ، جو انسان کے اپنے آپ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، اپنی خود غرضی کی بھینٹ رشتوں نے خود اپنے خون کے رشتوں کو چھڑیا ہوا ہے، آخر کب تک ہم دوسروں کو اپنی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟ آخر خون کے رشتے کیوں اس قد ر اتنے خو د غرض ہو چکے ہیں – شادی نہ ہونا جرم نہیں ہے مگر کسی بھی وجہ سے شادی نہ ہونے پر اس لڑکی یا لڑکے کو شادی نہ ہونے کے طعنے دینا بھی کسی طور پر انصاف نہیں ہے، بچوں کی شادی وقت پر کرنے یا نہ کرنے کا پہلا فرض ماں باپ کا ہےکہ وہ کیا پلینگ کرتے ہیں، کیونکہ جن خون کے رشتوں کے لیے پیسہ اہم ہو، وہ بچے زیادہ تر اپنی زندگی ماں باپ کےلیے پیسہ کمانے کی میشین بن کر گزار دیتے ہیں ، خاص طور پر شادی نہ ہونے یا شادی وقت پر نہ ہونے پر جتنی ازیت بیٹیوں کو دی جاتی ہے، اتنی بیٹوں کو بھی نہیں دی جاتی- اس لیے بڑی عمر میں شادی نہ ہونے یا کم عمری میں بچے یا بچی کی شادی کر دینا ، ہمارے اپنے پیدا کیے گئے مسائل ہیں ، اور ان کا حل بھی بحیثیت قوم ہیمیں خود نکالنا چاہیے نہ کہ حکومتوں سے اس معاملے پر قوانین بنانے کا کہیں – کیونکہ حکومت بھی بس قانون بنا سکتی ہے مگر عمل درآ مد پھر بھی خونی رشتوں نے کرنا ہے یا نہیں کرناـ ایک بچے کی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے میں جو رول ماں باپ کا ہوتا ہے وہ کسی کا نہیں ہوتاـ جس دن ماں باپ میں اپنے خونی رشتوں یعنی بچوں کے لیے اور بہین بھائیوں کی ایک دوسرے کے لیے دلوں میں پڑی نفرتیں ، تفریقیں، اور ایک دوسرے کےلیے خود غر ضیاں ختم ہو جائیں گی، اس دنیا کوئی بھی بچہ نہ تو کنوارہ رہے گا اور نہ ہی کسی بچے کی کم عمر میں کوئی شادی کر پائے گاـ اور ان سب مسائل کا حل ایک ہی ہے کہ تعلیم کو عام کیا جائے، ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ برابری کا سلوک کریں، دلوں میں پیسے کی محبت کی جگہ خونی رشتوں کی محبت کو اہمیت دیں، ایمانتداری، احساس ذمہ داری اور خلوص نیت کے ساتھ جس دن رشتے ایک دوسرے کو دیکھنے لگ گئے،اس دن ہمارے آدھے خود ساختہ پیدا کیے گئے مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے ـ رہی بات جہیز کی تو اس پر بلکل پابندی لگنی چاہیے تا کہ کسی غریب باپ کی بیٹی اس لیے کنواری نہ رہے کہ وہ جہیز میں کچھ لے جانے کے قابل نہیں ہے، اور اس معاملے میں تو لڑکے کے ماں باپ کو بھی خود سو چنا چاہیے کہ بیٹیاں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں، وہ کسی کی بیٹی کا اچھا سوچیں گے تو اللہ ان کی بیٹی کے ساتھ اچھا کریں گے، ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے احساس اور درد کا رشتہ ہی ہمارے خود ساختہ مسائل کا واحد حل ہےـ سب کچھ حکومت ہی کیوں کرے، ہم خود کیوں نہ کچھ کریں-