پانی بچے گا تبھی تو پیجئے گا جناب؟؟؟
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْن اللہ رب العزت کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں جو تمام جہانوں کی پر ورش فر مانے والاہے۔اتنی وسیع وعریض دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کے لیے کھانے پینے کے واسطے ہر طرح کی ضرو ریات و سہو لیات کی بے شمار چیزیں پیدا فرمائیں اور فر مایا۔وَاٰ تٰکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَاِنْ تَعُدُّ وْا نِعْمَتَ ا للّٰہِ لَا تُحْصُوْ ھَا اِنْ ا لْاِ نْسَانَ لَظَلُوْ مٌ کَفَّار ٌ(القرآن، سورہ اِبراھیم ۴۱،آیت۴۳)
ترجمہ:اور اس (اللہ)نے تمھیں ہر وہ چیز عطا فر مادی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کر نا چا ہو(تو) پو را شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑاہی ناشکر گزار ہے۔ رب العالمین سارے جہان کا پالنے والا ہے جب رب سارے جہان کا پالنے والا ہے تو پھر آج زندگی کی اہم ضروریات کی چیزیں کیوں کم پڑ رہی ہیں؟ غور کریں اپنا محا سبہ کریں؟…… پانی جیسی انمول نعمت جو اللہ کی ہر مخلوق کو ضرورت ہے اس کی اتنی کمی کیوں ہو رہی ہے۔ جبکہ پانی کے بارے میں قر آن کریم نے مختلف طریقے سے بتا یا کہ پانی اللہ نے پینے کے لیے برسایا، اللہ نے پانی زمین کو سیراب کر نے کے لیے برسایا، اللہ نے پیٹ کے بل چلنے والی مخلوق(سانپ، بچھو،وغیرہ وغیرہ) کے لیے پانی پیدا فر مایا،اللہ نے آسمان سے تم پر پا نی اس لئے اتارا کہ تمھیں اس سے ستھرا (پاک وصاف) کر دے اور شیطان کی نا پا کی تم سے دور کر دے، (سورہ ۸،آیت۱۱) اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پاک کر نے والا،اور ہم نے پانی اس لئے اتارا کہ زندہ کر دیں مُر دہ زمین کو اور اس پانی کو پلا ئیں اپنے بنا ئے ہوئے بہت سے چوپا یوں اور آد میوں کو،(سورہ ۵۲،آیت۹۴)، اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فر مایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی کے ذریعہ سے تمھا رے لیے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے
(سورہ۴۱،آیت ۲۳) اور وہی ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) نازل کی جس سے ہر طرح کے پھل نکلتے ہیں (سورہ۷،آیت۷۵) قر آن کریم میں ۳۹ جگہ پانی کا ذکر آیا ہے اور اللہ رب ا لعزت فر ما رہا ہے فلاں فلاں چیز کی ضرو رت کے لیے پانی بر سایا، ظاہر سی بات ہے جب اتنی ضروریات ہیں اور رب تعالیٰ پالنے والاہے تو وہ پانی کم کیسے پیدا فر مائے گا کہ اس کی مخلوق پیاسی رہے (یا بھو کی)رہے، دوسری ضرو رتیں پوری نہ ہوں۔ بلکہ اللہ کی رحمت تو بندوں پر جھما جھم برس رہی ہیں اور ربِ کریم فر مارہا ہے۔وَّکُلُوْاوَاشْرَ بُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہ‘ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِ فِیْنََ (القرآن،سورہ اعراف۷،آیت ۱۳)تر جمہ: اے آدم کی اولاد! کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ زیادہ خرچ کر نے والوں کو پسند نہیں فر ماتا۔ کھانے پینے کا حکم خود رب تبارک و تعالیٰ دے رہا ہے ساتھ میں یہ بھی فر ما رہا ہے فضول خر چی نہ کرو۔اللہ کے اس حکم کو آج اولاد آدم بھول گئی ہے اور اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اپنی کر نی ہی کی وجہ کر ہی پینے کے لئے بوند بوند پانی کو ترسے گی حضرت انسان آج اپنے کو ترقی یافتہ سمجھ بیٹھا ہے اور جدید ٹکنا لو جی کی مدد سے قدر تی وسا ئل و ذخا ئر کو حاصل کر کے بے دریغ خرچ(نہیں) بر باد کر رہاہے،خود کردہ را علاج/علاجے نیست۔ خود کے کیے کا کوئی علاج نہیں،there is no remedy for one ‘s own wrongdoing گر می شروع ہوئی کہ پورے ملک میں پانی، پانی،پانی ہا ہا کار مچنا شروع، سیاسی بیان بازیاں عروج پر ہیں ایک دوسرے کو ملزم ٹھہرانا سیاسی لوگوں کاپرانا طریقہ ہے،حکو متیں مستقل لائحہ عمل تیار نہیں کر رہی ہیں اور کر بھی رہی ہیں تو رفتار کچھوے کی چال سے بھی زیا دہ سست ہے ار جنٹ مدد کی ضرورتوں میں پا کٹ بھر نے میں زیادہ دلچسپی بنی رہتی ہے اور گھو ٹا لوں میں سر فہرت ملکوں میں ”ہمارا بھارت مہان“ کے پیارے پیارے باسی بغیر ڈکار کے سب ہضم کر جاتے ہیں۔قدرتی نظام سے لڑ نا اپنے لئے گڑھا،قبر کھود نے جیسا ہو تا ہے، لیکن اس کی طرف توجہ ہی نہیں ہے 300فٹ اس کے بعد 400فٹ کے بعد بور ویل کر کے پانی پالینا کوئی کمال نہیں حماقت ہے،قدرتی نعمتوں،وسائل و ذخائر کو بر باد کر کے ہم اپنے لیے نئے نئے مسائل کھڑے کر رہے ہیں اور اس کا دوش دوسروں پر ڈال رہے ہیں اس سے با ت بننے والی نہیں ہر آد می اپنی ذمہ دار ی نبھائے تبھی کچھ ہو گا رونے سے کچھ ہونے والا نہیں پانی آپ بر باد کریں گے تو پانی آپ کو دتھکا ر دے گا جیسے آجکل ہورہاہے ملک کے کئی حصوں میں پانی کی سخت کمی سے لوگ بے حال وپریشان ہیں، ہر آد می اپنے گھر سے پانی کی حفا ظت کا بیڑاا ٹھائے دوسروں کو بھاشن دینے سے کچھ نہیں ہو گا۔آج ہمارے سماج میں ملک میں دوسروں کے لئے اصول وقوانین بنائے جاتے ہیں خلاف ورزی کر نے پر سزائیں دی جاتی ہیں،ذمہ دار لوگ کریں توکو ئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔غریب عورتیں خالی بر تن لئے میلوں دور سڑ کوں،نالوں، ندیوں میں پانی لینے کے لیے ماری ماری پھر تی رہتی ہیں، منسٹروں، بڑے لو گوں، ہوٹلوں میں چائے کا ایک کپ دھونے میں نل سے اتنی مقدار میں پانی بہا دیا جا تا ہے کہ اتنی دیر میں پانی سے ایک بالٹی بھر جائے گی،کپڑے دھو نے کی آٹومیٹک مشنیوں اورسیمی مشینوں سے کپڑے دھو نے میں پانی اسطرح بہا یا جاتا ہے جیسے معلوم ہو تاہے کہ نل کا کنکشن د ریا ؤں یا سمندر سے جڑا ہواہے۔ پانی اب خریدا جارہا ہے جس کے پاس جتنی دولت ہے اسی اعتبار سے خرید رہا ہے پہلے پا نی بیچا نہیں جاتا تھا،پا نی کو تا لابوں، ند یوں میں جمع کر نے کی رو ایت تھی، اب پانی ہم خریدنے لگے ہیں تو یہ سوچ رہے ہیں پیسے سے سب چیز خرید لیں گے یہ دولت مندوں کی بھول ہے، صنعت کاری industry)) کل کارخانوں میں پا نی کی کھپت بہت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے،کسانوں کو کھیتی کے لیے پانی کی ضرو رت پہلے سے زیادہ ہے، پانی کے مسلسل غلط استعمال سے زمین کا پانی بہت تیزی سے نیچے چلا جارہا ہے جو بہت فکر کی بات ہے،زمین کے اندر سے پانی نکا ل کر ہم یہ سوچ رہے ہیں ہم نے بڑا کمال کر دیا لیکن ہم اپنے ہی ہا تھوں قدرت کی انمول شئے پانی کے ذخائر کو بر باد کر رہے ہیں، سب کو سو چنا ہو گا جو بن پڑے کر نا ہوگا ور نہ سب کو بھگتنا ہو گا۔ ہمارا پیا را ملک ہندوستان قدرتی خزانوں سے مالامال ہے کو ئلہ، تانبا، پیتل، یو رو نیم، پہاڑوں، ندیوں سے لبالب ہیں، لیکن کوئلہ سے لیکر بالو تک ندیوں سے بے تحا شہ نکال کر قدر تی نظام کو بدل رہے ہیں اور ند یوں کی زندگی خراب کر کے طرح طرح کی مصیبتیں مول لے رہے ہیں۔ہندوستان میں 263ندیاں ہیں،جو بھی ندی ایک سے زیادہ ریاستوں سے گزر تی ہیں ان ند یوں کے پانی کا جھگڑا چل رہا ہے کئی کیس سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں۔ پنجاب ہر یا نہ کے بیچ ستلج ویاس یمنا، پر لڑائی بہت زمانہ سے ہے، عدالت میں کیس چل رہا ہے، دہلی ہر یانہ کے بیچ یمنا کولیکر جھگڑا چل رہا ہے، یاد رہے ہر یانہ میں جاٹ اندو لن کے وقت جگہ جگہ نہر کاٹ کر یمنا کاپانی دہلی جانے سے روک دیاگیا تھا ایمر جنسی جیسے حالات پیدا ہو گئے تھے فوج طلب کر کے نہر کی مرمت کرائی گئی اور دہلی کو پانی کی سپلائی شروع کی جاسکی،دہلی کو215 ایم جی ڈی پانی یمنا سے اور240 ایم جی ڈی پانی گنگا ندی سے ملتا ہے اکثر پانی کو لیکر کہا سنی ہوتی رہتی ہے۔ کر نا ٹک اور تامل ناڈو میں کا ویری ندی کے پانی کو لیکر جھگڑا بہت پرا نا ہے گذشتہ سال سپریم کورٹ نے پانی کی مقدار مقر ر کی کر ناٹک اور تامل ناڈو میں حالات بدتر ہو گئے سیکڑوں بسوں کو جلا گیا ار بوں کی املاک کو بر باد کیا گیا مہینوں حالات خراب رہے۔ندیوں میں جو خرا بیاں ڈیم بناکر، پل بناکر، اور بے تحا شا بالو نکا ل کرپیدا ہو رہی ہیں ان کو سدھار نے کی کوشش نہ ہی کوئی ریاستی حکو متیں اور نہ ہی سنٹرل حکو مت کر رہی ہے گذشتہ سال مغربی بنگال میں پانی کی کمی کی وجہ کر کتنا بڑا حاد ثہ ٹلا تھا،این ٹی پی سی کو پانی کی کمی سے بند کر نا پڑا تھا فر ککا فیڈر نہر میں پانی کم ہو نے کی وجہکر این ٹی پی سی کو بند کرنا پڑا مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی نہیں تھا مغربی بنگال کا ایک بڑا علاقہ بجلی کی قلت سے دوچار ہوافیکٹر یاں بند ہو گئیں سیکڑوں مسا ئل پیدا ہو گئے۔ تازہ رپورٹ ملا حظہ کریں۔ ہندوستان کے بڑے ہندی اخبار ”امر اُجالا“ میں پانی کی کمی کے سروے رِپورٹ پڑھیں آنکھیں کھو لیں سو چیں کیا ہو گا۔ گنگا کے جل استر کی لگا تار گراوٹ(کمی) کانپور بھیرو گھاٹ وارڈ نمبر67 جس سے 30لاکھ کی آبادی کو گنگا ندی سے پانی ملتا ہے پانی کی زبر دست کمی ہو گئی ہے۔ جے این یو آر ایم کی جل آ پورتی یو جنا بھر سٹا چار کی بھینٹ چڑھ گئی،2008میں شروع اس یوجنا پر جل نگم نے 7.59ارب روپئے خرچ کئے پر طے سیما2013 سے ختم ہونے کے پانچ سال بعد بھی لو گوں کوبھر پور پانی نہیں مل رہا ہے،بھیرو گھاٹ پمپنگ اسٹیشن سے گنگا کی دھارا 600میٹرابھی سے نیچے چلی گئی ہے، ابھی گر می شروع بھی نہیں ہوئی ہے لو گوں کو بھر پور پانی نہیں مل رہا ہے، اس سال بھیانک صورتِ حال پیدا ہونے والی ہے۔(26.02.2018امر اُ جالا،mycty کانپور) لوگ سوچتے ہیں ہم ندی کے کنا رے بسے ہیں تو بلے بلے پانی ملے گا ہی ایسا نہیں پا نی کسی کی جاگیر نہیں،قدرت کا عطیہ ہے اسے جو سنبھا لے گا عزت دے گا وہی پیئے گا سیراب ہو گا۔ یہ سب حال دیکھ کر سن کر بھی ہم اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں وقتی طور پر واویلا مچا تے ہیں پھر آنکھ بند کر کے بے سدھ ہو جاتے ہیں،زندگی کے ہر شعبے میں پانی کی ضر ورت ہے اللہ نے اسی لئے فرمایا پانی فلاں چیز کے لیے بر سایا فلاں چیز کے لیے پیدا فر مایا وغیرہ وغیرہ پانی کی ہر بوند ہر شخص کے لیے قیمتی ہے پا نی اگر پینا ہے تو پانی کو بچا نا ہو گا اس سے پہلے کہ پانی ختم ہو جائیملک کے مختلف علا قوں کی خشک سالی نے یہ بتا دیا ہے۔
پانی کے بنا زندگی کا تصور نا ممکن ہے:گزشتہ سال راجستھان کے جیسلمیر اور دوسرے علا قوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں بارش کی ایک ایک بوند کو بہت عزت واحترام کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے جو سال بھر ان کی پیاس بجھا تی ہے۔اللہ نہ کرے ہم اور آپ پر وہ دن آئے اس سے پہلے سب کو غور کر نا ہو گا،پانی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی معروف سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking)جن انتقال ۴۱/ مارچ ۸۱۰۲ ء کوہوا، واضح رہے کہ ابھی چند ماہ پہلے ہی انہوں اس کرہ ئ ارض پر انسانوں کے ذریعہ قدرتی وسائل کے بے دریغ برباد کرنے کی وجہ سے کرہئ ارض کے آئندہ سو سال میں تباہ ہونے کی پیشن گوئی کرکے پوری دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔اس کے باجود ہم قدرتی وسائل کو برباد کر رہے ہیں۔برباد ہم کریں گے تو جھیلے گا کون؟ ترقی کون نہیں چاہتا ترقی کے لیے پانی جیسے قدر تی وسا ئل کو نیست ونابود کر دیں تو ترقی کو لیکر چاٹیں گے کیا؟۔پانی کی ضرورت کو رکھ کر ترقی کے پرو جیکٹ لگا نا ہو گا، پیڑ لگانے ہوں گے، تا لاب بنا نے ہوں گے، ند یوں کی زند گی لمبی کر نے کے لیے ندیوں کو گہرا کر نا ہوگا،کچڑا ڈالکر ند یوں کو بھر دیں گے اورپانی چاہیں گے یہ تو وہی مثال ہوئی کسی کو گو لی مار دیں اور پھر اسے آکسیجن دے کر زندہ کرنے کی کوشش کریں یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔
؎ مچھلی جل کی را نی ہے
جیون اسکا پا نی ہے
پانی ہوگا تبھی تو آپ کی، ہماری، سب کی زندگی باقی رہے گی اللہ ہم سب کو سمجھ عطا فر مائے آ مین ثم آ مین۔
—–
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن ۰۲۰۱۳۸
رابطہ: 09431332338
Mob.: 09279996221
ؒٓ