حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ :- مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیض آبادی

Share

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ
کا حکومت ملنے پر لوگوں سے خطاب

مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیض آبادی
اسلامک ریسرچ اسکالر

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو جب حکومت ملی تو اپ نے امت مسلمہ کو کچھ اس طرح سے خطاب فرمایا ۔
اے لوگو الله سے ڈرو اور رزق کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو کہ تم میں سے اگر کسی شخص کا رزق پہاڑ کی چوٹی پر رکہا ہے یا زمین کی تہہ میں موجود ہے تو اس کو یقیناً ملی کر رہے گی –

اے لوگو مجھے بچپن کے زمانہ میں شاعری کا شوق ہوا میں نے شاعری کی اس کے بعد علم کے حصول کا شوق ہوا تو میں نے علم حاصل کیا, جوانی میں فاطمہ بنت عبدالملک سے میں نے نکاح کیا , اور اب مجھے حکومت ملی ہے تو میں مخلوق خدا کی خدمت اور ان کے مابین عدل و انصاف کر کے الله عزوجل اور اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرونگا۔
اپ کی خلافت کی مدت بھی خلافت فاروقی کی مدت کی طرح کل
۲ سال ۵ماہ ہے اس قلیل مدت میں اپ نے زمین کو عدل اور انصاف سے اباد کر دیا ۔ جس قدر بھی ظالم عہدوں پر فائز تھے ان کو معزول کردیا ۔
اپ نے اپنے دور خلافت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپ کے اصحاب کے مزارات جو حجرۂ مسجد نبوی شریف میں ہیں۔
ان کے چہار جانب بڑے اور کالے پتھروں سے ایک دیوار تعمیر کرایا۔ کیوں کہ جو دیوار پہلے سے موجود تھی۔ وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حجرہ نبوی میں ارام فرما حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور اپ کے اصحاب
کی قبروں کے درمیان تھی اور وہ گر گئی تھی۔
جس سے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے پاؤں نظر انے لگے تھے ۔ بغیر دروازوں کے دیواروں کی تعمیر کے بعد کسی انسان نے اقا کریم کی قبر مبارک نہیں دیکھی۔
‌اور اس تعمیر میں امیر المومنین کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔
حضرت فاطمہ کے نانا مروان، باپ عبدالملک، چار بھائی ولید، ہشام، سلیمان، یزید اور ان شوہر عمر بن عبد العزیز بھی بادشاہ تھے یعنی سات نسبتوں سے حضرت فاطمہ شہزادی تھیں۔
لیکن عمر بن عبد العزیز کے بادشاہ بننے کے بعد اپ کی زوجہ محترمہ تنگ دستی اور غربت میں اپ کو حوصلہ اور سہارا دیتی رہیں ۔ اور انہوں نے اپنے سارے حقوق کو معاف کر دیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ الله علیہ امت مسلمہ کے وہ امیر تھے کہ عید کا وقت ایا اپ کے بچوں کے پاس کپڑے نہیں تھے تو انہوں نے اگلے مہینے کی تنخواہ پہلے لینے کیلئے اپنے خزانے کے ملازم سے درخواست کی تو جواب میں ملازم نے کہا کہ آپ ہمیں لکھ کر دے دیں کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہیں گے۔
اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا
اور امیر المومنین واپس لوٹ گَئے اور اپنی زوجہ محترمہ سے کہا کہ بچوں سے کہہ دو کہ انکا باپ انہیں عید کیلئے کپڑے نہیں دلا سکتا۔
یہ ایسا وقت تھا جب حکومت کے بیت المال خزانے سے بھرے رہتے تھے
اور اگر امیر المومنین چاہتے تو کچھ بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے بیت المال سے کچھ نہیں لیا ۔
پھر عید کا دن آیاخلیفہ وقت نے عید کی نماز پڑھائی تو بنو امیہ کے سردار اپنے بچوں کے ساتھ دیدہ زیب لباس پہنے ان سے ملاقات کیلئے آ رہے تھے۔
دوسری طرف انہوں نے اپنے بچوں کو پرانے لباس میں دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنے بچوں سے فرمایا کہ بچوں آج آپ کو اپنے باپ سے گلہ تو ہوگا ان بچوں میں سے ایک بچے نے جواب دیا کہ ابا جان میں ایسے عادل باپ کا بیٹا ہوں جس نے قومی خزانے میں بد دیانتی نہیں کی ہے
ہم شرمندہ نہیں بلکہ ہمارا سر اج فخر سے بلند ہو گیا ہے۔
ایک بار گھر میں تشریف لائے تو زوجہ سے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں ۔ میرا انگور کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ اپ کی زوجہ محترمہ نے کہا کہ خزانے تو بھرے پڑے ہیں کیا ایک درہم کا بھی آپکا حق نہیں یہ سن کر عمر بن عبد العزیز نے فرمایا اے فاطمہ میں جہنم نہیں جانا چاہتامیں جہنم کی آگ نہیں برداشت کر سکتا۔
حکومت کے دنوں میں گھر کا یہ حال رہا وقت کے امیرالمومنین ہونے کے بعد بھی ان کے بچوں نے کچے پیاز کے ساتھ روٹیاں کھائی ہیں آنکھوں سے آشک جاری تھا اور اپنے بچوں کو نصحیت کر رہے تھے اے میرے لال میں تم سب کو بہت ہی عمدہ کھانا کھلا سکتا ہوں۔لیکن مجھ میں جہنم کی آگ بردشت کرنی کی سکت نہیں۔
یاد رہے کہ وہ تین براعظموں پر حکومت کرنے والے امیر المومنین تھے
حضرت فاطمہ کی ایک باندی سے انہیں عشق تھا، بار بار فاطمہ سے کہتے کہ یہ مجھے تحفے میں دے دو۔
پھر جب خلیفہ بنے اور ان کی اہلیہ نے اس باندی کو تیار کروا کر اپ کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے دو آدمیوں کو بلا کر کہا کہ اس کو اپنے اصلی مالک کے ساتھ کوفے میں چھوڑ آیئں۔
اس باندی نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ کا عشق کہاں گیا فرمایا: وہ پہلے سے زیادہ ہے لیکن میں اپنے عشق کو اللہ کیلئے قربان کرتا ہوں۔
خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبد العزیز کی وفات پر جب ان کی میت کو قبر کے قریب کیا گیا تو ایک چٹھی ہوا کے ساتھ ان کے سینے پر آ گری ، جب لوگوں نے اسے پڑھا تو اس پر اللہ کی طرف سے ان کیلئے جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ لکھا تھا
اج کل تحریری خبریں آرہی ہیں کہ شام میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ کے مزارات کھود کر ان کے جسد مبارک کی بے حرمتی کی ناپاک کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو بھلا یہ کون لوگ ہیں جو عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ الله تبارک وتعالیٰ ایسے ظالموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے اور ہم سب کو اسلام کے پہلے مجدد سرکار عمر بن عبدالعزیز رحمۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عظمتوں کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے امین یا رب العالمین

Share
Share
Share