مودی حکومت کا ایک سال – وعدے بہت عمل ندارد :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

مودی حکومت کا ایک سال
وعدے بہت عمل ندارد

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770

مرکزمیں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے گذ شتہ ما ہ کی 30/ تاریخ کو اپنی دوسری معیاد کا ایک سال مکمل کر لیا۔ مسٹر نر یندرمودی نے 30/ مئی 2019کو دوسری معیاد کے لئے ملک کے وزیراعظم کا حلف لیتے ہو ئے ہندوستانی قوم سے بہت کچھ وعدے کئے تھے۔

ستر ہویں لوک سبھا کے انتخابات میں ملک کے رائے دہندوں نے بی جے پی کو متواتر دوسری مر تبہ بھاری اکثر یت سے کامیابی دلا کر دوبارہ اقتدار بی جے پی کے ہا تھوں میں اس امید پر سو نپا تھا کہ نر یندر مودی کی قیادت میں بی جے پی ملک کی عوام کا کچھ بھلا کر ے گی۔ لیکن ایک سال گذرنے کے بعد مودی حکو مت کی کار کر دگی پر ایک طا ئرانہ نظر ڈالی جا تی ہے تو ایسا محسوس ہو تا ہے دوسری معیاد کا ایک سال بھی صرف بلند با نگ دعوؤں کی نظر ہو گیا۔ 2014میں جب بی جے پی پہلی مر تبہ راج سنگھاسن پر قبضہ کی تھی تو یہ پروپیگنڈا زور و شور سے کیا گیا تھا کہ اب ہندوستان حقیقی معنوں میں آ زاد ہوا ہے اور اب اس کے لئے ترقی کی را ہیں کھلیں ہیں۔ گذ شتہ چھ سالہ دورِ حکمرانی میں ایسے متنا زعہ اقدامات کیے گئے جس سے ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو نے کے بجا ئے مزید پیچیدہ مسائل کا شکار ہو تا گیا۔ ملک میں شرح بیروزگاری میں ا ضا فہ ہوا۔ ملک کی اکثر یت بھوک اور فا قہ کشی میں مبتلا ہوئی۔ فرضی قوم پر ستی کا ڈ ھونگ رچا کر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو خوب ہوا دی گئی۔ اس کے نتیجہ میں ہجومی تشدد کے واقعات ملک میں بڑ ھتے چلے گئے۔ بی جے پی کے پہلی مر تبہ اقتدار میں آ نے کے ایک سال بعد ہی ہجو می تشدد کا پہلا وا قعہ2015میں ہوا۔ محمد اخلاق کو اپنے گھر میں بیف رکھنے کا جھوٹا الزام لگا کر ہندو غنڈوں نے شہید کر دیا۔ پھر یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیا۔دہلی سے عید منا نے کے لئے اپنے وطن جا نے والے معصوم حافظ جنید کا ہجوم سے بھرے ریلوئے اسٹیشن میں قتل ہوا۔کچھ دن نہیں گذرے کے پہلوخان کی فرقہ پرستوں نے جان لے لی۔ ان روح فر سا واقعات پر مودی جی کا بحیثیت وزیراعظم دل نہیں پسیجا۔ قوم کے سر براہ کی حیثیت سے ان کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے ایک ایک شہری کی جان اور اس کی عزت و آ برو کی حفاظت کے ذ مہ دار ہیں۔ ان کی دانستہ خاموشی نے ہندو جارحانہ احیاء پر ستوں کو من مانی کر نے کی چھوٹ دے دی۔ اس سے ملک میں فرقہ پرستی کا جو زہر پھیلا وہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بنا۔ لیکن حکومت خود اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے مذموم عزائم رکھنے والوں کی سر پرستی کر تی رہی اس لئے ایسی قوتوں کو حکو مت نے لگام نہیں دی۔2019میں بی جے پی کو جو دوبارہ اقتدار ملا ہے کہ ان ہی طا قتوں کو ڈھیل دینے کا نتیجہ ہے۔ اپنی پہلی معیاد کے دوران مودی حکومت نے انسانیت اور ملک دشمن طا قتوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ جن مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لیڈروں نے مسلمانوں کے گلے کا ٹے تھے، جنہوں نے مسلمانوں کے مکانات اور دکانات کو آگ لگاکر خاکستر کیا تھا، ایسے بدطینت لوگوں کو تہنیت پیش کی گئی اور انہیں شاباشی دی گئی۔ہندوستانی سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھول کر ہی بی جے پی، دوبارہ اقتدار کو ہتھیانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ اپنی پہلی معیاد کی غلطیوں سے سبق لے کر مودی حکومت فرقہ پر ستوں پر قابو پائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آج بھی ملک میں دوسری معیاد کا ایک سال مکمل ہونے کے باوجود مودی حکومت اس عفریت کو ختم کر نے میں ناکام ہوگئی ہے۔
اپنی پہلی معیاد کے دوران مودی حکو مت نے ہندوستانی عوام کو کوئی راحت بھی نہیں پہنچائی تھی، لیکن اس کے باوجود ملک کے رائے دہندوں نے بی جے پی کو اقتدار پر لاکر اسے اپنے ادھورے کاموں کو تکمیل کرنے کا موقعہ دیا۔ ملک کی عوام نے وزیراعظم کے راتوں رات کئے گئے نوٹ بندی کے فیصلہ کو بھی قبول کر لیا، جب کہ جلد بازی میں کئے گئے اس فیصلہ کے نتیجہ میں عام عوام نا قا بلِ بیان مصائب سے دوچار ہو ئی۔ ایک سو سے زیادہ لوگوں کی جا نیں نوٹ بندی کی وجہ سے چلی گیئں۔ دعویٰ کیا گیا نوٹ بندی کا مقصد بیرونِ ملک سے کالا دھن لانا تھا۔لیکن کتنا کالا دھن واپس لایا گیا اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو توقع تھی کہ رائے دہندے نوٹ بندی کا بدلہ حکو مت سے لیں گے۔ لیکن کشمیر کے پلوامہ میں ہو ئے دہشت گردی کے واقعہ نے عین الیکشن سے پہلے بی جے پی کے لئے آ سا نیاں فراہم کر دیں۔ فوجیوں کی قربانیوں کا کریڈٹ بی جے پی نے لیا اور دوبارہ قوم پر ستی کا ہّوا کھڑا کر کے لوک سبھا الیکشن میں تین سو سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ میڈیا کی جانب سے بی جے پی کے حق میں زبر دست مہم اور فرضی قوم پرستی کے جھنڈے تلے بی جے پی اپنے سیاسی عزائم میں ملک کی دیگر پارٹیوں کو چاروں خانے چِت کر کے دوبار بر سر اقتدار آگئی۔ جمہوریت میں عوام کا فیصلہ ہی قطعی ہوتا ہے۔ملک کے سارے ہی شہر یوں نے اس عوامی فیصلہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ لیکن اب ایک سال گذر جانے کے بعد بی جے پی کی کارگذاری کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سوائے مایوسی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔اس ایک سال میں کو ئی محاذ ایسا نہیں ہے کہ جس پر مودی حکومت یہ دعویٰ کر سکے کہ اُسے یہاں کامیابی ملی ہے۔
مودی حکومت اپنی دوسری معیاد کے ابتدائی مرحلے سے ہی اپنے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ اس کے پاس اب بھی نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی وباء سے لاکھوں لوگ پر یشان حال ہیں لیکن مودی حکومت ان کے لئے کوئی راحت کے اقدامات کرنے میں سنجیدگی کا کوئی مظاہرہ کر تی نظر نہیں آ رہی ہے۔ 75دن سے ملک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ وزیراعظم نے نوٹ بندی کی طرح ملک میں راتوں رات لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔ ہزاروں لوگ ایک جگہ محصور ہوکر رہ گئے۔ ان کے لئے نہ کھانے کا انتظام کیا گیا نہ سکون و اطمینان سے رہنے کے لئے کوئی آ سرا فراہم کیا گیا۔ آج پو رے ملک میں ملک کے بٹوارے کا منظر دیکھنے میں آرہا ہے۔ غیر مقیم مزدور اپنا سامان سر پر اُٹھایے میلوں کا سفر پیدل طے کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی تو راستے میں دم توڑ دے رہے ہیں۔ آخر یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی۔ کیا ان ہو لناک حالات کے لئے حکومت ذمہ دار نہیں ہے۔ مودی حکومت نے غریبوں کی مدد کے لئے 20 لاکھ کروڑ روپؤں کے پیا کیج کا اعلان کیا ہے۔ کیا یہ پیسہ غریب عوام تک پہنچ پایا ہے۔ حکومت اپنی فراخ دلی کا ثبوت دیتی تو آ ج لوگ بھکمری کا شکار ہو کر موت کی نیند نہیں سوتے ہر روز کتنے لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی بات سپریم کو رٹ کے فا ضل ججوں نے لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں کہی تھی کہ حکو مت پریشان حال لو گوں کا خیا ل نہیں کرے گی تو یہ لوگ کورونا سے نہیں بھوک سے مرجائیں گے۔ انفوسس کے بانی نارائن سوامی نے بھی اسی بات کو حا لیہ دنوں میں دہرایا ہے۔ لیکن حکو مت کے کانوں پر جوں رینگتی نظر نہیں آ تی۔ مصیبت کے وقت بھی حکومت عوام کے درمیان آکر ان کے مسائل حل کر نے میں نا کام ہوجاتی ہے تو پھر ایسی حکو مت کو عوام دوست حکو مت کا خطاب کیسے دیا جا سکتا ہے۔
2019میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نر یندر مودی نے ملک کی عوام کو یہ تیقن دیا تھا کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس بھی حاصل کیا جائے گا۔ ان کی اس یقین دہا نی سے اقلیتوں اور خا ص طور پر مسلمانوں میں یہ امید جاگی تھی کہ وقت کے حکمراں ملک کے تمام طبقوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ہر ایک کے ساتھ انصاف اور مساوات کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ تھوڑے ہی دن بعد یہ سب ڈھکوسلہ ثا بت ہوا۔ دوسری معیاد کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ سلوک کر نے کی پوری تیاری کر لی گئی۔ نئی حکومت کے لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں ہی تین طلاق کے خلاف بِل لا کر اُ سے منظور کر لیا گیا اور پھر اسے قانونی شکل دے کر ملک میں نافذ کر دیا گیا، اگر مودی حکومت اس قانون کو ملک میں نا فذ نہ کر تی تو کیا آ سمان پھٹ پڑتا یا زمین میں کوئی زلزلہ آ جاتا۔لیکن بحر حال مسلمانوں کی شریعت میں مدا خلت کر کے مودی حکومت نے مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کر دیا۔ ابھی اس رِستے ہوئے زخم سے خون رسِنا ختم نہیں ہوا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو استعمال کر تے ہوئے مسلمانوں کی ساڑھے چار سو سالہ با بری مسجد کو ہڑپ لیا گیا۔ سارے تاریخی ثبوتوں کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت کے معزز جج صاحبان مندر کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور ہوگئے۔ تاریخ، دستور اور قانون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آ ستھا کی بنیاد پربابری مسجد کو مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔ جس چیف جسٹس نے یہ فیصلہ دیا وہ کب کہاں براجمان ہیں ساری دنیا جانتی ہے۔ مودی حکو مت کا یہ کارنامہ بھی یاد رکھنے کے قا بل ہے کہ اس نے جموں و کشمیر کے تعلق سے وہاں کی عوام سے کوئی رائے لیے بغیر جموں و کشمیر سے متعلق دفعہ 370کو ختم کر دیا۔ اس دفعہ کی تنسیخ سے کشمیر میں اس وقت جو کچھ حالات ہیں اس سے بھی دنیا بخوبی واقف ہے۔ اسی دفعہ نے جموں و کشمیر کو ہندوستان سے جوڑے رکھا ہے۔ ملک کے قد آور قائدین نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کشمیریوں کو کچھ مراعات دی تھیں۔ اس پر بھی مودی حکومت کی انا کو تسکین نہیں ہو ئی تو مسلمانوں کی دشمنی میں ایسے اقدامات کر نے شروع کر دئے جس سے ملک کی یکجہتی اور سا لمیت کو ہی خطرات لا حق ہو گئے۔ پارلیمنٹ میں اکثر یت کے نشّے میں مست ہو کر مودی حکومت نے سی۔اے۔اے کے قانون کو ملک میں لاگو کر نے کی مذموم کوشش کی۔ اس قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں رہنے والے ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ، جین اور پار سیوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اعلان کر دیا۔ اس فہر ست میں مسلمانوں کو شا مل نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد این۔ آر۔ سی اور این۔ پی۔ آ ر کے ذریعہ مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کے منصو بے بنا ئے گئے۔ تین طلاق کے خلاف قانون، بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ پھر کشمیر میں دفعہ 370کی منسوخی پر عام طور پر ہندوستانی اور خاص طور پر مسلمانوں کی خاموشی سے مودی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ سیاسی اکثریت کی بنیاد پر ملک میں من مانی کی جا سکتی ہے۔ لیکن قابلِ تعر یف ہے ہندوستان کی جمہوریت پسند عوام، سی۔اے۔اے، این۔ آر۔ سی اور این۔ پی۔ آر کے خلاف اس طرح اُٹھ کھڑی ہو ئی جیسے جدوجہدِ آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف سر سے کفن باندھ کر میدان میں آ ئی تھی۔ ان ظالمانہ قوانین کے خلاف سارے انصاف پسندوں کا متحد ہو کر صدائے احتجاج بلند کرنا آزاد ہندوستان کی تاریخ کا وہ روشن اور ناقابلِ فراموش باب ہے کہ جب تک ملک کی عوام جمہوریت اور سیکولرازم کے تحفظ کیلئے کمر بستہ رہے گی فرقہ پرستی اس ملک میں پنپ نہ سکے گی۔ اس حقیقت کو مودی حکومت یاد رکھ کر مثبت اقدامات کرتی ہے تو ملک ترقی کرسکتا ہے۔ورنہ مودی حکومت کی دوسری معیاد بھی نا کامیوں کا ایک ریکارڈ ثا بت ہوگی جس سے ملک کے ساتھ عوام کا بھی نا قا بلِ تلافی نقصان ہوگا۔

Share
Share
Share