نئے تخلیقی عمل میں روایت اور اس کی نوعیت
پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد
انسان کی خلاقانہ صلاحیتوں کا بے ساختہ اور برجستہ استعمال جس کے ذریعہ مخصوص رابطوں کو منظر عام پر لایا جاتا ہے‘اسے تخلیق کا درجہ حاصل ہوتا ہے شاعری‘ادب‘ موسیقی‘ رقص‘سنگتراشی اور فن تعمیر کے ذریعہ جب کسی پیشکش میں فنکارانہ اظہار کا استعمال ہوتا ہے تو اس فنکارانہ رویہ کو تخلیق کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
تخلیقی عمل اور اس کے ارتقاء میں کئی طاقتوں کا استعمال ضروری ہے اوریہ طاقتیں نہ صرف کسی نظریہ کے ذریعہ ظاہرہوتی ہیں‘ یا پھر علامتی صورتوں سے بھی نمائندگی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔عام طور پرتخلیقی اظہار کا بنیادی وصف تخلیقی صلاحیت سے ہوتا ہے۔تخلیقی صلاحیت کے ذریعہ کسی نہ کسی انکشاف کی بنیاد رکھی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں کوئی بھی تخلیق دو سطحوں پر نمایاں ہوتی ہے۔تخلیق کی پہلی سطح جبلّی ہے۔اس کا اظہار ہر عمل میں کسی نہ کسی حد تک بے ساختہ اور احساس کی کارفرمائی کے ذریعہ ہوتاہے۔اس سطح کی تخلیق کے سلسلہ میں ہر انسان فطری طور پر قدرت رکھتا ہے اور وہ فنکارانہ سطح پر فلسفہ یا سائنس کے ذریعہ تہذیبی وسیلوں کو منظر عام پر لاتا ہے‘ جس کے ذریعہ بے شمار تضادات‘افعال اور و وجدان ہی نہیں‘بلکہ شعور اور لاشعور کے ساتھ جذبہ و فکر کی ذہنی صحت اور ذہنی انتشارکا وسیلہ ہے جو پیچیدگی اورسادگی کے بنیادی ٹکراؤ سے جنم لیتا ہے۔اس طرح جبلّی تخلیق کے بجائے عقل و وجدان کے تضاد کوتخلیقی عمل میں پیش کیا جائے تو ایسا عمل ریاضی‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے تجرباتی اظہار اوراحساس کی سطح پر ادراک سے مربوط ہوتا ہے۔غرض جبلّی سطح پر بھی تخلیق کا عمل جاری رہتا ہے اور عقلی سطح پر بھی تخلیق کی کارسازی اپنا وجود دکھاتی ہے۔ادب میں پیش ہونے والی کوئی بھی تخلیق یا تو انسان کی جبلّت سے وجودمیں آتی ہے یاپھراس کی عقل و دانش کاثمرہ ہوتی ہے۔دنیا کے تمام مفکرین اور سائنسداں ہی نہیں‘بلکہ شعر و ادب کی نمائندگی کرنے والے اہل فکر حضرات بھی تخلیقی عمل کے لئے وجدان کے ان دونوں طریقوں کو کام میں لاتے ہیں۔اس طرح انسان فطری طور پربچپن اورجوانی سے لے کر بڑھاپے تک فہم و ادراک اور اکتساب کے علاوہ شعور کے توسط سے تخلیقی طرز و عمل اور شعور کے ان گنت خزانے لٹاتے رہتا ہے اور ان ہی خزانوں میں اچھوتے پن اور خلاقیت کے شامل ہونے سے تخلیقیت کا عمل کار فرما ہوتاہے۔تخلیق کے لئے انگریزی میں Creativity کی اصطلاح مستعمل ہے۔ہردور کے تقاضوں کے اعتبار سے نہ صرف تخلیقی عمل میں فرق پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ تخلیقی تجربوں میں فنکارانہ انداز کی شمولیت سے نکھار پیدا ہوتا ہے۔انسان کی شخصیت میں موجود ربط و انتشار‘میل ملاپ کے علاوہ غور و فکراورکثیرجنسی احساسات کے ساتھ دعویٰ اور رد دعویٰ کی کیفیات کے ساتھ فکر اورتجسس کے نتیجہ میں کشمکش یاتصادم کا وسیلہ تخلیقی فنکار کی خصوصیت میں شامل ہوتا ہے۔ہر دور کا ادب اپنے تخلیقی عمل کی وجہ سے شناخت کا درجہ رکھتا ہے۔غرض ہردور کے خیالات کی مناسبت سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا اثر بھی انسانی ذہن اور خیالات کے ساتھ اس کی فکر کابھی حصہ بن جاتا ہے۔ اس لئے ہر دور کے تخلیقی عمل اور اس کے ساتھ پیدا ہونے والی روایت کا انداز بھی مختلف نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ قبل مسیح میں لکھے جانے والے ادب کو اس دور کا تخلیقی رویہ ضرور قرار دیا جائے گا‘ لیکن اس تخلیقی رویہ کی روایت کو عصر حاضر میں استعمال کرنا ممکن نہیں‘کیونکہ قبل مسیح کے دور کے تقاضے آج کے معاشرہ کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہیں۔اس طرح ہر دور میں پیش ہونے والا تخلیقی ادب اس دور کی روایتوں کے ساتھ زندہ رہتا ہے‘لیکن وقت اورحالا ت کے اعتبار سے نئے تخلیقی عمل میں پیدا ہونے والی نوعیتوں میں فرق کا نمایاں ہونا بھی فطرت کے عین مطابق ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے تخلیقی ادب میں اس دور کی تہذیب‘ روایت‘انسانی زندگی اوراس کی سوچ کے تمام دھاروں کا شامل ہونا ضروری ہے۔
دنیا کے ہرادب میں زمانے کے تقاضوں اور زندگی کی ضروریات کے اعتبارسے روایت کا کارفرما ہونا فطرت کے عین مطابق ہے۔لازمی ہے کہ جب انسان کو اخلاق‘ہمدردی اور انسانیت کا سبق سکھانا تھا تو اس دور میں انسانی ضرورت اور اس کی زندگی کی مناسبت کو محسوس کرتے ہوئے سنسکرت زبان میں ایسی کہانیاں لکھی گئیں‘ جو آج بھی عالمی سطح پر شہرت کا درجہ رکھتی ہیں۔چنانچہ ”پنچ تنتر کی کہانیاں“ اور ”ہتوپ دیش“ کے علاوہ ”جاتک کتھاؤں“ کا سنسکرت ادب آج بھی ہمارے دل کو موہ لیتاہے۔لیکن اس قدیم روایت کے انداز کو موجودہ دور میں تخلیق کا وسیلہ بناتے ہوئے ممکنات میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ہندوستان کی سرزمین میں بے شمار زبانوں اور ان کے ادبیات کا سلسلہ جاری ہے۔ہندوستان کی دو اہم زبانو ں میں اردو اور ہندی کو سارے ملک میں وقار کا درجہ حاصل ہے۔ہندوستان کے ایک اہم افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے جب ہم منشی پریم چند کے ناولوں اورافسانو ں کے تخلیقی عمل پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور کی انسانی زندگی اور ہندوستان کی طرز معاشرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ”دیہاتی ماحول“ اور ”کسان کی زندگی“ کی خصوصیات کو اپنے دور کے تخلیقی عمل کی روایت کے طور پر استعمال کیا۔موجودہ دور میں تخلیقی عمل کا اظہار کرتے ہوئے پریم چند کی تخلیقی روایت کو نمایاں کرنا‘اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے دور میں موجود تخلیقی عمل اس دور کے نئے تخلیقی رحجانات کا علمبردار تھا‘جسے آج کے دور سے ہم آہنگ نہیں کیاجاسکتا۔غرض شاعری اور نثر کے ذریعہ ہر تخلیقی عمل جب ارتقاء پذیر ہوتاہے تو سابق کے تخلیقی عمل کی نمائندہ روایتوں کو شامل کرکے نئی تخلیقی روایتوں کے اظہار کا ذریعہ فراہم کرتا ہے اوراسی نئے تخلیقی عمل کے توسط سے شعر و ادب ہی نہیں‘ بلکہ انسانی زندگی اور اس کی ضروریات کی تکمیل ممکن ہے۔اردو زبان و ادب کے ساتھ بھی اسی قسم کی روایتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔نئی روایت قائم ہوئی اور سابق روایتیں ٹوٹتی‘ بکھرتی ہیں اور پھر نیا تخلیقی عمل واضح ہوتاہے۔
تخلیقی ادب میں عام طو رپر داستاں‘افسانہ‘ ڈراما‘ناول اورناولٹ کا شمار ہوتا ہے‘ جن کے ذریعہ تخلیق کار نہ صرف قصہ و کہانی کی بنیاد رکھتا ہے‘ بلکہ کردار اور ان کے عمل کے ذریعہ پلاٹ اور کہانی میں موجود کشمکش کو مناسب انجام سے وابستہ کرتا ہے۔اردو کے نثری ادب میں پانچ اصناف کے توسط سے قصہ و کہانی کی روایت کو عام موقف حاصل ہے۔شاعری میں مثنوی کے ذریعہ ایسے عوامل کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔لازمی ہے کہ تخلیق کے دوران سب سے اہم خصوصیت بیانیہNarration کااستعمال حددرجہ لازمی ہوتا ہے۔ہندوستان کی سرزمین میں ادب تخلیق کرنے والوں کے ذہن میں تہذیب و اخلاق اور مذہب کے علاوہ کوئی اور انداز موجود نہیں تھا‘ چنانچہ انہوں نے ”ادب برائے ادب“ کے اہم انداز کے ذریعہ شعری و نثری ادب کو رومانیت کا وسیلہ بنادیا۔چنانچہ اردو کی داستانیں ہی نہیں‘ بلکہ ابتدائی ناولوں میں بھی رومانیت کا اثر جلوہ گر نظر آتاہے۔جب ترقی پسند تحریک کے ذریعہ”ادب برائے زندگی“کا تصور عام ہوا تو تخلیقی ادب کے روایتی عمل میں تبدیلی پیدا ہوئی‘جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسا ادب تخلیق کیاجانے لگا‘جس میں زندگی کی حقیقتوں کو پیش کرنے اور اس کے تخلیقی رویہ کو نمائندگی دینے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔اس طرح اردو ادب میں چاہے شاعری ہو یا نثر نگاری‘اس کے توسط سے نئے لکھنے والوں نے 1936ء کے بعد ادب کے تخلیقی رحجان کو حقیقت پسندی Realism تعقل پسندی Rationalismاور عریانیت جیسے اہم نظریات کو تخلیق کا وسیلہ بنانا شروع کیا‘جس کی حمایت میں ہی نہیں‘ بلکہ مخالفت میں بھی ادبی رحجانات کا سلسلہ جاری رہا۔ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تین اہم افسانہ نگار جیسے سعادت حسن منٹو‘ عصمت چغتائی اور کرشن چندر کے تخلیقی رویے پر چلائے جانے والے مقدمات اور اس دور میں شائع ہونے والی تخلیقی ادب کی کتاب”انگارے“ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1936 ء سے قبل تک اردو کے تخلیقی ادب میں شامل کئی اہم روایتی عوامل رفتہ رفتہ زوال آمادہ ہوگئے‘جس کے تحت پرانے تہذیبی اور اخلاقی تصورات ہی زوال پذیر نہیں ہوئے‘ بلکہ ادب میں تجربیت Empiricism کا خاتمہ ہوا‘ جس کے تحت یہ نظریہ عام ہوچکا تھا کہ علم صرف تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اوراس تجربہ میں یہ بتایا گیا کہ حواس کے ذریعہ بیرونی مشاہدات کا اثر دماغ پر ہوتاہے‘ اس طرح یہ انداز تعقل پسندی کے خلاف تھا۔ غرض روایتی تخلیقی عمل میں فرق پیدا ہوا۔ اس دور میں منشی پریم چند نے اپنے شاہکار افسانوں اورناولوں کے ذریعہ تصوریت Idealism کو اختیار کرلیا تھا‘ جس کے ذریعہ اطراف و اکناف کی چیزوں کو اپنے ادراک اور حواس کے ذریعہ ایسے ہی انداز میں پیش کیا جاتا تھاجیسی کہ وہ موجود ہیں۔اس طرز کا تعلق راست اخلاقیات سے تھا اور تصوریت کو فروغ دینے کے معاملہ میں روحانی قوتیں بھی کام کرتی رہیں۔ادبی تاریخ میں منشی پریم چند کو ترقی پسند ادب کا روح رواں تصور کیاجاتا ہے اورانہو ں نے اپنے تخلیقی ادب میں روایتی طور پرتصوریت کو فروغ دینے پر توجہ دی ہے۔غرض اس قسم کی روایت کو نئے تخلیقی عمل میں نظرانداز کردیا گیا‘ جس کا ثبوت ترقی پسند ادیبوں کی اس روش سے ظاہر ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ جمالیات ہی نہیں‘ بلکہ روحانیات کو بھی نظراندازکرکے مادیت کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے رہے ۔اس قسم کا تصور نئے تخلیقی عمل کے دائرہ سے خارج ہوجاتا ہے۔
تخلیقی ادب میں روایتی طور پر تعقلیت Rationalism کا عمل بھی کار فرما رہا۔یعنی تخلیق میں عقل کے ذریعہ کائنات کے بارے میں بنیادی حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرنیکا عمل تعقل پسندی یا تعقلیت کا علمبردار قرار دیا جاتا ہے جس میں تجربہ کی مدد کی ضرورت نہیں۔ کوئی بھی انسان فطری تصورات Innate Ideas کے ذریعہ کائنات کے بارے میں حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے‘ جس کے ذریعہ یہ ثابت کیا جاتاہے کہ کائنات میں بذات خود نظم موجود ہے اور اس نظم کے طریقہ کو قبول کرنا تعقلیت میں داخل ہے اوراگر اسے قبول نہ کیاجائے تو اسے غیرمعقولیت Irrationalism کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔اس قسم کے نظریات کے ذریعہ عقل کے مقابلہ میں ارادہ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔عصر حاضر میں نئی تخلیقی خصوصیت میں شامل ہونے والی ایک اہم خوبی ”فلسفہ وجودیت“Existentialism سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘جس کے تحت ہر وجود کو اپنی ترقی کی گنجائش ہے۔چنانچہ اٹھارہویں صدی میں جو تعقل پسندی اورحقیقت پسندی کے علاوہ تجرباتی مزاج کا ماحول قائم رہا اور تعقل پسندی کے نتیجہ میں مذہب کو ایک وسیلہ بنالیا گیا‘جسے الہیت کا موقف حاصل ہے‘یہ تمام نظریات رفتہ رفتہ نئے تخلیقی عمل کے دوران روایت کا حصہ بنتے گئے۔لیکن یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ ہر دور میں تخلیقی عمل کو جاری رکھنے والے شاعرو ں اورادیبوں کا ایسا گروہ ضرور موجود رہا‘ جو تخلیقی عمل میں روایت کو اہمیت دیتا ہے‘لیکن ہر دور میں تخلیقی روایت کی نوعیت میں فرق پیدا ہوتا چلا گیا‘جس کی بے شمار مثالیں نہ صرف عالمی ادبیات کا حصہ ہیں‘ بلکہ ہر زبان کے زندہ ادب میں تخلیقی عمل کے دوران روایت کی تبدیلی کا پتہ بھی دیتی ہیں۔
لازمی ہے کہ نئے تخلیقی عمل کے ذریعہ ترقی پسند شاعرو ں اورادیبوں نے تخلیقیت کو اہمیت دی اور تخلیق کے توسط سے افسانوی ادب میں کہانی Story کی خوبیوں کو سب سے اہم ضرورت قرار دیا گیا‘ جس کے ذریعہ تخلیقی عمل کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔جب ترقی پسند تحریک کے بعد اردو ادب میں جدیدیت کے رحجان کو فروغ حاصل ہونے لگا تو اس کے ذریعہ نہ صرف تجریدیت Abstract کو اہمیت حاصل ہوئی‘ بلکہ عالمی سطح پر موجود ادب کے کہانی پن Story کے سلسلہ کو ختم کرکے جدیدیت پسند ادیبوں نے تخلیقی عمل کے توسط سے Anti-Story یعنی کہانی پن سے انحراف کی روایت کو فروغ دیا۔بلا شبہ اردو ادب ہی نہیں‘ بلکہ دنیا کے ادبیات میں 1936ء سے لے کر 1960ء تک ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق کو کہانی پن Story سے مربوط رکھا گیا۔1960ء کے بعد کے ادیبوں نے نئی تخلیق کی روایت کو ہی نہیں‘ بلکہ اس کی نوعیت کو بھی نظرانداز کرکے Anti-Story کہانی پن سے انحراف کی نوعیت کو تخلیق کی ضرورت قرار دیا۔اگرچہ ترقی پسند تحریک کے شاعروں اورادیبوں کے توسط سے تخلیقی عمل کو روایت سے دور اور علامت سے قریب کیا گیا تھا۔لیکن ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں اورادیبوں نے قابل فہم اور عقل میں سمانے والی علامتوں کے استعمال پر زور دیا۔اس کے بجائے نئے تخلیقی عمل میں علامت Symbolism کی روایت عام ہوئی‘ لیکن اس روایت کی نوعیت کو بھی نئے تخلیقی عمل نے نظراندازکردیا‘جس کی وجہ سے جدیدیت پسند Modernism کے حامیوں نے نئے تخلیقی عمل میں دور ازکار علامتوں کے استعمال کے ذریعہ شعر و ادب میں نئے تخلیقی عمل کا آغاز کیا اور اس کی روایت کے ذریعہ علامتوں کے زوال کو خصوصی نمائندگی حاصل ہوئی۔ جیسا کہ بتایا جاچکاہے کہ تخلیقی عمل میں کہانی پن کو روایت کے طور پرقبول کیا گیا۔چنانچہ منشی پریم چند اور پنڈت سدرشن کے علاوہ اس دور کے تمام ناول نگاروں نے نئے تخلیقی عمل کی حیثیت سے کہانی پن Story کو شامل کیا‘جبکہ نئے تخلیقی عمل کے ذریعہ جدیدیت پسندوں نے علامتوں کے مجہول انداز اور کہانی پن کے انحراف سے وابستہ کیا۔اس طرح تخلیق کے ذریعہ یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر دور کے نئے تخلیقی عمل کی نوعیتیں سابق کی روایتی نوعیت سے جداگانہ ہوتی رہیں۔
اردو کے ابتدائی ناول نگار جیسے ڈپٹی نذیراحمد‘ علامہ راشد الخیری‘ عبدالحلیم شرر‘ صادق حسین سردھنوی‘ پنڈت رتن ناتھ سرشار‘ منشی فیاض علی‘ غلام طیب اور دیگرتخلیق کاروں کے فن کا جائزہ لیا جائے تو ان کے ناولوں میں اس دور کے تخلیقی عمل کی کارفرمائی واضح ہوتی ہے جس کے ذریعہ خواتین کی اخلاقی زندگی سدھارنے اور خواتین کی تعلیمی ترقی کو پیش نظر رکھنا نذیراحمد اور راشد الخیری کے تخلیقی عمل کا بنیادی وصف رہا۔جبکہ عبدالحلیم شرر اور صادق حسین سردھنوی نے اسلامی تاریخ سے نتائج اخذ کرکے ہندوستانی عوام میں حریت کے جذبہ کو عام کرنے کی کوشش کی۔ان کے بجائے پنڈت رتن ناتھ سرشار اور ان کے حلقہ کے ناول نگاروں نے اپنے تخلیقی انداز کے ذریعہ دہلی اور لکھنو کی زوال آمادہ معاشرت کی بھرپور نمائندگی کا حق دا کیا۔ان حقائق سے صاف ظاہر ہوتاکہ اس دور کے تخلیقی عمل کی خصوصیت یہی رہی کہ وہ روایت کی توسیع پر قائم رہی۔حتیٰ کہ جب حیات اللہ انصاری نے جدوجہد آزادی کو بنیاد بناکر ”لہو کے پھول“ جیسا اہم ناول چارجلدوں میں پیش کیاتو واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے ترقی پسند ادب سے وابستگی رکھنے کے باوجود بھی اپنے تخلیقی عمل میں ہندوستان اور ہندوستان کی تہذیب کے علاوہ اس ملک کی جدوجہد آزادی کی سرگرمی کو و روایت کی حیثیت سے قبول کیا۔آج بھی کئی ایسے تخلیقی قلم کار موجود ہیں جوروایت کی تجدید کو ہی نئے تخلیقی عمل کی خصوصیت کا درجہ دیتے ہیں۔اس خصوص میں قرۃ العین حیدر کا ناول ”آگ کا دریا“ اور التمش کا چار جلدوں میں پیش ہونے والا مشہور ناول ”داستاں ایمان فروشوں کی“ کے علاوہ محی الدین نواب کا 32جلدوں میں لکھا ہواناول”دیوتا“ کی اشاعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے تخلیقی عمل میں جہاں روایت کا عمل کار فرما ہے‘ وہیں روایت کی نوعیت میں بھی تبدیلی واقع ہونے کی دلیل ملتی ہے۔
تخلیقی ادب کے معاملہ میں ممکن ہے کہ دوسری اصناف کی طرف بھی توجہ دی جائے‘لیکن موضوع کی طوالت کے خوف سے اس مقالہ کو صرف تخلیقی ادب کے اہم رحجان یعنی ناول اور افسانے کی حد تک مختص کیاجارہاہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو ادب میں باضابطہ طور پر نئی تخلیقی روایت کو ناول کا حصہ بناکر ایسے عظیم ناول بھی لکھے گئے جو اردو زبان کے تاریخی ورثہ میں کارنامے کا درجہ رکھتے ہیں۔اس خصوص میں عجیب و غریب دنیاؤں کی سیراورعجیب و غریب مخلوقات کے علاوہ ہماری اپنی دنیا سے مختلف دنیا کی نمائندگی کرنے والے تخلیقی ناول نگار بھی نئے تخَلیقی عمل اوراس کی نوعیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس خصوص میں اردو کے اہم ناول نگاروں میں پہلا نام سراج انور کالیاجاسکتا ہے جنہو ں نے اردو میں ”خوفناک جزیرہ“،”کالی دنیا“ اور ”نیلی دنیا“ جیسے ناول لکھ کر اردو ناول کی تخلیقی روایت کو ایک نئی سمت سے وابستہ کیا۔خوفناک جزیرہ میں ایک ایسی مخلوق کا تعارف کروایا گیاہے جو پتھر کا جسم رکھتی ہے اور وہ کسی پتھر سے منسلک ہوجائے تو پھر پتھر کا حصہ بن جاتی ہے۔جبکہ وہ انسانوں کی طرح سانس لینے اورچلنے پھرنے کی متحمل ہے‘لیکن اس مخلوق پر گولی‘ بم اورکسی بھی ہتھیار کا اثر نہیں ہوتا۔یہ مخلوق توبیہ دھات کی غلام ہے اور وہ دھات جس کے ہاتھ میں ہوگی‘اس کی تابع رہتی ہے۔اسی طرح کالی دنیا میں بھی عجیب و غریب مخلوق اور نیلی دنیا میں بھی ایسی ہی مخلوق کا ذکر کرکے سراج انور نے باضابطہ طورپر ناول کی دنیا میں نئے تخلیقی عمل کی روایت کو شامل کیا‘ اس نئی تخلیقی روش کی نوعیت اس قدر آگے بڑھ گئی کہ سلامت علی مہدی جیسے اہم اردو کے صحافی نے کئی عجیب و غریب ناول لکھے‘ جن میں ”زمرد“ نامی ناول کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘جس میں انسانوں جیسی مخلوق موجود ہے‘ جس پر آگ اور شعلوں کا اثر نہیں ہوتا‘جو ہمالیہ کی ترائی میں بستی ہے اور اس قبیلہ کا نام ”کروگانہ“ بتاکر سلامت علی مہدی نے ایسے انسان کی موت محبت یا شادی کرنے سے واقع ہونے کا عجیب و غریب تخلیقی اظہار پیش کیا ہے۔اسی دور میں اردو کے مشہورناول نگار ظفر پیامی نے بچوں کے لئے عجیب و غریب ناول لکھنے کی بنیاد رکھی۔ ان کے دوناول بالاقساط ماہنامہ ”کھلونا“ میں شائع ہوتے رہے‘ جو ”ستارو ں کی سیر“ اور ”ستاروں کے قیدی“ کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ان ناولو ں میں نئی تخلیقی حسیت اور نوعیت جلوہ گر نظر آتی ہے۔کرشن چندر کا ناول ”الٹا درخت“ بھی اسی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔انگریزی ادب میں سب سے پہلے ناول لکھنے کے نئے تخلیقی انداز کی شروعات ہوئی اور اس انداز کو ”ساگا ناول“ کا درجہ دیا گیا۔ان ناولوں میں عجیب و غریب مخلوقات اوران کی عجیب و غریب ضرورتوں کو پیش کیاجاتا رہا۔انگریزی ادب میں پیش ہونے والا ناول ”ڈراکیولا“ کے بعد اردو میں بھی ایسے ناول لکھے گئے جن کے توسط سے تخلیقی عمل کی روایت میں فرق پیدا ہونے اور نئے تخلیقی عمل کی نوعیت ظاہر ہونے کا بھرپور ثبوت ملتا ہے۔موجودہ دور میں کئی ٹی وی سیریئلس جیسے ”شکتی مان“ اور ”سون پری“ اور ”بال ویر“ کے علاوہ ”اسپائیڈر میان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی پن کی روایت میں تخلیق کاروں نے تجسس اور حیرت انگیز ی کو شامل کرکے جادوئی حقیقت پسندی“کو اظہار کا ذریعہ بنادیا۔ایسے ساگا ناولوں کی پیشکش سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں تخلیقی نوعیت بھی پوری حسیت کے ساتھ روایت سے استفادہ کررہی ہے۔ عام ناول اور ساگا ناول میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ عام ناولو ں میں انسان کی بے بسی اور مجبوری بتائی جاتی ہے‘ جبکہ ساگا ناول میں انسان کا کوئی بھی جذبہ اور عمل محدود نہیں رہتا‘ بلکہ وہ ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ایک انسان اپنی سانس سے کاغذ اڑا سکتا ہے‘لیکن ساگا ناولو ں میں یہ بتایاجاتاہے کہ ایک انسان کے پھونک مارنے سے ہزارہا کاریں الٹتی چلی جارہی ہیں اوراگر وہ غصہ میں آکر اپنی آنکھوں پرزور دیتا ہے تو آنکھوں سے نکلنے والی شعاعیں سارے علاقہ کو آگ میں جھونک دینے کا سبب بنتی ہیں۔یہی نہیں‘ بلکہ ایک انسان زمین سے اڑ نہیں سکتا‘ لیکن ساگا ناول میں ایسا بتایا جاتا ہے کہ وہ انسان ہونے کے باوجود پرندوں اور دوسرے اڑنے والے جانورو ں کی طرح آسمان کی سیر کرسکتا ہے‘جس کی مثال انگریزی سیرئیل ”اسپائیڈر میان“سے دی جاسکتی ہے۔غرض اردو کا تخلیقی ادب جب ابتدائی دور میں رہا تو وہ تخلیقی عمل کی روایت سے وابستہ رہا۔چنانچہ تخلیقی ادب حقیقت پسندی‘اخلاق پسندی‘ادب اور مذہب پسندی کے علاوہ رومانیت پسندی اور انسانی جذبات کے پاس و لحاظ کا علمبردار رہا۔جب ناول کے تخلیقی اظہار میں نیا عمل شامل ہوا تو نئی روایتوں کو جنم لینے کا موقع ملا۔چنانچہ حقیقت پسندی‘ عریانیت‘تخلیقیت اور وجودیت کو تخلیقی ادب کا اظہار بنایا گیا۔اس رویہ سے آگے بڑھ کراردو کے ناولوں میں کہانی پن Story کی بازیافت اور کہانی پن کے انحراف Anti-Storyکے علاوہ علامت نگاری کے ساتھ ساتھ تجریدیت کو بھی نئے تخلیقی عمل کی حیثیت سے پیش کیاگیا۔اردو ناول کی ادبی تاریخ کے ورثہ میں جہاں رومانی ناول‘ اخلاقی ناول‘تاریخی ناول‘تہذیبی ناول‘جاسوسی ناول جیسے انداز کی نمائندگی دکھائی دیتی ہے۔وہیں نئی تخلیقی حسیت کے پس منظر میں ایسے ناول بھی لکھے گئے جو موجودہ دور کے تخلیقی نئے زاویوں کی علامت قرار دیئے جاتے ہیں جن کے تحت اردو میں ساگا ناول کا آغاز اور آزادی کے بعد اس قسم کے ناولوں کی کثرت سے یہ بات نمایاں ہوگئی کہ اردو کا تخلیقی ادب اگرچہ داستاں‘ناول‘ افسانہ‘ ڈراما اور ناولٹ پرمشتمل ہے لیکن صرف ناول میں سمونے والی تخلیقی حسیت پر غور کیاجائے اور تخلیقی عمل کے اعتبار سے اردو کے ناولوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ناول کے تخلیق کارو ں نے نئے تخلیقی عمل کو جس طرح فنی کاریگری کے ساتھ منظر عام پر لایا ہے اوراس میں مختلف نوعیتوں کو شامل کرکے نئے تجربات سے وابستہ کیا ہے۔اس سے تو اردو کی ناول نگار ی میں روایت اور تخلیقی اعتبار سے پوری طرح جدت طرازی کا عنصر کا فرما ہے۔غر ض تخلیق کارکا ذہن بلا شبہ ایجادی اور اختراعی قصوں کو پیش کرنے اور ان کے ذریعہ قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا جارہاہے۔جس سے نئے تخلیقی عمل میں روایت کی پیشکشی اور اس کی بدلتی ہوئی نوعیتوں کا اظہار بھی ہوتا ہے اور یہ عمل اردو کے تخلیقی ادب کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
دہلی کالج کے توسط سے ہندوستانی ادیبوں کو نصاب کی تدوین کا بہت بڑا میدان سامنے آیا۔ اس کالج میں جدید علوم اورسائنسی مضامین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو‘ فارسی اور ادبی زبانوں کی تدریس اور فقہ اور فلسفہ کی تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔اس کالج نے مختصر مدت میں بڑی اہمیت حاصل کرلی۔انگریزی ادب کے زیر اثر ایسی کتابیں تصنیف کی جانے لگیں‘جو قدیم رواج شدہ کتابوں سے بالکل مختلف تھیں‘ چنانچہ فورٹ ولیم کالج اور فورٹ سینٹ جارج کالج کے نصاب سے ہٹ کر جداگانہ نصاب دہلی کالج کا قرار پایا۔بلا شبہ ہندوستان کی سرزمین میں دہلی کالج کے قیام کو شمالی ہند میں نشاۃ الثانیہ کا علمبردار قراردیاجائے تو بیجا نہ ہوگا۔اس کالج کی وجہ سے شمالی ہند میں سب سے پہلے مغربی افکار اور مشرقی دانشوری اور آگہی کے صحت مند عناصر کو تعلیم کا جز بنانے پر زور دیا گیاہے اور اس سلسلہ میں مفید اور کار آمد کوششیں کی گئیں۔اس کالج کی وجہ سے مادری زبان میں تعلیم دینے کا احساس پیدا ہوا اور اسی کالج کی وجہ سے ہندوستانیوں کے فکر اور احساس میں نئی جہت کاآغاز ہوا۔فورٹ ولیم کالج اور فورٹ سینٹ جارج کالج میں داستانوی ادب کے گراں قدر ترجمے ہوتے رہے لیکن دہلی کالج میں پہلی مرتبہ اردو زبان کے وسیلہ سے مغربی علوم‘علم ہیت‘ علم فلسفہ‘علم طبعیات‘ علم کیمیاء‘علم شہریت‘ علم تاریخ‘ علم سیرت‘ علم سوانح اور علم جغرافیہ وغیرہ کی تدریس کا آغاز کیاجس کی وجہ سے نئی علمی آگہی اوردانشوری کاحقیقی باب شروع ہوا۔دہلی کالج نے ان علوم کے ساتھ ساتھ تذکرہ نگاری اور مقالہ نگاری کی طرف توجہ دی جس کی وجہ سے اردو ادب کا خزانہ علمی کتابوں کے ترجمہ کی وجہ سے بیش بہا جواہرات سے مامور ہوگیا۔دہلی کالج نے مختصر سی مدت میں علم تاریخ پر 15 کتابیں‘ طب‘طبعیات اور کیمیاء پر 20 کتابیں‘ریاضیات پر 10 کتابیں‘ قانون پر 10 کتابیں‘ جغرافیہ پر 5 کتابیں‘ علم ہیت پر 3 کتابیں‘ اس کے علاوہ علم سیاسیات‘علم معاشیات‘ صرف و نحو‘ادبیات اور فلسفہ پر مفید کتابیں ترجمہ ہوکر منظر عام پرآگئیں۔ اس طرح دہلی کالج کے توسط سے نئے علوم و فنون کی آگہی کا موقع حاصل ہوگیا‘کیونکہ دہلی کالج نے طالب علموں کی تدریس اور ا ن کی ضرورت کی تکمیل کے لئے باضابطہ طور پر ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی قائم کی تھی اور اس سوسائٹی سے وابستہ افراد میں وہ اساتذرہ تھے جنہوں نے دہلی کالج کی تاریخ کو ہمیشہ کے لئے روشن کردیا۔ ان اساتذہ میں مفتی صدر الدین آزردہ‘ مولوی مملوک علی‘ امام بخش صہبائی‘ سبحان بخش‘ ماسٹر وزیر علی‘ ماسٹر امیر علی‘ ماسٹر رامچندر‘ مولوی ضیاء الدین‘ماسٹر پیارے لال‘ مولوی ذکااللہ اور مولوی احمد علی بطور خاص قابل ذکر ہیں جنہوں نے علوم و فنون کی کتابوں کی اردو میں منتقلی کا کام انجام دے کر دہلی کالج کی خدمات اور اس کے وقار میں اہم اضافہ کیا۔
جس طرح ہندوستان میں اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد انگریز قوم نے ہندوستانی زبانو ں کی ترقی و ترویج پر خصوصی توجہ دی اور دنیا کے مختلف علوم و فنون کو اردو میں منتقل کرنے کے لئے ترجمہ کی روایت کو فروغ دیا۔دہلی کالج کی وجہ سے وجود میں آنے والی علوم عمرانیات کی کتابیں اور ان کی خصوصیات سے انکار نہیں کیاجاسکتا‘لیکن انگریز قوم نے پوری کوشش کی کہ عالمی سطح پر فروغ پانے والے جدید خیالات اورنظریات کو بھی ہندوستان میں مکمل طور پر فروغ دیاجائے۔اس خصوص میں انگریزوں کی حکمت عملی کی تائید کی جانی چاہئیے کہ اس قوم نے علم کو پھیلانے کے معاملہ میں دوسری قوموں کی طرح کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ بلکہ ہندوستان نے اقتدار حاصل کرلیا تو ہندوستان کی سب سے بڑی اور عوامی طور پر مقبول زبان یعنی اردو کے فروغ میں حصہ لیتے ہوئے اس زبان میں علوم و فنون کی تمام جدید خصوصیات کو منتقل کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ جس طرح سے دہلی کالج سے وابستہ ترجمہ نویسوں نے علوم عمرانیات کی کتابیں پیش کیں اور اردوکے علمی ذخیرہ کو مالا مال کیا اسی طرح انگریز عہدیدارکی سفارش پر پنجاب کے علاقہ میں ایک اہم ادارہ ”انجمن پنجاب لاہور کا قیام عمل میں لایا گیاجس کے ذریعہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں کی اشاعت پرتوجہ دیتے ہوئے ایسے مترجمین کی سفارش کی گئی جنہوں نے انجینئرنگ‘میڈیسن‘فارمیسی اور صحت کو قائم رکھنے کے لئے اردو میں ترجمہ کی روایت کو اہمیت دی۔چنانچہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ 1865ء میں ”انجمن پنجاب لاہور“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ ادارہ بیک وقت عربی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی خدمات بھی انجام دینے میں پیش پیش تھا۔