کورونا وائرس
درس واکتساب کے متبادل راستے
پہلی قسط
فاروق طاہر
حیدرآباد۔انڈیا،
,0700122826
کورونا،وبائی مرض کے باعث زندگی کے تمام شعبے حددرجہ متاثر ہوئے ہیں اور سب سے زیاد ہ متاثر ہونے والا تعلیم کاشعبہ ہے۔وبائی مرض کی وجہ سے پیدا شدہ اندیشوں اور خدشات کے اطمینان بخش جواب آج بھی سائنسی علوم کے ماہرین کے پاس موجود نہیں ہیں۔
اندیشوں،خدشات اور مفروضات کے نرغے میں پھنسے انسانی ذہنوں نے اس کا واحداور موثر حل لاک ڈاؤن جان کر دنیا بھر میں کاروبار زندگی پر لگام کس دی اور یک لخت ساری دنیا کو ساکت و جامدکر کے رکھ دیا۔اس کے باوجود وباء کے پھیلاؤ میں آج بھی کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے۔اب لاک ڈاؤن میں نرمی کی جانب حکومت کی پیش قدمی سے مزید اندیشے سر اٹھا نے لگے ہیں۔وباء سے پیدا شدہ تعلیمی بحران و خلاء نے جہاں دنیابھر کے طلبہ کو ناقابل تلافی تعلیمی نقصان سے دوچار کردیاہے وہیں تعلیمی اداروں اور اس سے منسلک افراد بھی غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کی وجہ سے متعدد مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔۔مرض کی شدت اور خوف سے نہ صرف اسکولوں کو بندکردیا گیا بلکہ طلبہ کو اپنے گھروں تک محدود رہنے پر پر مجبور ہونا پڑا۔موجودہ صورت حال میں والدین اور بچوں کا جذباتی و نفسیاتی ہیجان میں مبتلاء ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ملک میں اسکولوں اور تعلیمی ادارجات کی طویل امکانی مسدودی کے پیش نظر تعلیمی نظام میں تیز رفتار تبدیلیوں کو رواج دینا بے حد ضروری ہوچکا ہے تاکہ طلبہ کو درس و اکتساب میں مشغول رکھا جاسکے اور ان کے قیمتی اوقات کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔بیشتر اسکولوں اور تعلیمی ادارہ جات نے کشادگی میں تاخیر کو محسوس کرتے ہوئے ا ورطلبہ کے تعلیمی نقصان کو کم سے کم کرنے کی نیت سے آن لائن طریقہ تعلیم کے ذریعہ درس و تدریس کی سرگرمیوں کو انجام دینا شروع کردیا ہے۔مزیدمتبادل ذرائع و وسائل پرغور وفکر کررہے ہیں۔آج کل پڑھنے اور پڑھانے والوں کی زبانوں پرE-Learning، Virtual Learning، Distance Education، Digital Learning اور Supplemental Learning جیسی اصطلاحات رواں ہیں۔یہ بات جہاں خوش آئند ہے کہ ملک کے بالغ ذہن افراد حالات سے شاکی اور منتظر فردا رہنا کے بجائے مشکل اور غیر یقینی حالات کا بھر پور مقابلہ اور اپنی صلاحیتوں کوعصری تقاضوں کے مطابق بنانے کے عزم و حوصلے کے ساتھ سینہ سپر ہیں وہیں ملک بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی مسدودی کے بعد متعارف کیا جانے والا ای لرننگ یا آن لائن ایجوکیشن سسٹم ٹیکنالوجی سہولیات کی کمی یا فقدان کے باعث تعلیم اداروں اور طلبہ کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے اورسہولیات کی کمی یا فقدان اور غیر مناسب منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ ناقابل عمل اور ناکامی سے دوچار ہورہا ہے۔ طلبہ،اولیائے طلبہ اور ماہرین تعلیم بھی غیر روایتی آن لائن ذریعہ تعلیم پر اپنی ناراضگی اندیشوں اور خدشات کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں کہ یہ سسٹم تعلیمی ضروریات کی تکمیل سے قاصر ہے۔ان اندیشوں اور حالات کے درمیان موجودہ مضمون میں آن لائن طرز تعلیم کی اہمیت، افادیت اور اس کے نقصانات و مضمرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔پہلی قسط میں اس کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ بعد کے مضمون میں اس کی قباحتوں، نقصانات اور مضمرات پر روشنی ڈالی جائے گی۔
آن لائن طریقہ آموزش (سیکھنا) آج کیوں اہم تصور کیا جارہا ہے
کورونا وائرس کے باعث نہ صرف ہمارے ملک بلکہ دنیا کا تعلیمی نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ابنائے وطن کے لئے ہنگامی حالات کا سامنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہنگامی حالات کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اپنے مسائل کا حل کسی نہ کسی طرح نکال ہی لیتے ہیں لیکن اس بارے انھیں مختلف حالات ومسائل کا سامنا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کے لئے لمحہ آزمائش بن کر آئے ہیں۔موجودہ ناگہانی صورت حال نے ہمارے ترقی کے دعووں کی قلعی کو کھول کر رکھ دیا ہے اب ہمیں ٹیکنالوجی اور عصری تقاضوں کے مطابق اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ملک کے ایسے تعلیمی ادارے خاص طور پر اسکولس جو ڈیجیٹل ایجوکیشن سے دولت کی بڑی سرمایہ کاری اور محنت شاقہ کی وجہ سے دوری بنائے ہوئے تھے یا پیچھے رہ گئے تھے اب وہ تعلیمی تسلسل کی برقراری کے لئے متبادل طریقوں کی تلاش و ترتیب میں مشکلات کا سامنا کرر ہے ہیں۔بیشتر تعلیمی ادارے اس وقت گوگل کلاس روم،مائیکروسوفٹ ٹیم،زوم،فیس بک،یوٹیوب اور واٹس ایپ جیسے مختلف وسائل کو آن لائن طریقہ تعلیم کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔مذکورہ وسائل و ٹیکنالوجی نہ صرف جدید بلکہ مفید بھی ہے۔
طلبہ کا روزانہ اسکول آنا جانا، روزمرہ کی اسکولی سرگرمیاں،درس و اکتساب،ہوم ورک،نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں،تفریحی سرگرمیوں سے آراستہ اکتساب و مطالعاتی سرگرمیاں وغیرہ جو طالب علم کی زندگی کے معمولات کااٹوٹ حصہ ہیں۔ لیکن اب آن لائن طریقہ تعلیم کی وجہ سے یہ بری طرح مجروح ہوکر رہ گئے ہیں۔موجودہ صورت حال نے جہاں بچوں کے مطالعہ کے اوقات،کھیل و تفریح کے اوقات اور طلبہ کے شخصی اوقات کو خلط ملط کر دیا ہے وہیں حکومت کے متعین کردہ تعلیمی قواعد،اصول و ضوابط کی پاسداری بھی ناممکن بن گئی ہے۔ان حالات میں جب کہ بچوں کی رسائی اسکول اور کمرے جماعت تک تقریباً ناممکن ہوگئی ہے، مدارس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کے متبادل طریقوں پر عمل پیرا ہوں جس سے بچوں کا تعلیمی نقصان کم سے کم ہواور تعلیمی عمل اور علمی معیار بھی کسی طور متاثر نہ ہونے پائے۔
کمپیوٹر یا اسمارٹ موبائل فون کے اسکرین پرمتحرک تصویر و آواز پر مبنی تعلیم جسے ہم آن لائن یا ورچول لرننگ (مجازی اکتساب) سے تعبیر کرتے ہیں کی اہمیت موجودہ صورت حال میں بہت بڑھ گئی ہے۔ورچول لرننگ (مجازی اکتساب) میں بچوں کے روزمرہ تعلیمی معمولات پر مبنی نظام الاوقات و نظام العمل کی تیاری کو خاص اہمیت حاصل ہے بالخصوص سارا دن گھر پر گزار نے پر مجبور بچے کے لئے جوکبھی ایسے معمولات کے عادی نہیں رہے ہیں۔ورچول لرننگ کے دوران بچوں کو درس و اکتساب میں مصروف رکھنے میں منتخب تعلیمی نصاب اور سرگرمیوں پر مبنی نظام العمل مددگار ثابت ہوتا ہے۔ورچول لرننگ کے نظم العمل پر عمل آوری اور تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کا سارا دارومدار والدین کے ڈسپلن اور نظم و ضبط پر منحصر ہے۔ بچوں میں ڈسپلن کی پاسداری و عمل آوری کا جویاوالدین کے عادات و اطوار سے ازخود پیدا ہوتا ہے۔ ورچول لرننگ کے لئے والدین کو اپنے گھر کے کسی ایک گوشے یا کمرے کو خاص طورپر فلپ کلاس روم کی ہیت دینا ضروری ہوتا ہے۔مقررہ وقت پر ترتیب شدہ اس علامتی کمرۂ جماعت میں بچوں کو باقاعدگی سے بیٹھا کر تعلیمی و اکتسابی عمل کو کامیابی سے ہمکنا ر کیا جاسکتا ہے۔آن لائن لرننگ کی کامیابی کی تمام تر ذمہ داری والدین کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے بچوں کو اوقات کی پابندی کرنے اور دلچسپی و انہماک سے اکتسابی عمل کو جاری رکھنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔خاص طور پر موجودہ حالات میں جب کہ تعلیمی اداروں کی مسدودی سے حقیقی درس و اکتساب کا عمل تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔سخت حالات سخت اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں۔موجود حالات میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے ہمیں نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ حالات کے پیش نظر یہ بات بھی تسلیم کرنی چاہئے کہ اساتذہ کی موجودگی والا کمرۂ جماعت کا محدود درس و اکتساب کاماڈل ہی اب واحد و لازم ذریعہ تعلیم نہیں رہا۔کورونا وائرس جہاں پوری دنیا کے لئے خطرہ بن کر ابھر ا ہے وہیں اس نے ہم اساتذہ اور تعلیم سے وابستہ افراد کی صلاحیتوں کو بھی للکارا ہے کہ ہم کیسے مشکل حالات پر قابو پاتے ہوئے بچوں کو ان کے والدین کی آرزؤں کی تکمیل،تعلیمی توقعات و مقاصد کے حصول میں کیسے مددگار معاون بن سکتے ہیں اور کس طرح ان کی علمی و اکتسابی تشنگی کو دور کر سکتے ہیں۔بے شک ہمارے پاس اعلیٰ معیار کی ٹیکنالوجی،قوت،صلاحیت موجود نہیں ہے لیکن درس واکتساب،پڑھانے پڑھنے اور سیکھنے کا طاقت ور اور لازوال عزم و حوصلہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں ڈیجیٹل وسائل و ذرائع کا محدود علم و سمجھنے رکھنے والے والدین تک اساتذہ اور اسکولوں کی رسائی حاصل کرنے کی بھر پور سعی و کوشش لائق ستائش ہے۔ طلبہ آن لائن کورسز اور اسکول کی جانب سے فراہم کردہ آن لائن کلاسس کے ذریعے اپنے ذوق اکتساب کی تکمیل میں منہمک ہیں بلکہ Ed-Techاورای لرننگ ویب سائٹس کے فراہم کردہ آئن لائن کورسزکے ذریعہ وہ اپنے پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کو معمول کے مطابق انجام دے سکتے ہیں۔
بہرحال ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرناضروری ہے کہ ہر اسکول کے مسائل و وسائل دوسرے اسکولوں سے مختلف و جداگانہ ہوتے ہیں۔ کورونا وبائی مرض کی وجہ سے پائے جانے والے خوف کے درمیان اگر اسکولوں کی کشادگی عمل میں آتی ہے تو سماجی دوری اور حفظان صحت کے طریقوں کی مجوزہ حکمت عملیوں پر عمل آوری یقینا ناممکن امر ہے۔ ان حالات میں آن لائن تعلیمی ماحول اکتساب کے بے مثال مواقع فراہم کرتا ہے خاص طور پر ان لوگوں کو بھی جو مختلف عوامل و حالات کی وجہ سے تعلیم تک محدود رسائی ہی پیدا کر پائے تھے۔موجودہ حالات اساتذہ نیز تعلیمی کاز سے وابستہ افراد سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ جامع،متحرک نصاب و طریقہ تعلیم کو وضع کرتے ہوئے اعلیٰ معیار و مثالیت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
آن لائن اکتساب (سیکھنے)کے فوائد:-
1۔ آسان رساء
ای لرننگ اکتسابی طریقہ کار کے لئے عمدہ رفتار) speed (سے چلنے والا کمپیوٹر،ٹیبلٹ یااسمارٹ فون درکار ہے جو اچھی رفتار کے انٹرنیٹ کنکشن سے مربوط ہو۔ آن لائن کلاسز میں، شرکت اتنی ہی آسان ہے جتنا آسان کسی کمپیوٹر،ٹیبلٹ یا موبائل فون کو کھولنا۔
2۔ بجٹ دوست(کفایتی)
متعدد کورسز اور سیکھنے کے وسائل تک مفت رسائی دستیاب ہے۔آن لائن لرننگ لاک ڈاؤن کے دوران فیس کی ادائیگی یاکسی بھی مالی مسائل سے بالکل نجات فراہم کرتی ہے۔اگر یہ مفت میں دستیاب نہ بھی ہوں تب بھی اس کی فیس بہ نسبت روایتی کمرۂ جماعت والی تدریس کی فیس سے کم واقع ہوئی ہے کیونکہ ورچول لرننگ کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
3۔کورس کے اوقات اوررفتارکومتعین کرنے کااختیار
طلبہ اپنی ذمہ داریوں اور افعال کے مکمل انجام دہی کے ساتھ اپنی آن لائن کلاسس (ای لرننگ) کے اوقات اور اکتساب کی رفتار کو اپنے طورپر متعین کرنے کے مجاز ہوتے ہیں بہ الفاظ دیگر طلبہ اپنے اکتساب عمل کو اپنی سہولت کے مطابق اپنے روز مرہ کی زندگی کے امور کو انجام دیتے ہوئے اپنے منصوبے اور پلان کے مطابق پورا کرسکتے ہیں۔آن لائن طریقہ تعلیم میں طالب علم اپنے اہداف کی تکمیل تک اکتساب کے عمل کوآن لائن لرننگ کے ذریعہ جاری رکھ سکتا ہے اہداف کی حصول اور اکتساب کے لئے اس کے پاس حسب منشاء وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں جہاں اکتسابی اہداف کے حصول کے لئے وقت متعین ہوتا ہے،درس اوراوقات درس بھی اس کی مرضی و منشاء کے مطابق نہیں ہوتے،آن لائن (ای لرننگ) ان دو امور سے مکتسب (لرنر) کو نجات فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قسم کے دباؤ اور تناؤ کا شکار نہیں ہوتا۔
4۔ 24×7دستیاب
اساتذہ اور طلبہ کسی بھی وقت دن یا رات یعنی وقت کے تعین اور قید کے بغیر مطالعاتی مواد کی فراہمی، شکوک و شبہات کے ازالے یا ٹسٹ و جانچ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی سہولت کے مطابق بات چیت کرسکتے ہیں۔ رات اور دن کے کسی بھی وقت تمام طلبہ کی سہولت وآسانی کے مطابق ان امور کو انجام دیا جانا ممکن ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان جھجھک،تذبذب اورخوف کی کیفیت نہیں پائی جاتی جو کہ عموماً روایتی کمرۂ جماعت کا خاصا ہے۔بلاکسی خو ف و تردد اساتذہ اور طلبہ کے درمیان گفت و شنیداور درس واکتساب کا عمل انجام پاتا ہے جس کے وجہ سے ان کے درمیان خوف و تسلط سے پاک تعلقات استوار ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔
5۔مواد کو انفرادی ضروریات کے مطابق تشکیل دیا جاسکتاہے
ای-لرننگ میں طلبہ کو تدریسی، اکتسابی اور نصابی مواد کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق ڈھالنے کی سہولت دستیاب رہتی ہے۔ سیکھنے کے ماحول،اکتسابی مواد(سیکھنے کا مواد)، استاد (جس کی حیثیت ای لرننگ میں ایک سہولت کار (Facilitator)کی ہو تی ہے)اور طالب علم کے درمیان باہمی تعامل و معلومات و نظریات کی ترسیل مکتسب (Learner)کی سہولت اور ترجیحات کے مطابق طئے کرنے کی سہولتیں دستیاب رہتی ہیں۔ یہ سہولتیں طلبہ میں سیکھنے کے عمل کو پرکیف اور دلچسپ بنانے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
6۔ سفر (آنے جانے) کی جھنجھٹ سے نجات
روایتی طریقہ تعلیم کے برعکس ای لرننگ طریقہ تعلیم میں طلبہ حصول علم کے لئے سفری مشقت اور دقتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔جہاں سفر کی دقت اور مشکلات سے ان کی گلو خلاصی ہوجاتی ہے وہیں ان کے قیمتی وقت اور پیسوں کی بچت بھی ہوجاتی ہے۔گھر سے یا کسی بھی مقام سے اپنی اکتسابی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے طلبہ جسمانی تھکاوٹ سے بچ جاتے ہیں۔اپنے سفریا اسکول آنے جانے کے وقت کو مزید مطالعہ و اکتساب پر صرف کرسکتے ہیں۔آنے جانے کی زحمت سے بچنے کے علاوہ ای لرننگ سے وقت،پیسہ اور طلبہ کی توانائی بھی محفوظ ہوجاتی ہے۔
7۔ لچکدار.
آن لائن کورسز طلبہ کو کسی بھی وقت،کہیں بھی،اپنی مرضی کے مطابق تعلیم و اکتساب کی تکمیل کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ طلبہ اپنی اکتسابی سرگرمیوں کواپنے وقت ا ور مقام کے مطابق بغیر کسی وقت وپریشا نی کے اپنی مخصوص منصوبہ بندی کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔یہ اکتسابی لچک روایتی کمرۂ جماعت و طریقہ تعلیم میں مفقود ہے۔ ای لرننگ طریقہ تعلیم میں طلبہ اپنی سہولت کے مطابق اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دینے کے مجاز ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ تعلیم سیکھنے والوں (لرنر) کو نفس مضمون کے انجذاب،انہماک،مشق اور تحقیق کے وافر موقع و وقت فراہم کرتا ہے۔
8۔ارتکاز و انہماک کے لئے آرام دہ اور پرسکون ماحول.
آن لائن کلاسوں میں طلبہ کو روایتی کمرۂ جماعت کے برعکس اپنی پسنداور مرضی کے مطابق آرام دہ اور پرسکون ماحول کی سہولت حاصل رہتی ہے۔کیونکہ اپنی کلاس کے لئے مقام اور جگہ کا ا نتخاب وہ خود کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اردگرد شور وغل اور انہماک و توجہ میں خلل پیدا کرنے والے عناصر نہیں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی پوری توجہ اور ذہنی ارتکاز اکتساب پرکامیابی سے مبذول کرسکتا ہے۔ بہتر سماعت کے لئے یا پھر آس پاس کے شور غل سے بچنے کے لئے وہ ہیڈ فون کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔ کیونکہ درس(بات چیت) آن لائن ہوتا ہے یعنی آسانی سے موضوع سے بھٹکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کرسکتے ہیں جب وہ تر و تاز ہ ہوں۔ توجہ و انہماک کے لئے جو طلبہ جد وجہد کرتے ہیں آن لائن کلاسس ان کیمسئلہ کا ایک بہترین حل ثابت ہوسکتی ہیں۔
9۔ وافر انفرادی توجہ
ہر طالب علم کے ساتھ آن لائن بات چیت کرنے کا اساتذہ کو موقع و اختیار حاصل رہتا ہے اس کے علاوہ کلاس کے بعد بھی راست طور پر ہر طالب علم کو مخصوص امور کی ہدایات، سوالات و مسائل کے حل اور رہنمائی کے استاد کو مواقع دستیاب رہتے ہیں۔روایتی طریقہ تعلیم کے برعکس ای لرننگ میں اساتذہ اپنے پریڈ کو معین وقت پر ختم کرنے کے پابند نہیں ہوتے،نوٹ بکس چیک کرنے،سفری دشواریوں اور دیگر دباؤ و تناؤ سے بھی انھیں نجات حاصل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر طالب علم کی اکتسابی و تعلیمی ضروریات کا خیال رکھنے کے بہتر موقف میں ہوتے ہیں۔
10۔ معاشرتی فاصلے (سماجی دوری)کی پاسداری
سماجی دوری(معاشرتی دوری) اور خود کو الگ تھلک رکھنے کے اصول و ضوابط کے درمیان، اگر طلبہ اسکول جانے لگ جائیں تو مذکورہ حفاظتی و احتیاطی تدابیر پر موثر طریقے سے عمل آوری ناممکن ہوجائے گی۔طلبہ کوکھیلنے یا دیگر سرگرمیوں ں کی انجام دہی کے دوران ایک دوسروں کو چھونے سے روکنا بہت ہی مشکل ہوگا جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے اور صورت حال قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔آن لائن کلاسز طلبہ کو ان کے گھروں تک محدود رکھتے ہوئے آرام دہ،محفوظ ماحول میں معیاری تعلیم فراہم کرسکتے ہیں جس سے نہ صرف طلبہ کا مستقبل بلکہ ان کی جان بھی محفوظ رہے گی اور وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں بھی ہمیں مدد ملے گی۔(جاری ہے)