موسیو وڈوک کی زندگی کےمختلف روپ
صباء ناز – کراچی
زندگی میں ہم اچھے اورباکردار لوگوں کےبارے میں پڑھتےہیں،ان کے بارے میں جانتے ہیں،ان کی زندگی سے کچھ اچھا سیکھنےکی کوشش کرتےہیں،مگر کبھی غلط یا جرائم پیشہ لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتے نہ ان سے زندگی میں کچھ سیکھنا پسند کرتےہیں-
کیونکہ ان کے عمال ہمیں ان سے دور رہنے پر مجبور کرتےہیں،یہی وجہ ہے ہم ایسے لوگوں کو کچھ نہ سمجھتےہوئےان سے دور رہتے ہیں ،لیکن کبھی کبھی غلط کام کرنےوالوں کو بھی اچھے کام لیےاستعمال کیاجاسکتاہے-
موسیو فران کوئس ایوجن وڈوک ایک چور، دھوکے باز، دغا باز، پولیس مخبر اور مجرموں کی بازیابی میں مہارت کا حامل تھا- 1777ء میں اراس میں پیدا ہوا، بیکری کےایک مالک کا بیٹا، 14برس کی عمر میں فوج میں شمولیت اختیار کرلی- مزاج کی تندہی اور تیزی نےجلد ہی اسکے لیے مصائب کھڑے کردیے- للی کےمقام پر وہ دھوکا دہی کا مرتکب ہوا،اس پر مقدمہ چلایا گیا،8 برس کی عمر میں قید بامشقت کی سزا سنائی گئی-2مرتبہ جیل سے فرار ہونےکی کوشش کی،دونوں مرتبہ گرفتار ہوا-تیسری مرتبہ جیل سے فرار ہوکر پیرس پہنچ کر زیر زمین چلا گیا-
وہ ہر قسم کےمجرموں کی رفاقت میں رہا،کئی ایک مجرموں سےقریبی تعلقات استوار ہوئے،ان کےہمراہ وہ کئی وارداتوں میں شریک ہوا-اس نے وارداتیں سرانجام دینےکے مختلف طریقے اور تدابیر بھی سیکھیں- اس کے ساتھی مجرم اسے جرائم کی مختلف داستانیں سناتے- لہذا وہ ہر اقسام کے جرم کا چلتا پھرتا انسائکلوپیڈیا بن چکا تھا-اس وقت اس کی عمر صرف 20 سال تھی-32برس کی عمر میں اس نے پولیس سے رابطہ کرکے ان سے سودے بازی کی- کہ اگر اس کے ساتھ معافی کا وعدہ کیاجائےتو وہ پولیس کا مخبر بننے کوتیار تھا- مزےدار بات یہ تھی کہ وہ پولیس کے ہتھے دوبارہ چڑھ چکا تھااور اسکو زبردستی پولیس کا مخبر بننے پر مجبور کیاگیاتھا اور وعدہ کیا گیا،کہ اسے نیک چال چلن کےمظاہرے اور ضمانت پر معافی سے نوازا جائے گا- وڈ وک ایک کامیاب مخبر ثابت ہوا- جرائم کی دنیا کے بارے میں وہ اس قد ر علم حاصل کر چکا تھا کہ اس کےلیے پولیس کو سیدھی راہ پر ڈالنا قطعا” مشکل نہ تھا- اس کی ہر مخبری نتیجہ خیز ثابت ہوتی- اور پولیس کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی- لیکن اس کام میں بھی اس کی دھوکہ دہی شامل تھی،وہ بذات خود جرائم کی منصوبہ بندی کرتا، ان منصوبوں کو اپنے ساتھیوں تک پہنچاتااور انہیں ان منصوبوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتا، مابعد پولیس کو مخبری کر دیتا- چونکہ و ڈو ک کا کام دھوکہ دہی کی بنیاد پر تھا لہذا وہ تادیر نہ چل سکا – بطور پولیس مخبر اسے اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا- اس کی زندگی کا اگلا دور حقیقی کوشش کا دور تھا،جو اس نے اپنے آپ کو سدھارنے اور سیدھی راہ پر چلانے کے ضمن میں سر انجام دی- اس کی والدہ نے اسے کاغذ کی تیاری کاکاروبار شروع کروا دیا- اس نے منصوبہ بنایا کہ وہ اپنے مجرم ساتھیوں کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کرے گا – لیکن اس نے لاتعداد مجرموں کی مخبری کی تھی، جسکی وجہ سے وہ اس کےخون کے پیاسے ہوگئے تھے- لہذا وہ کاروبار پر توجہ مرکوز نہ کر پایا اور ناکام ہوگیا-
وڈوک نے پھر ارادہ کیا، وہ جرائم کی دنیا کے بارے میں اپنا علم کیش کروائے، اسے مجرمانہ علوم کےبارے میں وسیع تر تجربہ اور علم حاصل تھا- اس بار اس کی تجویز میں ایسے مرکزی بیوروکا قیام شامل تھا، جو خصوصی تحقیق و تفتیش سرانجام دینے کا اہل ہو،ایک ایسا بیورو جس کے پاس جانے پہچانے مجرموں کی فہرست موجود ہو،وڈ وک سے بہتر کون شخص ہوسکتا تھا جو ایسی فہرست تیار کرے؟وہ مجرموں کی زیر زمین دنیا کا فرد رہ چکا تھا،اس دنیا کےبارے میں مکمل معلومات رکھتا تھا،وہ نہ صرف مجرموں کےناموں سےآگاہ تھابلکہ ان کےٹھکانوں اور طریقہ واردات سے بھی بخوبی آگاہ تھا، وہ کسی بھی نئے جرم کی تٖفصیلات کا مطالعہ کرنے کےبعد فورا” یہ انکشاف کر سکتاتھا کہ یہ جرم کس نے سرانجام دیا تھااور پورے یقین سے کہہ سکتاتھا ” یہ جرم فلاں فلاں مجرم نےسرانجام دیا ہے”
بطور پولیس مخبر بھی وہ اپنی صلاحیتوں کالوہا منوا چکاتھا- ہر مخبری درست ثابت ہوچکی تھی،اس کے بعد اس نے سراغ رساں مجرموں کےحالات زندگی کامطالعہ کرنا شروع کیا- وڈوک اس میدان کا جد امجد تھا-مجرموں کی تحقیق و تفتیش کا کام سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں کیا گیا تھا، یہ بھی محسوس نہیں کیا گیا تھا، کہ ہر مجرم اپنی طرز پر مجرمانہ سرگرمیاں سرانجام دینےکا عادی ہوتا ہے،ایک مرتبہ وہ پھر پولیس سروس میں شامل ہوچکاتھا- اس مرتبہ اس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی- کہ وہ اپنا تجویز کردہ محکمہ استوار کرے- اس نے حقیقی جوش،جذبےاور ولولےکےساتھ اپنے آپ کو اس کام میں لگایا- اس کویہ اختیار بھی دیاگیا،کہ وہ اپنی معاونت کےلیےاپنےساتھیوں کا انتخاب کرسکتاتھا- اگر وہ مجرموں کو پیرول پر رہاکرواتے ہوئےانہیں اپنی معاونت کے لیےبھرتی کرے گا تو ان کےکنٹرول کی تمام ذمہ داری اس پرعائد ہوگی، وڈ وک کو یہ ذمہ داری سونپنےکےضمن میں کچھ اہلکار مخالفانہ رویے کے حامل تھے- وہ وڈ وک کو اس اہم ذمہ داری کےقابل نہ سمجھتےتھےلیکن ایم ہینری پیرس پولیس کے فوجداری محکمے کا سربراہ وڈ وک کے حق میں تھا- وڈ وک کے بھرتی کردہ ایجینٹوں کو بھی نتائج کےاعتبار سےادائیگی کی جانی تھی،ہر ایک گرفتاری کےعوض فیس کی ادائیگی- اس کےعلاوہ انہیں رہائش اورمحدود الاؤنس بھی ادا کیاجانا تھا- وڈ وک نے منظم انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا- اس نےمابعد قسم کھاتےہوئےیہ انکشاف کیاکہ اس نے جان بوجھ کر ان افراد کی بھرتی کی تھی،جو انتہائی مجرمانہ ریکارڈ کے حامل تھے، اکثر ان کےذمہ ایسےکام لگائے، جن کی انجام دہی میں کافی زیادہ رقم بھی ملوث ہوتی تھی” لیکن کسی بھی فرد واحد نے میرے اعتماد کو دھوکا نہ دیاتھا”مزید براں نیامحکمہ کامیابی سےہمکنار ہوا-ایک رات وڈ وک نے31 مطلوب ملزمان کو گرفتار کیااور ان کو جیل کی سلاخوں کےپیچھے ڈال دیا گیا- پولیس کےمحکمےمیں اپنی اس دوسری ملازمت کے دوران اس نےغیر معمولی جدوجہد سرانجام دی-اس کی یہ ملازمت تادیر چلتی رہی، بالآخر یہ بھی اپنےاختتام کوپہنچ گئی- بعد میں وڈ وک نے ایک” پرائیویٹ تفتیشی ایجنٹ” کےطور پر کام شروع کیا- اس نےجرائم پر حساس کہانیاں بھی تحریر کیں اور اشاعت کا بندوبست کیا-
اس نے”پرائیویٹ تفتیشی ایجنٹ” کے طور پر ان تھک محنت کی- تفتیش سرانجام دینے کے سائنسی طریقہ جات متعارف کروائے- انگلیوں کے نشانات کی نوعیت کا مطالعہ سرانجام دیا- وہ اپنی مہارت کے بل پر جلد ہی مجرموں کا سراغ لگا لیاکرتاتھا-
70 سال کی عمر میں و ڈوک نے اپنی سوانح حیات کی اشاعت کا منصوبہ بنایا – اس سوانح حیات کی چھ جلد یں تھیں – اس کےبعد اس نے نمائش کا اہتمام کیا- یہ ایک عجیب و غریب اور انوکھی نمائش تھی ، اس جیسی نمائش اس سےبیشتر منظر عام پر نہیں آئی تھی،وہ سراغ رساں سے نمائش کنندہ بن چکا تھا- اس نے فرانس سے کئی ایک نمائشی اشاء بذ ریعہ بحری جہاز منگوائیں اوراٹلی، فرانس اور دیگر ممالک سے پینٹینگز جمع کیں- اس نمائش میں جرائم اور مجرموں کی کئی ایک یاد گاریں پیش کی گئیں- اس نمائش میں مختلف ہتھیار،ہتھکڑیاں اور تشدد کےآلات بھی نمائش کے لیے پیش کیےگئےتھے- وڈ وک کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے جب تک انسان خود سے خود کو بدلنےکا سچے دل اور سچی نیت سے ارادہ نہ کرے، اسے کوئی بدل نہیں سکتا- اور جب تک انسان کو اپنے اندر کی صلا حیتوں کو آزادانہ طور پر باہر لانے کےموا قعے فراہم نہ کیے جائیں – نہ وہ اپنی زندگی سے اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو اپنی ذات سے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے –