ڈاکٹرسید اسلام الدین مجاہد
988 5210770
اجتماعی زندگی پر کورونا کے اثرات
کورونا کی عالمی وباء نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں وہیں اجتماعی زندگی بھی اس جان لیوا مر ض کے پھیلنے سے کافی متا ثر ہو ئی ہے۔ کورونا کی قہر سا ما نی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس بیماری نے پوری دنیا میں سماجی زندگی کے وہ سارے اصول اُ لٹ کر رکھ دئے جس پر ایک زما نہ دراز سے عمل کیا جارہا ہے۔
سیاسیات کے بانی ارسطو نے تو یہ دعویٰ کر دیا تھا کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ اگر انسان سماجی زندگی سے کتراتا ہے تو اس کے بقول وہ فرد، فرشتہ ہوسکتا ہے یا شیطان لیکن اس کا شمار ہرگز انسانوں میں نہیں ہوسکتا ہے۔ بعد کے ما ہرین ِ سماجیات و نفسیات نے بھی ارسطو جیسے فلسفیوں کے با توں کی تصدیق کی۔ آج بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسان، سماج میں ہو نے والے لاکھ اختلافات اور کشید گیوں کے با وجود، سماج سے کٹ کر رہنا نہیں چا ہتا۔ خَلوت پسندی انسان کی سر شت میں نہیں ہے۔ وہ اپنوں سے ناراض ہو کر کچھ دن اکیلا رہ سکتا ہے لیکن جب تنہا یاں کاٹ کھانے لگتی ہے تو پھر سماجی زندگی کی طرف رخ کر تا ہے۔ زندگی کی رعنا ئیوں کا مزہ سماجی میل ملاپ میں ہے ورنہ زندگی بے کیف اور بے رنگ ہو جا تی ہے۔ زمانہ قد یم میں جہاں وقت گذاری کے ذرائع بہت کم تھے گاؤں میں چوپال کا نظم قا ئم تھا، جہاں لوگ بیٹھہ کر گھنٹوں دنیا کے معاملات پر گفتگو کر تے۔ جب دنیا نے تر قی کر لی تو کاروبارِ حیات نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور تو کر دیا لیکن پھر بھی آ پسی رابطہ ٹو ٹا نہیں، وقت بے وقت ملاقاتیں ہو تی رہیں اور اجتماعی مسائل پر بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔ اب تو انفار میشن ٹکنالو جی کے دور میں انسانوں کے در میان فاصلے ختم ہوگئے۔ محض انگلیوں کی حرکت سے انسان اپنے گھر کے کسی حصہ میں رہ کر بھی دنیا سے اپنا رابطہ قا ئم رکھ سکتا ہے۔ انٹر نیٹ اور دیگر سو شیل میڈیا کے ذرائع کے عام ہونے کے بعد انسان کو وہ ساری سہولتیں حاصل ہوگئیں جو اس کی تفر یحِ طبع کے لئے نا گزیر ہیں۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ ان ذرائع کا استعمال کس حد تک صیحیح ہو رہا ہے اور اس کو غلط طور پر استعمال کر نے سے انسانی سماج کس قدر بحران کا شکار ہو رہا ہے۔ سماجی زندگی کے اس تانے بانے کو کو رونا کے قہر نے جس انداز میں توڑ کر رکھ دیا ہے اب اس کو جوڑ نے میں شا ید کئی دہے لگ جا ئیں گے۔کورونا سے پہلے کی زندگی میں جو رو نقیں تھیں ان ساری رونقوں کا حصول اب انسان کے بس میں نہیں رہا۔ سماج میں جو گہما گہمی کورونا سے پہلے دیکھی جا تی تھی اب وہ دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے۔ جب سے کورونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے انسانی زندگی پر غیر یقینی لمحات کا سایہ بڑ ھتا جا رہا ہے۔ ہر طرف موت کا خوف طاری ہے۔ یہ بیماری بھی بڑی عجیب ہے۔ یہ نہ غریب کو دیکھتی ہے اور نہ امیر کو۔اس کا شکار ضعیف بھی ہو رہے ہیں اور شِیر خوار بچے بھی۔ ایسی خبریں بھی آ ئیں کہ جو اپنے گھروں میں بند تھے وہ بھی کورونا کے چنگل میں آ گئے۔ حکو متیں، اس وباء کو روکنے میں ناکام ہو گئیں۔ اب بھی کورونا سے مر نے والوں کی تعداد میں کو ئی غیر معمولی کمی نہیں آ ئی۔ یہ مرض متعدی نہ ہونے کے با و جود دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ دنیا میں اس سے پہلے بھی آ فاتِ سماوی آ ئے، بہت سارے امراض کا بھی انسان نے مقا بلہ کیا لیکن کورونا نے جس طریقے سے پوری دنیا کو حواس با ختہ کر کے رکھ دیا، ایسی نازک صورت حال سے انسان شا ید پہلی مر تبہ گذر رہا ہے جہاں کورونا کے مشتبہ مر یض کے پاس جا نے سے بھی انسان گھبرر رہا ہے کہ کہیں وہ بھی اس کا شکار نہ ہو جا ئے۔
کورونا وائرس کی وحشت کو اجتماعی زندگی میں اگر گلے لگا کر رکھا جا ئے گا تو اس سے سماجی زندگی میں نا امیدوں کا وہ سیلاب امنڈ آ ئے گا کہ انسان زندگی سے ہی ہا تھ دھو بیٹھے گا۔ سماجی زندگی کو اپنی سا بقہ رفتار پر لا نے کے لئے انسان کو بتا نا پڑ ے گا کہ کارخانہء حیات میں ایسے حادثے آ تے رہتے ہیں۔ زندگی میں نشیب و فراز کا آ نا فطرت کا تقا ضا ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔ ان آزما ئشوں اور مصیبتوں سے نکلنے کی راہیں تلاش کر نے میں ہی زندگی کا راز پنہاں ہے۔ غیر یقینی اور دشوار گذار حالات میں ہی حسین خواب دیکھنا، زندگی کو خوش گوار بناتا ہے۔ امیدوں کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جا ئے تو انسان کے لئے دنیا میں رہتا ہی کیا ہے۔ اسی لئے کہا جا تا ہے کہ امید پر دنیا قا ئم ہے۔ آج کورونا وائرس نے انسانوں کو اپنے گھروں میں محصور کر کر کے رکھ دیا۔ ابھی رمضان کا مقدس مہینہ ختم ہوا۔ مسلمانوں نے پورا مہینہ گھر میں قید ہو کر گذارا۔ نمازیں گھر میں پڑ ھیں، ترا و یح کا اہتمام گھروں میں کیا گیا، جمعہ کی نمازیں بھی گھر میں پڑ ھی گئیں۔ حتی کہ عید کی نماز بھی گھروں میں ادا کی۔ پوری اسلامی تاریخ میں شا ید یہ پہلا رمضان ہو گا جو مسلمانوں نے اس طرح گذارا۔ اس کے کچھ مثبت اثرات بھی سا منے آئے۔ مسجدوں کی رونق کم ہو ئی لیکن مسلمانوں کے گھر قرآن ِ مجید کی تلاوت سے گو نج اُٹھے۔ گھر وں میں پا نچ وقت با جماعت نمازیں ادا کی گئیں۔ چھوٹے بچوں کی امامت میں بڑوں نے نمازِ تراویح پڑ ھی۔ مصروفیاتِ زندگی میں کمی کے نتیجے میں اپنے غریب رشتہ داروں، دوست احباب پر نظر پڑی اور ان کی مدد کا جذ بہ دلوں میں پیدا ہوا۔ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیئے حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نا فذ کر دیا۔ اس 60,65روزہ لاک ڈاؤن کے دوران خدمت خلق کے جذ بہ سے سر شار نوجوانوں نے محتاجوں، مزدوروں، غریبوں کی جس انداز میں مدد کی وہ تاریخ کا ایک روشن باب بن گیا۔ دنیا کے ہر ملک میں رضاکار تنظیموں نے حکومتوں سے زیادہ لوگوں کی مدد کر کے بتا دیا کہ اب بھی انسانیت زندہ ہے۔ ہمارے ملک میں جب کہ حکومت نے بغیر کسی تیاری کے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اور راتوں رات اسے نا فذ بھی کر دیا اس نا عا قبت اندیش فیصلہ سے لاکھوں مزدور پریشان ہو گئے۔ مہاجر مزدوروں کے لئے فاقہ کشی کے سوا کو ئی را ستہ با قی نہ رہا۔ ایسے کٹھن وقت انسا نیت کے ہمدرد میدان میں آ کر جو فلاحی خدمات انجام دئے ہیں اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کورونا کی ماہا ماری نے جہاں انسانی معاشرے میں بہت سارے مسائل پیدا کئے وہیں اس بیماری نے انسا نوں کے ضمیر کو جگا نے کا بھی کام کیا۔ کتنے ہی نو جوان رات کے اندھیرے میں ان لوگوں کی مدد کے لئے نکل پڑے جن کا اس دنیا میں کو ئی نہیں ہے۔ ایسی خبریں بھی عام ہو ئیں کہ کورونا سے مر نے والوں کی آ خری رسومات ادا کر نے کے لئے جب ان کے راشتہ دار رضامند نہیں ہو ئے تو دوسروں نے اس فرض کو نبھایا۔ کتنے ہی مسلم نو جوانوں نے ہندوؤں کا انتم سنسکار کیا۔ کئی ہندو بھا یؤں نے بھی مصیبت کے وقت مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ اجتماعی زندگی میں کورونا کے ان مثبت اثرات کو زائل ہو نے سے بچانے کی بیحد ضرورت ہے۔ اس کے لئے سماجی زندگی میں آ پسی بھا ئی چارہ کو جتنا زیادہ فروغ دیا جا ئے گا، سماج سے تناؤ اور کشیدگی ختم ہو گی۔ ہمارے ملک میں کورونا کو بھی مذ ہبی رنگ دینے کی منظم انداز میں کو شش کی گئی۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع کو بنیاد بنا کر یہ باور کرا یا گیا کہ اسی اجتماع کی وجہ سے ہندوستان کورونا کی لپیٹ میں آ یا۔ میڈیا نے بھی اس میں اپنا پورا کمال دکھا یا۔ ہندوستان، وہ واحد ملک رہا جس نے ایک مر ض کو ایک طبقہ سے جوڑ دیا۔ لیکن بہت جلد دنیا جان گئی کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ انتشار پسند قوتوں کو اپنے مذ موم عزائم میں کا میابی نہیں ملی۔ انسا نیت کے مثبت پہلو کا دنیا نے مشاہدہ کیا۔
انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی امید کی جو کرن آزمائش کے اس وقت نظر آرہی ہے اس کی لَو کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا نے اگرچکہ اجتماعی زندگی کو بیجا اند یشوں کا شکار کر دیا ہے۔ بہت سارے لوگ اس عالمی وباء سے اتنے خوف زدہ ہیں کہ اپنے عزیز ترین رشتہ داروں اور دوست احباب کی خیر خیریت سے بھی غافل ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کسی کی خریت پو چھتے ہی کہیں وہ ان کے گھر مہمان بن کر نہ آجائے۔معاشرتی زندگی میں اس ابتری کا آ جانا ایک نئی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال حیدرآباد کا وہ دلخراش واقعہ ہے کہ رمضان کے جمعتہ الوداع کے دن ایک مسلمان کو دِل کا دورہ پڑ تا ہے اور اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔ مر حوم کے فر زند اپنے والد کی تد فین کے لئے شہر کے پانچ قبر ستانوں کے ذ مہ داروں سے رجوع ہو تے ہیں لیکن کو ئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میت کی
تد فین ان کے قبرستان میں ہو۔ شہر میں لاک ڈاؤن کا ماحول، جن کے گھر میت ہو ئی ان کا شہر میں کو ئی رشتہ دار نہیں، اُ ن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وقف بورڈ سے کیسے معا ملے کو رجوع کر یں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہندو بھا یؤں نے پیشکش کی کہ مر حوم کو ہندو شمشان گھاٹ میں دفنانے کی اجازت دی جا تی ہے اور با لاخر ایک مسلم میت کو ان کے لوا حقین نے بادل نا خواستہ ہندوؤں کے شمشان گھاٹ میں دفن کر دیا۔ بظاہر یہ ایک بد بختانہ وا قعہ ہے لیکن اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ مسلم معاشرہ کس اخلاقی اور دینی گراوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ حیدرآ باد جہاں بیسیوں دینی اور ملی جما عتیں، بے شمار دینی مدارس، جہاں علماء و فضلاء کی کمی نہیں اور جہاں مسلمانوں کا سیا سی دبد بہ بھی ملک کے تمام علاقوں سے بہت کچھ زیادہ ہے۔ ایسے شہر میں ایک مسلمان کو دفن ہو نے کے لئے پانچ گز زمین نہیں مل سکتی ہے تو یہ ہمارے لئے ایک لمحہِ فکر ہے۔ قبرستانون کے یہ رکھوالے کس طرح سے اس پر قا بض ہو کر دنیا کمارہے ہیں اس پر کو ئی جرات مندی کے ساتھ بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کورونا کے بعد بے ضمیری کے وا قعات اور بڑ ھتے جا ئیں گے۔ اس لئے کہ بعض مجاروں کا کاروبار قبروں کو بیچنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ معا ملہ صرف مسلم میت کی تد فین کا نہیں ہے۔ کورونا کی اس وباء نے ہمارے سماج میں در آ ئی خرا بیوں پر سے پردہ اُ ٹھا یا ہے۔ انسانی بحران کے اس وقت بہت ساری تلخ حقیقتیں بھی منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔ کورونا کے مرض سے آ ج نہیں تو کل چھٹکارا مل جا ئے گا لیکن اجتماعی زندگی میں جو ڈرار آ گئی ہے اس کا قلع قمع کیسے کیا جا ئے یہ اس وقت کا اہم سوال ہے۔ کیا انسانی سماج کو بیماری کا ڈر بیٹھا کر مز ید اسے کھو کھلا کر دیا جائے یا اس جان لیوا وباء کوایک چیلنج کے طور پر قبول کر تے ہو ئے اُ س سے نمٹنے کا عزم و حو صلہ انسا نوں میں پیدا کیا جائے تا کہ سماجی زندگی کو اطمینان اور سکون میسر ہو سکے۔ اس وقت پوری دنیا بشمول ہمارا ملک کورونا کے قہر سے دوچار ہے۔ انسان کی نجی زندگی بڑی پریشان کُن ہو چکی ہے۔ ان نا مساعد حالات میں کورونا کے منفی اثرات سے انسانوں کو بچانا، انسا نیت کی اس وقت بہترین خدمت ہو گی۔ ایسے ماحول میں جہاں خوف و ہراس ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑ ھتا جا رہا ہے امید کے دیئے روشن کر نے ضرورت ہے۔ معاشرہ سے یاس و حسرت کو ختم کر کے جینے کا ایک نیا حو صلہ پیدا کر نا وقت کا تقا ضا ہے۔ دنیا کے سا منے اس حقیقت کوبیان کر نا بھی ضروری ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ کا تبِ تقدیر کی مر ضی کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔اسی یقینِ کامل کو اجتماعی زندگی کا اصول بنا یا جا ئے تو انسانیت اس مرض سے نجات پا سکتی ہے اور اجتماعی زندگی میں نا امیدی کی پر چھا ئیاں ختم ہوں گی اور اجتماعی زندگی میں ایک نکھار آ جائے گا۔ اگر کورونا کی وجہ سے ہماری زندگی ماند پڑ جائے تو اس کا مضر اثر ہماری آنے والی نسلوں پر بھی پڑے گا۔ اس لئے ایک نئی امنگ کے ساتھ جینے کا فیصلہ کر ناہو گا۔