مثالی استاذ
حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب ؒ
شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند
امانت علی قاسمی
ؔ استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
پچیس رمضان المبارکﷺ(۱۴۴۱ھ) صبح سات بجے یہ اندوہناک خبر ملی کہ عالم اسلام کی ہر دلعزیز شخصیت، علم و عمل کی پاکیزہ روایت کے امین حضرت الاستاذ،حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحبؒ اب ہمارے درمیان نہیں رہے(انا للہ و انا الیہ راجعون)،
کئی دنوں سے تشویش کی خبریں آرہی تھیں، تاہم اس خبر کے لیے دل و دماغ بالکل آمادہ نہیں تھا؛لیکن تقدیر کے سامنے کس کی چلتی ہے، موت سے کس کو رستگاری ہے، میرے یا مجھ جیسے ہزاروں کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے، قانون قدرت ہر آن اور ہر حال اپنا کام کرتی ہے، اور قدرت جس چیز کی مصلحت سے واقف ہے انسان اس کی تہہ تک نہیں جاسکتا ہے، ہر شخص کے آنے اور جانے کا وقت متعین ہے اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوسکتی ہے، کسی کی موت کے وقت کو دنیا کا کوئی ماہر ڈاکٹر نہیں ٹال سکتا ہے،اس لیے نہ چاہنے اور دل کے نہ ماننے کے باوجود بھی اس خبر کا یقین کرنا پڑا۔
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اورکس قدر مجبور ہے
جانے والے جاتے ہیں، آئے دن موت کی خبریں آتی ہیں، لیکن جسم و اعصاب پر اوردل و دماغ پر، بسا اوقات کسی کے جانے کی خبر سے جنبش بھی نہیں ہوتی؛لیکن جانے والوں کی فہرست میں کبھی ایسے نام آجاتے ہیں، جن کے جانے کا غم او ر درد سہا نہیں جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی جگہ اگر میری موت مقدرہوتی تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا،مفتی صاحب کی وفات کا رنج و غم صرف اس لیے نہیں ہے کہ آپ میرے استاذ تھے، صرف اس لیے تکلیف نہیں ہوئی کہ مجھے آپ سے محبت تھی؛ بلکہ آپ کے منوں ٹن مٹی کے نیچے چلے جانے کا افسوس اس لیے بھی ہے کہ آپ دارالعلوم دیوبند کی زینت تھے، چمنستان قاسمی میں آپ سے رونق تھی، آپ کے عالم آخرت کے سفر پر چلے جانے کا غم،اندوہناک اس لیے بھی ہے کہ آپ علماء دیوبند کے ترجمان تھے، علوم نانوتویؒ کی توضیح و تشریح کرنے والے تھے،آپ کی وفات کی خبر دل پر بجلی بن کر اس لیے گری کہ آپ دارالعلوم کی مسند تدریس کی شان تھے،فکر ولی اللہی کے امین و محافظ تھے، آپ کی رحلت کا افسوس اس لیے بھی ہے کہ آپ علم حدیث کے نیر تاباں تھے، آپ سے دارالعلوم کی درس گاہ میں تابانی تھی۔سچ پوچھئے تویہ بھرتی کے الفاظ نہیں ہیں، مبالغہ آمیزی نہیں ہے، الفاظ کی ہیراپھیری نہیں ہے، تعبیرات کی کرشمہ سازی نہیں ہے؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مشکل حالات میں آپ امت کے لیے سرمایہ تھے، جس وقت کہ باطل قرآن وحدیث کی بے جا تاویلیں کررہا ہے،حدیث کی من گھڑت تشریح کررہاہے ان حالات میں آپ امت کے لیے نسخہ شفاء تھے، قوم کے دردِ دل کی دوا تھے، آپ کو کھو کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے بحر بیکراں کو کھو دیا ہو، آپ سے بچھڑ کر لگتا ہے کہ کشتی اپنے ناخدا سے بچھڑ گئی ہے۔ سچ پوچھئے تو آپ کے جانے سے پوری قاسمی برادری سوگوار ہوگئی، ملت کے ہر طبقہ نے شدید کرب محسوس کیا، دارالعلوم کے بام و در وہاں کے چمن و انجمن،گنبد ومینارے، سڑک اور راستے، دارالحدیث کی مسند،مسجد رشید کا اسٹیج ہر ایک نے خاموشی سے تنہا ئی اور خلوت میں درد و کرب کا اظہار کیا ہے،یہ بھی سچ ہے کہ آپ اس وقت دارالعلوم کے گنجہائے گراں مایہ اور چمنستان قاسمی کے گل سرسبد تھے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں
حضرت مفتی صاحبؒ کی شخصیت،علمی شخصیت تھی، آپ تقریر،تحریر اور تدریس تینوں فنون میں ممتاز تھے، سب میں نمایاں تھے، آپ کی تقریریں علمی ہواکرتی تھیں لیکن انداز اور طریقہ اس قدر سہل ہوتا کہ عوام و خواص ہر ایک یکساں مستفید ہوتے تھے، ہندوستان میں عام جلسوں میں آپ نہیں جایا کرتے تھے، اسی طرح ایام تعلیم میں اسفار سے مکمل گریز کیا کرتے تھے، لیکن جس پروگرام یا سیمینار میں آپ تشریف فرما ہوتے وہ اس کانفرنس کی قسمت اور اس کے معیار کی ضمانت ہوا کرتی تھی، جس پروگرام میں آپ ہوتے اس کے میر محفل ہوا کرتے تھے، اور سب سے اہم او رفیصلہ کن خطاب آپ کا ہوا کرتا تھا،دارالعلوم کے ہر اجلاس میں آپ کا خطاب ہوتا تھا، انعامی جلسہ میں آپ کے خطاب کی حلاوت اور ایک ہی مضمون کو ہر سال ایک نئے پیرہن میں بیان کرنے کی دل آویز ادا کبھی نہیں بھول سکتا ہوں، آپ کا انداز تقلیدی نہیں اجتہادی تھا، آپ کا لب و لہجہ منفرد تھا،آپ علمی باتوں کو جس سہل پیرائے میں بیان کیا کرتے تھے وہ آپ کا حصہ تھا بقول ڈاکٹرکلیم عاجزؒ
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
مفتی صاحبؒ کو تقریر کے علاوہ تحریر میں بھی بے پناہ ملکہ حاصل تھا،آپ کی کتابیں نئے اسلوب کے ساتھ تسہیل و ترتیب کا حیرت انگیز شاہ کار ہیں، ماضی قریب میں حضرت مولانا قاری صدیق صاحب باندویؒ کو اللہ تعالی نے تسہیل کے فن سے نوازا تھا آپ نے مشکل کتابوں کو تسہیل کے پیرہن میں ڈال کر امت پر بڑا احسان کیا ہے، حضرت قاری صاحب ؒ کے بعد اس میدان کی دوسری شخصیت میری نظرمیں مفتی صاحب ؒکی ہے، آپ نے مختلف فنون کی مشکل کتابوں کی شرح اور تسہیل و ترتیب کا کام کیا ہے، اور مشکل کتابیں آپ کی تشریح و توضیح سے آسان ہوگئی ہیں، درس نظامی کی کتابوں میں کافیہ مشکل ترین کتاب مانی جاتی ہے آپ نے ہادیہ لکھ کر اس کے ثقل کو ختم کردیا، فن منطق میں تہذیب دقیق ترین کتاب سمجھی جاتی ہے آپ نے مفتاح التہذیب لکھ کر اس کے بوجھ کو کم کردیا۔اسی طرح شرح مأۃ عامل کی شرح مفتاح العوامل، فلسفہ میں معین الفلسفہ،طحاوی کتاب الطہارت کا خلاصہ زبدۃ الطحاوی لکھ کر موجودہ وقت میں طالبین علوم نبوت کے لیے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی حجۃ اللہ البالغہ جو اسرار شریعت پر مایہ ناز تالیف ہے، آپ نے رحمۃ اللہ الواسعۃ لکھ کر شاہ صاحب کے علوم و افکار سے استفادہ کو آسان بنادیا۔ آپ نے حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی ؒ کے علوم و افکار جس کا سمجھنا اور پڑھنا اس دور میں مشکل کام ہوگیا ہے اس کی تشریح و توضیح کا بڑا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
تقریری و تحریری خوبیوں کے علاوہ مفتی صاحبؒ کا اصل امتیاز آپ کی تدریس ہے، آپ رجال ساز تھے،آپ باکمال او ربے مثال مدرس تھے، تدریس کے باب میں آپ نے کسی کی تقلید نہیں کی تھی؛بلکہ ایک نئے انداز کی آپ نے طرح ڈالی تھی، اس لیے کہنا چاہیے کہ آپ امام تدریس تھے، مجدد تدریس تھے، آپ کا سبق بہت مقبول ہوا کرتاتھا، اور آپ نے درس کو ہر چیز پر ترجیح دی تھی،درس و تدریس آپ کامحبوب ترین مشغلہ تھا، غیر حاضری کا آپ کے یہاں تصور نہیں تھا، او رنہ ہی دیر حاضر ی کا، آپ کے آنے سے پہلے تمام طلبہ کا درس میں حاضر ہونا ضروری تھا، آپ کے آنے کے بعد کسی کو درسگا ہ میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں تھی اگر کسی نے ایسی غلطی کی تو اس کا خمیازہ تمام طلبہ کو جھیلنا ہوتا تھا،مفتی صاحب اس اصول کی خلاف ورزی پر سبق موقوف کر کے ناراض ہوکر گھر چلے جاتے تھے،تمام طلبہ کو مفتی صاحب کا یہ مزاج معلوم تھا۔
مجھے مفتی صاحب سے ترمذی شریف اور طحاوی شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ دس سالہ زمانہ تعلیم میں کون سی کتاب ہے جس میں ایک دن کی غیر حاضری نہیں ہے تو میرا جواب ہوگا کہ ترمذی شریف میں ایک بھی غیر حاضری نہیں ہوئی،اسی زمانہ میں دارالعلوم وقف دیوبند میں محدث عصر حضرت مولانا انظر شاہ صاحب کشمیری ؒکے درس بخاری کا بڑا چرچا رہتا تھا،ان کا عالمانہ اور فاضلانہ درس ہوا کرتا تھا، ہفتم کے سال ختم بخاری کی ایک مجلس میں شریک ہوچکا تھا شاہ صاحبؒ کا خطیبانہ انداز اور محققانہ درس واقعی مسحور کن ہوا کرتا تھاآپ ابن حجرؒ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے؛بلکہ درس بخاری میں شاید سب سے زیادہ نقد ابن حجر پر ہی کیا کرتے تھے، دورہ حدیث کے سال تمنا ہوتی تھی کہ شاہ صاحب کے درس بخاری میں شریک ہوسکوں لیکن مفتی صاحب کے درس کی عظمت اس قدر دل میں پیوست تھی کہ ا ن کاسبق چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوال ہی نہیں تھا،ہاں جمعہ میں مغرب کے بعد اگر مفتی صاحب تشریف نہیں لاتے تو کبھی کبھی شاہ صاحب ؒکے درس تک رسائی ہوجاتی تھی۔
مفتی صاحب کے درس ترمذی کاانداز بڑا نرالا تھا، حدیث کی تشریح پس منظر کے ساتھ اس طرح بیان کرتے تھے کہ تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، بہت سی باتیں خود بخو د حل ہوجاتی تھیں،آپ مذاہب ائمہ کے اختلاف میں اس پر ضرور روشنی ڈالتے تھے کہ یہ اختلاف نص فہمی کی بنا پر ہوا ہے یا دلائل میں اختلاف کی بنا پر اس سے بڑا اطمینان ہوتا تھا،مفتی صاحب کے سمجھانے اور بیان کرنے کاانداز نرالا تھااور انداز میں اس قدر ٹھہراو تھا کہ ہمارے ساتھیوں میں نوے فیصد آپ کی تقریر کو بآسانی لکھ لیا کرتے تھے؛ بلکہ بعض صاحب ذوق تو مفتی صابؒ کی تقریر کو عربی میں قلم بند کرلیتے تھے، اور مفتی صاحب کے یہاں دلائل کی بہت زیادہ فراوانی نہیں ہوتی تھی، لیکن حدیث کی ایسی فقہی تشریح کرتے تھے کہ احناف کا مسلک بہت مضبوط انداز میں نمایاں ہوجاتا تھا، بعض مرتبہ صرف احناف کے دلائل بیان کرتے تھے اور فرماتے شوافع کے دلائل انہی سے معلوم کرلو میں کیوں بیان کروں۔مفتی صاحب کی زندگی میں علم و عمل کا بڑا توازن تھا، درس سے آپ کو غایت درجہ محبت تھی، سبق کا تسلسل اوروقت کی بڑی قدروقیمت تھی اور ان سب پر مستزاد آپ کا خلوص، آپ کی پاکیزہ زندگی تھی جس نے آپ کے درس کو حد درجہ مقبول بنادیا تھا۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
آپ کی بعض باتیں آج بھی دل کی انگھوٹی میں نگینے کی طرح سجی ہوئی ہیں اور حسین یادوں کی طرح بسی ہوئی ہیں، آپ مطالعہ کے بہت عادی تھے،آپ نے مطالعہ کو اپنی زندگی کی غذا بنایا تھا لیکن صرف مطالعہ کی بنا پر سبق پڑھانے کے قائل نہیں تھے؛ بلکہ آپ کی رائے تھی کہ مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کو ذہن کے خانوں میں ترتیب دیناضروری ہے اس سے تفہیم کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، آپ کا نظریہ تھا کہ کسی کتاب کو پڑھانے کے لیے شروحات کا مطالعہ کافی نہیں ہے؛بلکہ کسی کتاب کا پڑھانے کے لیے اس فن کو پڑھنا ضروری ہے، جب آدمی فن کو پڑھ لیتا ہے تو اس کے لیے اس فن کی کسی کتاب کو پڑھانا آسان ہوجاتا ہے، آپ کا نظریہ یہ تھاکہ متون کو حفظ کرنے کا اہتمام کیا جائے اس سے فن میں درک پیدا ہوتا ہے،دارالعلوم دیوبند میں معین المدرسین کا ایک شعبہ تھا لیکن مفتی صاحب اس کے خلاف تھے ان کا نظریہ تھا کہ فن کی ابتدائی کتابیں وہ پڑھائے جس نے فن پڑھ رکھا ہو، فراغت کے بعد جو معین مدرس ہوجاتے ہیں وہ بچوں پر تجربہ کرتے ہیں ان کا مطالعہ فن کا نہیں ہوتا ہے وہ شروحات دیکھ کر پڑھاتے ہیں اس لیے طلبہ کو اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔، آپ نے گو بہت سی اردو شروحات لکھی ہیں؛ اس لیے کہ طلبہ میں عربی شروحات کو سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جارہی ہے لیکن آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ سو سال بھی اردو شروحات پڑھتا رہے ا س کو علم نہیں آئے گا۔ آپ کہتے تھے کہ طلبہ کے تین درجات ہیں اعلی صلاحیت،ادنی اور متوسط، اعلی صلاحیت کے طلبہ کو فراغت کے بعد فورا تدریس میں لگ جانا چاہیے،تکمیلات میں رہ کر اپنی صلاحیت ضائع نہیں کرنی چاہیے، اور متوسط طلبہ کو تکمیلات میں رہ کر اپنی کمزوری کی اصلاح کرنی چاہیے اور کمزور طلبہ کو خدمت خلق کے میدان میں لگ جانا چاہیے اور اپنے دین کے تحفظ کے لیے ایک سال کے لیے جماعت میں چلے جانا چاہیے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ طلبہ دو طرح کے ہیں ایک جو اپنے لیے پڑھتے ہیں اور ایک ماں باپ کے لیے پڑھتے ہیں، ماں باپ کے لیے جو پڑھنے کے لیے مدارس میں آتے ہیں وہ پڑتے ہیں پڑھتے نہیں ہیں، یعنی صرف پڑے رہتے ہیں اس لیے طلبہ کو ماں باپ کے لیے نہیں اپنے لیے پڑھنا چاہیے۔
فراغت کے بعد بھی مفتی صاحب سے گاہے بہ گاہے ملاقات ہوتی تھی، آپ کی مجلس عام طور پر علمی مجلس ہوا کرتی تھی، آپ کبھی کبھی دارالعلوم حیدرآباد میں ختم بخاری کے لیے تشریف لاتے تھے، اسی طرح جمعیۃ علماء کے مباحث فقہیہ میں بھی آپ تشریف لاتے تھے وہاں آپ کو دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر بڑی خوشی ہوتی تھی،کبھی کبھی شوال میں بھی دیوبند میں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تھا، مفتی صاحب اپنے قریبی شاگردوں کو ہدیہ وغیرہ بھی دیا کرتے تھے، بعض مرتبہ کوئی کتاب ہدیہ میں پیش کی جاتی تو اس پر انعام سے بھی نوازتے تھے، ایک مرتبہ میں اپنی کتاب ”امام ابوحنیفہ سوانح و افکار“ لے کر مفتی صاحب کی خدمت میں گیا، مفتی صاحب بہت دیر تک اس کے مختلف اوراق کو پڑھتے رہے اور اخیر میں فرمایا”تمہاری اردو اچھی ہے“یہ جملہ صرف حوصلہ افزائی کے لیے تھا، میں نے محسوس کیا ہے یہ میرے لیے بہت بڑا انعام ہے،شاید ہزار روپیے سے مجھے وہ خوشی نہ ملتی جتنی مفتی صاحبؒ کے اس ایک جملے سے ہوئی تھی، مفتی صاحب سے آخری ملاقات تین ماہ قبل ہوئی تھی، مفتی اشتیاق احمد صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند سے ملاقات ہوگئی کہنے لگے کہ مفتی صاحب کے پاس جارہا ہوں تم بھی چلو تعزیت ہوجائے گی، اس وقت مفتی صاحب اپنے سمدھی کے انتقال کے بعد ممبئی سے تشریف لائے تھے اور اسی دن واپسی ہوئی تھی، اس دن کافی دیر تک آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا،بارش ہورہی تھی اس لیے مغرب کی نماز بھی آپ کے گھر میں پڑھی، دارالعلوم کے بعض اساتذہ بھی تشریف فرماتھے اس موقع پر مفتی صاحب نے فرمایا میں نے اپنا بھائی کھو دیا۔یہ آخری ملاقات تھی کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ثابت ہوگی۔
آخری بات لکھ کر مضمون ختم کرتا ہوں، مفتی صاحب کی زندگی کی اہم بات یہ ہے کہ آپ نے فراغت کے بعد حفظ کیا تھا اس لیے کہ مفتی صاحب سمجھتے تھے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن کا حفظ ہونا ضروری ہے، اسی طرح آپ کی اہلیہ محترمہ نے شادی کے بعد حفظ کیا تھا، پھر امی جان نے اپنے تمام بیٹوں بیٹیوں کو اسی طرح تمام بہوؤں کو اور تمام پوتوں کو حافظ بنانے کا اہتمام کیا تھا،گویا کہ حفظ قرآن کے تعلق سے”این خانہ ہمہ آفتاب است“کا مصداق ہے۔
مقبول جو ہوں شاذ ہیں،قابل تو بہت ہیں
آئینہ کے مانند ہیں کم دل تو بہت ہیں