ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا
الوداع – – – مجتبیٰ حسین
ڈاکٹر گلِ رعنا
اسسٹنٹ پروفیسر
تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد
تجھ بن تیرا شہر ویران بہت ہے
گلی چپ ہے بازار سنسان بہت ہے
تیری صدائیں ہیں چار سو بکھری ہوئی
تیری تلاش میں نگاہ پریشان بہت ہے
قضا کی آندھی اپنے ساتھ کبھی کبھی ایسے بیش قیمت گوہر رول کے لے جاتی ہے جو صرف انمول ہی نہیں ہوتے بلکہ شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتے ہیں اور نعم البدل کے طور پر رنج و ملال سے بھرے اشکوں کے موتی ہماری آنکھوں میں چھوڑ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک آندھی، 27/ مئی 2020ء کو آئی اور اپنے ساتھ ایک ایسا گوہر نایاب رول کے لے گئی کہ اس جیسا دوسرا شائد ہی پھر ملے۔ افسوس، ایک بلند پایہ طنز و مزاح نگار اپنے مداحوں کو داغ مفارقت دے گئے جو اپنی ذات میں ایک ادارہ، ایک انجمن تھے جن کی شخصیت انسانیت کی مظہر تھی، وضع داری جن کا خاصہ، رواداری جن کا چلن، خلوص جن کا شیوہ، کرم فرمائی جن کی عادت تھی، جن کے قلم میں بے پناہ روانی تھی۔ جن کے موضوعات جدا، طرز انوکھی، فکر نرالی، اسلوب اچھوتا، سوچ میں جدت، خیال میں ندرت، جن کے ہاں خیالات کا ایک سیل رواں تھا جن کا ہر موضوع اور نظریہ جواں تھا۔ جنہوں نے مجبور کی مجبوری، مظلوم کی مظلومی اور بے بس کی بے بسی کو اسی شدت سے محسوس کیا تھا جس شدت سے انہوں نے سماج کی بے راہ روی، بربریت اور ظلم و نا انصافی، تہذیب کے شیرازے کا بکھرنا اور سماج کی بنیادوں کا ڈگمگانا اور لڑ کھڑانا دیکھا تھا۔ جن کے نزدیک عصر حاضر میں انسان کی ہنسی ایک المیہ اور قہقہہ ایک ایڈوینچر سے کم نہ تھا۔ وہ لفظوں کے فسوں گر، قہقہوں کے سوداگر، رفاقتوں کے پاسدار، جمیع احباب کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ بقول رضا نقوی واہیؔ:
بخشا ہے جس نے ظرافت کو اعتبار
ہے مجتبیٰ حسین وہ طناز خوش خصال
مضمون جو بھی آئے قلم کی گرفت میں
ابلاغ بے نظیر ہوترسیل بے مثال
جو بات کی خدا کی قسم، لاجواب کی
انشائیہ نگاری میں دکھلادیا کمال
پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی
آیا کسی کی خاکہ نگاری کا جب خیال
فنکار کے علاوہ وہ یاروں کا یار ہے
دل اس کا ہے خلوص و محبت سے مالا مال
واہیؔ کی ہے دعا کہ ظرافت کا یہ سفر
عمر دراز پائے، فن اس کا ہو لازوال
ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ مجتبیٰ حسین کا فن لازوال ہے اور وہ یقینا ایک بے مثال قلم کار اور بلند پایہ ادیب تھے۔ انہوں نے معاشرتی، سماجی، سیاسی اور گھریلو مسائل کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا، ان کی تحریروں میں گہرا شعور ملتا ہے۔ روانی اور سلاست ان کے قلم کی خصوصیت رہی، انہوں نے برسوں مسلسل لکھا اور تسلسل کو منقطع ہونے نہیں دیا۔ جب انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا تو مختصر عرصے بعد خود دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ گویا صحت مند ادب کی ترسیل ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ ذو معنی الفاظ کے استعمال سے تحریر کو دل کش بنانے کا ہنر ان کے قلم میں تھا۔
انہوں نے تلخ حقائق کا اظہار بڑی نفاست سے کیا ہے۔ جب وہ تہذیب کی زبوں حالی کا شکوہ کرتے ہوئے رنجیدہ ہوکر طنز کرتے ہیں تو اسلوب کی لطافت اور چاشنی طنز کی ساری کڑواہٹ کو گوارہ بنادیتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ خود کا مذاق اڑایا ہے لیکن دوسروں کی ہجو نہیں کی۔ خود پر ہنسنا ان کی وسیع القلبی کی دلیل ہے۔ اپنی تحریروں میں وہ ہمیشہ اردو زبان و ادب کے ماحول کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ حیدرآباد اور گلبرگہ سے وابستگی کا اظہار اکثر تحریروں میں پڑھنے کو ملا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
زندہ دلی اور بذلہ سنجی کے حوالے سے مجتبیٰ حسین اور ان کی تحریریں دونوں ہی ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ کئی موقعوں پر تو مجتبیٰ حسین سچے غموں کی حدوں کو پھلانگ کر تلخیوں اور تیزابیت والے باب کو بند کر کے باشعور قہقہہ لگانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے زندہ رہنے والے آرٹ کی آبیاری کی ہے۔ افسوس وہ فنکار ہمارے درمیان نہیں رہا جس نے ہمیشہ ہنسی اور کرب کو گڈمڈ کر کے پیش کیا۔ طنز و ظرافت کا یہی حسین امتزاج مجتبیٰ حسین کی شناخت بن گیا۔ انہوں نے طنز و مزاح کی آڑ میں قوم کی اصلاح کرنی چاہی۔ بعض تحریروں میں انسانوں اور جانوروں کے تقابل کے ذریعہ اپنی دروں بینی کا ثبوت دیتے ہیں جس کے بغیر نہ تو فن کی تخلیق ممکن ہے اور نہ فنکار کی تکمیل۔ مجتبیٰ حسین کے نزدیک ہنسی کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ ہنسی کو ایک مقدس فریضہ مانتے ہیں۔ یہ احساس دلاتے ہیں کہ انسان کی زندگی غموں کا مجموعہ سہی لیکن اسے ہنسنا چاہیے کیونکہ خوش طبعی مقاصد کے حصول میں خضر راہ کا کردار نبھاتی ہے۔
مجتبیٰ حسین کے ہاں موضوعات میں تنوع ہے۔ وہ کبھی پہلے گریجویٹ درویش کا قصہ سناتے ہیں تو کبھی اپنی بے مکانی کا ذکر کرتے ہیں، کبھی ان کی نظریں ریل منتری پر پڑتی ہیں تو کبھی ان کی آنکھیں رکشہ والے کی بے بسی پر نم ہوجاتی ہیں۔ کبھی وہ دنیا کے غفوروں کو ایک ہوجانے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی کتوں کو انسان سے خبردار رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ وہ ڈائرکٹر کے کتے کا حال بھی سناتے ہیں اور دیمکوں کی ملکہ سے گفتگو بھی، ڈاکٹروں کے ناز بھی اٹھاتے ہیں اور اپنے نوکر کی نازبرداریاں بھی سہتے ہیں۔ مرزا غالب کی پریس کانفرنس بھی کرواتے ہیں اور اس دور میں حاتم طائی کو بھی یاد کرتے ہیں۔ غرض چار مینار کے میناروں سے لے کر چینی ایش ٹرے تک کو انہوں نے موضوع بنایا ہے۔
مجتبیٰ حسین نے کبھی موضوعات نہیں تلاشے، ایسا لگتا ہے کہ موضوعات قطار باندھے ان کے سامنے کھڑے ہیں، مجتبیٰ حسین کے پاس موضوع خود چل کر آتا ہے۔ یہ بھی ان کا کمال ہے کہ وہ وموضوع کو ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دیتے بلکہ اسے اپنی انگلی پکڑوا کے چلاتے ہیں۔ ان کا فن ہر دل عزیز ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ تو ”عصر“ سے ٹکرلی اور نہ ”ہم عصروں“ سے ٹکرانے کی کوشش کی۔ ان کا فن پاکیزہ ہے۔ دکھاوا، حسد، رقابت یا بازی لے جانے کے جذبات سے عاری بے حد شفاف بھی ہے۔ اس شفافیت میں وہ مقناطیسیت ہے جو پڑھنے والے کو اپنی جانب کھنچے چلے آنے پر مجبور کردیتی ہے۔ پھر ”داد“ کے انبار لگ جاتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے کبھی داد کے ان ”ٹیلوں“ پر چڑھ کر نہ تو دوسروں پر کنکریاں ماری ہیں اور نہ ہی اپنی بادشاہت کا اعلان کیا ہے۔ مزاج کی سادگی، فکر کی گہرائی، اسلوب کی ظرافت، بیان کی بے ساختگی، خیال کی متانت، لہجے کی سلاست، اظہار کی برجستگی اور بے تکلفی نے ان کے فن کو معراج بخشی ہے۔
ان کے ہاں بذلہ سنجی اور شوخی جابجا ملتی ہے، ان کا بیان فرحت بخش ہے۔ ان کی تحریر میں رگِ ظرافت کے پھڑکنے کا ثبوت جابجا ملتا ہے۔ انہوں نے ذو معنی الفاظ اور کہاوتوں کے استعمال سے برجستہ مزاح پیدا کیا ہے۔ جب ایک عام آدمی کے درد بھرے احساس کو مجتبیٰ حسین فنکاری کے ساتھ پیش کرتے ہیں تو ایک باشعور قہقہے کے پیچھے چھپی محرومیوں اور نا آسودگیوں کی جھلک نظر آتی ہے، ان کی تحریروں میں فکر کا پہلو نمایاں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجتبیٰ حسین کسی مسئلے پر قلم اٹھانے سے پہلے اس کے اسباب و محرکات کا بھرپور جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی ہر تحریر زندگی اور اس کے مسائل سے مربوط ہے۔ انہوں نے انسانوں کی الجھنوں اور مسائل کو نہ صرف پرکھا بلکہ اس کا ظریفانہ اظہار بھی کیا ہے۔ ان کے فن کا مقصد تہذیب و ثقافت کی پاسداری اور اس کی حفاظت ہے۔ اکثر تحریروں میں اقدار کی پامالی پر وہ مایوس نظر آتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کی خستہ حالی انہیں بار بار جھنجھوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔
مضمون ”چار مینار اور چار سو برس“ میں انہوں نے دم توڑتی ہوئی تہذیب کی زبوں حالی پر دو آنسو گرانے کی بجائے بھرپور اور کاٹ دار طنز کیا ہے۔ لکھا ہے
”پہلے حیدرآبادی تہذیب آدمی کے کردار سے جھلکتی تھی۔ اب اس کی ڈکار سے جھلکتی ہے۔“
مجتبیٰ حسین ایک بے غرض اور بے لوث انسان تھے۔ وہ وقت کے جتنے بڑے نباض تھے اتنے ہی عظیم کسی شخصیت کے عکاس تھے۔ اپنے خاکوں میں انہوں نے ”شخص“ کاکم اور ”شخصیت“ کا سراپا زیادہ بیان کیا ہے۔ وہ اپنے مخصوص اندازِ بیان اور اچھوتے اسلوب کے ذریعہ کسی شخصیت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ اس کی تہہ در تہہ شخصیت قاری کے آگے کھلی کتاب بن جاتی ہے اور قاری ایک زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے شائستہ اور صحت مند مزاح کا جابجا استعمال کیا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتے ان کی تحریر میں جھلاہٹ کی گنجائش نہیں ہے وہ طنز سے کام ضرور لیتے ہیں لیکن اس طرح نہیں کہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہوں۔ ان کے طنز میں بھی شائستگی اور مزاح کا عنصر غالب رہتا ہے۔ وہ مختلف ممالک کی تہذیبوں کا موازنہ ہندوستانی تہذیب سے کر کے اپنے ہم وطنوں کی خامیوں اور کوتاہیوں کی جانب نہ صرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ افسوس کا اظہار بھی ان کے ہاں ملتا ہے۔ مجتبیٰ حسین کی تحریریں اردو طنز و مزاح کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
مجتبیٰ حسین کو جہاں مداحوں نے سراہا وہیں ان کی مخالفتیں بھی ہوئیں لیکن اس عظیم صاحب طرز ادیب کی عظمت کو سلام کہ جس نے مخالفتوں کے باوجود اپنے مشن پر قائم رہنے کو ترجیح دی اور لکھتے رہے۔ حکومت ہند نے انہیں باوقار اعزاز ”پد م شری“ سے نوازا لیکن شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج انہوں نے ”پدم شری“ واپس کردینے کا اعلان کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے عملی طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ
”نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ“
مجتبیٰ حسین نے کہا تھا جس دن انسان ہنسی کی تقدیس اور پاکیزگی کو سمجھ لے گا اور جس دن ہر انسان کو اس کے حصے کے قہقہے مل جائیں گے اس دن یہ دنیا جنت بن جائے گی۔ مجتبیٰ حسین نے دنیا کو جنت بنانے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے دنیا کو ہمیشہ غم اور آنسو سے دور دیکھنا چاہا۔ کہتے ہیں
”میں ان آنسوؤں کو آنے والی صدیوں کا حصہ بننے نہیں دینا چاہتا۔ میں ماضی کے انسانوں کے آنسوؤں اور آنے والی صدیوں کے انسان کی آنکھوں کے درمیان ایک حد فاصل بننا چاہتا ہوں۔ اس لیے جب بستر سے اٹھتا ہوں اپنے آپ کو تاریخ کا ایک نیا باب سمجھنے لگتا ہوں۔“
لیکن 27/ مئی 2020کو بستر سے ایسے اٹھے کہ ادب کی تاریخ کا ایک باب ہی بند کردیا۔ انہوں نے ادبی سفر کے دوران اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ قہقہے کے پیچھے سے انسان کی ہنسی آنسو بن کر نہ ٹپکے۔ افسوس، ایسے ہمدرد، روشن خیال اور طرح دار ادیب کو ہم نے کھودیا۔ لیکن ایک بات تو طئے ہے کہ ہنس ہنس کے اپنی آہوں کی چھپائے رکھنے والے مجتبیٰ حسین اپنی تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور قاری کو قہقہے جیسے ایڈوینچر کی جانب مائل کرتے رہیں گے۔
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے
٭٭٭