شوال کے چھ روزوں کی فضیلت واہمیت
محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپور
اللہ عزوجل اپنے بندوں پر ہر آن مہر بان ہے،اپنی رحمتیں،نعمتیں بر ساتا رہتا ہے۔وہ بڑا کریم ہے کہ اس نے رمضان المبارک جیسا بابرکت مہینہ ہمیں عطا کیا۔روزہ،تلاوت قرآن،نوافل،صدقات وخیرات کی توفیق عطا فر مائی۔ اور ہمارے رزق میں وسعت وبرکت عطا فر مائی۔
جس کے سبب مسلمانوں کے اندر انسانی ہمدر دی اور غم خواری کے جذبات بیدار ہوئے ۔اس پر ہم اپنے مولیٰ کے بے حد شکر گزار ہیں۔ اس کا اظہار نماز عید الفطرمیں سجدہ شکر ادا کر کے کرتے ہیں۔
آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ نماز شکرانہ وہی ادا کرتاہے جس نے نعمت کی قدر کی ہو۔ خاص طورسے رمضان المبارک کی بر کتوں کو سمیٹا ہو۔عید کا دن اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار کا اچھا موقع ہے۔لیکن کسی مسلمان کا دل نہیں دکھانا چاہیے ۔ عمدہ لباس پہننا ،عمدہ غذائیں کھانا ،خوشیاں بانٹنا آج کے دن کی زینت میں سے ہے۔اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ساتھ ہی اپنے ان مسلمان بھائیوں اور پڑوسیوں کا خیال بھی کرنا چاہیے صدقہ فطر اور عیدی کے ذریعے۔تاکہ وہ بھی آپ کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔
آقا کریم ﷺ نے اللہ کی نعمتوں کے اظہار کے متعلق فر مایا:
’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اَن یَری اَثَر نِعْمَتہ علٰی عَبْدِہِ‘‘۔(جامع الترمذی،حدیث نمبر2819)
ترجمہ: اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا چاہتا ہے۔
*شوال کے چھ روزوں کی بہت فضیلت آئی ہے*۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے شوال کے چھ روزے رکھے، جس میں فضل عظیم اور بہت بڑا اجرو ثواب ہے،کیونکہ جو شخص بھی رمضا ن المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال المکرم میں بھی چھ روزے رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزے کا اجر وثواب لکھا جاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر مایا:’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ اَتْبَعَہُ سِتَّا مِنْ شَوَّالِ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔(صحیح مسلم: حدیث،2758،کتاب الصیام،باب استجاب صوم ستۃ ایام من شوال)
تر جمہ: جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تویہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔
واضح رہے کہ شوال کے چھ روزے رمضا ن ا لمبا رک کے روزوں کے ساتھ مشروط ہیں ،یعنی رمضان کے ساتھ زوال کے بھی چھ روزے رکھے جائیں تب پورے زمانے کا ثواب ملے گا۔ ایسا نہیں کہ رمضان کے روزے نہیں رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھ لیے تو پورے زمانے کا ثواب ملے گا؟بلکہ رمضان کے بھی روزے رکھے پھر شوال کے رکھے۔تب یہ سعادت حاصل ہوگی۔
ایک دوسری حدیث پاک میںحضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے،:
’’سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّّہِ صَلّّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یََقُوْلُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَسِتًّا مِنْ شَوَّالِ فَکَاَ نّّمَا صَامَ السَّنَۃَ کُلَّھَا۔
تر جمہ: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فر ماتے سنا: جس نے رمضان المبارک کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو’’ پور ے زمانے کے روزے‘‘ اور دوسری حدیث میں ’’پورے سال کے روزے‘‘ رکھنے کے مانند قرار دیا گیا ہے۔ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنادیا جاتاہے۔ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے ،توایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں۔اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہو جا تے ہیں،گو یا رمضان اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہو جاتا ہے۔
مذکورہ حدیث سے واضح طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے پورے سال کے روزوں کا ثواب پا لیا۔نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ ر مضان المبارک کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تویہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو۔ لہٰذاہمیں ایسی فضیلت حاصل کرنے کی کوشش کر نی چاہیے۔
شوال کے چھے روزے جائز اور مستحب ہیں۔ فرض و واجب نہیں۔ ان نفلی روزوں کو رکھیں تو اجرو ثواب حاصل ہو گا، لیکن اگر کوئی نہ رکھے تو برا بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک مسلمان کا ہر عمل نبی کریم ﷺکی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق ہو نا چاہیے۔
’’ *رحمت حق ــ بہانہ می جو ید*‘‘۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بہت مہر بان ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بندوں کو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔بندہ نفلی عبادات بجا لاتا ہے ۔بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ کی پسند آتی ہیں اور بندے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ نیکیاں کرتے رہیں۔
اللہ عزوجل نے انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا فرمایااور اللہ کی نبی ﷺ نے عبادت کے طریقے بتا ئے۔ فرائض و واجبات تو ہر حال میں ادا کر نا ہے ۔نہ کر نے پر سخت عذاب کی وعیدیں ہیں۔ اس کے علا وہ نفلی عبادات اورذکر الٰہی سے اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے۔ذکر واذکار سے غم دور ہوتے ہیں۔ پریشا نیاں ختم ہوتی ہیں۔ان انعامات کے بعد اللہ کی محبت اور اس کی ہیبت دل میں جا گزیں ہوتی ہے۔دل کو تاز گی اور سکون ملتا ہے ۔دل کا زنگ اتر جا تا ہے ۔اللہ کی عبادت سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ‘‘۔(سورہ رعد13،آیت نمبر28)
تر جمہ: وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(کنزالایمان)
اللہ کے ذکر سے دلوں کوطبعی سکون و قرارحاصل ہوتا ہے۔ کثرت سے اللہ کی عبادت کر نے والوں ،والیوں کے لیے رب کائنات نے بخشش کے ساتھ اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ار شاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ *فَاِذَافَرَغْتَ فَا نْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ*۔
تر جمہ: تو جب نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو۔اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔(کنز الایمان) روزہ تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہے اس سے انسان کو اللہ عزوجل کی بے شمار رحمتیں ،نعمتیں نصیب ہو تی ہیں۔ شوال کے چھ روزوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گنا ہوں سے ایسا نکل گیا، جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(المعجم الاوسط ،حدیث8622 ،بحوالہ بہار شریعت حصہ پنجم،ص1013)
لہٰذاہمیں چاہیے کہ ان فضیلتوں والے روزے رکھا کریں۔خاص طور سے شوال کے چھ روزوں کو رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ عزوجل کی یقینا رحمتیںنازل فر مائے گا۔ اللہ عزوجل ہمیںفرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کر نے کی تو فیق عطا فرمائے،آمین۔
——
رابطہ:09386379632,
,
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر
کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020