رمضان شریف اور عید کا چاند
محمدقمرانجم قادری فیضی
قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک میں یہ دستور چلا آرہا ہے کہ ہرقوم کا ایک خاص دن ہوتاہے جس دن وہ بہتر سے بہتر خوراک اور عمدہ سے عمدہ لباس زیب تن کرکے پوری شان وشوکت کے ساتھ کسی مخصوص جگہ پر جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور ملاقاتیں کرتے اور شاید اسی میل جول کی وجہ سے یہ محفلیں، تہوار کہلاتی ہیں،
یہ محفلیں دراصل انسانوں کی بڑی اہم ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، خدائے تعالیٰ نے ہر انسان کی ضرورت کو دوسرے انسانوں سے وابستہ کردیا ہے اور ایک شخص کی ضرورت کو دوسرے سے جوڑ دیاہے جب یہ دونوں آدمی اس قسم کی محفلوں میلوں تہواروں میں جمع ہوتے ہیں تو ہر ایک شخص اپنی ضرورت کی چیز دوسرے سے خرید لیتاہے اور اسی طرح انسانوں کے لئے باہمی ترقی راہیں کھلتی ہیں اور ہر ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتاہے، یہ تہوار سال بھر میں ایک بار ہی آتاہے اور میلے بھی کہیں کہیں ہفتہ وار لگتے ہیں، اگر ان سب محفلوں میلوں میں غور کریں تو ان کا مقصد صرف مادی ترقی اور گوشت وپوست کے جسم کو پالنا اور پرورش کرنا ہوتاہے اب تک اگر محفلیں یا میلے کسی مقدس جگہ یا مقصد کے تحت لگتے تھے تو کچھ میلے دونوں جہاں کے پالن ہار خدائے تعالیٰ کے نام پر، اور اسکی یاد کے لئے، اور اگر اب تک دنیا کا سازوسامان لاکر فروخت کیا جاتا تھا تواب کچھ میلے انسانیت، شرافت، امانت ودیانت، بلند اخلاق وکردارکا لین دین، اور اس کی سَپلائی کیلئے بھی لگاکریں، اب تک اگر دنیاکے عیش وعشرت کی رنگ رلیوں میں آکر کمزوروں، ناتوانوں، مجبوروں، بیسہاروں پرظلم وستم ڈھاتے تھے، تو کچھ خدائے تعالی کے بندے ایسے بھی ہوں جو سرور ومستی میں بھی غریبوں اور ضرورتمندوں کی خبر گیری کریں، اس اہم مقصدکے لئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو سال میں دوبار عید منانے کاحکم دیا اور کھانے پینے خوشی منانیکو ضروری قرار دیا، حتی کہ اگر کوئی ان دو دنوں میں کھانا پینا چھوڑ دے اور روزہ رکھ لے تو وہ سخت گناہ گارہوگا، اور فرمایاکہ عیدکے دن صبح سویرے اٹھو، غسل کرو، اور اپنے کپڑوں میں سے بہتر کپڑے پہنو، اور خوشی ومسرت کا اظہار کرو، غریبوں محتاجوں، ضرورت مندوں کی خبر گیری کرو، ان کی ضرورتیں پوری کرو، لوگ اپنی عیدوں تہواروں کے موقع پر غروروتکبر کرتے ہیں، مگرتم زمین وآسمان کی تمام طاقتوں کو ہیچ سمجھ کر ہر جگہ صرف تن تنہا خدائے تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور اسکی طاقت و قوت کی آوازلگاؤ، گھر سے نکلتے ہوئے بھی اور عیدگاہ جاتے ہوئے بھی، حتی کہ باربار نماز کے اندر بھی اور بعد میں بھی اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے، لوگو ایسے موقعوں پر فخر کیاکرتے ہیں ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہم ایسے اورہم ویسے مگر تم اعلان کردو، "وللہ الحمد” تمام خوبیاں تمام تعریفیں صرف تن تنہا خدائے تعالیٰ کے لئے ہے، اورلوگ اپنے تہواروں میں گردن اٹھا کر، اکڑ اکڑ کہ سینہ تان کر اتراتے پھرتیہیں، مگر تم گردن جھکائے، نظریں نیچی کئے ہوئے تمام کیتمام، کیا امیر کیا غریب، کیا بادشاہ اور کیا فقیر سب ایک ساتھ خدائے تعالیٰ کے سامنے سجدوں میں گر جاؤ، لوگ اپنے قبیلوں میں ناچ گانا کھیل کود لہو ولعب کرتے اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر تم انسانیت وشرافت، تقوی ودیانت کا مظاہرہ کرو، پھر اسکے بعد سب اکٹھے بیٹھ کر اپنے پیدا کرنیوالے اور پالنے والے رب کا احکام وہدایات سنو اور پھر پورے وقاروسنجیدگی اور متانت کیساتھ بحسن وخوبی یہ مبارک روحانی محفل ختم کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ،
آج اکیسویں صدی کی تہذیب یافتہ ترقی یافتہ دنیا میں کوئی ہے جو بتائے کہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کا مجمع بھی ہو جو اس شان وشوکت کروفرکیساتھ کہیں اکٹھا ہوا اور اس سکون وخاموشی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کوواپس لوٹ جائے؟؟ اگر یہ کہیں ہوتاہے تو یہ صرف مسلمانوں کے تہواروں میں ہوتاہے اور یہ کرشمہ ہے تہوارکے اندر یادخداکے شامل ہوجانے کے بعد،
قارئین کرام!اسلامی ہجری مہینے کاکلینڈر اورتاریخ چاند دیکھ کر ہی بدلتا ہے ہر مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چاند نکلتااور ڈوبتا بھی ہے مگر جس ذوق شوق سے ماہ رمضان المبارک میں لوگ عیدکا چاند دیکھتے ہیں وہ قابل دیدنی ہوتاہے اتنے شوق ذوق سے تو رمضان المبارک کی آمد کا چاند نہیں دیکھتے ہیں، شعبان المعظم کی انتیسویں تاریخ غروب آفتاب کیبعدچاند دیکھناواجب ہے، اگر چاندنظرآئیتو دوسرے روز صبح کو روزہ رکھیں اور اگر ابر یا غبار ہو اور چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کرنیکیبعد روزہ رکھیں، اور اسی طرح شعبان المعظم کے چاند کی بھی تلاش کریں تاکہ حساب میں گڑبڑ نہ ہو اور شعبان المعظم کی آخری تاریخ کا اختلاف نہ ہو، جو لوگ منجم ہے ان کے قول۔کا اعتبار نہ کیاجائے اور وہ خود بھی اپنے حساب پر بھروسہ نہ کریں، خواہ وہ ثقہ اور نیک ہوں، کیونکہ اصل چاند کا دیکھنا ہے اس معاملے میں نجومی کے حساب کا اعتبار نہیں ہے اور اگر دن میں زوال سے پہلے یا زوال کے بعد چاند دیکھ لیں تو اس چاند کو دیکھ کر نہ روزہ رکھیں اور نہ ہی افطار کریں، کیونکہ یہ چاند جو دن کو دیکھاہے یہ آئندہ شب کا چاندہے اس دیکھنے پر کوئی حکم جاری نہیں ہوگا، شہادت اگر آسمان پر کوئی علت ہو یعنی غبارہویا بادل وغیرہ ہو تو رمضان المبارک کے لئیایک مسلمان عاقل بالغ اور صاحب عدل کی شہادت قابل قبول ہوگی اور ان اسکی شہادت کافی ہوگی، خواہ غلام ہو مردہویا عورت، اسی طرح ایک مسلمان کی گواہی دوسرے مسلمان پر بھی رمضان کے بارے میں معتبر ہوگی،
یعنی ایک شخص کہے کہ فلاں شخص میرے روبرو چاند دیکھنے کی گواہی دی ہے تو اسکی بھی گواہی قبول کرلی جائے گی، انہی شرائط کے ساتھ شرائط وہی عاقل بالغ اور صاحب عدل، اور اسی طرح مستورالحال مسلمان کی گواہی میں فقہاء کرام نے اختلاف کیاہے اور یہ صحیح ہے کہ مستورالحال مسلمان کی بھی گواہی رمضان کے چاند میں قبول کرلی جائے،
مستورالحال سے مراد وہ مسلمان ہے جس کا صاحب عدل ہونا صاف ظاہر نہ ہو، عدل سے مراد اس بحث میں وہ ہے کل کبائر گناہوں سے بلکل اجتناب کرتاہو اور اگر صغائر میں مبتلا ہونے بھی اسکے نیک اعمال غالب ہوں، اور جیسے ایک مسلمان کی گواہی دوسرے غلام مسلمان پر اور ایک مسلمہ عورت کی دوسری مسلمہ عورت پر بھی گواہی ہلال رمضان میں قبول کی جائیگی شہادت علی الشہادۃ کی صورت میں،
مراہق یعنی قریب البلوغ کی شہادت ہلال رمضان کے بارے میں قابل قبول نہیں ہے، ہلال رمضان کی گواہی میں نہ لفظ شہادت کی شرط ہے نہ دعوی کی شرط اور نہ ہی حاکم کا حکم شرط ہے بلکہ اگر کوئی شخص حاکم کے سامنے کسی مسلمان کو گواہی دیتے سنے اور ظاہری طور پر وہ گواہ عادل ہوتو اس سننے والے پر روزہ رکھنا واجب ہے اور حکم حاکم کا انتظار ضروری نہیں، اور اگر رمضان المبارک کا چاند فقط قاضی یا امام دیکھے تو چاند دیکھنیوالے کو اختیار ہے کہ چاہے کسی شخص کو گواہی دینے کے لئے مقرر کردے تاکہ وہ گواہی دے دے، چاند کی یا بِلا گواہی کے روزہ رکھنے کا عام اعلان کردے مگر یہ طریقہ عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے چاند کے لئے نہیں ہوگا کیونکہ ہلالِ عید اور عیدالاضحیٰ کے لئے فقط قاضی یا امام کا دیکھنا کفایت نہیں کرتا اور ہلالِ رمضان کے لئے ان دونوں میں سے کسی ایک کا دیکھ لینا بھی کافی ہوتاہیاورجب کوئی مسلمان صاحب عدل ہلال رمضان دیکھے تو اسکو لازم ہے کہ اس رات قاضی کے روبرو جاکر شہادت دے خواہ وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت،
اگر ایک شہر کے لوگوں نے رمضان المبارک کا چاند بغیر دیکھے روزے رکھیاور اٹھائسویں تاریخ کو عید کا چاند دکھائی دے گیا تو اگر ان لوگوں نے شعبان کی رویت سے تیس دن شعبان کے پورے کرلئے تھے اور رمضان کا چاند نہیں دیکھا تو ایک دن قضا کرلیں، اور اگر انتیس تاریخ کو چاند دیکھا ہے تو پھرکوئی قضا نہ رکھیں،
اوراگر ان لوگوں نے شعبان کا چاند بھی نہیں دیکھا تھا اور محض تیس دن شعبان کے شمار کرلئے تھے اور رمضان کے روزے رکھنے شروع کردئے تھے، اور اٹھائیس کو عید کا چاند نظر آگیاتوان لوگوں پر دو دن کی قضا ہوگی، اگرکسی شہرکے لوگ چاند دیکھ کر روزہ رکھیں اورانتیس دن پورے کریں اور ایک شخص بیمار تھا کہ اس نے کوئی روزہ نہیں رکھا تو اس پر انتیس دن ی قضا لازم ہوگی پھر اگر اس کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ شہروالوں نے کیا کیا تو وہ تیس روزے پورا کرلے تاکہ فرض ذمہ سے یقینی طور پر سبکدوش ہوجائے،
لہذا تمام۔مسلمانوں سے اپیل وگذارش ہے کہ ایسے مسرت ومسرور والے موقعوں پر غریبوں مزدودوں بیسہاروں ضرورتمندوں کی حاجت گیری کریں اور زیادہ سے زیادہ انکی خدمت کریں، اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دست دعاہوں کہ ہم سب کو عیدالفطر کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما،آمین ثم آمین
——
مضمون نگار۔سدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگرکے ریسرچ اسکالر ہیں،
رابطہ۔6393021704
Email