کورونا کی آڑ میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر :- ڈا کٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کورونا کی آڑ میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر

ڈا کٹر سید اسلام الدین مجاہد

9885210770

پوری دنیائے انسا نیت اس وقت انتہائی دھماکو صورتِ حال سے دو چار ہے۔ کرہِ ار ض پر بسنے والے ہر خطہ اور ہر ملک کے لوگ ان ناگہانی حالات سے نکلنے کے لئے بے چین ہیں جو کورونا وائرس کی شکل میں آئی ہوئی عالمی وباء نے دنیا میں پیدا کر دئے ہیں۔

اس غیر مر ئی مرض نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کو بھی حواس باختہ کر کے رکھ دیا ہے۔ شہر قبرستان میں بدلتے جا رہے ہیں۔ ہنستی کھلیتی زندگیاں مرجھارہی ہیں۔ کسی کو پتہ نہیں کہ یہ جان لیوا مرض کس کو کب اور کیسے دبوچ لے گا۔ ہر شخص انگشت بدنداں ہے کہ قدرت نے اس دور کے انسان کو اس مہلک ترین وباء میں کیوں ڈال دیا۔ دنیا کے نیک صفت لوگ اس بیماری سے چھٹکارا پانے کے لئے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے خدا، ایشور اور گاڈ کو منا رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ بعض بد طینیت انسانیت دشمن افراد آزمائش کی اس ہو لناک گھڑی میں بھی انسانوں کو مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی وباء پھیلتی ہے تو اس کے ذمہ دار بھی کسی خاص مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں۔ہندوستان، جو اس وقت کورونا وائرس کی جنگ میں کامیاب ہونے کے لئے ہر ممکنہ جدو جہد میں لگا ہوا ہے لیکن اس کے باو جود ملک میں مہلوکین اور متاثرین کی تعداد دن بہ دن تیزی سے بڑ ھتی جارہی ہے۔ ایسے نازک وقت ملک کے سماجی تا نے بانے کو توڑ کر رکھ دینے والوں کی تعداد میں بھی حیران کن اضا فہ ہو تا جا رہا ہے۔ یہ عنا صر مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ خود اپنے ملک کے وقار اور اس کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا چکے ہیں۔اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے زہر افشانی کر نے والے یہ جنونی، شاید یہ نہیں جا نتے کہ ان کی کارستا نیوں نے ہندوستان کی شبیہ کو کتنا دغدار کر دیا ہے۔ یہ عنا صر کل تک اندرونِ ملک مسلمانوں اور اسلام کی تصویر کو بگاڑ نے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے اور اب ان کے چیلے بیرونِ ملک ان کے مذ موم عزائم کی تکمیل میں لگے ہو ئے ہیں۔ کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اسلامو فوبیا (اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ڈر اور خوف پیدا کرنا ) کی ایک ایسی لہر پوری دنیا میں پیدا کرنے کی کوشش ان نام نہاد ہندوستا نیوں کی جانب سے ہو رہی جو بیرونِ ملک رہ کر یہ سعیِ مذ موم کر رہے ہیں۔ سو شیل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر تے ہو ئے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کی جو وباء آئی ہے اس کے ذ مہ دار مسلمان ہیں۔ اس معا ملے میں تبلیغی جماعت کی جا نب سے ان دنوں ہوئے اجتماع کو بنیاد بنا کر ملک کے نیشنل میڈ یا نے سب سے پہلے مسلمانوں کو اس آ فت کے لئے موردِ الزام ٹہرانے میں اپنی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گودی میڈیا سے وابستہ ہر چینل پر یہی موضوع ایک مہینے تک چھایا رہا۔ صحافتی بد دیانتی کسے کہتے ہیں اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب یکطرفہ طور پر یہ خبریں جان بو جھ کر پھیلائی گئیں کہ ملک اس بحران کا شکار نہ ہو تا اگر تبلیغی اجتماع کا انعقاد عمل میں نہ آ تا۔عقل کے ان اندھوں کو کیا یہ جان لیوا وباء چین، اٹلی، ایران اور پھر امر یکہ میں نظر نہیں آ ئی جہاں کوئی تبلیغی اجتماع نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باو جود کورونا وائرس کی لپیٹ میں یہ ممالک اس طرح آ ئے کہ شہر کے شہر اور گاؤں کے گاؤں اُجڑ گئے۔ ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اُ تر گئے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے وا لے یہ بھول گئے کہ کسی بیماری کا علاج کسی مذ ہب کے ما ننے والوں کو گا لیاں دے کر نہیں کیا جا سکتا۔ جس شدت کے ساتھ یہ وائرس ملک میں پھیلتا جا رہا ہے کیا مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرنے سے اس کی شدت میں کو ئی کمی آ ئی۔ پھر آ خر کیوں ہر معا ملے میں مسلمانوں کو گھسیٹا جا تا ہے۔اس پر غور کر نے کی ضرورت ہے۔
اسلامو فوبیا کی یہ لہر اب اپنے جغرا فیائی حدود بھی پار کر چکی ہے۔ فرقہ وارانہ ذ ہنیت رکھنے والے گنتی کے یہ چند عنا صر ہندوستا نیوں کے لئے باعثِ شرم بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی مجر مانہ کارستانیوں سے ہر محب وطن کا سر شرم سے جھک جا نا چا ہیے۔ کئی دہوں سے خلیجی مما لک میں رہ کر مسلمانوں کی انسان دوستی کے کھلے مظا ہرے دیکھنے کے با وجود ان میں مسلمانوں کے تعلق سے وسیع القلبی اور وسعتِ نظری پیدا نہیں ہو ئی ہے تو معلوم یہ ہوتا کہ ان کے دل و دماغ کتنے پراگندہ اور آ لودہ ہیں۔ ان کا فرقہ پرست طا قتوں نے کس طرح سے برین واش کیا ہے اس کا بخو بی اندازہ ہو جا تا ہے۔ کورونا وائرس کی آڑ میں دبئی میں رہنے والا ہندوستانی متیش مد یشی سو شل میڈ یا کا غلط استعمال کر تے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتا ہے۔ بی جے پی کے آئی ٹی شعبے سے جڑے افراد رات دن اپنے فیس بک پر ایسے گھٹیا پوسٹ ڈا لتے ہیں جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عناد بڑھتا ہے۔ اس قسم کے اشتعال انگیز مواد کے ذریعہ مسلمانوں کی شبیہ کو پوری طرح مسخ کر نے کی منصو بہ بند سازش کی جا رہی ہے۔ خلیجی ممالک کی دولت کو دونوں ہا تھوں سے لو ٹنے والے یہ شر پسند عنا صر وہ ہیں جنہیں مسلمانوں سے ازلی دشمنی ہے۔ ان کا تعلق: سورنا ہندو(Su-varna Hindu) طبقہ سے ہے۔ یہ طبقہ جہاں بھی رہتا ہے اپنی بالا دستی چا ہتا ہے۔ یہ ہندوؤں کا نام نہاد اعلیٰ طبقہ ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو اپنا حر یف سمجھتا رہا۔ اس نے جب جب مو قع ملا مسلمانوں کو ہر سطح پر بد نام کرنے کی پوری کو شش کی۔ اب جب کہ ہندوستان میں ان کے ہمنوا بر سر اقتدار آ گئے ہیں انہیں کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ جہاں چا ہیں اور جب چا ہیں اسلامو فو بیا کی زہریلی مہم چلا کر اپنے دیرینہ خوابوں کو شر مندہ تعبیر کر یں۔ بیرونِ ملک چلائی جا رہی اسلامو فو بیا کی اس لہر کو اگر لگام نہ دی جا ئے تو اس سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو جس شر مندگی کا سامنا کرنے پڑے گا شاید اہلِ ملک کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ مٹھی بھر شر پسندوں کی اس حر کت نے خلیجی مما لک میں ہندوستان کے تعلق سے شدید بر ہمی پیدا کردی ہے۔ اس کا ثبوت بھی سا منے آ گیا ہے۔ سو شیل میڈ یا کی اس فرقہ پرستانہ یلغار کا سخت نوٹ لیا جارہا ہے۔ گذ شتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شہزادی ہند بنت فیصل القاسمی نے ایک ہندو انتہا پسند این آر آ ئی سوربھ اپادھیادئے کے ٹو ئٹر پوسٹ پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کر تے ہوئے وزیرا عظم ہند نریندرمودی کے نام پیغام جاری کر تے ہوئے کہا کہ ایسے شر پسندوں کے خلاف کاروا ئی کی جائے ورنہ ان کا ملک، ان کے قانون کے مطابق کاروائی کر ئے گا اور انہیں بخشا نہیں جائے گا۔ سوربھ اپا دھیائے نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ کورو نا وائرس کو پھیلانے کے ذ مہ دار مسلمان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سوربھ کو اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ ایک مسلم ملک میں رہتے ہو ئے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ گوئی کر ے۔ یہ نا ممکن ہے کہ ایک اکیلا شخص جو خود تارک وطن ہے کس طرح اس قسم کی جارحانہ حر کت کر سکتا ہے۔ یہ درا صل ہندوستان سے ہی گئی ہوئی وباء ہے جس کے اثرات اب مسلم مما لک میں دیکھے جارہے ہیں۔ یہ وبا، کورونا وائرس کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔ اسلاموفو بیا کی اس لہر کے جو اثرات بیرونِ ملک بھی نظر آ رہے ہیں یہ اسی ذہنیت کی غماضی کرتے ہیں جو سورنا ہندو کو اپنی پہچان مان کر چلتے ہیں۔ سوربھ اپادھیائے نے جو کچھ ٹوئیٹ کیا اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ وہ یو اے ای سے نکال دیا جائے گا۔ اس کا روزگار وہاں ختم کر دیا جا ئیگا۔ شاہی خاندان کی شہزادی کو بھی منا لیا جا ئے گا اور باور کر ا یا جا ئے گا کہ ہندوستان کے عر بوں سے صدیوں قدیم تعلقات ہیں اور اب بھی ہندوستان عربوں کو اپنا حقیقی دوست اور بھائی مانتا ہے۔ لیکن کیا اس سے زہریلی ذہنیت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے۔
ہندوستان میں کورونا وائرس کے بہانے بڑ ھتی ہوئی اسلامو فو بیا کی لہر آ نے والے دنوں میں ہندوستانیوں کے لئے مزید شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے ہمارے معاشی مفادات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب عرب مما لک کی نما ئندہ تنظیم او آ ئی سی (OIC) نے بھی کورونا وائرس کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑے کر نے کی دانستہ حرکتوں کا سخت نوٹ لیتے ہوئے حکومتِ ہند پر زور دیا کہ وہ اپنے ملک میں اسلاموفو بیا کی بڑ ھتی ہو ئی لہر کو روکنے اور مظلوم مسلما نوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کریں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس(او آئی سی) کا یہ بیان 19/ اپریل کو شام کے چار بج کر چو بیس منٹ پر ٹوئیٹ ہو تا ہے۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم مسئلہ کی سنگینی کو فوری بھانپ جاتے ہیں۔ اور صرف اندرون پینتالیس منٹ، پانچ بج کر پندرہ منٹ پر وزیرا عظم ہند یہ ٹو ئیٹ کر تے ہیں کہ: کووڈ۔۹۱ نسل، مذہب، رنگ، ذات، زبان، طبقہ یا سرحد نہیں دیکھتا۔ اس کے خلاف سب کو مل کر جنگ کرنا ہے اور یہ ملک میں اتحاد اور بھائی چارے سے ہی ممکن ہے۔: واضح رہے کہ تنظیم اسلامی کا نفرنس کی جانب سے مسلسل تیسری مر تبہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم نے یواین او کے بعد سب سے مضبوط تنظیم او آئی سی کے اظہار ِ غم و احتجاج پر اپنا رد عمل فوری ظا ہر کر دیا۔ لیکن یہ سوال ذہن میں اُ بھرتا ہے کہ وزیراعظم نے عرب ممالک کی صدائے احتجاج کو محسوس کرتے ہو ئے انہیں اپنے بیان کے ذ ریعہ کچھ یقین دیانی بھی کرائی۔ لیکن اندورنِ ملک ان کی آ نکھوں کے سا منے اسلامو فو بیا کی مہم ان کی پہلی معیاد کے دوران سے چلائی جا رہی ہے لیکن وزیراعظم نے اس کے خلاف کو ئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کئے۔ 2015 میں بیف کے گوشت کے نام پر محمد اخلاق کا قتل ہوا۔ اس کے بعد سے مسلسل ہجومی تشدد کے وا قعات ملک میں ہو تے رہے۔ لیکن خاطیوں کو سزا دینا تو در کنار، قاتلوں کو پھول پہنا کر انہیں تہنیتت پیش کی گئی۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو نافذ کر کے مسلمانوں کو بے وطن کر نے کے منصو بے بنائے گئے۔ اس دوران لو جہاد اور گھر واپسی کے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے گئے۔ انتہا یہ کہ کورونا وائرس کو بھی کورنا جہاد کا نام دیا گیا۔ دہلی میں ہو ئے تبلیغی اجتماع کو تبلیغی انسانی بم سے پکارا گیا۔ ملک میں اسلاموفو بیا کی لہر زوروں پر چلتی رہی لیکن حکومت کے ذ مہ داروں کو یہ احساس نہیں ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف اُ ٹھنے والی لہر، خود ملک کے لئے پشیمانی کا سبب بنے گی۔ آج دنیا کے مختلف ممالک میں سورنا ہندو پر ایقان رکھنے والے یہ فرقہ پرست اپنا زہر اُ گل رہے ہیں۔ تنظیم اسلامی کانفرنس یا متحدہ عرب امارات کی شہزادی کے بیان کو نظرانداز بھی کردیں تو ہندوستان کی امیج اب سُدھرنے والی نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو او ایچ) نے بہت پہلے ہی حکومتِ ہند کو متنبہ کیا کہ وہ کورونا وائرس کو کسی مذ ہب سے نہ جوڑے۔ اس ادارے کے سر براہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص کورونا وائرس کا شکار ہوتا ہے تو اس میں اس کی کیا غلطی ہے۔ دنیا کے مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے کورونا کے حوا لے سے ہندوستانی مسلمانوں کو طشت از بام کرنے کی فرقہ وارانہ کوششوں پر زبردست لعن طعن ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اسلامو فوبیا کی اس بڑھتی ہوئی لہر کو ہوا دینے والے اب بھی اپنی شر مناک حر کتوں سے باز آ تے ہو ئے دیکھا ئی نہیں دے رہے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں سے تعصب اور امتیاز بڑ ھتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کا سماجی مقا طعہ کیاجارہا ہے۔ ہر تشدد کے واقعہ کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالات کے اس تناظر میں حکومت کا ٖفرض ہے کہ نفرت کی اس فضاء کو ختم کرے ورنہ ہندوستان کا حال اور مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔

Share
Share
Share