تہذیب اور ثقافت کی جلوہ سامانیاں
پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد
09441697072
انسانی زندگی میں پیدا ہونے والی بے شمار خوبیاں اور خصوصیات کو تمام تر سلیقہ کے ساتھ اختیار کرنا تہذیب کی علامت ہے۔ کسی انسان کی زندگی میں اصلاح کا عنصر شامل ہو اور آراستگی کے شعور کے ساتھ ترقی کے مثبت رویے اختیار کرتے ہوئے ہدایت اور تربیت کی طرف گامزن ہوتا ہے
اور اس کی سرشت میں شائستگی کے علاوہ عمدہ مظاہرہ کاانداز کار فرما ہو تو اسے تہذیب یا فتہ قرار دیا جائے گا جس کے عقلی اور ذہنی تقاضے بہترین طرز معاشرت کی کی علامت بن جائیں اور اخلاقی اور عملی اقدام کا پاس و لحاظ رکھے تو اس عمل کو تہذیب کے زمرہ میں شمار کیاجائے گا۔جو انسان اپنی زندگی میں ایسی خصوصیات سے وابستہ کرلے اور عملی زندگی گزارنے میں شائستہ رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرے تو وہ تہذیب یافتہ یا پھر مؤدب ہی نہے‘ بلکہ انتہائی مہذب انسان کہلاتا ہے۔عربی زبان سے اردو میں منتقل ہونے والے تہذیب جیسی اصطلاح کے لئے متبادل کے طور پر Civilisation کی ترکیب استعمال ہوتی ہے۔عام طور پر تہذیب کے ہم معنیٰ اصطلاح کے طور پر تمدن کا استعمال بھی جاری ہے۔تمدن کے لئے انگریزی زبان میں Culture کی ترکیب کا استعمال ہوتا ہے ۔”علمی اردو لغت کے مولف نے تمدن کی و‘ضاحت سماجی زندگی‘ باہم مل جل کر رہنا‘ شائستگی‘ معاشرت کے طور طریقے اور خد و خال کی نمائندگی سے انجام دی ہے اور بتایا ہے کہ تمدن سے وجود میں آنے والا لفظ تمدنی کے معنی معاشرتی یا ثقافتی کے لئے جاتے ہیں۔ تہذیب اورتمدن کے ساتھ ثقافت کا لفظ بھی عام طور پر مروج ہے۔علمی اردو لغت کے مولف نے ثقاف کے معنیٰ کسی گروہ انسانی کے تمدن کی امتیازی خصوصیات کو ثقافت کی دلیل قرار دیا ہے۔اس اعتبار سے بیک وقت تہذیب‘ تمدن اور ثقافت کا استعمال یہ ثابت کرتا ہے کہ ان تینوں لفظیات کے درمیان نہ صرف یکسانیت موجود ہے‘ بلکہ ان میں موجود تھوڑے بہت فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔انسان کا مہذب ہونا اور زندگی میں اخلاق و شائستگی کو شامل کرنے کا طریقہ تہذیب و تمدن اور ثقافت کی دلیل قرار پاتا ہے۔انگریزی اردو لغت میں تہذیب کی نمائندگی کے لئے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والے لفظ کو اس طرح وضاحت سے آراستہ کیا گیا۔Student’s Practical Dictionary کے صفحہ 210 پر تہذیب کے معنیٰ Civilisation and Politeness درج کئے گئے ہیں۔لازمی طور پر کسی بھی فرد یا معاشرہ کے علاوہ سما ج میں آراستگی اور شائستگی کا شامل ہوجانا تہذیب کے دائرہ میں شامل ہوجاتا ہے۔اسی طرح تمدن کے لئے متبادل لفظ کلچر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔انگریزی زبان میں Civilisation کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی وضاحت اس انداز سے کی گئی ہے۔
”Civilisation:۱۔ تہذیب‘ سماجی ترقی کی اعلیٰ منزل یا نظام۔۲ مہذب اقوام۔ ۳ وہ لوگ یا اقوام (خصوصاً سابقہ) جو سماجی ارتقاء کا ایک حصہ یا کڑی تصور ہوں۔(ancient civilisation) قدیم تہذیب: The Inca Civilisation انکائی تہذیب) ۴۔ تہذیب یافتہ ہونا‘ تہذیب حاصل کرنا۔
Civilize: ۱۔ وحشی‘ پسماندہ یا ابتدائی سماجی دور سے نکالنا‘ مہذب‘متمدن بنانا۔۲ شائستگی‘ روشن خیالی‘تعلیم سے روشناس کرنا۔ (آکسفورڈ انگلش / اردو ڈکشنری‘از: شان الحق حقی‘ مطبوعہ 2011‘ صفحہ نمبر 257)
انگریزی لغت میں تہذیب کو سماجی ترقی کی اعلیٰ منزل کی حیثیت سے قبول گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سماجی ارتقاء کا ایک حصہ یا کڑی کے اعتبار سے تہذیب کی نمائندگی ہوتی ہے‘یہی وجہ ہے کہ دنیا کی پانچ بڑی قدیم تہذیبوں کو تاریخی اعتبار سے دریاؤں کی تہذیب کے ناموں سے یاد کیاجاتا ہے۔مصر کی تہذیب کو ”دریائے نیل کی تہذیب“ کاموقف حاصل ہے۔ہندوستان کی تہذیب کو ”دریائے سندھ کی تہذیب“ کے نام سے وقار حاصل ہے۔اسی طرح دریائے روم کی تہذیب اور دریائے چین کی تہذیب کلچر کی حیثیت سے شناخت نہیں دی جاتی‘ بلکہ ان تہذیبوں کا آغاز و ارتقاء چونکہ دریاء کے کناروں پر ہوا۔چنانچہ اس ابتدائی دور میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت پانی‘ہوا کرتی تھی جس کی سربراہی کا طریقہ اس دور کے انسان کو حاصل نہیں تھا‘ اس لئے دنیا کی پانچ بڑی تہذیبیں انسانی آبادیوں کو پانی کے ذخیروں سے سیراب کرنے کے لئے مختلف دریاؤں کے کنارے آباد ہونا پسند کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں Civilisation of Nile‘ Civilisation of Sindh‘ Civilisation of Rome کی حیثیت سے شہرت کا وسیلہ بننے والی تمام قدیم اخلاق اور شائستگی کا مظاہرہ کرنے والی قوموں کی زندگیوں کو تہذیب کے لفظ کے استعمال سے مربوبط کیا گیا‘کے متبادل کے طور پر انگریزی میں Civilisation کی اصطلاح حد درجہ موزوں اور مناسب ہے۔ تہذیب سے زیادہ اونچی اور اہمیت کی حامل خصوصیت کو تمدن کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے جس کے لئے انگریزی میں Culture کی اصطلاح مروج ہے۔انگریزی زبان میں کلچر کے متبادل معنی و مفہوم کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے۔
Culture: اسم: فنون اور دیگر ذہنی کمالات‘ کارنامے‘ کرشمے‘ بحیثیت مجموعی‘ تہذیب ثقافت (a city lacking in culture مظاہر ثقافت سے عاری شہر) خوش ذوقی‘ نفاست پسندی‘ ذہنی مشاغل کا فروغ‘ اعلیٰ دماغی (a person of culture شائستہ انسان) ۲۔ ایک مخصوص دور کے رسم و رواج‘ تہذیب اور کارنامے (studied chinese culture) چینی ثقافت کا مطالعہ کیا) ۳۔ ذہنی یا جسمانی تربیت کے ذریعہ ترقی‘ نشود نماء۔ ۴ پودوں کی نشود نماء‘ مگس پروری‘ ریشم کے کیڑے وغیرہ پالنا ‘ فصل کے لئے زمین کی تیاری۔ ۵ خوردحیوانوں اور ان کی پرورش کیلئے ضروری غذا کا اہتمام۔ (جراثیم وغیرہ کو) افزائش کے لئے سازگار ماحول میں برقرار رکھنا۔culture shock اجنبی ماحول سے اچانک دور چار ہونے پر ذہنی و جذباتی کیفیت۔culture vulture بول چال: کلچر زدہ‘ کلچر کا بھوکا‘ شوقینی کا اظہار کرنے والا۔the two cultures مراد علم و فن‘ سائنس اور فنون لطیفہ۔
Cultured: شائستہ‘ خوش ذوق‘مہذب‘ پڑھا لکھا‘اٹھا بیٹھا (آدمی)۔cultured pearl مصنوعی موتی‘ جو سیپ میں مصنوعی طورپر ذرہ وغیرہ داخل کرکے موتی کے کیڑے سے تیار کروائے جائیں۔
(آکسفورڈ انگلش / اردو ڈکشنری‘از: شان الحق حقی‘ مطبوعہ 2011‘ صفحہ نمبر 363)
معنوی تبدل اور لفظوں کے محل استعمال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تہذیب اور تمدن کی معنویت میں بڑا فرق موجود ہے۔فردی شائستگی اور انفرادی ترقی کے معاملات کو تہذیب یا Civilisation کہا جائے گا۔اس کے بجائے سماجی‘ عوامی اور معاشرتی ترقی کو پیش نظر رکھا جائے تو اس قسم کے عمل کو تہذیب یا Civilisation نہیں‘ بلکہ Culture کا موقف حاصل ہوگا۔شان الحق حقی نے Culture کے ساتھ ثقافت کو بھی جوڑ دیا ہے جبکہ جس طرح تہذیب کے معنی جداگانہ اور تمدن کے معنی علحدہ ہیں اسی طرح ثقافت کے معنی بھی علحدہ حقیقت کی نمائندگی کرتے ہیں۔کسی شخص کی انفرادی ترقی میں تہذیب کا عنصر شامل ہوتا ہے اور اجتماعی ترقی میں تمدن کا عنصر نمایاں ہوتا ہے‘ جبکہ کسی قوم یا ملک کی مشترکہ ترقی کا دار و مدار جن خصوصیات سے وابستہ ہوا سے تہذیب و تمدن سے کہیں زیادہ اعلیٰ انداز یعنی ثقافت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ثقافت کسی بھی قوم کی میراث ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے ہندوستانی ثقافت کے نمونوں میں تاج محل‘ آگرہ کا قلعہ‘ گولکنڈہ‘ چارمینار‘ جیسے مقامات کو شامل کیا جائے گاجس کے نتیجہ میں انفرادی اخلاق اور شائستگی کا دار و مدار تہذیب سے قائم رہتا ہے‘ جبکہ معاشرہ اور سماج کے علاوہ اجتماعی ترقی کا دار و مدار تمدن یا Culture سے مربو ط ہوتا ہے اس طرح کسی سماج یا معاشرہ ہی نہیں‘ بلکہ قوم کے ذریعہ کوئی انمول خصوصیت کو ہمہ گیری حاصل ہوجائے تو اس عمل کو ثقافت کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوتی ہے۔اردو کی لغت میں ان تینوں الفاظ کے درمیان موجود فرق کو واضح نہیں کیا گیا‘ بلکہ یہ تاثر پیش کیا گیا ہے کہ تہذیب‘ تمدن اور ثقافت کے معنیٰ ایک جیسے ہی ہیں اور ان میں کوئی تفریق بھی نہیں‘جبکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ہر اصطلاح کے توسط سے معنویت کے فرق کو محسو س کیا جاسکتا ہے‘چنانچہ ایک متمدن قوم کے افراد ہی تہذیب‘ تمدن اور ثقافت کے فرق کو نمائندگی دے سکتے ہیں۔ثقافت کے لئے انگریزی میں مستعمل لفظ Heritage قرار دیا جاتا ہے۔اسی لئے قوم‘ معاشرہ‘ ملک اور اس میں بسنے والے باشندوں کی قائم کردہ بیش قیمت یادگار یں جن کی وجہ سے قوم و ملک کی ہی نہیں‘ بلکہ باشندوں کی تہذیبی اور و تمدنی جلوہ سامانی واضح ہوجائے تو اس عمل کو ثقافت کی حیثیت سے قبول کیااجاتا ہے۔گولکنڈہ کی ثقافت کا مظہر ”کوہ نور“ ہیرا ہے اور مغلوں ککی ثقافت کا مظہر ”تخت طاؤس“قرار دیا جاتا ہے انگریزی زبان میں ثقافت کے لئے استعمال ہونے والے اصطلاحی لفظ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے۔
Heritage: ۱۔ ترکہ‘ میراث۔ ۲ حالات‘ فوائد‘ وغیرہ جو ترکے میں ملے ہوں (a heritage of confusion ترکے میں پائی ہوئی گڑبڑ‘ (انتشار) ۳۔ کسی قوم کا تاریخی سرمایہ‘ تہذیبی میراث‘ عمارات وغیرہ خصوصاً جو تحفظ کے قابل ہوں۔ ۴ بائیبل: قدیم اسرائیلی کلیسا۔
(آکسفورڈ انگلش / اردو ڈکشنری‘از: شان الحق حقی‘ مطبوعہ 2011‘ صفحہ نمبر 736)
شان الحق حقی نے ابتدائی طور پر Heritage کی اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے جس کے تحت ترکہ یا میراث کی نشاندہی ہوتی ہے۔جبکہ اس اصطلاح کی تیسری اور چوتھی خصوصیت میں واضح کیا ہے کہ کسی قوم کا تاریخی سرمایہ بھی ثقافت کی دلیل قرار دیا جائے گا اسی طرح تہذیبی میراث اور عمارات وغیرہ جن کی خصوصی طو رپر حفاظت کی جائے‘ان کی خصوصیات کو بھی Heritage کا موقف حاصل ہوتا ہے۔آخر میں انہوں نے بائیبل اور قدیم اسرائیلی کلیسا کو بھی میراث میں شامل کیا ہے۔اس میراث سے فطری وابستگی اور اس کی تعظیم و تکریم کے جذبوں کی وابستگی کی وجہ سے اسے میراث نہیں‘ بلکہ ثقافت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔اس طرح بیک وقت تین متبادل الفاظ اور ان کے توسط سے معنویت کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب انسان ذاتی یا فردی کوشش سے کوئی کام انجام دیتا ہے اور اس میں سلیقہ اور شائستگی کے ساتھ ساتھ اخلاق اور معیار کا انداز برقرار رہے تو اس انداز کو ابتدائی درجہ یعنی تہذیب یاCivilisation کا موقف حاصل ہوگا اور جب انسان انفرادی کوششوں کو سماجی‘معاشرتی یا قومی ہی نہیں‘ بلکہ ملکی سطح پر نمائندگی دینے کے لئے اجتماعی کوشش کا سہارا لیتا ہے تو اس عمل کو تمدن یا Culture کادرجہ حاصل ہوتا ہے۔اس کے بجائے ملک و قوم اور کسی خاص طبقہ یا فرقہ کے علاوہ قبیلہ کی یادگار کی حیثیت سے موجود اجتماعی عمل کو ثقافت یا Heritage کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔غرض اردو زبان میں تہذیب و ثقافت کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی تمدن کی خصوصیت بھی جلوہ گر ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والی تمام قوموں میں موجود رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کی خصوصیات ایک دوسرے سے جداگانہ ہوتی ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر وہی قومیں یادگار کا درجہ رکھتی ہیں جن کے توسط سے تہذیب اور تمدن کی نمائندگی ہی نہیں‘ بلکہ ثقافت کی خصوصیات بھی واضح ہوتی ہیں۔ہر ملک میں مختلف رنگ و نسل اور قوم و مذہب کے علاوہ قبائل کے لوگ بستے ہیں اور ان کی شناخت درحقیقت ان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی وجہ سے برقرار رہتی ہے۔ہندوستان کی سرزمین میں وادی سندھ کی تہذیب کی وجہ سے اس تہذیب کے آثار آج بھی موہن جو دارو اور ہڑپا کی کھدوائیوں میں محفوظ ہیں۔اسی طرح مصر کی تہذیب کے قدیم آثار اہرام مصر کی حیثیت سے شہرت کے حامل ہیں۔ چین کی تہذیب کے آثار ”دیوار چین“ کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح یونان کے آثار وہاں کے فلسفیوں سقراط‘بقراط جیسے افلاطون‘ارسطواور ارسطالیس کی تحریروں میں محفوظ ہیں‘ لازمی ہے کہ یہ تمام آثار اس دور میں تہذیب کا درجہ رکھتے تھے اورجب عالمی سطح پر ان تہذیبی آثار پر توجہ دی گئی تو ان کی حیثیت تمدن کی حدود سے آگے نکل گئی اور آج کے دور میں ان تمام آثار کو ثقافت کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔اس طرح تہذیب و ثقافت کی جلوہ گری کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک تہذیب و ثقافت کا سلسلہ جاری ہے اور تمدن کے سہارے ترقیات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔یہی نہیں‘ بلکہ حضرت انسان نے سب سے پہلے اپنے ہاتھ سے اشیاء اور اوزار بنائے جو اس کی تہذیب کی نشانی قرار پائے۔ پھر اس نے اشیاء کی یکسانیت کو محسوس کرتے ہوئے ایک ہی قسم کے کئی اشیاء کی فراوانی پر توجہ دی۔ نتیجہ یہ کہ جسم کے زیورات اور لباس کے علاوہ سر اور پیر کی حفاظت کے لئے استعمال کئے جانے والے بیشتر طریقوں کو تمدن کے دائرہ میں قبول کیا گیا اورآخر میں قومی‘ ملکی اور سماجی ہی نہیں‘ بلکہ معاشرتی سطح پر ملک و قوم کی یادگار کا درجہ حاصل کرنے والے آثار کو ملکی اور قومی حیثیت حاصل ہوئی‘جس کی وجہ سے ثقافت کی بنیادیں مستحکم ہونے لگیں۔غرض دنیا میں انسان کی آمد کے بعد سب سے پہلے تہذیب Civilisation کو اہمیت حاصل ہوئی اور انسان نے اس دائرہ سے نکل کر ترقی کے بلند معیارات کی طرف توجہ دی‘جس کی وجہ سے وہ تہذیب کے دائرہ سے نکل کر تمدن Culture کے حدود میں داخل ہوا اور موجودہ دور میں انسان کی زندگی کا دار و مدار نہ صرف تہذیب اور تمدن کے آثار سے وابستہ ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی ملکی اور قومی سطح پر ثقافت کی ضرورت سے وابستہ ہوکر موجودہ دور کا انسان دنیاکی ہر جگہ پر قائم کردہ انسان کے ثقافتی آثارکو اہمیت دیتا اور ان کے ذریعہ اخلاق‘ شائستگی‘ سلیقہ‘ ہنرمندی اور انسانی ذہن کی کارفرمائی کو محسوس کرتے ہوئے یہ فخر کرتا ہے کہ اس کا شمار ملک کی اس طرز معاشرت اور قوم میں ہوتا ہے جس کی رہائش پذیر دنیا میں تہذیب و تمدن اورثقافت کے انمٹ نمونے موجود ہیں اور ان آثار سے وابستگی کی وجہ سے ہر انسان کو خود پر اعتماد اور انسانی ترقی کے مراحل پر فخر کرنے کا سلیقہ پیداہوتا ہے۔ اس لئے کسی بھی ملک‘ قوم‘ سماج اور طرز معاشرت کے لوگوں کے درمیان تہذیب و تمدن اور ثقافت کی نمائندگی کی طرف توجہ دینا‘بلا شبہ مہذب قوم اور متمدن معاشرت کی دلیل ہے‘ اس لئے تہذیب و ثقافت کی خصوصیات کوپسند کرنا بھی شائستگی کو فروغ دینے کے مماثل ہے۔