شب قدر کی عبادت
پوری زندگی کی عبادت سے افضل و بتہر ہے
ڈاکٹر محمد نجیب سنبھلی قاسمی
(www.najeebqasmi.com)
رمضان کی راتوں میں ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر وبرکت والی رات ہے اور جس میں عبادت کرنے کو قرآن کریم (سورۃ القدر) میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ ہزار مہینوں کے ۸۳ سال اور ۴ ماہ ہوتے ہیں۔ گویا اس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔
اور ہزار مہینوں سے کتنا زیادہ ہے؟ یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔ لہذا اس آخری عشرہ کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ پانچوں نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کا اہتمام کریں،دن میں روزہ رکھیں، رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزاریں، تراویح اور تہجد کا اہتمام کریں، اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اپنے اور امت مسلمہ کے لئے دعائیں کریں، قرآن کریم کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کریں۔
شب قدر کی اہمیت وفضیلت کے متعلق خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے: بے شک ہم نے قرآن پاک کو شب قدر میں اتارا ہے،یعنی قرآن کریم کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کا ہے، اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اترتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔ (سورۃ القدر)
سورۃ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق….) سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۃ القدر میں بیان کیا کہ یہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورہئ الدخان کی آیت نمبر ۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ) ہم نے ایک مبارک رات میں قرآن کریم کو اتارا ہے۔ اور سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۵۸۱ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا ہے) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
شب قدر کے معنی: شب قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے جس میں تقدیروں کے فیصلے کئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۃ الدخان آیت نمبر ۴ میں ہے: فِےْہَا ےُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِےْمٍ یعنی اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر ومنزلت اور عظمت وشرف رکھنے والی رات ہے، جیسا کہ سورۃ القدر میں تفصیل سے مذکور ہے۔اس رات میں قرآن کریم کے نازل ہونے کا مطلب لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اترنا ہے یا اس رات میں پورا قرآن کریم حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کیا جانا مراد ہے یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی ابتدا اس رات میں ہوئی اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۳۲ سال کے عرصہ میں نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا۔
شب قدر کی فضیلت نبی اکرم ﷺ کی زبانی:
شب قدر کی فضیلت واہمیت کے متعلق متعدد احایث کتب احادیث میں موجود ہیں، یہاں اختصار کی وجہ سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے والا بنائے، آمین-رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوت قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عمل کرنا ہے۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا، اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃ ً محروم ہی ہے۔ (ابن ماجہ) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری) مذکورہ حدیث کے مطابق شب قدر کی تلاش ۱۲ ویں، ۳۲ ویں، ۵۲ ویں، ۷۲ ویں، ۹۲ ویں راتوں میں کرنی چاہئے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرمﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: پڑھو: اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی(اے اللہ تو بیشک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو، پس مجھے بھی معاف فرمادے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی)
شب قدر کی دو اہم علامتیں:
شب قدر کی دو اہم علامتیں کتب احادیث میں مذکور ہیں: ایک یہ کہ رات نہ بہت زیادہ گرم اور نہ بہت زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ شب قدر کے بعد صبح کو سورج کے طلوع ہونے کے وقت سورج کی شعاعیں یعنی کرنیں نہیں ہوتی ہیں۔ نوٹ: اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی اس جگہ اسی رات میں شب قدر کی برکات حاصل ہوں گی،ان شاء اللہ۔
نماز تہجد کا اہتمام:
آخری عشرہ کی قیمتی راتوں میں نماز تہجد پڑھنے کی کوشش کریں جو دو دو رکعت کرکے بارہ رکعت تک پڑھ سکتے ہیں۔ سحری کے وقت چند رکعت پڑھنے میں دشواری بھی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ تمام ابنیاء ورسل کے سردار، کائنات میں سب سے افضل واعلیٰ بشر اور قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضور اکرمﷺ کی نبوت کے بعد کی زندگی کا وافر حصہ نماز میں گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم (سورۃ المزمل) میں بیان کیا ہے کہ نبی دو تہائی رات یا کبھی آدھی رات یا کبھی ایک تہائی رات روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم ﷺ کا نماز کے ساتھ جو گہرا تعلق تھا اور نمازمیں جو آپ ﷺ کی حالت اور کیفیت ہوا کرتی تھی، اُس کا اندازہ سیرت کی کتابوں سے ادنی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی کرسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺراتو ں کو کتنی لمبی لمبی نمازیں ادا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺ سے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں: (اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم یا اُس سے کچھ زیادہ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو)۔ (سورۃ المزمل:۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابہئ کرام) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺرات کو قیام فرماتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ (صحیح بخاری) ذاتی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا ہے بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپﷺ ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔ سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات، آخری آیت، مذکورہ حدیث اور دیگر احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ رات کا دو تہائی یا آدھا یا ایک تہائی حصہ روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔اس فرمان الہی سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات تمام رسل وانبیاء کرام کے سردار وتاجدار مدینہ حضور اکرم ﷺ کے متعلق یہی تھیں کہ آپ نماز سے اپنا خاص تعلق وشغف رکھیں۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔