لقد کان لکم فی رسول للّٰہ اسوۃ حسنہ
افضل رضوی – آسٹریلیا
الحمد للہِ ربِ العالمین و سلام’‘ علیَ المرسَلین و الصلاۃ السلامُ علیَ عبدِہِ ورسولہِ محمد ن المصطفٰی امام الانبیا و خاتم النبین و علیَ آلہِ واصحَبِہِ الطیبین الطاہرین رضوان اللہِ علِیھِم اجمعین- امابعدفعوذباللہ من النشیطن الرجیم o
الرحمن الرحیم بسم اللہ o
یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُونَo اَیَّامَّا مَّعدُودٰتٍ ط فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیضًا اَو عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘مِّن اَیَّامٍٍٍٍِِ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہ‘ فِدیَۃ’‘ طَعَامُ مِسکِینٍ ط فَمَن تَطَوَّعَ خَیرًا فَھُوَ خَیر’ُ‘ لَّہ‘ ط وَاَن تَصُو مُوا خَیر’‘ لَّکُم اِن کُنتُم تعَلَمُونَ o
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے جیسا کہ تم سے اگلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔روزوں کے دن گنتی کے چند روز ہیں توجو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہوتو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرلے اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہووہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے زیادہ نیکی کرے تو وہ اس کے لیے زیادہ اچھاہے اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہےo سورۃ البقرہ آیت 183-84
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰءِکَتَہ‘ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِ ینَ ٰامَنُوا صَلُّو ا عَلَیہِ وَ سَلِّمُوا تَسلِمًاo
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پراے ایمان والوان پردروداور خوب سلام بھیجو۔ سورۃ الاحزاب آیت 56
نہایت ہی واجب الاحترام میرے اسلامی بھائیو اور بہنو! میں آج کی اس پاکیزہ اور مقدس محفل میں آپ سب کو دل کی اتھا گہرائیوں سے اھلا ًوسہلا ًکہتا ہوں اور اللہ رب العزت سے اس کے پیا رے حبیب حضرت محمد ﷺ کے توسط سے دعا گو ہوں کہ وہ ہماری اس حاضری کو قبول و منظور فرمائے اور اس محفلِ پاک کی برکت سے ہمارے گناہ معاف فرمائے اور آخرت میں میں بھی آسانیاں فرمائے۔ آمین!
عزیزانِ گرامی قدر! قرآنِ مجید کی جو آیات کریمہ تلاوت کی گئیں ان میں سے پہلے حصے کی آیات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ،’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے جیسا کہ تم سے اگلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔روزوں کے دن گنتی
کے چند روز ہیں توجو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہوتو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرلے اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہووہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے زیادہ نیکی کرے تو وہ اس کے لیے زیادہ اچھاہے اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے‘۔
یہ آیت کریمہ اس لیے تلاوت کی کہ اب ہم اس آیت کے حکم میں ہیں اور آج کی یہ مجلس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
قابلِ صد احترام خواتین و حضرات!غو رطلب بات یہ ہے کہ یہ قرآن جس کی آیات ہم تلاوت کرتے ہیں، وہ کس ذاتِ اعلیٰ صفات نے ہم تک پہنچایا۔ تھوڑا سا تفکر کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ ہستی خالقِ کائنات کے محبوب محمد رسول اللہ ﷺکی ہے۔ اور یہ وہ ہستی ہے جس کے لیے کائنات کا تخلیق کرنے والا اپنے فرشتوں کے ساتھ ہمہ وقت اس پر درود و سلام بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بد بخت کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ یہ کہہ سکے کہ یہ کہا ں لکھا ہے۔ اللہ نے حکماََ فرمادیا:
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰءِکَتَہ‘ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِ ینَ ٰامَنُوا صَلُّو ا عَلَیہِ وَ سَلِّمُوا تَسلِمًاo
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پردرود بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو! ان پردروداور خوب سلام بھیجو۔ سورۃ الاحزاب آیت 56
واجب الاحترام خواتین و حضرات! یہ بات ہر کس و ناکس پر عیاں ہے کہ جب انسان مجبور و لاچار ہو جاتاہے، جب انسان وحشت کا مقابلہ نہیں کر پاتا، جب انسان بربریت کا شکار ہوجاتا ہے، جب انسان سمندر کی گہرائی اور آسمان کی وسعت سے سے گھبرا جاتاہے، جب انسان اپنے گرد و نواح میں کسی کو نہیں پاتااور جب انسان صحراؤں میں گم ہو جاتا ہے تو وہ صرف اور صرف ایک ہی ہستی کو پکارتا ہے اور وہ ہستی ہے ربِ محمدﷺ کی جو خالق و مالکِ کائنات ہے۔ اور وہ رب، وہ رب ہے جوارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے محبوب اگر تجھے دنیا میں مبعوث کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں یہ کائنات ہی تخلیق نہ کرتا گویا آپ ﷺ وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں بھی اپنے رسولِ مقبولﷺ سے انتہا درجہ محبت کرنی چاہیے اور ان سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو آپ ﷺ کے بتائے ہو ئے اصولوں کے مطابق گزاریں۔کیونکہ رب العالمین کا رحمۃاللعالمین کے بارے یہ واضح فرمان ہے: لقد کان لکم فی رسول للہ اسوۃ حسنہ یعنی بے شک رسول اللہ کی زندگی میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اور سورۃ آلِ عمران میں حکمِ ربانی ہے:
قُل اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِِعُونِی یُحبِِبکُمُ اللّٰہُ وَ یَغفِر لَکُم ذ ُنُو بَکُم ط وَ اللّٰہُ غَفُو ر’‘ رَّ حِیم’‘o
ترجمہ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
آج کی یہ محفلِ پاک تاجدارِ مدینہ سرورِ سینااحمدمجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کی سیرتِ پاک بیان کرنے کے لیے اور ماہِ رمضان کو خوش آمدید کہنے کے لیے انعقاد پذیر ہے۔
یاد رکھیے! محفلِ میلاد کا مقصد صرف اور صرف محبوبِ رب العالمین ﷺ کی سیرت بیان کرنا ہے اور ان مجالس کو محافلِ میلاد کہیے یا محافلِ سیرتِ پاک اس میں کچھ مذائقہ نہیں البتہ ہم سب کو یہ ضرور بضرور معلوم ہو نا چاہیے کہ محافلِ میلاد کا منعقد کرنا سلف صالحین کا طریقہ ہے
جن کے ذریعے سے دین ہم تک منتقل ہوا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو۔۔۔
لفظِ عید عربی اسم مذکر ہے اور اس کے لغوی معنی جو بار بار آئے۔ خوشی کا تہوار۔ مسلمانوں کی خوشی کا تہوار جبکہ لفظ میلاد (می۔لاد) عربی اسم مذکر ہے۔ جس کے معنی پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت یا پیدائش ہے۔اور میلاد النبیﷺ کا مطلب نبی پاک ﷺ کی پیدائش یا پیدائش کا دن ہے اور یہ اسم ظرف زمان ہے۔ (صاحبِ فروز اللغات، ص 1332) یوں عیدِ میلاالنبیﷺ کے معنی ہوئے محمد رسول اللہ کی پیدائش کا دن اور چونکہ یہ دن جب تک یہ دنیا باقی ہے بار بار آئے گا اس لیے اسے عیدِ میلاالنبیﷺ کہا جاتاہے اور کیوں نہ کہا جائے کہ یہ وہ دن ہے جس دن وجہِ تخلیقِ کائنات کے اس دنیا میں آنے سے نبوت و رسالت کاباب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔کہ آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہ آئے گا۔
میلاد شریف کی محافل میں نبی ئ پاک ﷺ کی پیدائش کے واقعات بالخصوص بیان کیے جاتے ہیں۔اللہ سبحانہُ سورہ ابراہیم کی آیت ۵ میں ارشاد فرماتاہے:
وَ لَقَد اَرسَلنَا مُوسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَن اَخرِج قَومَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّورِ لا وَذَکِّرھُم بِاَ یّٰمِ اللّٰہِ ط اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍo ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ ؑ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر و شاکر ہیں نشانیاں ہیں۔
مفسرینِ قرآن کے نزدیک ’ایام اللہ‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو۔ ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کادن، سرکارِ مدینہ سرورِ سینہﷺ کی ولادت کا دن ہے،چنانچہ اس دن کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔اور یہ بات بھی قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ اللہ کے فضل اور رحمت سے آپ ہی کی ذاتِ والا صفات مراد ہے۔ جب اللہ سورہ الاحزاب کی آیت ۷۴ میں فرماتا ہے کہ:
وَ بَشِّرِِ المُؤمِنِینَ بِاَنَّ لَھُم مِّنَ اللّٰہِ فَضلاً کَبِیرًاo اور مومنین کو خوش خبری سنادو کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔ اور سورہ الانبیا کی آیت 108 میں حکم ہوتا ہے کہ:
وَمَآ اَرسَلنٰکَ اِلاَّ رَحمَۃً لِّلعٰلَمِینَo اور ہم نے آپ کونہیں بھیجا لیکن جہانوں کے لیے رحمت بناکر۔
بس اسی پر بات ختم نہیں کردی بلکہ مالکِ کائنات نے سورۃالضحیٰ کی آیت ۱۱ میں مومنین کو یہ حکم بھی دے دیا کہ ؛
وَ اَمَّا بِنِعمَۃِ رَبِّک فَحَدِّثo اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔
قابلِ صد احترام عزیزواور میری بہنو!
پس آج کے پر آشوب دور میں رسالت مآب ﷺ کی ولادت باسعادت کی خبر نسلِ نو تک پہنچانا ایک بہت بڑا فریضہ ہے کیونکہ بچے کا ذہن کورا کاغذ ہوتا ہے بس اس پر جو ابتدا میں نقش ہو گیا اس کا اثر آخر عمر تک رہتا ہے۔لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو گاہے گاہے رسولِ پاک ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے متعلق بتاتے رہیں۔میلاد شریف کے بارے مفتی احمد یارخاں نعیمی کہتے ہیں:
”میلاد شریف کی حقیقت حضور پاک کی ولادت کا واقعہ بیان کرنا، حمل شریف کے واقعات،نورِ محمدی کی کرامات، نسب نامہ یا شیر خوارگی،اور حضرت حلیمہ کے یہاں پرورش حاصل کرنے کے واقعات بیان کرنا اور حضور ﷺ کی نعمت پاک نظم یا شعر میں پڑھناسب اس کے تابع ہیں۔۔۔واقعہئ ولادت تنہائی میں ہو یا مجلس میں جمع کرکے، اور نظم یا شعر میں بیٹھ کر ہو یا کھڑے ہوکر اسے میلاد ہی کہا جائے گا۔“
خصائص الکبریٰ کی جلد اول میں امام جلال الدین سیوطی ؒ اور المواہب اللدنیہ میں امام احمدبن محمد قسطلانیؒ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضر ت آمنہؓ اپنے حمل کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتیں کہ جو حالت دوسری عورتوں کو لاحق ہوتی ہے وہ مجھے لاحق ہوئی۔میں نے ایک زوردار دھماکا سنا جس سے مجھے خوف آنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ ایک سفید پرندے کے پر نے میرے دل پر مسح کیا ہر ڈر اور درد جو میں پاتی تھی وہ مجھ سے دور ہو گیاپھر میں نے توجہ کی تو میرے لیے سفید رنگ کا مشروب تھا جو میں نے لے لیاتو مجھے بلند پایہ نور حاصل ہوا۔پھر میں نے کچھ عورتوں کو دیکھاجوکھجور کے درخت کی طرح طویل القامت تھیں گویا عبدِ مناف کی بیٹیوں میں سے ہوں۔ انہوں نے مجھے گھیر رکھا تھا، میں متعجب تھی کہ کوئی میری مدد کرے، ان کو کیسے علم ہو گیا۔اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا کہ انہیں لوگوں سے چھپاؤ۔ حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ کہ فضا میں کھڑے ہیں۔ان کے ہاتھوں میں چاندی کے لوٹے ہیں۔پھر میں نے پرندوں کا غول دیکھ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے میرے حجرے کو گھیر لیا۔ان کی چونچیں زمرد کی اور پر یاقوت کے ہیں۔اللہ نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹایا تومیں نے زمین کے مغربوں اور مشرقوں کو دیکھ لیا۔ان حالات میں محمدﷺ کی پیدائش ہوئی۔بقول شاعر:
وہ دن آیا کہ پورے ہوگئے تورات کے وعدے
خدا نے آج کر دیے ہر بات کے وعدے
مرادیں بھر کے دامن میں مناجات زبور آئی
سحر کی روشنی پڑھتی ہوئی آیات نور آئی
نظر آئی بالآخر معنی انجیل کی صورت
ودیعت ہوگئی انسان کو تکمیل کی صورت
البدایہ النہایہ میں امام ابن کثیر (بصری دمشقی)ابنِ عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ پیدا ہوئے تمام آسمانوں سے شیاطین روکے گئے آسمانوں کی شہب کے ذریعے سے حفاظت کی گئی تو جو شیطان پہلے آسمان کے قریب ہونا چاہتاہے فرشتوں کی بات سننے کے لیے تو اسے آگ کا شعلہ بنا کر پھینک دیا جاتا ہے۔آپﷺ پیر کے دن ۲۱/ربیع الاول کو پید ا ہوئے (اکثریت اس پر متفق ہے)جس دن آپﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اس روز آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب رات بھر بیت اللہ میں اپنے رب سے دعائیں مانگتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا جب حضور پرنورﷺ کی ولادت کا وقت آیا تو بیت اللہ ہلنے لگا اور بالکل حضرت آمنہؓ کے گھر کی جانب جھک گیا اور تمام بت منہ کے بل گر پڑے۔جب آپ کی ولادت باسعادت کی اطلاع آپ ﷺ کے دادا تک پہنچی تو وہ انہیں اٹھا کر بیت اللہ میں لے گئے اور دعا مانگی۔ ساتویں روز قربانی کی اور قریش کو دعوت دی۔ لوگوں نے پوچھا عبدالمطلب تم نے پوتے کا
نام کیا رکھا ہے تو انہوں نے جواب دیا ’محمدﷺ‘۔ لوگوں نے کہا آپ نے خاندان کے تمام مروجہ نام چھوڑ کر یہ نام کیو ں منتخب کیا تو انہوں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ دنیا بھر کی ستائش اور تعریف کا حق دار بنے۔ پھر دستورِ عرب کے مطابق آپ ﷺ کو رضاعت کے لیے حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیاگیا۔دو سال کے بعد آپ ﷺ کا دودھ چھڑا دیا گیا اور چارسال تک آپﷺ مائی حلیمہ کے ہاں رہے۔ اس دوران ہر چھٹے ماہ وہ آپﷺ کو ان کی والدہ سے ملانے لے آتی تھیں۔ چار سال کے ہوئے تو والدہ محترمہ نے آپﷺ کو اپنے پاس رکھ لیا لیکن ابھی آپﷺ چھ برس کے ہی ہوئے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ چنانچہ آپ ﷺ کی پرورش کی ذمہ داری دادا عبدالمطلب نے سنبھال لی۔ عمرِ مبار ک آٹھ سال ہوئی تھی کہ ان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا اور یوں آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت کی سعادت حضرت ابو طالب کے حصے میں آئی۔
ابن عساکرنے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا تو وادی میں قحط تھا قریش نے ابو طالب سے درخواست کی کہ ابرِ باراں کے لیے دعا کیجیے۔ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے۔ بچہ ابرآلود سورج معلوم ہوتا تھا جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو۔ ان کے ساتھ اور بچے بھی تھے۔ ابو طالب نے بچے کی پیٹھ خانہ کعبہ سے لگا دی اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے بادل آگئے اور خوب برسے یہاں تک کہ وادی میں سیلاب آگیا اور ہر طرف شادابی نظر آنے لگی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو طالب نے آپ ﷺ کی مدح میں کہا تھا:
وابیض یُستَسقَی الغمَامُ بوَجھہ
ثِمال الیَتَامٰی عِصمَۃ’‘ للارامِلِ
وہ خوب صورت ہیں ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔(الرحیق المختوم ص 88)
مولانا حالی نے بھی اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا
خطا کار سے در گزر کرا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
آپ ﷺ نے جوانی میں قدم رکھا تو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ تجارت کرنے لگے۔ آپﷺ کی ایمانداری سارے عرب میں مشہور ہونے لگی چنانچہ مکہ کی ایک نہایت امیر خاتون بی بی خدیجہ ؓنے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ آپﷺ اسکے روپے سے تجارت کریں۔ نبی ئ ُپاک ﷺ نے یہ بات قبول کرلی اور سامانِ تجارت لے کرشام روانہ ہوئے اس سفر میں بی بی خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی شریکِ سفر ہوا۔ اس مرتبہ منافع پہلے سے کہیں زیادہ ہوا اور میسرہ نے جو خوبیاں سرکارِ دو عالم میں دیکھیں وہ بھی بیان کیں چنانچہ بی بی خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے کردار سے متاثر ہو کر نکاح کا پیغام بھیجا جو آپ ﷺ نے قبول کرلیا حالانکہ حضرت خدیجہؓ کی عمر اس وقت چالیس سال جب کہ آپ ﷺ کی عمر مبارک پچیس سال تھی۔
یوں نبی پاک ﷺ کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا۔ پھر زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے لیکن آپﷺ نے ان کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ آپ ﷺ جوانی ہی سے بہت عبادت گذار تھے اکثر غارِ حرا میں عبادت کے لیے تشریف لے جاتے۔ جب آپ ﷺ چالیس سال کے ہوئے تو جبریلِ امین اللہ کے آخری رسول کی طرف وحی لے کر آئے اور کہا،بشارت قبول فرمائیے آپ ﷺ اللہ کے رسول اور میں جبریلؐ ہوں۔گھر آئے تو اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓسے کہا کہ میرے اوپر چادر اڑادیجیے۔ جب طبیعیت ذرا سنبھلی تو فرمایا میں ایسے واقعات دیکھتاہوں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہ نے وہ کلمات کہے جو آج تاریخ کا حصہ ہیں عرض کیا آپ ﷺکو کس بات کا ڈر ہو گا کہ آپﷺ اقربا پر شفقت کرتے اور سچ بولتے ہیں۔بیواؤں، یتیموں اور بے کسوں کی دستگیری فرماتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی مدد فرماتے ہیں اس لیے اللہ آپ کو کبھی تنہا نہ چھوڑے گا۔ حضرت خدیجہؓ خود بھی تھوڑی پریشان ہوئیں چنانچہ یہ سارا واقعہ عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کو سنایا۔ وہ فوراََ بول اٹھاآپ ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں، کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت آپﷺ کی خدمت کرتا جب آپ کی قوم آپ کو ہجرت پر مجبور کردیتی۔چند دنوں بعد جبریلِ امین پھر حاضرِ خدمت ہوئے اورکہا پڑھیے اپنے رب کے حکم سے اوریہ آیات آپﷺ کو پڑھائیں:
اِ قرَا بِا سمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَoخَلَقَ الاِ نسَانَ مِن عَلَقo اِقرَ ا وَ رَبُّک الاَکرَمُo الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِo عَلَّمَ الاِنسَانَ مَالَم یَعلَمo
ترجمہ:اے نبی ﷺاپنے پرور دگا ر کا نام لے کر پڑھیے جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔
اوریوں وحی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو تئیس سال تک جاری رہا۔ مختصراََ یہ کہ وادیئ طائف ہو یا مکے کی گلیاں، شعبِ ابی طالب کا زمانہ ہو یا ہجرتِ مدینہ کا وقت، غارِ ثور کی مشقت ہو یا میدانِ بدرکے حالات، احد کی اذیت ہو کہ خندق کی تکالیف، خیبر کی فتح ہوکہ مکے میں
واپسی ہر ہر موقع پر اللہ رب العزت نے اپنے محبو ب کی رہنمائی و مدد فرمائی۔آپﷺ نے تبلیغ کے جس سلسلے کا آغاز اپنے گھرسے کیا تھا وہ بالآخر مدینہ شریف میں اختتام پذیر ہوا۔
حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں، ہمہ دارند، تو تنہا داری
اور
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہئ ریگ کو دیاتو نے طلوعِ آفتاب
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
اور آخر میں اس حدیث کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’اللہ تبارک وتعالیٰ کے فاضل گشتی فرشتے ہیں جو مجالس ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی انہیں ذکر کی مجلس ملتی ہے تو وہ اس میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو ڈھانپ ہوئے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں بہت اچھی طرح جانتا ہے۔”تم لوگ کہا ں سے آئے ہو؟“ وہ جواب دیتے ہیں کہ”وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم زمین پر آپ کے بندوں کے پاس آرہے ہیں جوکہ آپ کی پاکی اور بڑائی، آپ کی توحید اور آپ کی حمد بیان کرتے ہوئے آپ سے مانگ رہے تھے۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟“ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے“۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔”کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟“ فرشتے کہتے ہیں کہ”اے اللہ دیکھی تو نہیں“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تم تصور تو کرو)”اگر انہوں نے جنت دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟“فرشتے کہتے ہیں کہ وہ آپ کی پناہ مانگ رہے تھے۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کس چیز کی پناہ مانگ رہے تھے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ! آپ کی آگ سے۔ اللاہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ دیکھی تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (تم تصور کرو) اگر انہوں نے میری آگ دیکھی ہوتی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی! وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ آپ سے استغفار کررہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،”میں نے ان کی مغفرت کردی اور جو وہ مانگ رہے تھے ان کو عطا کردیا اور جس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے میں نے ان کو پناہ عطا کردی۔ نبی ئاکرم ﷺ نے فرمایا فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ”اے اللہ! ان میں فلاں گناہ گار بندہ وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”میں نے اسے بھی معاف کر دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا“۔ ]مسلم جلد 6 ص 274 حدیث نمبر6839[
——