قانون، عدالت اور صحافت – چند امیر لوگوں کی مٹھی میں ہے :- محمدقمرانجم قادری فیضی

Share
محمدقمرانجم قادری فیضی

قانون، عدالت اور صحافت
چند امیر لوگوں کی مٹھی میں ہے

محمدقمرانجم قادری فیضی

ہندوستان جنو بی ایشیا میں واقع ایک ایسا ملک ہے جس میں یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کو رچنے بسنے کا موقع دیاگیا، ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اسی لحاظ سے یہ دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتاہے،ہندوستان میں ایک ارب 35 کروڑسیزائد باشندے رہتے ہیں

اور اپنے بول چال میں ایک سو سے زائد زبانیں استعمال کرتے ہیں، ہندوستان کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار ہے، شمال میں بھوٹان، چین نیپال ہے، اور مغرب میں پاکستان ہے، اسکے علاوہ ہندوستان کے جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے نیز یہ ملک سری لنکا مالدیپ کے قریب ترین ملک ہے۔
بنیادی حقوق ریاستی پالیسی کے رہنمااصول اور بنیادی فرائض ہیں آئین ہندکے تحت جن میں ہندوستانیوں کے تئیں ریاست کی ذمہ داریوں اور ریاست کے تئیں شہریوں کی فرائض بیان کئے گئے ہیں، آئین کے حصہ سوم میں وضاحت کے ساتھ یہ درج ہے کہ حقوق نسل، جائے پیدائش، ذات، عقیدہ یا جنسی امتیازسے قطع نظر ہر شہری پر نافذ اور مخصوص پابندیوں کی تابع عدالتوں کی طرف سے قابل مفاذ ہیں، مگر آج اپناوہی تہذیب وتمدن کاگہوارہ کہاجانیوالا ہندوستان بہت ہی نازک حالات اور دورسے گزر رہاہے اور اس ہندوستان میں دیگر قومیں، ہندو، عیسائی بدھ،جین،سکھ سب چین وآرام کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں مگرہندوستانی مسلمانوں کی حالت بایں جارسیدکہ سب سے زیادہ ظلم وستم کاشکار یہی ہورہے ہیں،تختہء مشقِ ستم یہی بن رہے ہیں،اور جب سے بھگوا پارٹی کی مئی 2014 کے انتخابات میں جیتنے کی وجہ سے مودی جی وزیراعظم منتخب ہوئے،تب سے مودی حکومت سنگھیوں کیساتھ مل کر سرکاری عہدیداروں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے کی پاداش میں انسانی حقوق کے بہادر دفاع کاروں علمبرداروں اورخاص کر مسلمانوں کے اوپر لمبا چوڑا مقدمہ چلانے کا ایک طویل سلسلہ جاری کر رکھاہے حکمران جماعت اور اسکے ساتھ وابستہ ہندوانتہا پسندوں کے ذریعے مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں پر تشدد اور ظلم وبربریت کا ننگا ناچ کیا جارہاہے،مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور صحافت یہ ملک کے استحکام نیز ترقی اور امن وامان کے ظامن ہوتے ہیں مگر اس وقت حکومت کی مٹھی میں قانون، عدالت، اور صحافت تینوں ہیں، اورجب یہ تینوں خصوصی ستون کسی بھی ملک کے حکومتی دست میں آجاتے ہیں یا ان تینوں کو خرید لیا جاتا ہے تو وہ ملک امن وامان تہذیب وتمدن کا گہوارہ نہیں رہ جاتااور نہ ہی وہ ملک کبھی ترقی کرسکتاہے آج یہی کچھ حالت اپنے ملک ہندوستان کی بھی ہے، ہماریملک کا قانون اور نظام انصاف چندطاقت ور لوگوں کی مٹھی میں ہییہ سپریم کورٹ کے ایک مشہورجج کہہ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک گپتابدھ کے روز سبکدوش ہوگئے، انھوں نے اپنے خطاب میں قانون اور نظام انصاف پر کچھ سوال داغاہے جو لوگوں کو ہر جہت سے سوچنے پر مجبور کرتاہے انھوں نے کہا ملک کا قانون اور نظام انصاف چند طاقتوراور امیروں کی مٹھی میں قید ہے جج آسٹرچ کی طرح اپناسر نہیں چھپا سکتے انہیں عدلیہ کی دقتیں سمجھ کر ان سے نپٹنا چاہئے۔مزید انہوں نے کہا کہ کوئی امیر سلاخوں کے پیچھے ہوتاہے توقانون اپنا کام تیزی سے کرتا ہے لیکن غریبوں کے مقدموں میں تاخیر ہوتی ہے امیر لوگ تو جلد سماعت کے لئے اعلی عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں لیکن غریب ایسا نہیں کرسکتا، دوسری طرف کوئی امیرضمانت پر ہے تو مقدمے میں تاخیر کروانے کیلئے بھی اعلی عدالتوں میں جانے کا خرچ اٹھا لیتاہے، اور جوشخص امیر اور طاقتور ہے وہ سلاخوں کے پیچھے ہے تو وہ مقدمے میں پیشی کے دوران باربار اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کرے گا کہ جب تک وہ کسی دن یہ حکم حاصل نہیں کرلیگا کہ اسکے معاملے کا ٹرائل تیزی سے کیا جانا چاہئے، انھوں نیمزید کہا موجودہ وقت اور دور میں جج ان سب سے انجان نہیں رہ سکتے، کہ انکے آس پاس کی دنیا میں کیا ہورہاہے انھیں اسکے بارے میں ضرور پتہ ہونا چاہیے، دیکھا آپ نے، جب آج کے سپریم کورٹ کے جج کا یہ کہنا ہے۔مگر لائق تعریف بات یہ یے کہ جو بات یہ اس عہدہ پر رہ کر نہیں کہہ پائے آخر میں جاتے جاتے کہہ ہی گئے،
اس سے آپ اندازہ لگا، سکتے ہیں کہ بلکل یہ بات حق سچ اور درست ہے کہ آج کا قانون، عدالت اور صحافت چند امیر اور طاقتور لوگوں کے مٹھی میں ہے
اسی تناظر میں میریمضمون کا عنوان بھی، قانون، عدالت اور صحافت پر محیط ہے، ڈاکٹر ظفراللہ خان،ہرش مندر، پروفیسر اپوروانند، پروفیسر رام پنیانی، انجینئر سعادت اللہ حسینی، ڈاکٹر منظورعالم، ایس آرداراپوری، جان دیال، سیدہ حمیدہ سیدین، مجتبی فاروق، تپن بوس،منیشاسیٹھی،وغیرہ جیسی آفاقی شہرت کی حامل عظیم ہستیاں آج غداروطن اور ملک میں دو قوموں کے بیچ نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کئے جاچکے ہیں اورساتھ ہی ساتھ شرجیل امام،میران حیدر، صفورا زرگر، عمرخالد جیسے انقلابی بہادروں پر(یوایپی اے)لگا کرگرفتارکیا جاچکاہے۔

1-اس سلسلے کی پہلی کڑی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر تین مہینے کی حاملہ، صفورہ زرگر ہیں،
ایک طرف تہاڑ جیل کے اندر سازشی افسران کیسوال وجواب کی وہ سختیاں ہیں. تو دوسری جانب آئی ٹی سیل کے حرام خوروں کے وہ بدترین تبصرے جو صفورہ بہن کی شادی کے بارے میں ٹوئیٹر پر نشرکیئے جارہے ہیں. اس پرمزید زخم پر نمک پاشی یہ کہ یہ لوگ جس ظالمانہ انداز میں تبصرے کر رہے ہیں وہ نہ صرف ان لوگوں کی مسلم دشمن ذہنیت کی عکاسی ہے. بلکہ عورت کا مقام انکے نظر میں کیاہے وہ بھی کھل کر سامنے آرہاہے غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ایکٹ UAPA بنایا گیا تھا جس کے بارے میں کہاجاتاہے
یہ ایسا قانون ہے جس میں ضمانت ملنا مشکل ہوتاہے اس قانون کو سمجھنے کیلئے بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ جس پر بھی یہ قانون لگ جاتاہے پھر وہ سیدھا مجرم ہوجاتاہے اسکے برعکس دیگر قوانین میں یہ ہے کہ جب تک عدالت سے جرم ثابت نہیں ہوتا اس وقت تک وہ مجرم نہیں ہوتامگر، یو۔اے۔پی۔اے۔ کے تحت وہ سیدھا مجرم گرداناجاتاہے جیسے کسی کودہشت گردی کے الزام میں اٹھایا جاتاہے تووہ فوراً دہشت گرد قرار دے دیا جاتاہیویسے ہی دہلی پولیس نے سی اے اور این آر سی کیخلاف احجاجات کرنیوالوں کو کچھ دنوں سیتلاش تلاش کراسی قانون کے تحت اٹھارہی ہے اور جیلوں میں قید وبند کی زندگی گزارنیپر مجبور ومقہور کررہی ہے اسی کے تحت، شرجیل امام، صفورازرگر، کو بھی اٹھایاگیاہے صفورازرگر کون ہیں۔صفورازرگر کشمیرکے کستواڑ ضلعے کی رہنے والی ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک ریسرچ اسکالر ہیں اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی(جیسی سی)کی میڈیا کوآرڈینیٹرہیں، ان پر ماہ فروری میں شمالی مشرق دہلی میں ہونے والے فسادات کے اہم سازشی ہونے کا الزام لگایا گیاہے، اور سی۔اے۔ اے۔، این۔ آر۔ سی۔ کیخلاف پورے ملک میں بہت سارے شہروں میں پُرامن احتجاجات ہوئے اور یہ احتجاجات کئی مہینوں تک چلے، میڈیا اور حکومت نے انکو بدنام کرنے کا کبھی بھی کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا،بدنام کرنے کی ہر ممکن طورپر کوششیں کی گئیں مگر خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی، چند ہندتوا سنگھیوں نے ان پر گولیاں لاٹھیاں بھی چلائیں، مگر ان کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہیں پڑا، جب دشمنوں نے اس چال میں کامیابی نہیں حاصل کی تو پھر سازش کے تحت ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک خوفناک فساد کروایاگیا، جس میں بے گناہوں کی کئی جانیں گئیں اور سیکڑوں لوگ بے گھر ہونے پر مجبورہوگئے، مگر اصلی مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں،اتنے دنوں سے سوشل میڈیا ٹوئیٹر اور فیسبک نیز قلمکار حضرات کے ذریعے سے اخبارات وغیرہ میں بھی صفورہ زرگر کے بارے میں مضامین وغیرہ لکھے جاتے رہے مگر حقوقِ نسواں کے فرائض کی انجام دہی کرانے والی تنظیمیں خوابِ غفلت میں سورہی تھیں ابھی تک کچھ کہہ اور کر نہیں پائیں،مگر سوشل میڈیا میں خاص طور سے ملک کے باشعور افراد، دانشوران قوم، ماہرین اپنے مشترکہ بیان میں شدید برہمی کااظہارکیااور سخت ناراضگی جتانے کے بعد، اب دلی ویمن کمیشن کی چیئر پرسن سواتی مالیوال کی طرف سے ایک لیٹر پیڈ جاری کیاگیاہے اور انہوں نے اخلاق باختہ، انسانیت کے دشمن ہندتواکے چیلوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیاہے۔

2- اس سلسلے کی دوسری کڑی عالمی شہرت کی حامل شخصیت دی ملی گزٹ کے مدیر اعلی اور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ہیں،ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کیاگیا ہے دراصل حالیہ عرب ٹوئیٹر طوفان کے تناظر میں ڈاکٹر صاحب نے ہندی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے کویت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹوئیٹر پر مختصر سا ایک پیغام لکھا تھاڈاکٹرصاحب نے وہی بات کہی تھی جو ہندوستانی مسلمان ہندتوامظالم کے خلاف کہہ رہے ہیں اوریہ ہم ہی صرف نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اب تو امریکہ، برطانیہ، یورپین یونین، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس سمیت پوری دنیا کہنے لگی ہے۔ اگر ملی گزٹ کے ایڈیٹر نے اسے دہرا دیا تو یہ ملک سے غداری کیسے ہوگئی؟ کیا اپنے اوپر ہو رہے ظلم کے خلاف بولنا بھی وطن سے غداری ہے؟ اور اپنے ملک میں مظلوم کے لیئے لب کھولنا بھی کب سے غیر قانونی عمل ہو گیا؟ڈاکٹرظفرالاسلام خان صاحب، دہلی کے اقلیتی کمیٹی کے چیرمین ہیں، ہندوطاقتوں اور گودی میڈیا کی جانب سے سخت حملوں سے دوچارہیں،فرقہ پرست ہندوتواطاقتوں نے ڈاکٹر صاحب کو صرف ایک ٹویٹ کی وجہ سے نشانہ بنایا ہے-ڈاکٹر صاحب میدان صحافت کے عظیم شہسوارہیں-عربی اردو ہندی انگلش چاروں زبانوں میں مکمل عبورحاصل ہے اور چاروں زبانوں میں آپکے مضامین ومقالات شائع ہوتے رہتے ہیں،آپ مدتوں کسی سیاسی پارٹی سے نہیں جڑے، اور نہ ہی اپنے کسی آقاکو خوش کرنے کی نوبت آئی، ڈاکٹر صاحب ایک بہترین اعلی تعلیم یافتہ اور عمدہ کارکردگی نیز بہترین کردار کی وجہ سے کافی مقبولیت کی حامل فردہیں ۔

3- اس سلسلے کی تیسری کڑی مرکزنظام الدین ہے وہاں کیاہوا، یہ سب کو معلوم ہے، مگر گودی میڈیا کی شاطرانہ صحافت کیا نہ کردے، سب سے پہلے میں یہ بتاناچاہتاہوں کہ اس وقت کوئی بھی مرکزکافرد کروناوائرس کا مریض نہیں پایاگیاتھا۔مزید برآں کہ وہاں کیڈاکٹرکہہ رہے تھے کہ آفشیلی یہاں جو بھی مریض آئے ہیں کسی کی رپورٹ بھی کروناہونے کی نہیں آئی ہے اب سوال یہ ہے کہ وہاں اتنے سارے لوگ اکٹھاہوکر کون سا پروگرام کررہے تھے، اور اتنے لوگ اکٹھا کیوں تھے، اور پروگرام کیوں رکھا گیا؟خفیہ اداروں نے یہ رپورٹ بھی جاری کی تھی اور حکومت کی آفیشیل سائٹس نے بھی جاری کی تھی کہ کروناوائرس کی ابھی کوئی پریشانی نہیں ہے، 20 مارچ اور اس سے پہلے مدھیہ پردیش میں بھاجپا کے لوگ کسی طرح سے اکٹھاہوکراورسوشل ڈسٹینسنگ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نظرآئے تھے، یہ سب اس لئے اتنے ضروری تھے تاکہ مدھیہ پردیش میں بی جی پی حکومت بنالے جب حکومت بن گئی اسی دن شب میں ہندوستان کے وزیراعظم مودی جی نے لاک ڈاؤن نافذ کردیا،نظام الدین مرکز تبلیغی جماعت کا مرکز ہے وہاں ہمیشہ تبلیغی پروگرامز میں شامل ہونے کے لئے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، اپنے اپنے گھر آتے جاتے رہتے ہیں، ہر روز پندرہ سو سے لیکر 2000 ہزارتک لوگوں کا مجمع ہوتاہے جب لاک ڈاؤن نافذکرنے کا اعلان ہوا، کرونا وائرس ہونے کی تصدیق کردی گئی کہ ہندوستان میں کرونا وائرس کی ماہ ماری ہے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا، اور اعلان ہواکہ جو جہاں ہے وہیں پر رہ جائے ایسا غیر زمہ دارانہ اعلان، بنا کسی تیاری کے لاک ڈاؤن نافذ کروادیا، غلطی کس کی ہے، مودی حکومت کی، اس کے بعد مرکز نظام الدین کی کمیٹی نے فلاح وبہبودی نیز ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایس۔ایچ۔او۔ کو معلومات دی کہ ہمارے یہاں مرکزنظام الدین میں بہت سارے لوگ پھنسے ہوئے ہیں، جس میں ہندوستانی بھی ہیں اور غیر ممالک کے بھی لوگ ہیں، پندرہ سو سے زائد لوگوں کو ہم ان کے گھر بھیج چکے ہیں، مگرہزار لوگ ابھی بھی یہاں پھنسے ہوئے ہیں، جس میں تبلیغ اور انتظام وانصرام کرانے والے افراد بھی شامل ہیں، آپ ان حضرات کو یہاں سے نکالنے کے لئے مدد فراہم کریں،اس وقت تو جیسے گودی میڈیاکو معراج حاصل ہوگئی پھر کیاتھا افواہ پر افواہ پھیلائی جارہی تھی کہ اتنے لوگ کرونا کے مریض پائے گئے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی مرکز کا فرد کرونا وائرس کا مریض نہیں پایا گیاتھا، مگر گودی میڈیاکی عیاری مکاری صحافت پربہت افسوس ہوتاہے، کوئی نیوز والا کہہ رہاتھا کہ مرکز کے پچاس لوگ مریض ہیں،کوئی سو بتا رہاتھا کوئی کہہ رہاتھا کہ ڈھائی سو لوگ اس مرض کے شکار پائے گئے ہیں،کوئی یقینی طور پر کیس نہیں لکھ رہاتھ اور نہ ہی کوئی نیوز والا بتا رہاتھا کیونکہ وہ غیرقانونی ہوجائے گا، صرف عوام کو یہ بتانامقصد تھا کہ یہاں مرکز میں لوگ کرونا وائرس کے مریض پائے گئے ہیں، پر میڈیا پوری زوروشور سے لگاہواتھا کہ کرونا وائرس پورے ملک میں یہیں سے پھیلاہے اور یہ تلبیغی مرکز نہیں بلکہ کرونا کا مرکز ہے،دوسری بات اگر آپ غورکریں تو یہ سب کس لئے کیا گیاتھا،اس کے پیچھے مقصدکیاتھا؟ ڈیڑھ لاکھ مزدور جو یوپی اور دہلی کے بارڈر پر پھنسے تھے، انکی دردناک تصویریں کیجری وال حکومت کی ناکامی اور یوگی حکومت کی ناکامی، مودی حکومت کی ناکامی کو چھپانے کیلئے،ان بیہودہ حکومتوں کا قبیح ورذیل کارنامہ، کہیں مزدوروں کو سینی ٹائزرسے نہلا دھلا دیاگیا، انہیں خطرناک ومذموم حرکات کو چھپانے کیلئے، اور ان دردناک و دل دہلانے والی تصویروں سے لوگوں کو بھٹکانے کے لئے یہ سب سازش کی گئی تھی جس سے کہ عوام کا دھیان ہٹ جائے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج گودی میڈیا نے بیماری کو بھی ہندومسلم کر دیا ہے لیکن اُس وقت بھی کچھ لوگ اس پر خاموش بیٹھے تھے کیونکہ اگر آواز اٹھاتے تو ملک کے غدار گردانے جاتے مگرآخیرمیں ایساہی ہوا، دیش کے غدار ہی گردانے گئے، ایسی حکومت کے غلط رویؤں اور غلط فعل پر آپ فکرنہیں کریں گیاپنے ملک کا کیاحال ہوگا،خدا ہی جانے، اس وقت ہندوستانی ہوکر سوچئے اور کہیئے کہ جو بات حق ہے اس کو بولنا چاہیئے اور سچ بولئے،صرف اور صرف اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے کیجری وال حکومت اور اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے مودی ویوگی حکومت نے اس طرح کی سازش رچ کر مسلمانوں کو بدنام کی تھی، اور وہاں کوئی بھی شخص کرونا وائرس کا مریض نہیں تھا یہ بھی یاد رکھئے گا، گودی میڈیاکیلئیکچھ اشعارموقعیکی مناسبت سے،
ہمارے ملک کاچینل آزادی بول دیتاہے
اگر وہ دیکھ لے ڈاڑھی جہادی بول دیتاہے
کسی مندرمیں کوئی چوربھی ملتاہے اچھاہے
اگر مسجد میں مل جائے فسادی بول دیتاہے
جس طرح پولیس نے مرکز نظام الدین کو نشانہ بنایا اور مولاناسعدپرملک سے غداری، منی لانڈرنگ، غیرارداتاً قتل، نیز دوسرے مقدمات درج کئے ہیں، اور کسی ایرے غیرے کی شکایت پر فوری طور پر مقدمہ درج ہوگیا، ان سب میں حکومت کی منشاء صاف وشفاف نظر آرہی ہے، اسی مقصد کے تحت ملک گیر پیمانیپریہ ظلم وستم جاری ہے تاکہ مسلمانوں کے اندر سے مزاحمت کی طاقت مفقود ہو جائے اور وہ گونگے بہرے بنے رہیں، اور اس قدر خوف ودہشت میں مبتلا کردیاجائے کہ وہ اپنے اوپر ہونیوالے ظلم وجبرکے خلاف سینہ سپر نہ ہوپائیں، اور انکی آواز منھ میں ہی دب کر رہ جائے،کہاجاتاہے کہ اگر موجودہ حکومت کی مخالفت کرو تو میڈیا پریشان، میڈیا کی مخالفت کروتو حکومت پریشان، اور ان دونوں کی مخالفت کروتو سپریم کورٹ پریشان، غضب کا سیکولر ملک ہے،
——-
پتہ۔ریسرچ اسکالر سدھارتھ یونیورسٹی
سدھارتھ نگریوپی۔
رابطہ نمبر-6393021704

Share
Share
Share