جنگ بدر حق و باطل کا پہلا معرکہ
ڈاکٹر عزیز سہیل ،حیدرآباد
اسلام اور کفر کی پہلی جنگ کو تاریخ میں ”جنگ بدر“کے نام سے یادکیا جاتا ہے یہ جنگ غزوہئ بدر کے نام سے مشہو ر ہے،جو 17رمضان المبار ک 13مارچ 624ء بروز جمعہ بدر کے مقام پر لڑی گئی یہ آپ ﷺ کی قیادت میں دین اسلام کی پہلی لڑائی تھی جس نے حق و باطل کے فرق کو واضح کردیا حالانکہ مشرکین قریش ایک ہزار نفری کے ساتھ جنگ میں شامل تھے،
جن میں قریش کے نامور روساء شریک تھے۔جس کی قیادت ابو جہل کررہا تھا اور اسلامی لشکر میں 313مسلمان تھے جو خود اپنے رشتہ داروں سے نبرد آزما تھے جنگ کی کئی ایک وجوہات تھی جیسے مشرکین قریش کااہل مدینہ کو کعبہ کے طواف سے روکنا،مسلمانوں نے مکہ والو ں کے قافلے جو مدینہ سے ہوکر شام کو جاتے تھے روکا تھا، یہ تو وجوہات تھی ہی سب سے اہم وجہ صرف”دین اسلام“تھا اہل قریش کسی بھی حال میں ایک رب کی بندگی سے انکار کررہے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کررہے تھے ان کو”دین اسلام“ کے مقابلہ میں اپنے آباواجداد کا دین پسند تھے اور وہ کسی بھی حال میں کفر کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے،وہ اسلام کا خاتمہ چاہتے تھے ان وجوہات کے درمیان ایک اہم واقعہ نے جنگ کے حالات پیدا کردئے وہ یہ کہ مشرکین قریش کا ایک تجارتی قافلہ جو شام سے مکہ واپس ہو رہا تھا اس قافلہ میں 50ہزار اشرفیوں کی قیمت کی مالیت کامال تھا۔اس قافلہ کے سرداری ابو سفیان تھے،جن کو اس بات کا خدشہ تھا کہ مدینہ کے قریب اس قافلے کو اہل مدینہ لوٹ لیں گے اس ڈرسے انہوں نے ایک قاصد کو فوری مکہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں سے مدد لے کر واپس آئے، اس قاصد نے مکہ جاکر ہنگامہ برپا کردیا کہ مسلمان ہمارے قافلے کو لوٹ رہے ہیں یہ سنناتھا، مشرکین نے فوری اایک ہزار افراد کا لشکر لے کر مسلمانوں کے خاتمے کے لئے جمع کیا اورجنگ کے لئے نکل پڑے،ان حالات کی حضور اکرم ﷺ کو اطلاعات مل رہی تھیں۔حضرت محمدﷺ نے مہاجرین اور انصار کی ایک فوج تیار کی جن کے پاس لڑائی کے لئے ساز وسامان بھی نہیں تھا جن میں صرف دو تین گھوڑے،70اونٹ اور 60صحابہؓ کے پاس زرہیں تھی۔چند تلواریں تھی ان کے مقابلہ میں کفار کا مسلح لشکر تھا جو پورے ساز وسامان سے لیس تھا،البتہ کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس خدا پر ایمان،نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت،دین اسلام کا جوش و جذبہ تھا یہی وہ یقین و اعتماد تھا جو فتح کا باعث بنا۔
اس جنگ میں اسلامی لشکر کو فتح حاصل ہوئی،اسلامی لشکر کے چودہ مجاہدین نے شہادت پائی جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار شامل تھے،سب سے پہلے حضرت مہجع ؓ نے شہادت پائی۔ کفاران مکہ کے لشکر سے 70لوگ مارے گئے جن میں ابوجہل بھی شامل تھا۔مشرکین قریش کے کئی آدمی قید کر لیے گئے۔اس جنگ کی کامیابی میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے آغاز سے قبل اپنے رب سے دعا مانگی جس کے نتیجہ میں اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو روانہ کیا،جس کا تذکرہ قرآن مجید کی سورت الانفال کی آیت نمبر۷تا9 میں آیا ہے۔
”یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کررہاتھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمھیں مل جائے گا،تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمھیں ملے۔مگر اللہ کا ارداہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہوکر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کویہ کتنا ہی ناگوار ہو،او ر وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمھاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔“
جنگ بدر کی کامیابی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حق حق ہے اور باطل باطل اور اللہ کا دین ہی غالب آنے والا ہے۔اس معرکہ نے مسلمانوں کی ذہنی تربیت میں کافی اہم رول ادا کیا۔مکہ والوں نے مسلمانوں کی آواز کو دبانے کی بہت کوشش کی،دعوت اسلامی سے روکابالاخر اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔
بدر کے معرکہ میں کئی ایک واقعات پیش آئے جس کو کئی مصنفین نے اپنے کتابوں میں درج کیا ہے۔یہاں جنگ بدر سے متعلق دو واقعات کو پیش کیا جارہا ہے۔جنگ بدر میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اس موقع پر اسلامی لشکر کے سالار حضرت محمد صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”لوگو اٹھواور اس جنت کی طرف لپکو جس کی وسعت زمین و آسمان سے بڑھ کر ہے جو پرہیز گار وں کے لیے بنائی گئی ہے۔یہ سن کر حضرت عمیر بن الحمام ؓنے آہ ِسرد بھری اور حسرت بھری آواز میں کہا۔کاش،میں بھی ان میں سے ہوتا،آنحضرت ؐ نے فرمایا۔تم بھی ان ہی میں سے ہو۔حضرت عمیرؓ جو کہ اپنی جھولی سے کھجوریں نکال کر بھوک کی شدت کو کم کررہے تھے،دفعتاََ ان کے ذہن میں خیال آتا ہے ”ان کھجوروں کو ختم کرنے کا انتظار کون کرے،یہ لمحات تو بہت طویل ہیں“۔اس خیال کے آتے ہی وہ کھجوریں پھینک دیتے ہیں اور تلوار لے کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں صفوں کی صفیں تہ و بالا کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما لیتے ہیں۔“)کردار کے غازی،ص61،71)
اس جنگ میں اسلامی لشکر میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی پیچھے نہیں تھے ایک واقعہ کو سراج الدین ندوی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے ”غزوہ بدر کی تیاریاں ہورہی ہیں مکہ کے مشرکوں نے مدینہ پر حملہ کی ٹھا ن رکھی ہے پیارے نبی ﷺ اپنے دفاع کے لیے اسلامی لشکر لے کر بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں گیارہ بارہ سال کا ایک بچہ عمیر چھپ کر پیچھے پیچھے چل رہا ہے،بھائی کی نظر پڑتی ہے تو پوچھتے ہیں تم کیوں چھپ کر چل رہے ہو؟ بچہ جواب دیتا ہے مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر رسولِؐ خدا کی نظر مجھ پر پڑگئی تو وہ کم عمری کی وجہ سے مجھے واپس کردیں گے۔اور جہاد میں شرکت کی اجازت نہ دیں گے جبکہ میں اللہ کے راستے میں لڑنا چاہتا ہوں،چھوٹے بھائی کے یہ جذبات دیکھ کر بڑے بھائی کو مسرت ہوتی ہے۔اچانک حضور اکرامؐ کی نظر عمیر پر پڑتی ہے۔آپ ﷺ دیکھتے ہی واپسی کا حکم دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ”اے بچے تم واپس جاؤ،جب بڑے ہوجاؤ گے تو لڑنے آنا“۔کیونکہ جنگ بچوں کا کھیل نہیں ہے،یہ تو بڑوں کے لیے بھی نہایت سخت اور مشکل ہے،یہ سن کر عمیر غم کی تصویر بن جاتے ہیں اور رو پڑتے ہیں،یہ دیکھ کر حضور اکرام ؐ کا دل بھر آتا ہے آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو تارے بن کر چمکنے لگتے ہیں اور اس بچہ کو جنگ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمادیتے ہیں۔یہ نو عمر بچہ بڑی جانبازی سے لڑتا ہے اور جام شہادت نوش کرلیتا ہے۔“(کردار کے غازی،ص۹۲)
بہر حال اس معرکہ سے ہم کو کئی باتوں کا سبق ملتا ہے۔حق کبھی بھی باطل کے مقابل میں غالب آتا ہے اس کے لئے آدمی کو صبر کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی اپنے رب سے مدد بھی مانگنی چاہئے۔ہمیشہ امتحان کی گھڑی میں ثابت قدم رہنا چاہئے۔یقین و اعتماد میں ہی کامیابی ہے،ایمان مضبوط ہونا چاہئے،شہادت کا بدلہ جنت ہے۔ صحابہؓاکرام نے ماہ رمضان میں بہ حالت روزہ جنگ میں حصہ لیااللہ کی مدد آئی اور فتح نصیب ہوئی،بدر کا پیغام یہی ہے کہ مومن اطاعت الہی،اطاعت نبی ؐ کواختیار کریں،حسب ضرورت اسباب کوبھی استعمال میں لائے لیکن ہر حال میں ہماری نظر اللہ پر رہنی چاہئے تو آج بھی اسباب کے خلاف اللہ کی مددمسلمانوں کے ساتھ مشروط ہے اور مسلمان ضرورباطل کے خلاف سرخ رو ہونگے انشاء اللہ۔
عزم محکم عطا کر خدایا حوصلوں کو نئی روشنی دے
بدر کی کامرانی میں تو ہے توہی خیبر میں عظمت کی دھارا
حق و باطل کے ہر معرکہ میں تو رہا غازیوں کا سہارا
آج بھی ہرطرف کربلا ہے ہم کو شبیر سے تشنگی دی
سر اٹھائے ہیں ہر سو اندھیرے سب چراغوں کو اب روشنی دے