مثالی استاد کے اوصاف
سیرت طیبہ کی روشنی میں
فاروق طاہر
حیدرآباد،انڈیا
9700122826
کسی بھی سماج میں استاد کا مقام نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ استاد دانشمند انہ روایات کی منتقلی اور تہذیب کے چرا غوں کو روشن کر تا ہے۔تعلیم کی جدید کاری و تعمیر میں سب سے اہم کر دار استاد کا ہوتا ہے۔ تعلیمی عمل میں استاد محور ہو تاہے جس کے اردگرد تمام تعلیمی نظام گردش کرتا ہے۔
استاد کی تعلیمی لیاقت،ذاتی اوصاف اور اس کو تر بیت فراہم کر نے والے ادارے اور معاشر ے میں پسندیدہ اقدار کے منتقلی میں ایک طاقتور ذریعہ کا کردار انجام دیتے ہیں۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی پو شیدہ صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کو بہتر طریقے سے پروان چڑھائیں۔ زندگی سے مختلف پیشے جڑے ہوتے ہیں جن سے مختلف پیشہ وار افراد تعلق رکھتے ہیں ڈاکٹر ی کا پیشہ عوامی صحت سے تعلق رکھتا ہے،جبکہ انجینئر کا تعلق تعمیری پہلو سے منسلک ہو تا ہے جہاں ایک انجینئر سڑکوں،پل،ڈیم اور گھروں کی تعمیر کی ذریعہ سماج کی تعمیر ی ضروریات پر توجہ مرکوز کر تاہے اور عوامی راحت اور سہولتوں کی فراہمی میں پیش پیش رہتاہے وہیں ڈاکٹر عوامی زندگی کی طوالت کو یقینی بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ پیشے بیشک سماج کے لئے نہایت ہی کارآمد ہیں لیکن یہ انسانی زندگی کے چند شعبوں تک محدود ہوتے ہیں جب کہ پیشہ تدریس انسان کی جسمانی،معاشرتی،ذہنی اخلاقی،روحانی، جمالیاتی اور ہمہ گیر فروغ میں اہم کردار انجام دیتاہے جس کی وجہ سے پیشہ تدریس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ چونکہ ایک استاد پیشہ تدریس میں ایک قائدانہ کردار کا حامل ہو تاہے اسی لئے اس سے چند توقعات بھی وابستہ کی جا تی ہیں کہ وہ تعلیمی اغراض و مقاصد پر کامل دسترس کا حا مل و عامل ہو تاکہ ہر حال میں پیشہ کا تقدس بر قرار رہ سکے۔صرف کسی بھی پیشے کا انتخاب کر لینے اور اس کی تر بیت کے حصول سے ایک قابل استاد کی تیاری ممکن نہیں ہے چند پسندیدہ شخصی اوصاف اور پیشہ وارانہ مہارت کے امتزاج سے ایک موثر اور کا میاب استاد کو تیار کیا جا سکتاہے۔ استاد اپنا بیشتر وقت طلبہ کی قر بت میں گزارتا ہے جس کے نتیجے میں اساتذہ کے رویے،حر کات و سکنات،پسند و نا پسند اور بر تاؤ کا طلبہ پر گہرا اثر پڑتاہے۔ اپنے دوستانہ بر تاؤ، صبر،خاموشی مزاجی کے ذریعے استاد کمرۂ جماعت میں ایک اچھی جذباتی فضاء ہموار کر تا ہے۔ادنی واعلیٰ لیاقت کے حامل طلبہ کے ساتھ عادلانہ و مساویانہ تعلیمی منصوبہ بندی اور عمل پیرائی ایک اچھے استاد کا جوہر خاص ہوتا ہے۔انسانیت کے چراغوں کو روشن و منور کر نے کے لئے ضروری ہے کہ طلبہ کے فطری محرکات،خواہشات اور رویوں کو شائستہ بنانے کے ساتھ انھیں صحیح سمت پر گامزن کریں۔طلبہ میں یقین و خود اعتمادی کے فروغ کے علاوہ ایک استاد کا فرض اولین ہوتا ہے کہ وہ طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار نے کے ساتھ ساتھ ان کی تر قی کی راہوں کو متعین کر یں اورانھیں مسلسل نئے تعلیمی طریقوں و رجحانات سے روشناس کرتا ر ہے۔اساتذہ کے مطلوبہ اوصاف میں علمیت،حس مزاح، باہمی اشتراک،جذبہ خدمت،پیشہ سے دیانت، شخصی جاذبیت، کھلاذہن، توجیہ و استدالال،قوت ارادی،استقلال،غیر جانبداری،مہذب انداز اور عزت نفس جیسے اوصاف کا پایا جانا نہایت اہم تصور کیا جا تاہے کیونکہ طلبہ پر گہرا اور دیر پا اثر کا ذریعہ ایک کامیاب استاد کی شخصیت ہی ہوتی ہے۔ان امور کے علاوہ حقیقت شناسی،نئے تجربات کو کھلے ذہن سے قبول کر نا،نئے تجربات و رجحانات اور اطلاعات کے ذریعے طلبہ میں تعلقات میں ہم آہنگی،اخلاقی اقدار پر منحصر رویے کے ذریعے طلبہ کی کردار سازی اہم ہے۔
اساتذہ کا شمار قوم کے سب سے زیادہ ذہین اور باشعور طبقے میں ہوتا ہے اساتذہ کے فرائض منصبی میں تعمیر قوم،کردار سازی،ترکیہ نفس،قیادت کی تیاری،قیادت کو اعلی نظریات سے متصٖف کرنا حق و باطل،جائز و نا جائز اور حلال و حرام کا شعور بیدار کر نا بھی شامل ہیں۔زندہ قومیں اپنا نظام تعلیم اپنے عقائد،افکار اور اپنی تہذیب و کلچر کی روشنی میں تر تیب دیتی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ و علیہ و سلم کوبنی نوع انسان کے لئے رہبر،ہادی،رہنما اور معلم اعظم بنا کر بھیجا گیا۔دنیا میں آپ کی بعثت کا مقصد علم و حکمت کی تعلیم و اشاعت تھا۔آپ کو علم و حکمت کی تعلیم خود رب ذوالجلال نے دی اور تمام انسانیت کے لئے معلم بنایا۔آپ کی حیات مبارکہ زندگی کے ہر شعبے میں مقتدا اور رہنماہے اسی لئے قرآن کہتا ہے "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ”رسول اللہ کا اسوہ بہترین نمونہ ہے۔سیرت طیبہ کے مطالعے سے ایسے اوصاف کا ہم کو پتہ چلتاہے جس کے ذریعے ایک کامیاب،مثالی اور متناسب استاد کا وجود ابھر کر سامنے آتاہے جوسیر ت طیبہ کی روشنی میں طلبہ کی علمی تشنگی کو دور کر نے کے سامان فرا ہم کر تا ہے۔ موجودہ بیشتر ما ہرین تعلیم جن کے نظریات جدید تعلیمی فلسفہ و اصول نفسیات اور در س و تدریس کے اساس مانے جا تے ہیں سیر ت رسول کے مطالعے سے یہ خوش گوار انکشاف ہو تا ہے کہ یہ سب کے سب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریہ تعلیم و تعلم کے خوشہ چیں ہیں۔
اکتساب کے عمل میں استاد کا نرم و شیریں لہجہ اور مشفق رویہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔نبی کر یم صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی تکلم فر ماتے آپ کا لہجہ نہایت ہی شیر یں اور ملائم ہو تا اور آپ کی تعلیم سامعین کی دلوں پر راست اثر کر تی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو بھی نرم اور شفیق بننے کی تلقین فر مائی۔آپ نے فر مایا کہ تعلیم کو آسان کر و اور لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالو۔آج کا سائنسی طریقہ تعلیم بھی اسی بصیرت افروز نکتہ کی طر ف توجہ دلاتا ہے کہ ایک معلم آسان سے مشکل کی طر ف پیش قدمی کرے۔سیر ت طیبہ ایک کامیاب استاد کے لئے لازمی قراد دیتی ہے کہ وہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر تعلیم کے کا م کو انجام دیں تاکہ طلبہ کو پوری بات باآسانی سمجھ میں آسکے اور اس کو سبق کے استحضار میں سہولت ہو کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بات کی اہمیت کو واضح کر نے کے لئے بات کو دو یا تین بار دہرایا کر تے تھے۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی گفتگو فر ماتے تو درمیان میں وقفہ فر ماتے اور بات کو کھول کھول کر بیان کرتے تاکہ وہ بات سننے والے کے ذہن میں اتر جائے۔ایک مثالی استاد کی گفتگو فصاحت و بلاغت سے لبریز ہو نی چاہئے موضوع کی مکمل تفہیم کے لئے الفاظ کاانتخاب، مختصرجملوں کے علاوہ جملوں کی خاص تر کیب سے طالب علم کسی بھی الجھن اور مغالطے سے محفوظ رہتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام عرب ” افصح العرب”کہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ سلم کی گفتگو کی تاثیر کا قائل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جوامع الکلم سے نوازا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر آسان جملوں میں مکمل کردیتے تھے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کیا جا تاہے۔موثر اور کامیاب تدریس کے لئے ایک استاد کو چاہئے کہ سرکار کے اسوہ سے فیض حاصل کرے۔اپنی لسانی صلاحیتوں کی بناء پر ادق سے ادق مضامین کو سہل اور دلچسپ بناکر طلبہ کو پیش کر یں۔اکثر اساتذہ مناسب اور بہتر لسانی صلاحیتوں سے عاری ہو نے کی وجہ سے مو ثر تدریس کی انجام دہی میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ایک کامیاب اور مثالی استاد کے لئے لازمی ہے کہ وہ زبان کی فنی باریکیوں اور اس کی بنیادی مبادیات سے واقف ہوں تاکہ وہ طلبہ کو فوری اکتساب کے عمل کی جا نب راغب کر سکے۔
سبق کی کامیاب منصوبہ بندی اور تدریس کے لئے ضروری ہے کہ معلم طلبہ کی ذہنی صلاحیت و استعداد کا خیال رکھے۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مخاطب کی ذہنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس کو نصیحت فر ماتے تھے۔ایک صحابی کا واقعہ اس ضمن میں بیان کر نا مناسب معلوم ہو تاہے تاکہ نفس مضمون کو وضاحت حا صل ہو۔ایک صحابی نے فر مایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں بہت زیادہ گناہوں میں گرفتار ہوں اور میر اان سے پیچھا چھوڑانا بھی مشکل نظرآتا ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں صرف ایک برائی کو چھوڑ سکتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے ان سے سچ بولنے کا وعدہ لیا اور ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔صحابی رسول نے جب جھوٹ سے اعراض کر لیاتو باقی خرابیاں از خود ختم ہوگئیں۔ ایک معلم کو چاہئے کہ وہ درس و تدریس کے دوران طلبہ کی ذہنی استعداد اور صلاحیتوں کو پیش نظر رکھیں اور تدریسی عمل کو حکمت و دانائی سے متصف کرے۔
ایک کامیاب استاد اپنی تدریس کو مثالوں کے ذریعہ دلکش اور دلچسپ بنا تا ہے۔سرکار صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو اکثر مثالوں کے ذریعہ تعلیم دیتے تھے۔ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ میر ی بیوی کو سیاہ بچہ تولد ہو ا ہے جبکہ ماں اور باپ دونوں بھی سفید فام ہیں پھر بھی یہ لڑکا سیاہ ہے۔آپ ﷺنے مو قع کی نازکت کا جا ئزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟اس نے کہا ہا ں ہیں۔آپ ﷺنے سوال کیا کہ کیا ان میں کوئی سیاہی ما ئل اونٹ بھی ہیں۔اس نے کہا کہ ہا ں ہے آپﷺنے پھر سوال کیا کہ وہ سیاہی ما ئل اونٹ سرخ اونٹوں میں کہا ں سے آگیا۔اس نے کہا ہوسکتاہے کہ اس کی نسل میں کوئی اس رنگ کا رہا ہو۔آپﷺ نے فر مایا کہ یہ بچہ بھی تمہارے اصل نسب کے اثر سے ہی سیاہ ہوا ہے۔
کا ر نبوت سے وابستہ افراد یعنی کے اسا تذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کے سوالات کا تحمل سے سامناکر یں اور بہت ہی تحمل صبر اور دانش مندی سے طلبہ کے سوالات کے جوابات دیں ان کو مذاق اور اپنے عتاب کا نشانہ نہ بنائیں۔دینا کی سب سے معظم و بر گزیدہ شخصیت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حا ضر ہو کر زنا کی اجازت طلب کر تا ہے۔قربان جائیے معلم انسانیت پر کہ آپ کی پیشانی پر کوئی شکن تک نہیں ابھری اور آپ نے بڑے صبر و تحمل سے فرمایا کہ کیاتم اجازت دے سکتے ہو کہ کو ئی شخص تمہاری ما ں،بہن،بیوی یا بیٹی سے زنا کر ے اس نے کہا کہ ہر گز میں اجازت نہیں دے سکتا۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس کسی خاتون سے وہ منہ کا لا کر ے گا وہ بھی کسی کی ماں،بہن،بیوی یا بیٹی ہے اسی لئے تم اپنے آپ کو اس ؎گناہ سے روک لو۔گنا ہ کی رغبت رکھنے والا آپ کی تعلیم کے نتیجے میں زنا جیسے خبیث گنا ہ سے نفرت کر نے لگتاہے۔دعویداران علوم نبوت کو چاہئے کہ وہ سرکارر ﷺ کی اس سنت کو اپنی تدریسی اور تعلیمی کاز میں بروئے کار لائیں اور طلبہ کے اوٹ پٹانگ اور معصوم سوالات پر مشتعل نہ ہوں اور ان کو تشدد اور تمسخر کا نشانہ نہ بنائیں اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں اور طلبہ کی صحیح رہبری کر یں اور دل آزاری سے اجتناب کر یں۔دل آزاری سے پر ہیز لازمی ہے کیونکہ دل آزاری کے باعث طلبہ ڈھیٹ ا ور گستاخ بن جا تے ہیں۔آپ ﷺ کو جب کوئی بات یا کسی کا کوئی فعل ناگوار گذر تاتوآپ ﷺ ناگوار بات کہنے والے شخص کا نا م لیے بغیر فرما تے کہ لوگوں کو کیا ہوگیاہے کہ وہ ایسا کام کر تے ہیں اور فرماتے کہ وہ بہت ہی اچھا آدمی ہے اگر یہ کام چھوڑدے۔آپ ﷺ کے اس عمل سے اساتذہ کو در س ملتا ہے کہ وہ نا گوار حالات و واقعات پر بالراست تنقید سے پر ہیز کر یں اور سنت نبوی کی روشنی میں بالواسطہ نصیحت کر یں۔
ایک کامیاب معلم طلبہ میں نہ صرف حصول علم کا شوق پیدا کرتاہے بلکہ درس سے پہلے طلبہ کو حصول علم کے لئے آمادہ بھی کر تاہے۔درس کے درمیان مختصر وقفہ بھی دیں تاکہ طلبہ بوریت و اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں آپ ﷺ صحابہ کو ایک دن کے نا غے سے واعظ و نصیحت فرماتے تھے تاکہ وہ اکتاہٹ ا ور بوریت سے محفوظ رہیں۔سیر ت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ﷺ تر غیب و دلچسپی کے لئے تعلیم سے قبل مختلف سوالات کے ذریعے مناسب ماحول اور فضاء پید ا کرتے تھے مثلاً مفلس کون ہے؟ یا پہلوان کون ہو تاہے؟ یا وہ کون سا درخت ہے جو بہت ہی مبارک ہے؟وغیرہ۔ ا ن تعلیمات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ معلم اپنے درس سے قبل تعلیمی ما حول و فضاء کو ہموار کر نے کے ساتھ طلبہ میں محرکہ پیدا کرے اور ان کو تر غیب دیں پھر در س و تدریس کا آغاز کر یں۔بیشتر ماہرین تعلیم اس نظریہ کے قائل ہیں کہ بغیر ترغیب و محرکہ پید ا کئے موثر تدریس ناممکن ہے۔استاد چھوٹے چھوٹے سوالات کے ذریعے بڑی بڑی حقیقتوں سے طلبہ کو روشناس کرسکتے ہیں۔
اساتذہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ فکر و تدبر سے لیس ہوں اور طلبہ میں بھی اس کو فروغ دیں وہ علم لا حاصل ہے جو فکر وتدبر کوپروان نہ چڑھا سکے۔آپ ﷺ قدرت کی کاری گری پر غور و فکر کر نے اور اس کی حکمت پر تدبر کرنے کی تلقین کر تے تھے۔آپ ﷺ نے فرمایا ”ایک گھڑی کا تفکر ساری رات کی عبادت سے بہتر ہے۔“”،”ایک عالم کو ایک عابد پر وہی فضیلت حا صل ہے جو چودھویں کے چاند کو دیگر ستاروں پر“،”ایک فقہی شیطان کے لئے ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔“آپ ﷺ کے مذکورہ احادیث کی روشنی میں اساتذہ طلبہ میں غور و فکر کو پروان چڑھائیں کیونکہ فکر و تدبر ہی و ہ عمل ہے جس کے ذریعے کا ئنات کے اسرار کو فاش کیا جا سکتاہے۔ایک کامیاب معلم کے لئے ضروری ہے کہ اس کے علم و عمل میں موافقت ہو۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ علم عمل کے بغیر بیکار ہے اعمال صالحہ کے بغیر ایمان موثر نہیں ہو تا ہے اسی لئے ایک استاد کو چاہئے کہ وہ طلبہ کے سامنے عملی نمونہ پیش کر یں اور جو بھی پند و نصیحت کر ے اس پر پہلے خود عمل کرے تاکہ نصیحت تاثیر سے خالی نہ ہو۔علم و عمل اور قول و فعل کا تضاد انسان کے لئے بڑی تباہی کا باعث ہو تا ہے آج دنیا اسی کی وجہ سے تخریب اور تباہی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔انسان نے جدید علوم کے سہارے آسمانوں میں پرندوں کی طرح اڑنا اور ر سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیر نا تو سیکھ لیا ہے لیکن ایک انسان کی طرح بامروت اور اخلاقی زندگی گزارنے سے عاجز ہے۔
درس و تدریس سے وابستہ افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ علوم نافع کی طلبہ کو تر غیب دیں کیونکہ فرمان نبوی ﷺ ہے وہ علم جس سے نفع حاصل نہ کیا جائے وہ غیر مدفون خزانے کی مانند ہے۔علم نافع سے مراد وہ علم ہے جو انسان کو اللہ کی خوشنودی کا خوگر کر دے اور شریعت کا تابع بنانے کے ساتھ رضائے الہی کے مطابق اس کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردے۔غیر نافع علم سے مراد وہ علم ہے جو انسان کو صرف مادی خواہشات کا پرستار بنادے،دین سے بیزار کردے اور خود غرضی کا عادی کر دے۔قرآن نے آپ ﷺ کو بحیثیت معلم انسانیت پیش کرتے ہوئے آپ ﷺ کی بعثت کے چار فرائض بیان کئے ہیں جس میں تزکیہ نفس بھی شامل ہے۔آپ ﷺ نے بے عمل عالم کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی ہے جو لوگوں کو روشنی تو دیتاہے لیکن خود اندھیرے میں رہتاہے۔آپ ﷺ نے فرمایا روز قیامت لوگوں سے حشر کے میدان میں جو پانچ سوالات پوچھے جائیں گے ان میں علم پر عمل سے متعلق سوال بھی ہو گا کہ انسان نے اپنے علم پر کس حد تک عمل کیااور اس سے لوگوں کو کیا فائدہ پہنچایا۔سیرت طیبہ اساتذہ سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ عملی نمونہ کی اعلی مثال پیش کر یں۔عفو درگزر سے کام لیں۔طلبہ میں اولعزمی اور حوصلہ مند ی کو پر وان چڑھائیں۔عجز و انکساری سے کام لیں اور اس کی تعلیم دیں۔درس و تدریس کو مخصوص نہ کر یں بلکہ اس کے فیوض کو عام کرے۔طلبہ میں ڈر خوف گھٹن کی کیفیت کا سد باب کریں۔طلبہ کے سوالات کے اطمینان بخش جواب دیں۔سیرت طیبہ کے ان معلمانہ اوصاف حمیدہ سے اساتذہ متصف ہو کر نہ صرف اپنے فن میں کمال پیدا کر سکتے ہیں بلکہ مجروح انسانیت کے غموں کا مداوا بھی کر سکتے ہیں۔