عالمی یوم آزادیئ صحافت اور ہمارے ملک کی زرد صحافت
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 9934839110
email:
3 / مئی عالمی یوم آزادیئ صحافت کے طور پر منانے کی روایت گزشتہ کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔اس مناسبت سے آزادیئ صحافت اور ملک کی موجودہ صحافت کے تعلق سے چند باتیں کرنے کا آج اچھا موقع ہے۔
ہم اس بات سے قطعی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ عہد حاضر میں اخبارات اور ٹیلی ویژن نے جس طرح ہر گھر میں اپنی جگہ بنالی ہے، اس سے اس کی روز بروز بڑھتی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی مقبولیت، اہمیت اور افادیت کے پیش نظر آج کے دن کو اقوام متحدہ نے صحافت اورآزادیئ صحافت کے لئے مخصوص کیا ہے۔
صحافت، خواہ جس زبان کی ہو، اس کی اہمیت اور افادیت کو ہر زمانہ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری سماجی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے ہیں۔اس کا بہر حال اعتراف تو کرنا ہی ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہے اورواقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے، تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دئے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عائد کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی، ویسے ویسے عوام کومتوجہ کرانے میں کامیاب بھی ہوتی گئی۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ لیکن جب سے صحافت پر سیاست حاوی ہونے لگی اور دنیا کے بڑے بڑے صنعت کار، دولت مند اور بعض ممالک کی حکومتیں، صحافت کی بے پناہ طاقت کا اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگیں،تب ایسے حالات سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1991 ء کے اپنے 26ویں اجلاس میں منظور قرارداد کو نافذکرتے ہوئے 1993ء سے ہر سال 3 / مئی کو عالمی سطح پر یوم آزادیئ صحافت کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ جس کے تحت صحافتی تحریروں پر پابندی لگانے، انھیں سنسر کرنے، جرمانہ عائد کرنے نیز صحافیوں کو زدوکوب کئے جانے، ان پر جا ن لیوا حملہ کئے جانے، انھیں اغوأ کئے جانے اور انھیں بے دردی سے قتل کئے جانے پر غور و فکر کرنے اور ان کے سدّباب کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسے حالات سے نپٹنے، حکمت عملی تیار کئے جانے اورحکومت وقت کو انتباہ کئے جانے پر زور دیا گیا ہے۔
یونیسکو نے ایسے مقامی اور عالمی سطح کے اداروں، شعبوں، این جی اوز وغیرہ کوصحافتی حفاظت، آزادیئ صحافت اور ترقی ئ صحافت کے لئے مثبت اقدام اور اس ضمن میں غیرمعمومی خدمات کے لئے 1997 ء سے چودہ آزاد صحافیوں کی جیوری سمیت یونیسکو کے اسٹیٹ ممبران کی سفارش پر کولمبیا کے ایک اخبار El Espectador کے مقتول صحافی Guillermo cano isaza جو کہ 17 /دسمبر1986 ء کو کولمبیا کے ایک بہت بڑے اور دولت مندصنعت کار کے خلاف لکھنے کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا تھا، ان کے نام پر ایک باوقار ایوارڈ کا فیصلہ کیا گیا ، تاکہ نہ صرف جمہوریت کا استحکام اور اس کا افادی پہلو کا دائرہ وسیع ہوبلکہ مفاد عامّہ کے لئے صحافت اور صحافتی خدمات پر معمور صحافیوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے کہ کس طرح نامساعد حالات میں عوامی مفاد کے لئے رائے عامّہ تیار کرتے ہیں۔
اس کے لئے 1 مئی سے3 مئی 2011 ء میں امریکہ کے واشنگٹن شہر میں عالمی یوم آزادیئ صحافت کا جلسہ بڑے پیمانہ پرمنعقدکیا گیا اور اس موقع پر اکیسویں صدی کے میڈیا اور اس کی بنیادی آزادی پر کئی ممالک کے مندوبین نے بحث و مباحثہ میں حصّہ لیا تھا۔
لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے بیشتر ممالک بشمول بھارت میں آزادیئ صحافت پر پہرے بٹھائے جانے، صحافیوں پر پُر تشدّد حملے اور قتل کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں۔ امریکی فریڈم ہاؤس کی جانب سے جاری ایک جائزہ کے مطابق گزشتہ سال 70 ممالک میں صحافتی آزادی، 61 ممالک میں جزوی طور پر اور 64 ممالک میں آزادیئ صحافت پر مکمل پابندی رہی۔ سوویت یونین، مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں صحافت کی آزادی سلب رہی، جبکہ اسرائیل، اٹلی اور ہانگ کانگ میں ایران، لیبیا، شمالی کوریا، میانمار، روانڈا اور ترکماستان وغیرہ میں صحافت،اپنی آزادی کے لئے کراہتی رہی۔ آزادیئ صحافت یعنی Press freedomکے ضمن میں ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک میں ہمارا ملک بھارت 136 ویں پائدان پر آ گیا ہے۔
آزادیئ صحافت کو جس طرح مختلف مما لک میں سلب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور آئے دن جس طرح صحافیوں کو یرغمال بنا کر اور پھر انھیں جس بے دردی سے ہلاک کیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے الفاظ معاصر منظر نامے میں بے معنی اور بے وقعت ہوتے جا رہے ہیں۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، لیکن قلم اور کیمرے کو جس طرح جبر و تشدّد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اورآزادیئ صحافت اور اس کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا پر ہی یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ میڈیا،حکومت پر مثبت تنقید کے بجائے الزام تراشیاں کر رہا ہے، جس کے باعث جمہوریت کمزور پڑ رہی ہے اور حکومت غلط راہوں پر جانے پر مجبور ہو رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور اس کے استحکام، سیکولرزم کے فروغ اور سماج کا رخ موڑنے میں صحافت نے جو رول ادا کیا ہے، انھیں فرا موش نہیں کیا جا سکتا ہے۔لیکن الزام تراشی کے گرم بازار کا ذکر کرنے والے خود صحافت پر کس قدر اوچھے اور نازیبا الزمات لگا رہے ہیں، وہ اسے بھول جاتے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں کہ بھارت کے مرکزی حکومت کے ایک وزیر اور سابق فوجی افسر کرنل وی کے سنگھ نے جن ناشائستہ اور بے ہودہ الفاظ میں ملک کی صحافت پر الزام لگایا ہے، وہ بہر حال قابل مذمّت ہے۔ دوسری جانب ہمارے ملک کے میڈیا کا یہ حال ہے کہ ان کے لئے تجوریوں کا مُنھ کھول دیا گیا ہے اور صحافت، تجارت بن گئی ہے۔ جسے گودی میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گودی میڈیا صحافت کے نام پر صحافت کی بجائے ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ صحافت کے سارے اصولوں کو ختم کرتے ہوئے حکومت کی ہر طرح کی مدح سرائی اور ستائش کرنا ہی ان کی نگاہ میں صحافت ہے۔اس گودی میڈیا نے صحافت کی ساری شاندار روایات اور خصوصیات کو ختم کر دینے کے در پئے ہے۔سنسنی خیز سرخیاں اور بریکنگ نیوز بنانے کے لئے بے بنیاد اور جھوٹی خبر بنانے سے بھی یہ نہیں چوکتے۔اس سلسلے میں، میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ اس وقت چند با اصول اور صحافت کی صداقت پر یقین رکھنے والوں کے درمیان یہی موضوع بحث ہے۔میں زیادہ پیچھے نہیں جاتے ہوئے ابھی ابھی چند ماہ قبل کے حالات پر نظر ڈالوں تو ہمیں شہری ترمیمی قانون، دہلی انتخاب، دلی کا فرقہ وارانہ فساد، کورونا و تبلیغی جماعت اور پال گھر (مہاراشٹر) کے معاملے میں جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایسی جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کے پیچھے آر ایس ایس اور بی جے پی کی منشأ کو پورا کیا جا رہا ہے۔ گودی میڈیا منافرت، فرقہ واریت اور عدم رواداری پھیلانے میں اس قدر مصروف ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کو بھی اس بات کی نوٹس لینا پڑی۔ مسلم ممالک میں بھی بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ ملک کے ایک سؤ سے زائد سابق نوکر شاہوں نے میڈیا کے ایسے نا پسندیدہ رویئے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ان پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسی زرد صحافت کو فروغ دینے والوں کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جس سے یقینی طور پر پورے ملک کی شاندار صحافت کی روایت کو رسوا ہونا پڑ رہا ہے۔ آزادئی صحافت کا مطلب یہ قطئی نہیں ہے کہ صحافت کی آڑ میں ملک میں بد امنی پھیلائی جائے اور حکومت وقت یا کسی خاص پارٹی کے خاص ایجنڈے کو پورا کرنے کا وہ حصہ بنیں۔
لیکن ان سب کے باوجود مجھے خوشی ہے کہ آج بھی جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک کی صحافت، صارفیت کے چنگل میں کراہ رہی ہے۔ پھر بھی کچھ واقعات کو چھوڑ کرصحافی اپنی پوری ذمّہ داری، غیر جانب داری، بے باکی، بلند حوصلہ اور جرأت مندی کے ساتھ جمہوریت اور اس کے استحکام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدارو افکار کے لئے اپنے فرائض کو پوری ذمّہ داریوں کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ ایسے جرأت مند اور بے باک صحافیوں کی موجودگی میں، مجھے یقین ہے کہ صحافت کی جو اعلیٰ قدریں ہیں، وہ پامال نہیں ہونگیں اور ایسے کچھ صحافی جو وقتی منعفت کے لئے بِک جاتے ہیں، وہ بھی صحافت کو تجارت تصور کرنے کی بجائے عبادت کا درجہ دینگے۔آج کے یوم آزادیئ صحافت کے موقع پر ایسا محاسبہ ضرور ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭